اتوار، 1 فروری، 2015

مائکرو بلاگنگ ، فیس بک والے اسٹیٹس ۔


 جیدو ڈنگر ، اپنی ماں کے ساتھ کلینک میں داخل ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اچھو بیٹھا رو رہا ہے اور اچھو کی ماں اس کو چپ کرانے کی کوشش کر رہی ہے  ۔
کی ہویا ؟
اوئے جیدو ِ میرا خون دا ٹیسٹ ای ، ڈاکٹر نے سوئی مار کر خون نکالنا ای۔
جیدو ڈنگر  نے ہائے او ربا کہا، اور رونا شروع کر دیا ۔
اچھو پوچھتا ہے
اوئے تینوں کی ہویا اے ؟
اوئے میرا  “موتر” دا ٹیسٹ ای ! میں تے مرجاواں گا ۔

وہ ائرفورس میں کام کرتا تھا ، وہ بتا رہا تھا کہ اس کے بیٹے سے جب بھی کوئی پوچھتا تھا کہ  “ ابا کام کیا کرتا ہے ؟” تو اس کا بیٹا جواب دیتا تھا ۔ “ فوجی “ !۔
میں نے اس کو سختی سے منع کیا کہ بے کا فوجی ہونا نہ بتایا کرئے ۔
بیٹا ،پہلی کلاس میں داخل ہوا، داخلہ فارم کی ایک کاپی مجھے بھی ملی ،  داخلے کے فارم پر ابے کے کام کے خانے میں  لکھاتھا ۔
معلوم نہیں ، لیکن یہ بات پکی ہے کہ باپ فوجی نہیں ہے ۔

جیدو ڈنگر ! بڑا بن ٹھن کے گامے دے کول آیا
تے گامے نوں اپنا کیمرا دے کے ، کہندا اے ۔
یار ! میری اک سلیفی تے بنا دے !۔



دو قومی نظریہ ۔
اس ملک میں دو قومیں پائی جاتی ہیں ۔
ایک قوم
اور دوسری  عوام۔
عوام مرے یا اس کے بچے ،کوئی بات نہیں قوم  کے وقار پر حرف نہیں آنا چاہئے ۔


 مولوی صاحب کہا کرتے تھے ، جن والدین کے نو عمر بچے مر جاتے ہیں ، ان کے والدیں کو جنت کے محل عطا ہوں گے ۔
پشارو کے آرمی سکول میں مرنے والے بچوں کے جنت کے محلوں کا انتظام ناپاک طالبان نے کیا ہے
اور  پچھلے دس سال سے پاک فوج اس سے کہیں زیادہ تعداد کے والدیں کو جنت کے محلوں کا حق دار بنا چکی ہے  ۔

یا اللہ ! مجھے اتنی زیادہ طاقت دے کہ میں اپنے دشمنوں اور مخالفوں کو معافی مانگنے پر مجبور کرنے کے قابل ہو جاؤں۔
ورنہ ، گولی تو افیمی ، چرسی اور فوجی بھی مار سکتے  ہیں ۔

کسی سیانے کا قول ہے کہ نیچ سے نیچ بات کی حمایت میں بھی کچھ نہ کچھ لوگ نکل ہی آتے ہیں ۔
فوج کا پیشہ ہوتا ہے  “جنگ” اور پاک فوج کو جنگ میں جو مشکلات ہیں ۔
آپریشن کرو، آبادی کا انخلا نہ کرائو تو بمباری اور گولہ باری سے نقصان ہوگا، انخلا کرائو تو جو نقشہ آپ نے کھینچا، وہ بنے گا۔ آپریشن نہ کرو تو وہ علاقہ دہشت گردی کا مسکن بنا رہے گا، اآپریشن کرو، انخلا کرائو اور چیک پوسٹوں پر چیکنگ نہ کرائو تو پھر اس انخلا کا فائدہ کوئی نہیں تھا،

ان کا بھی ذکر ہونا چاہئے
لیکن یہ بھی تو ہونا چاہئے کہ  کوئی اتھارٹی کوئی وزارت ، کوئی عہدھ  کوئی بندہ  فوج کی پیشہ ورانہ کوالٹی کو چیک کرنے والا ہے ہی نہیں ۔
جنگ کہ جس ہنر میں فوج یکتا ہے
ڈھاکہ میں ہو یا کہ وزیرسان میں یا کہ بلوچستان میں ، فوج کے ہنر کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔

اور جو کام فوج نے بڑی خلوص نیت سے کیا ہے  یعنی کہ حکومت پر قبضہ ( ڈاےریکٹ یا ان ڈائریکٹ) کیا ہوا ہے ۔
 انیس سو باون سے ، اس ہنر کے فن پارے تو تاریخ دان لکھے ، آج کا لکھنے والا اور وہ جو پاکستان میں ہے وہ نہیں لکھ سکتا ۔
اگر لکھے گا تو “ مسنگ پرسن “ ہو جائے گا ۔
ویسے اس ہنر میں بھی فرشتے ، تکتا ہیں ۔

