جاپان اور جتین شاھ صاحب
جاپان کی اون لائیں اردو اخبار ، روز نامہ اخبار پر یہ خبر دیکھی
کہ یہ کسی تالاب کی صفائی میں سینکڑوں سائکلیں ، تہہ میں غرق کی ہوئی ملی ہیں ۔ تو مجھے یاد آایا کہ یہان جاپان میں سائیکل ایک ایسی چیز ہے کہ ہر کسی کو حاصل ہے ۔
یہاں جاپان کے دیہاتی علاقے ، اباراکی ، سائیتاما ، توچی گی اور گنماں کی ڈویژنوں کے سنگم پر ،اپ کو کئی سائکلیں ادھر ادھر کھیتوں کے کنارے یا کسی نشیب میں پڑی مل جائیں گی ۔
انیس سو اٹھاسی یں جب میں پہلی بار جاپان ایا تو اس وقت تو عام سی بات تھی کہ اسٹیشن کے سامنے ، کسی سنٹر پر یا کسی گھر کے سامنے پڑی سائیکل کو تالا نہیں لگا ہو گا۔
میری نسل کے زایدہ تر پاکستانی ، اس زمانے میں جاپان میں کمائی کے لئے انر ہوئے تھے ۔
اتھاسی سے پہلے جو پاکستانی یہان تھے وہ زیادہ تر بھیک مانگا کرتے تھے ، بھیک مانگنے کا طرقہ یہ تھا کہ ، خود کو سٹوڈنٹ ظاہر کرکے کسی ٹرین میں ، کوئی چیز فروخت کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ ، یہ چیز خرید کر ایک غریب طالب عکم کی مدد کریں !۔ لیکن جاپانی لوگ پیسے بھی دے دیتے تھے اور چیز بھی نہیں لیتے تھے ۔
پھر گوجرانوالہ کے کچھ لوگوں نے نئے آنے والوں سے ڈالر لے کر ان کو فکٹریون میں کام پر لگوانے کا کام شروع کردیا تھا۔
میں خود وحدت کالونی والے منیر کو پانچسوڈالر دے کر کام پر لگا تھا۔
اس قت بھی منیر نے میرے لئے سائکل کا انتظام مفت میں کر کے دیا تھا۔
ایک بڑی دلچسپ بات ان دنوں کی مجھے یاد ہے ، بات کہہ لیں یا کہ ان دنوں کا میرا ایک احساس ۔
کہ جب بھی کوئی جاپانی منیر ایجینٹ سے منلے آتا تھا تو ایک شاھ صاحب کا بہت ذکر ہوتا تھا، “ جتین شاھ” صاحب کا ،۔
کچھ تو ان دنوں کوجرانوالہ کے ایک شاھ صاحب کی ایجینٹی کا بھی بڑا نام تھا اور کچھ ، جاپان میں کچھ شاھ صاحب فیملیاں بھی تھیں ، اور کچھ شاھ صاحبان کے نام بھی ہم “پینڈو” لوگوں کے لئے عجیب ہوتے ہیں ، اس لئے میں سوچا کرتا تھا کہ کوئی بہت ہی مشہور شاھ صاحب ہیں جن کا ذکر بہت زہادہ ہو رہا ہے ۔
لیکن بعد میں پتہ چلا کہ “ جتین شاھ” جاپانی میں سائکل کو کہتے ہیں ۔
بلکہ ہر چلنے والی چیز کو شاھ کا لاحقہ لگاتے ہیں ۔
پاکستان میں ہم جو لفظ “ رکشہ” استعمال کرتے ہیں ، کم ہی لوگوں کو علم ہو گا کہ یہ لفظ بھی جاپانی زبان کا ہے۔
جاپانی میں “ریڑھی” جس کو انسان کھینچتے ہیں ، اس کو “جِن ریک شاھ”کہتے ہیں ، جو کہ تین الفاظ جِن رِیک اور شاھ کا مرکب ہے ۔ جن بمعنی انسان ، ریک بمعنی کشش یا طاقت اور شاھ ! تو جی ہر چلنے والی چیز کو کہتے ہیں ۔
جن ریک شاھ ہمارے زبان میں پہنچتے پہنچتے صرف رکشہ رہ گیا ۔
جاپان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں معیار زندگی میں امیر غریب کا فرق نہ ہونے کے برابر ہے۔
میں نے دنیا گھومی ہے ، یورپ جس کی کشش کا ایک زمانہ دیانہ ہے ، وہاں میں نے امیر غریب کا اتنا فرق دیکھا ہے کہ، کچھ لوگ ساری زندگی اپنے بچوں کے لئے ایک سائکل تک نہیں خرید سکتے اور کچھ لوگوں کے ذاتی ہائی اور بحری جہاز ہیں ۔
لیکن جاپان میں ، امیر غریب کا فرق ، ان کی بنک سٹیٹمنٹ کی کاپی پر موجود ہندسوں تک ہی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ورنہ ہر جاپانی کے گھر میں بنیادی سہولیات زندگی موجود ہیں ۔
