سود اور سور
عیسائیت میں بھی سور کا گوشت کھانا حرام ہے ۔
لیکن یورپ کے عیسائی سور کا گوشت کھاتے ہیں ۔
کیوں ؟
کیونکہ ان کے علماء نے کوئی شک نکال کر سور کو بھی جائز کر دیا ہوا ہے ۔
کیپسئین کے سمندر کےشمالی ممالک میں رہنے والے اور بہت سے ایرانی بھی مسلمان بھی سور کا گوشت کھاتے ہیں ۔
یہودی جہاں بھی ہوں سور کا گوشت نہیں کھاتے ، برصغیر کے مسلمان جہاں بھی ہوں سور کا گوشت نہیں کھاتے ۔
ان چیزوں کو سمجھنے کے لئے ان اقوام کا مزاج سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں ۔
برصغیر میں ہندو اور بدہ لوگ گوشت کھاتے ہی نہیں تھے ،۔
جب یہاں اسلام آیا تو مسلمان ہونے والوں کو صدیون تک گوشت کھانے میں تامل رہا ، اور جب کھانے بھی لگے تو پلید اور پاک کا بہت سختی سے خیال کیا ۔
یہودی ، ایک نسل ہیں ، خاندان ہیں ، جن کا اصلی وطن شام کے اردگرد کا ہے ۔ گرم موسمی حالات میں سور کھانے سے ہونے والی بیماریوں کی قباحت نے ان کو سور کھانے سے باز رکھا ، صدیون سے بنی عادات ،ٹھنڈے ممالک میں جا کر بھی قائم رہیں اور انہوں نے سور “ کم “ ہی کھایا ۔
لیکن یورپی معاشروں میں سور ایک عام سی چیز تھی ، جب یہان عسائیت پہنچی تو ؟ سور کی پلیدگی کا یہ لوگ تصور ہی نہیں کر سکے کہ ، جو گوشت روز مرہ میں مسلسل کھا رہے ہیں وہ ایک دم پلید کیسے ہو گیا ؟
جس کے لئے انہوں نے کوئی شک نکال کر سور کے گوشت کو ویسے ہی کھاتے رہے جیسا کہ صدیوں سے کھا رہے تھے ۔
سور کا گوشت نہ کھانے والے یہودی اور “ ماس “ سے گریزاں ہندو ! ۔
ہر دو اقوام “ سود” ضرور کھاتی رہی ہیں ۔ بلکہ سود کا ایک منظم انتظام رکھتی ہیں ۔
ہند میں جو علاقے اج پاکستان میں شامل ہیں یہاں ، ساہوکار کو “ شاھ” کہا جاتا تھا ۔
شاھ جی یہی ٹرم ہے جو سود خود کے لئے استعمال کی جاتی تھی ، اور بعد میں خیرات کو حق سمجھ کر وصول کرنے والے مذہبی لوگوں کو بھی شاھ جی ہی کہا جاتا ہے ۔
قران میں سور کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہے
اور سود کی امدن کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے ۔
برصغیر کے مسلمان ، اپنے سبزی خور “پچھوکڑ” کی وجہ سے سور کے گوشت سے تو نفرت کرتے ہیں ۔
لیکن
شاھ جی ( ساہوکار) لوگوں کی قابل رشک لائف کے کمپلکس کی وجہ سے
سود کی رقم کو کھانے کی کوئی نہ کوئی توجیع نکال ہی لیا کرتے ہیں ۔
لیکن یورپ کے عیسائی سور کا گوشت کھاتے ہیں ۔
کیوں ؟
کیونکہ ان کے علماء نے کوئی شک نکال کر سور کو بھی جائز کر دیا ہوا ہے ۔
کیپسئین کے سمندر کےشمالی ممالک میں رہنے والے اور بہت سے ایرانی بھی مسلمان بھی سور کا گوشت کھاتے ہیں ۔
یہودی جہاں بھی ہوں سور کا گوشت نہیں کھاتے ، برصغیر کے مسلمان جہاں بھی ہوں سور کا گوشت نہیں کھاتے ۔
ان چیزوں کو سمجھنے کے لئے ان اقوام کا مزاج سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں ۔
برصغیر میں ہندو اور بدہ لوگ گوشت کھاتے ہی نہیں تھے ،۔
جب یہاں اسلام آیا تو مسلمان ہونے والوں کو صدیون تک گوشت کھانے میں تامل رہا ، اور جب کھانے بھی لگے تو پلید اور پاک کا بہت سختی سے خیال کیا ۔
یہودی ، ایک نسل ہیں ، خاندان ہیں ، جن کا اصلی وطن شام کے اردگرد کا ہے ۔ گرم موسمی حالات میں سور کھانے سے ہونے والی بیماریوں کی قباحت نے ان کو سور کھانے سے باز رکھا ، صدیون سے بنی عادات ،ٹھنڈے ممالک میں جا کر بھی قائم رہیں اور انہوں نے سور “ کم “ ہی کھایا ۔
لیکن یورپی معاشروں میں سور ایک عام سی چیز تھی ، جب یہان عسائیت پہنچی تو ؟ سور کی پلیدگی کا یہ لوگ تصور ہی نہیں کر سکے کہ ، جو گوشت روز مرہ میں مسلسل کھا رہے ہیں وہ ایک دم پلید کیسے ہو گیا ؟
جس کے لئے انہوں نے کوئی شک نکال کر سور کے گوشت کو ویسے ہی کھاتے رہے جیسا کہ صدیوں سے کھا رہے تھے ۔
سور کا گوشت نہ کھانے والے یہودی اور “ ماس “ سے گریزاں ہندو ! ۔
ہر دو اقوام “ سود” ضرور کھاتی رہی ہیں ۔ بلکہ سود کا ایک منظم انتظام رکھتی ہیں ۔
ہند میں جو علاقے اج پاکستان میں شامل ہیں یہاں ، ساہوکار کو “ شاھ” کہا جاتا تھا ۔
شاھ جی یہی ٹرم ہے جو سود خود کے لئے استعمال کی جاتی تھی ، اور بعد میں خیرات کو حق سمجھ کر وصول کرنے والے مذہبی لوگوں کو بھی شاھ جی ہی کہا جاتا ہے ۔
قران میں سور کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہے
اور سود کی امدن کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے ۔
برصغیر کے مسلمان ، اپنے سبزی خور “پچھوکڑ” کی وجہ سے سور کے گوشت سے تو نفرت کرتے ہیں ۔
لیکن
شاھ جی ( ساہوکار) لوگوں کی قابل رشک لائف کے کمپلکس کی وجہ سے
سود کی رقم کو کھانے کی کوئی نہ کوئی توجیع نکال ہی لیا کرتے ہیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں