منگل، 28 جنوری، 2014

جاپان اور جتین شاھ صاحب

 جاپان کی اون لائیں اردو اخبار ، روز نامہ اخبار پر یہ خبر دیکھی
کہ یہ کسی تالاب کی صفائی میں سینکڑوں سائکلیں ، تہہ میں غرق کی ہوئی ملی ہیں ۔ تو مجھے یاد آایا کہ یہان جاپان میں سائیکل ایک ایسی چیز ہے کہ ہر کسی کو حاصل ہے ۔
یہاں جاپان کے دیہاتی علاقے ، اباراکی ، سائیتاما ، توچی گی اور گنماں کی ڈویژنوں کے سنگم پر ،اپ کو کئی سائکلیں ادھر ادھر کھیتوں کے کنارے یا کسی نشیب میں پڑی مل جائیں گی ۔
انیس سو اٹھاسی یں جب میں پہلی بار جاپان ایا تو اس وقت تو عام سی بات تھی کہ اسٹیشن کے سامنے ، کسی سنٹر پر یا کسی گھر کے سامنے پڑی سائیکل کو تالا نہیں لگا ہو گا۔
میری نسل کے زایدہ تر پاکستانی ، اس زمانے میں جاپان میں کمائی کے لئے انر ہوئے تھے ۔
اتھاسی سے پہلے  جو پاکستانی یہان تھے وہ زیادہ تر بھیک مانگا کرتے تھے ، بھیک مانگنے کا طرقہ یہ تھا کہ ، خود کو سٹوڈنٹ ظاہر کرکے کسی ٹرین میں ، کوئی چیز فروخت کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ ، یہ چیز خرید کر ایک غریب طالب عکم کی مدد کریں !۔ لیکن جاپانی لوگ پیسے بھی دے دیتے تھے اور چیز بھی نہیں لیتے تھے ۔
پھر گوجرانوالہ کے کچھ لوگوں نے نئے آنے والوں سے ڈالر لے کر ان کو فکٹریون میں کام پر لگوانے کا کام شروع کردیا  تھا۔
میں خود وحدت کالونی والے منیر کو پانچسوڈالر دے کر کام پر لگا تھا۔
اس قت بھی منیر نے میرے لئے سائکل کا انتظام مفت میں کر کے دیا تھا۔
ایک بڑی دلچسپ بات ان دنوں کی مجھے یاد ہے ، بات کہہ لیں یا کہ ان دنوں کا میرا ایک احساس ۔
کہ جب بھی کوئی جاپانی منیر ایجینٹ سے منلے آتا تھا تو ایک شاھ صاحب کا بہت ذکر ہوتا تھا، “ جتین شاھ” صاحب کا ،۔
کچھ تو ان دنوں کوجرانوالہ کے ایک شاھ صاحب کی ایجینٹی کا بھی بڑا نام تھا اور کچھ ، جاپان میں کچھ شاھ صاحب فیملیاں بھی تھیں ، اور کچھ شاھ صاحبان  کے نام بھی  ہم “پینڈو” لوگوں کے لئے عجیب ہوتے ہیں ، اس لئے میں سوچا کرتا تھا کہ کوئی بہت ہی مشہور شاھ صاحب ہیں جن کا ذکر بہت زہادہ ہو رہا ہے ۔
لیکن بعد میں پتہ چلا کہ “ جتین شاھ” جاپانی میں سائکل کو کہتے ہیں ۔
بلکہ ہر چلنے والی چیز کو شاھ کا لاحقہ لگاتے ہیں ۔
پاکستان میں ہم جو لفظ “ رکشہ” استعمال کرتے ہیں ، کم ہی لوگوں کو علم ہو گا کہ یہ لفظ بھی جاپانی زبان کا ہے۔
جاپانی میں “ریڑھی” جس کو انسان کھینچتے ہیں ، اس کو “جِن ریک شاھ”کہتے ہیں ، جو کہ تین الفاظ جِن رِیک اور شاھ کا مرکب ہے ۔ جن بمعنی انسان ، ریک بمعنی کشش یا طاقت اور شاھ ! تو جی ہر چلنے والی چیز کو کہتے ہیں ۔
جن ریک شاھ ہمارے زبان میں پہنچتے پہنچتے صرف رکشہ رہ گیا ۔

جاپان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں معیار زندگی میں امیر غریب کا فرق نہ ہونے کے برابر ہے۔
میں نے دنیا گھومی ہے ، یورپ جس کی کشش کا ایک زمانہ دیانہ ہے ، وہاں میں  نے امیر غریب کا اتنا فرق دیکھا ہے کہ، کچھ لوگ ساری زندگی اپنے بچوں کے لئے ایک سائکل تک نہیں خرید سکتے اور کچھ لوگوں کے ذاتی ہائی اور بحری جہاز ہیں ۔
لیکن جاپان میں ، امیر غریب کا فرق ، ان کی بنک سٹیٹمنٹ کی کاپی پر موجود ہندسوں تک  ہی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ورنہ ہر جاپانی کے گھر میں بنیادی سہولیات زندگی موجود ہیں ۔
ہم پاکستانیوں کی یہ عادت ہے کہ
بقول ایک شاعر کے
تم نے تو عادت ہی بنا لی ہے منیر آپنی
جس شہر میں بھی رہنا ، اکتائے ہوئے رہنا
لیکن دو ممالک میں رہنے والے پاکستانی اپنے پناہ دینے والے ملک کے معترف رہتے ہیں ۔
ایک جاپان اور دوسرا جرمنی!۔
میں بھی اس ملک جاپان میں اپنی غریبی کے ہاتھوں مجبور ایا تھا ۔
اج اللّٰہ کی مہربانی ہے کہ مں نے اس ملک سے پیسا تو جو کمانا تھا کمایا ، یہان سے سچائی کی راہ بھی پائی ہے ،
یہ وہ ملک ہے جہاں آپ بغیر جھوٹ بولے ، بغیر کسی کو دھوکا دئے ، بغیر کسی دھکم پیل کے بڑی ہی آسان زندگی گزار سکتے ہیں ،
بات شروع ہوئی ھی سائکلوں کی بہتات سے اور کہاں کی کہاں پہنچ  گئی ۔
یہں صرف سائکلوں کی ہی نہیں بہت سی چیاوں کی بہتات ہے ، جاپان میں جو پاکستانی لوگ بہت بڑے بڑے بزنس میں بنے ہوئے ہیں ۔
یہ صرف اتنا ہی کر رہے ہیں کہ جاپان کے کوڑے کو ٹھکانے لگا رہے ہیں ۔
ٹرک ، بسیں ، کاریں ، مشنری ، کمپیوٹر یا سرور ، ایک زمانہ تھا کہ جاپانی پیسے دے کر اٹھواتے تھے ۔
اس کوڑے کو ٹھکانے لگا لگا کر زیادہ تر پاکستانیوں کی سفید پوشی بنی ہوئی ہے ۔
لیکن مزے کی بات ہے کہ جاپانی معاشرہ ہمیں عزت دیتا ہے ۔
لیکن یہ عزت ہر کسی کو حاصل نہیں ہے ۔
جاپانی بڑے مردم شناس لوگ ہیں ۔
کھوچل اور چالاک لوگوں کو کونے لگا دیتے ہیں
اور
اصلی والے سچے اور بھلے مانس کو سر انکھوں پر بٹھاتے ہیں ۔
 جو لوگ اس ملک جاپان میں جتنے اچھے ہیں ، جاپان ان کے جنت نما ہے ۔
ہم نے دیکھا ہے کہ برے لوگ اس ملک سے ختم ہوتے چلے گئے اور اچھے لوگ یہان مستقل ہوتے چلے گئے۔
لیکن
مذہب کے نام پر گند ڈالنے والوں کا کوئی علاج ابھی تک یہ معاشرہ نہیں کر سکا ۔
منیر نیازی کے کہا تھا

شیطان کولوں تے میں بچ ویساں
منافقاں کولو مینوں ، رب بچائے۔

جمعرات، 23 جنوری، 2014

پاکستانیوں کے قتل سے باز آؤ

ایک محاورہ ہے
باڑ لگائی کھیت کو ، باڑ کھیت کو کھائے
راجہ ہو کے چوری کرئے، تو نیائے کو اپائے
 ریاست کا کام ، اپنے لوگوں کے معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے میں “تعاون” کرنے کا نام ہے ۔
ترقی یافتہ مممالک میں دیکھا ہے کہ حکومت کا کردار ایک بڑے  بھائی جیسا ہوتا ہے ، جو کہ چھوٹے بھائیوں کے لہن دین کے اصول مقرر کر کے دیتا ہے۔
لیکن پاکستان میں معاملات کا رنگ ہی دوسرا ہے ۔
یہاں نہ کوئی اصول ہے اور نہ ہی کوئی کام ۔
حکومت اور حکومتی ادارے بد معاشی کا کردار ادا کر کریے ہیں ۔
کوئی بھی ادارہ ، اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کا دس فی صد بھی پورا نہیں کر رہا ۔
پاکستان میں ۔
اگر ، کسی  خود دار بندے کے منہ پر کوئی طاقت ور تھپڑ ! مار دے !!ْ۔
تو؟
پاکستان میں اس خودار کی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے۔
اس لئے لوگ ، برادریوں ، مسالک ، اور مذہبی فرقوں میں بٹ کر اپنے اپنے گروہ تیار کر رہے ہیں ۔ تاکہ خود کو محفوظ کر سکیں ۔
اور پاکستان میں سب سے طاقت ور ہے فوج ۔
اگر فوج اپنی کرنے پر آ جائے تو ؟
نہ کوئی وزیر اعظم محفوظ ہے نہ کوئی عام شہری ْ۔
اور ان کا ہاتھ روکنے والا تو کوئی ہے ہی نہیں ، ان کے میڈیا میں بدنام کرنے کے کام کا بھی کوئی جوڑ نہیں ہے ۔
سیاتدانوں کو برا بتا کر ملک پر قبضہ کر لیا ، بنگالیوں کو برا بتا کر ان  کو علیحدہ کر دیا ، بلوچوں کو کونے میں لگاتے چلے جا رہے ہیں ، لکھنے والوں کو غائب کروا کر مار رہے ہیں ،۔
اج کے پاکستان کے حالات میں جب کہ ریاست ہی اپنے لوگوں کو قتل کر رہی ہے۔
امریکہ کی دہشت کی جنگ کے نام پر !! تو؟
اس جنگ میں مارے جانے والے پاکستانی  ، اپنے خون کا حساب کس سے مانگیں ؟
کوئی نہیں ہے ان کی داد فریاد سننے والا ، اس جہاں میں !!۔
اس لئے وہ بدلہ لینے کے لئے جب بارود بھری جیکٹ پہن کر  خود کو اڑا لیتے ہیں ۔
تو ؟ لوگون کو اسلام یاد آ جاتا ہے کہ اسلام میں خود کشی حرام ہے ۔
یہ خود کشی نہیں ہے ۔
یہ حملہ ہوتا ہے ،۔ دشمن پر جان قربان حملہ ۔
اس لئ اب جب کہ فوج نے جہاوزں کے ساتھ  طالبان پر حملہ کردیا ہے ۔
تو جی چاہے طاہبان ہوں یا کہ مکتی باہنی ، میں ہون کہ آپ ۔
جب بھی پاکستان کی عوام  کو قتل کیا جائے گا۔
تو میں کبھی بھی حکومتی  جبر کی حمایت نہیں کروں گا۔
طالبان ، لاکھ برے ہوں ۔ ان کی پدائش کی وجوحات کو ختم ہونا چاہئے ۔
اور پاک فوج کو حیلے بہانوں سے پاکستانیوں کے قتل  سے باز رکھنے کی سبیل نکالی ہو گی ۔
پاکستانیوں کے قتل کے بعد ، اس قتل عام کو پاکستان کے لئے قتل کرنے کے “عذر” سنتے چار دھایاں گرز چلی ہیں ۔
اتنے قتلوں کے بعد ، کیا پاکستان کے حالات بہتر ہوئے ہیں  ، یاکہ خراب؟
ہمیں تو خراب ہی ہوتے  ہوئے ملے ہیں ۔
اس لئے میں کہوں گا کہ
پاک فوج کے ہاتھوں پاکستانیوں کا قتل ، معاملے کا حل نہیں بلکہ بنیادی مسئلہ اور مسائل کی جڑ ہے ۔

جمعرات، 16 جنوری، 2014

ایک اکنامک کہانی


ہوٹل میں ایک ٹوریسٹ داخل ہوتا ہے ۔
کانٹر پر ایک سو ڈالر کا نوٹ رکھتا ہے اور ہوٹل مالک کی اجازت سے کمرہ دیکھنے چلا جاتا ہے ۔
ہوٹل کا مالک جلدی سے اپنے قصائی کا قرضہ چکانے کے لئے اس نوٹ کی رقم ،اپنے قصائی کو ادا کر دیتا ہے ۔
قصائی فوراً یہ رقم اپنے  جانور سپلائی کرنے والے کو دے دیتا ہے ۔
جانور سپلائی والا ، ایک طوائف کا مقروض تھا ،
اس نے جلدی سے یہ نوٹ ، اس طوائف کو ادا کر دیا ۔ طوایف جو کہ ہوٹل کو استعمال کرتی تھی ، اس نے یہی نوٹ ہوٹل کے مالک کو ادا کر دیا۔
وہ سو ڈالر کا نوٹ کاؤنٹر پر پڑا تھا ،
کہ کمرہ پسند کرنے کے لئے سیڑہیاں چڑہ کر گیا ہوا متوقع گاہک ، واپس آ کر ہوٹل کے مالک کو بتاتا ہے کہ
مجھے کمرہ پسند نہیں آیا ۔
اور اپنا سو ڈالر کا نوٹ لے کر چلا جاتا ہے !!!۔
اکنامک کی اس کہانی میں نہ کسی نے کچھ کمایا اور نہ کسی نے کچھ خرچ کیا
لیکن
جس قصبے میں ٹورسٹ یہ نوٹ لے کر ایا تھا ، اس قصبے کے کتنے ہی لوگ قرضے سے فارغ ہو گئے ۔
حاصل مطالعہ
پیسے کو گھماؤ !! نہ کہ اس پر سانپ بن کر بیٹھ جاؤ
کہ اسی میں عوام الناس کی فلاح ہے ۔
ماخوذ

جمعہ، 10 جنوری، 2014

انتہا پسندی اور لطیفے

آج کے پاکستان میں مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی کی “انتہا” ہے ۔
اور
میں ، مذہبی اور سیاسی انتہا پنسدی کے خلاف ہوں ،لیکن اس مخالفت میں ، انتہا پسند نہیں ہوں ، کہ کم علمی اور جہالت کے عذاب میں مبتلا پاکستانی لوگ بھی میرے اپنے لوگ ہیں !۔
کہ میں ان میں سے ہوں اور ان کے ساتھ ہی پہچانا جاتا ہوں ۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ فیس بک ہو یا کہ کوئی اور پلیٹ فارم ، لوگ یا تو مذہب کی بات کرتے ہیں اور یا سیاست کی ۔
لیکن ہر دو لوگ نہ تو مذہب کا ہی علم رکھتے ہیں اور نہ ہی سیاست کی ڈیفینیشنز سے واقف ہیں ۔
اب میں اس بات کا ذمہ دار تو ہوں نہیں کہ ان لوگوں کو  “اصلی دین” کی باتیں سمجھاؤں ، یا کہ سیاسی پارٹیوں کے کارنان کو یہ سمجھاتا پھروں کہ
سر جی!!جس کو تم سیاست کہہ رہے ہو یہ شخصیت  پرستی ہے۔ اور  اپ کو اتنے زیادہ مغالطے لگ چکے ہیں کہ ، دور ہوتے ہوتے بھی ایک زمانہ لگے گا ۔
اس لئے
میں فیس بک پر ۔
اور دوسرے پلیٹ فارموں پر “ادب” کی بات کرتا ہوں ۔
شاعری ، بولیاں ، ٹپّے ،ماہئے ، غزل کی حد تک ہی ادب نہیں ہے ۔
اس ساغر میں  افسانے ، کہانیاں ، داستانیں ، لطیفے اور قہقہے بھی ہیں ،۔
سماعتوں پر بار ، سیاسی بحثیں ، روحوں کو آلودہ کرتی مذہبی محفلیں   جہان ذہنوں کو پراگندہ کر رہی ہیں ، وہیں ، ہم جیسے بھی ہیں جو ، چٹکلے چھوڑ کر محفلیں گرماتے ہیں ، اگر چہ کہ اسی محفل میں نادان وہ بھی ہوتے ہیں جو لطیفہ سن کر افسوس بھرا منہ بناتے ہیں ۔ اور مجھے “نیک” بننے کی تلقین شروع کردیتے ہیں ۔
یہاں تاتے بیاشی اور اردگرد کے کتنے ہی “مذہبی “ لوگوں کی منافقتوں ، غلاضتوں ،  کا میں  خود گواہ ہوں ، لیکن جب میں گانا سنتا ہوں تو وہی لوگ ، ناک میں ہنسی اڑاتے ہیں  ۔
جب میں لطیفہ سناتا ہوں تو ؟ ان کو ہاسا ایسے نکلتا ہے جیسے قبض کے مریض کو پاخانہ نکلتا ہے ۔
ان کو شعر سنائیں تو؟ ان کا رویہ  ہورا ہے
کہ “ مجھے وچلی بات “ تک کی سمجھ لگ گئی ہے
لیکن ان کو الفاظ کے معنی تک معلوم نہیں ہوتے۔
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی  ٹرپ
صبح دم کوئی بالائے بام آیا تو کیا آیا
اس لفظ بسمل کی سمجھ تو ہے نہیں ۔
اور
ہنسی اڑاتے ہیں ۔
چلو جی کچھ لطئفے ہو جائیں ۔
کہ
شادی کی پہلی رات کی صبح ، صبح سویرے خاوند نے نئی نویلی دلہن کے منہ پر پانی ڈال دیا
اللہ کی بندی ہڑبڑا کر اٹھی ،اور اپنے “خصم “ سے سوال کیا کہ
بہن چودا ! اے کی کیتا ای؟؟
خاوند نے جواب دیا کہ تمہاری ماں نے کہا تھا کہ میری بچی! پھولوں کی طرح ہے ،اس کو مرجانے نہیں دینا !!۔
۔۔۔۔۔
معاشرتی امن کے لئے خطرناک حرف کون سا ہے؟؟
“ ک”
کیوں ، وہ کیسے ؟
ہو گئے ناں شروع۔
 کیوں ؟
کہاں ؟
کون؟
کیا؟
سب لڑائی کے لفظ “ ک” سے شروع ہوتے ہیں
 بلکہ
کسی کتّی کے بچے کی کدورت بھی “ک” سے ہی شروع ہوتی ہے
۔۔۔
میں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ “ دھو کے” کھائے ہیں دوستوں !!!۔
، انگور ، سیب ، امرود ، آم ،اور ہاتھ!!۔
آپ بھی دھوکے کھایا کرو دوستو!!!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندے  کی بیوی بہت ہی بیمار تھی ۔
مہینوں سے ہسپتال میں داخل تھی
اخر ایک دن ڈاکٹر نے  بندے کو  ہمت  دلاتے ہوئئے کہا
کہ اللہ کی مرضی میں کس کو دخل ہے ، اب تم کو حوصلہ کرنا ہی ہو گا کہ
تمہاری بیوی بس دو ہی دن کی مہمان ہے ۔
بندے نے ڈاکٹر کے الفاظ سے ممنون ہوتے ہوئےکہا
ٹھیک ہے ڈاکٹر ساحب یہ دو دن بھی نکال ہی لیں گے جیسے تیسے کر کے ، جہاں اتنا عرصہ نکالا ہے !!!۔
۔۔۔۔
لڑکی نے اپنئ منگیتر سے کہا
کہ اب تم لڑکیوں کو دیکھنا چھوڑ دو!!۔
تم اب میرے منگیتر ہو۔
ہیں ؟؟
کیا مطلب ۔ کہ جب میرا پیٹ بھرا ہو تا میں مینیو بھی نہیں دیکھ سکتا؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئے دور کے بچے !!۔
کنڈرگارٹن میں ایک بچے نے استانی سے پوچھا کہ میں اپ کو کیسا لگتا ہوں ؟
استانی نے مسکراتے ہوئے اس کے گال چھوئے اور کہا
کہ بہت ہی پیارے!!۔
بچے نے ساتھ بیٹھے اپنے ساتھی بچے کو کہنی ماری اور کہا۔
میں کہتا تھا ناں کہ لائین مارتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
باقی فیر سہی !!۔

اتوار، 5 جنوری، 2014

امرمالمعروف اور نہی عن المنکر

مجھے ان بزرگوں کا چہرہ یاد نہیں آ رہا کہ کون تھے
لیکن ان کی طنزیہ ہسنی ، اور ہنگورا مجھے یاد ہے کہ
جرنل ضیاع کے دور میں جب انہوں نے
امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔
پر تبصرہ کیا تھا۔
کہ اچھا ؟؟؟
اب ! امرمالمعروف اور نہی  عن المنکر ہو  گا ؟
مجھے اس وقت کی  اپنی فیلنگ یاد ہیں کہ ایسا لگا تھا کہ یہ بزرگ  ، اس ڈرامے کے مضحکہ انگیز نتائج سے بھی واقف ہیں ۔
اور ایک اسلامی روایت کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔
اج اس بات کے پینتیس سال بعد ، میں اپنی انکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے رواج کے کیا نتائج نکلے ہیں ، اور یہ نتایج کتنے ہی بھیانک ہیں ۔
امر بالمعروف یعنی نیکی کا حکم کرنا، اور نہی عن المنکر یعنی کہ برائی سے منع کرنا ۔
اج میں دیکھ رہا ہوں کہ نیکی کے حکم اور برائی سے منع کرتی ہو پروان چڑہی ، پاکستان کی یہ دوسری نسل ہے ۔
ہر بندہ “ دوسرے “ کو نیکی کا حکم کر رہا ہے
اور
ہر دوسرا بندہ اپنے دوسروں کو برائی سے منع کر رہا ہے۔
لیکن  نیکی اور بدی کی تعریفیں ہی بدل کر رہ گئی ہیں ۔
نیکی کا حکم بھی دوسرے کو ہی کرنا ہے
اور برائی سے روکنا بھی دوسرے کو ہی ہے۔
خود ! نہ نیکی کرنی ہے اور نہ برائی سے باز آنا ہے ۔
اردو کا یاک محاورہ تھا
کہ دوسروں کو نصیحت ، خود میان فضیحت ۔
پنجابی میں کہیں گے
آگا دوڑ تے پیچھا چوڑ۔
اب پاکستان  بننے کے بعد ہندو بھی نہ رہے ، سکھ بھی نہ رہے  ، اس لئے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام اب مسمانوں پر ہی کرنا باقی تھا
اور اب سبھی مسلمان دوسروں کو مسلمان کرنے میں لگے ہیں ، اور جس کو “ان” کے اسلام  کی سمجھ نہ لگے “وہ “ کافر” ہے ۔
سنی کے لئے پہلے وہابی کافر ہوا کرتا تھا
لیکن
اب سنی کے لئے سبھی کافر ہیں ۔ اور یہی حال وہابی کا ہے کہ سوائے اس کے سبھی کافر ہیں ، اور یہی حال شیعہ کا ہے ۔
کہیں سے بچھوؤں کی بارات گزر رہی تھی  ،
کسی نے پوچھا کہ تم  میں سے کون سب سے زیادہ زہریلہ ہے ؟
اس کو جواب ملا کہ
کسی کی بھی دم پر پاؤں رکھ کر دیکھ لو ، یہاں ایک سے بڑہ کر ایک ہیں ۔
یہی حال اج پاکستان کے مسلمانوں کا ہے
ایک سے بڑھ کر ایک زہریلا مسلمان ہے ۔
علم عقل کا حال یہ ہے کہ
پنجابی کے محاورے کے مطابق
جنہاں دے گھر دانے
اونہاں دے کملے وی سیانے۔
جس کا کاروبار چل نکلے ، وہ بہت ہی سیانا ہے ، عقل اور علم بے شک نہ  بھی ہو۔
یہاں جاپان میں اج کل ایک بہت ہی سیانے بندے کے علم کا یہ حال ہے کہ
وہ بندہ ایک مذہبی تنظیم میں شامل ہو گیا ، بڑی ہی منظم تنظیم کا نیا نیا رکن بنا تھا ، کہ کسی تنظیمی محفل میں مذہبی نالج بڑھانے کے لئے سوالات کیے جا رہے تھے ۔
ایک سوال تھا کہ وصال کے وقت بنی اکرم ، کس زوجہ محترمہ کے ساتھ سے ؟
ان صاحب نے بھی ہاتھ بڑہا بڑہا کر اٹھایا
محفل کے امیر نے سوچا کہ ایک تو سوال اسان ہے دوسرا ان نئے رکن کی حوصلہ افزائی ہو جائے گی
اس لئے اسی سے پوچھ لیتے ہیں ۔
تو جی
ان صاحب کا جواب تھا  “ بی بی فاطمہ” ۔
اس طرح کی کئی مثالیں ہیں کہ ان کو بقول شخصے ، استنجے کا بھی علم نہیں ہوتا اور چل پڑتے ہیں
امر بالمعروف و نہی عن المنکرکو لے کر ۔
اسلام کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے جی ان امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ٹھیکیداروں نے ۔
کسی بھی پاکستانی کے سامنے کہیں کہ  میں سادہ کھانا کھاتا ہوں ۔
وہ اپ کو تعلیم دینے لگے گا کہ
ہان ہمارا دین بھی تو ہی بتاتا ہے ۔
میں رات جلدی ہوجاتا ہوں ۔
ہاں ہمارا دین بھی تو ہی بتاتا ہے ۔
میں  روادری کا قائل ہوں ۔
ہاں ہمارا دین بھی تو ہی بتاتا ہے ۔
تو پھر انہی دیا!!۔
تمہارے دین کا بنایا ہوا کوئی بھی ملک ان روایات کا حامل کیوں نہیں ہے ؟؟
تو جواب ملتا ہے کہ اس میں دین کا کیا قصور ؟ یہ تو ماننے والوں کا قصور ہے !۔
ہاں جی پاکستان والوں کا دین وہ دین ہے جو اپنے ماننے والوں  سے بھی اپنا اپ “منوا” نہیں سکا۔
کیا خدا کا دستور بھی عبوری ہے کہ چودا سو سال میں رائج نہیں ہو سکا ۔

بدھ، 1 جنوری، 2014

لطیفے

استاد گامے سے : چاند پر پہلا قدم کس نے رکھا تھا ؟
گاما: نیل آرم سٹرانگ نے!!۔
استاد : اور دوسرا قدم کس نے رکھا تھا؟
گاما: نیل آرم سٹران کیا “لنگا” تھا ؟ دوسرا قدم بھی اسی نے رکھا ہو گا!!۔




سکول جاتے ہوئے رونے والے بچے کے باپ نے کہا
اوئے شیر بن شیر ، شیر کے بچے روتے نہیں ہیں ۔
بچے نے ترنت جواب دیا ، تو شیر کے بچے  سکول بھی تو نہیں جاتے نہ!!۔



پاکستان وہ ملک ہے جہاں فاصلہ “منٹ پر گھنٹہ” ناپا جاتا ہے ۔
اسلام اباد سے لاہور کے لئے نکلنے والا بندہ ، اپنے دوست کو فون پر کہتا ہے ۔
بس یار پانچ منٹ میں پہنچ رہا ہوں !!!۔




ساقے کو مسخریاں سوجھ رہی تھیں کہ اس نے گامے سے پوچھا۔
اوئے گامیا ؟ اگر تم جنگل میں جا رہے ہو اور شیر نکل آئے تو کیا کرو گے؟
گاما: میں درخت پر چڑھ جاؤں گا!۔
ساقا: اور اگر شیر بھی درخت پر چڑھ گیا تو؟
گاما: میں پانی میں کود جاؤں گا!۔
ساقا: اور اگر شیر بھی پانی میں کود گیا تو؟
گامے کے ہونٹوں پر چبھتی ہوئی ہنسی پھیل گئی ،اور اس نے ساقے سے پو چھا ، اوئے ساقیا! تم نے کیا شیر کو بہن دی ہوئی ہے ؟ جو شیر کی ہی سائڈ مار رہے ہو؟؟





یہ صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے
  
کہ
جب شیمپو ، بوتل میں سے ختم ہو جائے تو؟ پانی ڈال کر اس کو ایک دفعہ تو نہا ہی لیا جاتا ہے ۔
توتھ پیسٹ کے ختم ہونے پر ٹیوب کی تشریف پھاڑ کر اس کا اندر صاف کر کے بھی کام چلا لیا جاتا ہے ۔
سبزیاں کتنی بھی خرید لیں ، پیسے کتنے بھی ہوں ، دھنیا مفت کا ہی مانگیں گے۔
ساری قوم سونے کی قیمت پر پریشان رہے گی حالانکہ خریدنا کسی کو بھی نہیں ہوتا ہے ۔
اپنے ریموٹ کنٹرول کو مار مار کر کام چلاتے رہیں گے ، بیٹری نہیں چینج کریں گے۔
شادی کے کھانے کی دعوت والے دن ، صبح کا کھانا گول کر جائیں گے کہ اج شادی پر “لِڑ” مارنی ہے ۔
پرانی قمیض کو کام پر لگا لیں گے ، اور جب کام کے بھی کام کی نہیں رہے گی تو ؟ اس کا “پوچا” بنا لیں گے۔
گھروں میں چینی کے بہترین “ ٹی سیٹ” ہوں گے ، لیکن صرف مہمانوں کی آمد پر ہی نکلیں گے ۔
پراؤڈ آف پاکستانی!!۔





دوستوں یاد رکھنا ، فلمیں صرف تین چیزوں سے چلتی ہیں ۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔۔
ریمورٹ ، ٹی وی اور ڈی وی ڈی پلئیر سے!۔

Popular Posts