کالی تتری کمادوں نکلی
تے اڈدی تو باز بئے گیا۔
۔
فوجی عدالتون کا قیام ۔


پھانسی کی سزا کے خلاف دنیا بھر میں کچھ تنظیمیں آواز اٹھاتی ہیں ،۔
جاپان میں بھی پھانسی کی سزا کے خلاف کام کرنے والی تنظیمں ہیں ، جن کے اثر سے یہ ہوا ہے کہ اب جاپانی عدالتیں موت کی سزا صرف ان کیسوں میں دیتی ہیں جن میں بہیمانہ قتل کئے گئے ہوں اور قتل بھی ایک سے زیادہ افراد کے ہوں ۔
اور جن مجرمان کو پھانسی دی بھی جاتی ہے ان کو بہت خفیہ رکھا جاتا ہے ۔
جاپان جیسے معاشرے میں جہاں کیمرہ ایک عام سی بات ہے وہاں اپ کو کبھی بھی کسی کو پھانسی دی جانے کی فوٹو یا ویڈیو نہیں ملے گی ۔

صنعتی انقلاب کے پہلے دور میں مجرموں کو گولی مارنے کی سزا بھی دی جاتی تھی ۔
گولی مارنے کے عدالتی حکم کے بعد ، اس سزا کا ایک طریقہ کار متعین تھا ،۔
گولی مارنے والے نشانے باز جلاد بھی انسان ہی ہوتے ہیں ، اور کسی انسان کی جان لینا اگرچہ کہ اپنے فرض کی ادائیگی ہی کیوں نہ ہو انسان کی نفسیات کو مےاثر کرتا ہے ۔
اس لئے گولی مارنے کا طریقہ کار یہ تھا کہ
ایک مجرم کو گولی مارنے کے لئے گیارہ نشانے باز جلاد ہوں گے ، جن کے سامنے گیارہ گولیاں رکھی جائیں گی کہ ان میں سے ایک ایک اٹھا لیں ،۔
ان گیارہ گولیوں میں صرف ایک گولی اصلی ہو گی ، باقی کی دس گولیاں صرف پٹاخہ ہوں گی ۔
بہترین نشانے باز گیارہ بندے ، حکم دینے والی کی آواز پر یک دم گولیاں چلا دیں گے ۔
مجرم کی موت کس کی گولی سے ہوئی ہے ؟ اس بات کا کسی کو بھی علم نہں ہے ۔
ہر نشانے باز جلاد یہی سمجھا رہے گا کہ وہ مجرم میری گولی سے نہیں مرا ہو گا ، اس بات کا “ شک” بڑھاپے میں ، یا کہ
سردیوں کی لمبی راتوں میں ، کسی کی جان لینے دکھ آ آ کر تنگ نہیں کرئے گا ۔

میرے علم کے مطابق یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں پھانسی تو کجا موت کی سزا بھی نہیں ہے ۔
امریکہ کی کچھ ریاستوں میں موت کی سزا ہے لیکن وہاں بھی پھانسی پر نہیں لٹکایا جاتا ، بلکہ بجلی کی کرسی اور زہر کے ٹیکے کے ساتھ سلا دیا جاتا ہے ۔
کم عقل لوگوں کی آگاہی کے لئے ، ایک بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ
پھانسی کی سزا کے خلاف آواز ، موت کی سزا کے خلاف اواز نہیں ہے ۔
پھانسی کی سزا کے خلاز آواز اٹھانے والے لوگوں کو موقف یہ ہوتا ہے کہ بہیمانہ سزاؤں کو ختم ہونا چاہئے ۔
ہاں ! اس کے بعد موت کی سزا کے خلاف کام کرنے والی تنطیمیں اور ممالک بھی ہیں جیسے کہ یورپی یونین میں سزائے موت نہیں ہے ۔
بے عقل معاشروں میں ، قانون کے نام پر ، امن کے نام پر یا کہ دہشت کردی کے نام پر جو قتل گولیاں مار مار کر کئے جاتے ہیں
کھیتوں میں پہاڑوں میں گلیوں اور چوکوں میں !۔
ایسے قتلوں کو ختم ہونا چاہئے ۔
 پھانسی کی سزا میں بھی مجرم کے منہ پر کالا غلاف چڑھایا جاتا ہے ۔
جو کہ مجرم کی موت واقع ہونے کے بعد پھانسی سے اتار کر ،لٹانے تک نہیں اتارا جاتا ۔
لیکن پاکستان میں ، ہونے والی حالیہ پھانسیوں  کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں ، کن میں مجرم کے منہ پر کوئی غلاف نہیں ہے ، اور پھانسی پر  لٹکی ہوئی انسانی لاشوں کی فوٹو بڑے فخر سے دکھائی جا رہی ہیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts