انتہا پسندی اور لطیفے
آج کے پاکستان میں مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی کی “انتہا” ہے ۔
اور
میں ، مذہبی اور سیاسی انتہا پنسدی کے خلاف ہوں ،لیکن اس مخالفت میں ، انتہا پسند نہیں ہوں ، کہ کم علمی اور جہالت کے عذاب میں مبتلا پاکستانی لوگ بھی میرے اپنے لوگ ہیں !۔
کہ میں ان میں سے ہوں اور ان کے ساتھ ہی پہچانا جاتا ہوں ۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ فیس بک ہو یا کہ کوئی اور پلیٹ فارم ، لوگ یا تو مذہب کی بات کرتے ہیں اور یا سیاست کی ۔
لیکن ہر دو لوگ نہ تو مذہب کا ہی علم رکھتے ہیں اور نہ ہی سیاست کی ڈیفینیشنز سے واقف ہیں ۔
اب میں اس بات کا ذمہ دار تو ہوں نہیں کہ ان لوگوں کو “اصلی دین” کی باتیں سمجھاؤں ، یا کہ سیاسی پارٹیوں کے کارنان کو یہ سمجھاتا پھروں کہ
سر جی!!جس کو تم سیاست کہہ رہے ہو یہ شخصیت پرستی ہے۔ اور اپ کو اتنے زیادہ مغالطے لگ چکے ہیں کہ ، دور ہوتے ہوتے بھی ایک زمانہ لگے گا ۔
اس لئے
میں فیس بک پر ۔
اور دوسرے پلیٹ فارموں پر “ادب” کی بات کرتا ہوں ۔
شاعری ، بولیاں ، ٹپّے ،ماہئے ، غزل کی حد تک ہی ادب نہیں ہے ۔
اس ساغر میں افسانے ، کہانیاں ، داستانیں ، لطیفے اور قہقہے بھی ہیں ،۔
سماعتوں پر بار ، سیاسی بحثیں ، روحوں کو آلودہ کرتی مذہبی محفلیں جہان ذہنوں کو پراگندہ کر رہی ہیں ، وہیں ، ہم جیسے بھی ہیں جو ، چٹکلے چھوڑ کر محفلیں گرماتے ہیں ، اگر چہ کہ اسی محفل میں نادان وہ بھی ہوتے ہیں جو لطیفہ سن کر افسوس بھرا منہ بناتے ہیں ۔ اور مجھے “نیک” بننے کی تلقین شروع کردیتے ہیں ۔
یہاں تاتے بیاشی اور اردگرد کے کتنے ہی “مذہبی “ لوگوں کی منافقتوں ، غلاضتوں ، کا میں خود گواہ ہوں ، لیکن جب میں گانا سنتا ہوں تو وہی لوگ ، ناک میں ہنسی اڑاتے ہیں ۔
جب میں لطیفہ سناتا ہوں تو ؟ ان کو ہاسا ایسے نکلتا ہے جیسے قبض کے مریض کو پاخانہ نکلتا ہے ۔
ان کو شعر سنائیں تو؟ ان کا رویہ ہورا ہے
کہ “ مجھے وچلی بات “ تک کی سمجھ لگ گئی ہے
لیکن ان کو الفاظ کے معنی تک معلوم نہیں ہوتے۔
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی ٹرپ
صبح دم کوئی بالائے بام آیا تو کیا آیا
اس لفظ بسمل کی سمجھ تو ہے نہیں ۔
اور
ہنسی اڑاتے ہیں ۔
چلو جی کچھ لطئفے ہو جائیں ۔
کہ
شادی کی پہلی رات کی صبح ، صبح سویرے خاوند نے نئی نویلی دلہن کے منہ پر پانی ڈال دیا
اللہ کی بندی ہڑبڑا کر اٹھی ،اور اپنے “خصم “ سے سوال کیا کہ
بہن چودا ! اے کی کیتا ای؟؟
خاوند نے جواب دیا کہ تمہاری ماں نے کہا تھا کہ میری بچی! پھولوں کی طرح ہے ،اس کو مرجانے نہیں دینا !!۔
۔۔۔۔۔
معاشرتی امن کے لئے خطرناک حرف کون سا ہے؟؟
“ ک”
کیوں ، وہ کیسے ؟
ہو گئے ناں شروع۔
کیوں ؟
کہاں ؟
کون؟
کیا؟
سب لڑائی کے لفظ “ ک” سے شروع ہوتے ہیں
بلکہ
کسی کتّی کے بچے کی کدورت بھی “ک” سے ہی شروع ہوتی ہے
۔۔۔
میں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ “ دھو کے” کھائے ہیں دوستوں !!!۔
، انگور ، سیب ، امرود ، آم ،اور ہاتھ!!۔
آپ بھی دھوکے کھایا کرو دوستو!!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بندے کی بیوی بہت ہی بیمار تھی ۔
مہینوں سے ہسپتال میں داخل تھی
اخر ایک دن ڈاکٹر نے بندے کو ہمت دلاتے ہوئئے کہا
کہ اللہ کی مرضی میں کس کو دخل ہے ، اب تم کو حوصلہ کرنا ہی ہو گا کہ
تمہاری بیوی بس دو ہی دن کی مہمان ہے ۔
بندے نے ڈاکٹر کے الفاظ سے ممنون ہوتے ہوئےکہا
ٹھیک ہے ڈاکٹر ساحب یہ دو دن بھی نکال ہی لیں گے جیسے تیسے کر کے ، جہاں اتنا عرصہ نکالا ہے !!!۔
۔۔۔۔
لڑکی نے اپنئ منگیتر سے کہا
کہ اب تم لڑکیوں کو دیکھنا چھوڑ دو!!۔
تم اب میرے منگیتر ہو۔
ہیں ؟؟
کیا مطلب ۔ کہ جب میرا پیٹ بھرا ہو تا میں مینیو بھی نہیں دیکھ سکتا؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئے دور کے بچے !!۔
کنڈرگارٹن میں ایک بچے نے استانی سے پوچھا کہ میں اپ کو کیسا لگتا ہوں ؟
استانی نے مسکراتے ہوئے اس کے گال چھوئے اور کہا
کہ بہت ہی پیارے!!۔
بچے نے ساتھ بیٹھے اپنے ساتھی بچے کو کہنی ماری اور کہا۔
میں کہتا تھا ناں کہ لائین مارتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
باقی فیر سہی !!۔
اور
میں ، مذہبی اور سیاسی انتہا پنسدی کے خلاف ہوں ،لیکن اس مخالفت میں ، انتہا پسند نہیں ہوں ، کہ کم علمی اور جہالت کے عذاب میں مبتلا پاکستانی لوگ بھی میرے اپنے لوگ ہیں !۔
کہ میں ان میں سے ہوں اور ان کے ساتھ ہی پہچانا جاتا ہوں ۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ فیس بک ہو یا کہ کوئی اور پلیٹ فارم ، لوگ یا تو مذہب کی بات کرتے ہیں اور یا سیاست کی ۔
لیکن ہر دو لوگ نہ تو مذہب کا ہی علم رکھتے ہیں اور نہ ہی سیاست کی ڈیفینیشنز سے واقف ہیں ۔
اب میں اس بات کا ذمہ دار تو ہوں نہیں کہ ان لوگوں کو “اصلی دین” کی باتیں سمجھاؤں ، یا کہ سیاسی پارٹیوں کے کارنان کو یہ سمجھاتا پھروں کہ
سر جی!!جس کو تم سیاست کہہ رہے ہو یہ شخصیت پرستی ہے۔ اور اپ کو اتنے زیادہ مغالطے لگ چکے ہیں کہ ، دور ہوتے ہوتے بھی ایک زمانہ لگے گا ۔
اس لئے
میں فیس بک پر ۔
اور دوسرے پلیٹ فارموں پر “ادب” کی بات کرتا ہوں ۔
شاعری ، بولیاں ، ٹپّے ،ماہئے ، غزل کی حد تک ہی ادب نہیں ہے ۔
اس ساغر میں افسانے ، کہانیاں ، داستانیں ، لطیفے اور قہقہے بھی ہیں ،۔
سماعتوں پر بار ، سیاسی بحثیں ، روحوں کو آلودہ کرتی مذہبی محفلیں جہان ذہنوں کو پراگندہ کر رہی ہیں ، وہیں ، ہم جیسے بھی ہیں جو ، چٹکلے چھوڑ کر محفلیں گرماتے ہیں ، اگر چہ کہ اسی محفل میں نادان وہ بھی ہوتے ہیں جو لطیفہ سن کر افسوس بھرا منہ بناتے ہیں ۔ اور مجھے “نیک” بننے کی تلقین شروع کردیتے ہیں ۔
یہاں تاتے بیاشی اور اردگرد کے کتنے ہی “مذہبی “ لوگوں کی منافقتوں ، غلاضتوں ، کا میں خود گواہ ہوں ، لیکن جب میں گانا سنتا ہوں تو وہی لوگ ، ناک میں ہنسی اڑاتے ہیں ۔
جب میں لطیفہ سناتا ہوں تو ؟ ان کو ہاسا ایسے نکلتا ہے جیسے قبض کے مریض کو پاخانہ نکلتا ہے ۔
ان کو شعر سنائیں تو؟ ان کا رویہ ہورا ہے
کہ “ مجھے وچلی بات “ تک کی سمجھ لگ گئی ہے
لیکن ان کو الفاظ کے معنی تک معلوم نہیں ہوتے۔
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی ٹرپ
صبح دم کوئی بالائے بام آیا تو کیا آیا
اس لفظ بسمل کی سمجھ تو ہے نہیں ۔
اور
ہنسی اڑاتے ہیں ۔
چلو جی کچھ لطئفے ہو جائیں ۔
کہ
شادی کی پہلی رات کی صبح ، صبح سویرے خاوند نے نئی نویلی دلہن کے منہ پر پانی ڈال دیا
اللہ کی بندی ہڑبڑا کر اٹھی ،اور اپنے “خصم “ سے سوال کیا کہ
بہن چودا ! اے کی کیتا ای؟؟
خاوند نے جواب دیا کہ تمہاری ماں نے کہا تھا کہ میری بچی! پھولوں کی طرح ہے ،اس کو مرجانے نہیں دینا !!۔
۔۔۔۔۔
معاشرتی امن کے لئے خطرناک حرف کون سا ہے؟؟
“ ک”
کیوں ، وہ کیسے ؟
ہو گئے ناں شروع۔
کیوں ؟
کہاں ؟
کون؟
کیا؟
سب لڑائی کے لفظ “ ک” سے شروع ہوتے ہیں
بلکہ
کسی کتّی کے بچے کی کدورت بھی “ک” سے ہی شروع ہوتی ہے
۔۔۔
میں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ “ دھو کے” کھائے ہیں دوستوں !!!۔
، انگور ، سیب ، امرود ، آم ،اور ہاتھ!!۔
آپ بھی دھوکے کھایا کرو دوستو!!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بندے کی بیوی بہت ہی بیمار تھی ۔
مہینوں سے ہسپتال میں داخل تھی
اخر ایک دن ڈاکٹر نے بندے کو ہمت دلاتے ہوئئے کہا
کہ اللہ کی مرضی میں کس کو دخل ہے ، اب تم کو حوصلہ کرنا ہی ہو گا کہ
تمہاری بیوی بس دو ہی دن کی مہمان ہے ۔
بندے نے ڈاکٹر کے الفاظ سے ممنون ہوتے ہوئےکہا
ٹھیک ہے ڈاکٹر ساحب یہ دو دن بھی نکال ہی لیں گے جیسے تیسے کر کے ، جہاں اتنا عرصہ نکالا ہے !!!۔
۔۔۔۔
لڑکی نے اپنئ منگیتر سے کہا
کہ اب تم لڑکیوں کو دیکھنا چھوڑ دو!!۔
تم اب میرے منگیتر ہو۔
ہیں ؟؟
کیا مطلب ۔ کہ جب میرا پیٹ بھرا ہو تا میں مینیو بھی نہیں دیکھ سکتا؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئے دور کے بچے !!۔
کنڈرگارٹن میں ایک بچے نے استانی سے پوچھا کہ میں اپ کو کیسا لگتا ہوں ؟
استانی نے مسکراتے ہوئے اس کے گال چھوئے اور کہا
کہ بہت ہی پیارے!!۔
بچے نے ساتھ بیٹھے اپنے ساتھی بچے کو کہنی ماری اور کہا۔
میں کہتا تھا ناں کہ لائین مارتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
باقی فیر سہی !!۔
1 تبصرہ:
میں پی کر نہیں بہکتا، اسے دیکھ کر بہکتا ہوں
اتنا بتا شراب حرام ہوئی یا وہ؟
پیچھے سے ماں کی آواز آئی
کمینے شراب حرام ہے اور وہ حرام زادی
ایک تبصرہ شائع کریں