چودہری لوگوں کے معاملات
شہر کی غلّہ منڈی میں ، چودھری ظفر ،آڑھتی سے گندم کی قیمت طے کرنے آیا ہوا تھا ، آڑھتی نے چائے منگوا لی ،چائے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ اس کے علاقے کے دو اور زمین دار بھی وہیں پہنچ گئے ۔
غلہ منڈی میں آڑتھی کی دوکان بھی دیہاتی زمین داروں کے لئے ایک قسم کا چوپال ہی ہوتا ہے ،۔
جہاں چایے پانی ، روٹی اور رقم بھی مل جاتی ہے ۔
بات چل نکلی کماد کی فصل کے متعلق!۔
اس ، سال تیسرے ضلع کے چوہدریوں نے نئی نئی شوگر مل لگائی تھی ، چوہدریوں نے اعلان کیا تھا کہ دوسری کسی مل کے نواح کے زمین دار اگر کماد ان کی مل پر لائیں گے تو ان کو کماد کی دوگنی قیمت ادا کریں گے ۔
ٹریکٹر ٹرالی کا کرایہ تو کنڈے سے اترتے ہی کماد اتارنے سے پہلے ادا کر دیتے تھے ۔
اس سال گنے کی فصل بہت اچھی اٹھی تھی جس سے کہ سارا علاقہ واقف تھا ۔
چوہدر ظفر کی فصل کے چرچے بہت دور تک گئے تھے اور اس نے اپنی ساری فصل تیسرے ضلعے کے چوہدریوں کی مل پر بیچی تھی ۔
اس لئے علاقے میں اس بات کا تاثر پایا جاتا تھا کہ اس سال چودھری ظفر نے بہت کمائی کی ہے ۔
آڑھتی کی دوکان پر علاقے کے دوسرے زمین داروں نے جب رشک بھرے انداز میں ، اس سال فصل کے معاملے میں چوہدری ظفر کی فصل کو سلاہا تو ؟
چوہدری گویا ہوا کہ یارو ! میں ایک طرف تو بہت خوش قسمت نکلا کہ میری گنے کی فصل اڑوس پڑوس سے بہتر ہو ئی لیکن ایک معاملے میں معاملے میں بدقسمتی کہ میں مرتے مرتے بچا ہوں ۔
سب کے کان کھڑے ہو گئے ۔
باؤ کمیار ، آڑھتی نے نے تاسف سے کہا ، اللہ خیر کرئے چودھری کیا ہوا تھا؟
ہوا یہ تھا کہ
چودھری گویا ہوا کہ ، جب میں کماد کی رقم کے کر مل سے نکلا تو کوئی چار کلو میٹر بعد ہی ڈاکوؤں نے میری کار روک لی ، کلانشکوف کی خوفناک نالیوں کے منہ میری طرف تھے ، درد کی ایک لہر ریڑھ کی ہڈی میں سرایت کر گئی ۔
ابھی خدا کی دی ہوئی زندگی باقی تھی کہ ڈاکو لوگوں نے صرف رقم چھین کر مجھے جانے دیا ۔
ایک کروڑ سے زیادہ کی رقم تھی ، کلاشنکوف کے خوفناک منہ دور ہوتے ہیں ، کچھ اوساں بحال ہوئے تو احساس ہوا کہ بہت بڑی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھا ہوں ۔
اس وقت تھ نزدیکی ڈیرے سے کچھ کسان بھی آ چکے تھے کہ ویران جگہ کار کھڑی کئے یہ بندہ کیا کر رہا ہے ۔
کسی نے پولیس میں جانے کا مشورہ دیا ، شوگر مل والے چوہدری ،ان دنوں ہیں ! ۔ اپ سب کو تو پتہ ہی ہے اور انہوں نے اپنے علاقے میں پولیس چوکیوں کا بھی جال بچھا رکھا ہے ۔
میں نے جب نزدیکی چوکی پر جا کر رپورٹ لکھنے یا کہ ڈاکؤں کا پیچھا کرنے کا کہا تو؟
حوالار منشی نے مجھے مشورہ دیا کہ رہورٹ وغیرہ لکھنے بھی کچھ نہیں ہو گا ، پولیس کے پاس بھی کو اللہ دین چراغ نہیں ہے کہ ڈاکوؤں کا پتہ چلا لے ۔
تم اس طرح کرو کہ بڑے چوہدریوں کے ڈیرے چلے جاؤ ، ہو سکتا ہے کہ ان کے تعلقات سے وہ ڈاکو لوگوں سے تمہاری رقم واپس دلوا دیں ۔
بات میرے دل کو لگی ۔
میں وہاں سے سیدھا شہر میں چوہدریوں کے ڈیرے پر پہچ گیا خوش قسمتی سے بڑے چوہدری صاحب ڈیرے پر ہی تھے ۔
ڈیرے پر لوگوں کی آمد رفت سے بڑی رونق لگی ہوئی تھی۔
چوہدری صاحب بڑے مصروفتھے لیکن پھر بھی
میری شکل دیکھتے ہیں چوہدری صاحب نے اپنی روایتی مہمان داری نبھاتے ہوئے نوکو کو آواز دی اور “ روٹی شوٹی” کا انتظام کر ْ۔
روٹی کہاں حلق سے اترنی تھی اور ناں اس وقت مجھے روتٰی کا خیال تھا ۔
میری چہرے سے عیاں میری پریشانی کو بھانپ کر چوہدری صاحب نے بڑی شفقت سے پوچھا ،
کی گل اے بھایا ظفر ؟ کوئی پریشانی لغدی اے ( کیا بات ہے بھائی ظفر کوئی پریشانی لگتی ہے )۔
میں نے جب سارا معاملہ بتایا تو وڈے چوہدری صاحب بھی پریشان ہو گئے کہ ،ان ڈاکوؤں نے بہت تنگ کیا ہوا ہے ۔
ویسے کتنی رقم تھی ؟ میں نے بتایا کہ اپ بے شک مل سے کنفرم کر لیں ایک کروڑ بیس لاکھ تھی ۔
اوئے بھائی ظفر اب تم کیا ہم سے جھوٹ بولو گے ، اگر تم نے کہہ دیا ایک کروڑ بیس لاکھ تو رقم اتنی ہی ہو گی ۔
کر لیتے ہیں کچھ
تم روٹی شوٹی کھاؤ۔
روٹی کہاں کھائی جانی تھی ، بس کچھ زہر مار کیا کچھ پانی سے نگلا ، اور روٹی ختم کرنے کی ایکٹنگ کر کے منجی پر پریشان بیٹھا تھا کہ چوہدری صاحب کا کارندہ ایک بریف کیس لے کر حاضر ہو گیا ۔
وڈے چودہرہ صاحب نے مجھے پاس بلایا اور بڑی شفت سے مجھے کہنے لگے ، دیکھو یات تم اپنی برادری کے بھی ہو اور ہمارے علاقے میں لوٹ لئے گئے ہو ۔
اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم تمہارے لئے کچھ بھی ناں کریں ۔
انہوں نے بریف کیس مجھے تھماتے ہوئے کہا کہ دیکھو اس بریف کیس میں ساٹھ لاکھ کی رقم ہے ، بس یوں سمجھو کہ ساٹھ لاکھ کا تمہارا نقصان ہو گیا اور ساٹھ لاکھ کا ہی ہمارا نقصان ہو گیا ۔
دیکھو یار ظفر ! اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔
اس کے بعد وڈے چودہری صاحب نے اپنے بندے میرے ساتھ کئے ، جو کہ کلاشکوفون سے مسلح تھے جو مجھے اپنے ضلعے کی حدیں پار کروا کر گئے تھے ۔
بس یارو ! میں تو وڈے چوہدری صاحب کا احسان مند ہوں کہ انہون نے بچا لیا ورنہ اس سال تو گنے کی فصل تو گئی تھی ڈاکوؤں کی جیب میں ۔
چوہدری ظفر بات ختم کر کے دوسرے زمین داروں کا منہ دیکھتا ہے کہ کیا تاثرات دیتے ہیں ،
لیکن وہ دونوں منہ کھولے حیرانی سے چودہری ظفر کا ،نہ دیکھ رہ تھے ۔
چودہری ان سے پوچھتا ہے ۔
تو دونوں کو کیا ہوا ہے ؟
وہ دونوں زمین دار منماتی آواز میں بولے ۔
بکل یہی معاملہ ہمارے ساتھ بھی ہوا تھا
لیکن ہم نے شرمندگی سے کسی کو بتایا نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے!!۔
یہ باتیں سن کر باؤ کمیار ( آڑھتی) نے جو کہا ۔
اس کو سن کر ان تینوں زمین داروں کو چپ ہی لگ گئی تھی ، اور کئی ہفتوں تک لگی رہی تھی ۔
باؤ کے منہ سے نکلا تھا
یعنہ کہ وڈے چوہدریوں کماد کی قیمت دوگنی دینے کا صرف اعلان ہی کیا تھا ۔
دیتے سب کو وہی “ قیمت “ رہے ہیں جو دوسرے دے رہے تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں