اتوار، 5 جنوری، 2014

امرمالمعروف اور نہی عن المنکر

مجھے ان بزرگوں کا چہرہ یاد نہیں آ رہا کہ کون تھے
لیکن ان کی طنزیہ ہسنی ، اور ہنگورا مجھے یاد ہے کہ
جرنل ضیاع کے دور میں جب انہوں نے
امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔
پر تبصرہ کیا تھا۔
کہ اچھا ؟؟؟
اب ! امرمالمعروف اور نہی  عن المنکر ہو  گا ؟
مجھے اس وقت کی  اپنی فیلنگ یاد ہیں کہ ایسا لگا تھا کہ یہ بزرگ  ، اس ڈرامے کے مضحکہ انگیز نتائج سے بھی واقف ہیں ۔
اور ایک اسلامی روایت کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔
اج اس بات کے پینتیس سال بعد ، میں اپنی انکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے رواج کے کیا نتائج نکلے ہیں ، اور یہ نتایج کتنے ہی بھیانک ہیں ۔
امر بالمعروف یعنی نیکی کا حکم کرنا، اور نہی عن المنکر یعنی کہ برائی سے منع کرنا ۔
اج میں دیکھ رہا ہوں کہ نیکی کے حکم اور برائی سے منع کرتی ہو پروان چڑہی ، پاکستان کی یہ دوسری نسل ہے ۔
ہر بندہ “ دوسرے “ کو نیکی کا حکم کر رہا ہے
اور
ہر دوسرا بندہ اپنے دوسروں کو برائی سے منع کر رہا ہے۔
لیکن  نیکی اور بدی کی تعریفیں ہی بدل کر رہ گئی ہیں ۔
نیکی کا حکم بھی دوسرے کو ہی کرنا ہے
اور برائی سے روکنا بھی دوسرے کو ہی ہے۔
خود ! نہ نیکی کرنی ہے اور نہ برائی سے باز آنا ہے ۔
اردو کا یاک محاورہ تھا
کہ دوسروں کو نصیحت ، خود میان فضیحت ۔
پنجابی میں کہیں گے
آگا دوڑ تے پیچھا چوڑ۔
اب پاکستان  بننے کے بعد ہندو بھی نہ رہے ، سکھ بھی نہ رہے  ، اس لئے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام اب مسمانوں پر ہی کرنا باقی تھا
اور اب سبھی مسلمان دوسروں کو مسلمان کرنے میں لگے ہیں ، اور جس کو “ان” کے اسلام  کی سمجھ نہ لگے “وہ “ کافر” ہے ۔
سنی کے لئے پہلے وہابی کافر ہوا کرتا تھا
لیکن
اب سنی کے لئے سبھی کافر ہیں ۔ اور یہی حال وہابی کا ہے کہ سوائے اس کے سبھی کافر ہیں ، اور یہی حال شیعہ کا ہے ۔
کہیں سے بچھوؤں کی بارات گزر رہی تھی  ،
کسی نے پوچھا کہ تم  میں سے کون سب سے زیادہ زہریلہ ہے ؟
اس کو جواب ملا کہ
کسی کی بھی دم پر پاؤں رکھ کر دیکھ لو ، یہاں ایک سے بڑہ کر ایک ہیں ۔
یہی حال اج پاکستان کے مسلمانوں کا ہے
ایک سے بڑھ کر ایک زہریلا مسلمان ہے ۔
علم عقل کا حال یہ ہے کہ
پنجابی کے محاورے کے مطابق
جنہاں دے گھر دانے
اونہاں دے کملے وی سیانے۔
جس کا کاروبار چل نکلے ، وہ بہت ہی سیانا ہے ، عقل اور علم بے شک نہ  بھی ہو۔
یہاں جاپان میں اج کل ایک بہت ہی سیانے بندے کے علم کا یہ حال ہے کہ
وہ بندہ ایک مذہبی تنظیم میں شامل ہو گیا ، بڑی ہی منظم تنظیم کا نیا نیا رکن بنا تھا ، کہ کسی تنظیمی محفل میں مذہبی نالج بڑھانے کے لئے سوالات کیے جا رہے تھے ۔
ایک سوال تھا کہ وصال کے وقت بنی اکرم ، کس زوجہ محترمہ کے ساتھ سے ؟
ان صاحب نے بھی ہاتھ بڑہا بڑہا کر اٹھایا
محفل کے امیر نے سوچا کہ ایک تو سوال اسان ہے دوسرا ان نئے رکن کی حوصلہ افزائی ہو جائے گی
اس لئے اسی سے پوچھ لیتے ہیں ۔
تو جی
ان صاحب کا جواب تھا  “ بی بی فاطمہ” ۔
اس طرح کی کئی مثالیں ہیں کہ ان کو بقول شخصے ، استنجے کا بھی علم نہیں ہوتا اور چل پڑتے ہیں
امر بالمعروف و نہی عن المنکرکو لے کر ۔
اسلام کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے جی ان امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ٹھیکیداروں نے ۔
کسی بھی پاکستانی کے سامنے کہیں کہ  میں سادہ کھانا کھاتا ہوں ۔
وہ اپ کو تعلیم دینے لگے گا کہ
ہان ہمارا دین بھی تو ہی بتاتا ہے ۔
میں رات جلدی ہوجاتا ہوں ۔
ہاں ہمارا دین بھی تو ہی بتاتا ہے ۔
میں  روادری کا قائل ہوں ۔
ہاں ہمارا دین بھی تو ہی بتاتا ہے ۔
تو پھر انہی دیا!!۔
تمہارے دین کا بنایا ہوا کوئی بھی ملک ان روایات کا حامل کیوں نہیں ہے ؟؟
تو جواب ملتا ہے کہ اس میں دین کا کیا قصور ؟ یہ تو ماننے والوں کا قصور ہے !۔
ہاں جی پاکستان والوں کا دین وہ دین ہے جو اپنے ماننے والوں  سے بھی اپنا اپ “منوا” نہیں سکا۔
کیا خدا کا دستور بھی عبوری ہے کہ چودا سو سال میں رائج نہیں ہو سکا ۔

1 تبصرہ:

abv کہا...

میرے خیال میں ہم بجپن کا وہ سبق بھول گۓ ہیں، کے باپ نے بجے سے کہہ کے یہ ٹافی اس جگہ جاکر کھاو جہاں تم کو کوءـی نہ دیکھے، تو وہ اپنے دوسرے بہن بھاءـیوں کے برعکس وہیں پر کھڑا رہا کے، آپ ہی نے کہا تھا کہ اللہ ہر جگہ دیکھتا ہے جکہ دوسرے بہن بھاۓی چھپ کر ٹافی کھا آتے ہیں۔
بس ہم بھی رب کو بھول گۓ ہیں، یا ہم نے سرے سے سیکھا ہی نہیں کے رب ہر وقت ہمارے ساتھ ہے۔

آپ اچھا لکھ رہے ہیں اس کو جاری رکھیے گا۔

Popular Posts