ہم پاکستانیوں کی یہ عادت ہے کہ
بقول ایک شاعر کے
تم نے تو عادت ہی بنا لی ہے منیر آپنی
جس شہر میں بھی رہنا ، اکتائے ہوئے رہنا
لیکن دو ممالک میں رہنے والے پاکستانی اپنے پناہ دینے والے ملک کے معترف رہتے ہیں ۔
ایک جاپان اور دوسرا جرمنی!۔
میں بھی اس ملک جاپان میں اپنی غریبی کے ہاتھوں مجبور ایا تھا ۔
اج اللّٰہ کی مہربانی ہے کہ مں نے اس ملک سے پیسا تو جو کمانا تھا کمایا ، یہان سے سچائی کی راہ بھی پائی ہے ،
یہ وہ ملک ہے جہاں آپ بغیر جھوٹ بولے ، بغیر کسی کو دھوکا دئے ، بغیر کسی دھکم پیل کے بڑی ہی آسان زندگی گزار سکتے ہیں ،
بات شروع ہوئی ھی سائکلوں کی بہتات سے اور کہاں کی کہاں پہنچ گئی ۔
یہں صرف سائکلوں کی ہی نہیں بہت سی چیاوں کی بہتات ہے ، جاپان میں جو پاکستانی لوگ بہت بڑے بڑے بزنس میں بنے ہوئے ہیں ۔
یہ صرف اتنا ہی کر رہے ہیں کہ جاپان کے کوڑے کو ٹھکانے لگا رہے ہیں ۔
ٹرک ، بسیں ، کاریں ، مشنری ، کمپیوٹر یا سرور ، ایک زمانہ تھا کہ جاپانی پیسے دے کر اٹھواتے تھے ۔
اس کوڑے کو ٹھکانے لگا لگا کر زیادہ تر پاکستانیوں کی سفید پوشی بنی ہوئی ہے ۔
لیکن مزے کی بات ہے کہ جاپانی معاشرہ ہمیں عزت دیتا ہے ۔
لیکن یہ عزت ہر کسی کو حاصل نہیں ہے ۔
جاپانی بڑے مردم شناس لوگ ہیں ۔
کھوچل اور چالاک لوگوں کو کونے لگا دیتے ہیں
اور
اصلی والے سچے اور بھلے مانس کو سر انکھوں پر بٹھاتے ہیں ۔
جو لوگ اس ملک جاپان میں جتنے اچھے ہیں ، جاپان ان کے جنت نما ہے ۔
ہم نے دیکھا ہے کہ برے لوگ اس ملک سے ختم ہوتے چلے گئے اور اچھے لوگ یہان مستقل ہوتے چلے گئے۔
لیکن
مذہب کے نام پر گند ڈالنے والوں کا کوئی علاج ابھی تک یہ معاشرہ نہیں کر سکا ۔
منیر نیازی کے کہا تھا
شیطان کولوں تے میں بچ ویساں
منافقاں کولو مینوں ، رب بچائے۔
کہ یہ کسی تالاب کی صفائی میں سینکڑوں سائکلیں ، تہہ میں غرق کی ہوئی ملی ہیں ۔ تو مجھے یاد آایا کہ یہان جاپان میں سائیکل ایک ایسی چیز ہے کہ ہر کسی کو حاصل ہے ۔
یہاں جاپان کے دیہاتی علاقے ، اباراکی ، سائیتاما ، توچی گی اور گنماں کی ڈویژنوں کے سنگم پر ،اپ کو کئی سائکلیں ادھر ادھر کھیتوں کے کنارے یا کسی نشیب میں پڑی مل جائیں گی ۔
انیس سو اٹھاسی یں جب میں پہلی بار جاپان ایا تو اس وقت تو عام سی بات تھی کہ اسٹیشن کے سامنے ، کسی سنٹر پر یا کسی گھر کے سامنے پڑی سائیکل کو تالا نہیں لگا ہو گا۔
میری نسل کے زایدہ تر پاکستانی ، اس زمانے میں جاپان میں کمائی کے لئے انر ہوئے تھے ۔
اتھاسی سے پہلے جو پاکستانی یہان تھے وہ زیادہ تر بھیک مانگا کرتے تھے ، بھیک مانگنے کا طرقہ یہ تھا کہ ، خود کو سٹوڈنٹ ظاہر کرکے کسی ٹرین میں ، کوئی چیز فروخت کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ ، یہ چیز خرید کر ایک غریب طالب عکم کی مدد کریں !۔ لیکن جاپانی لوگ پیسے بھی دے دیتے تھے اور چیز بھی نہیں لیتے تھے ۔
پھر گوجرانوالہ کے کچھ لوگوں نے نئے آنے والوں سے ڈالر لے کر ان کو فکٹریون میں کام پر لگوانے کا کام شروع کردیا تھا۔
میں خود وحدت کالونی والے منیر کو پانچسوڈالر دے کر کام پر لگا تھا۔
اس قت بھی منیر نے میرے لئے سائکل کا انتظام مفت میں کر کے دیا تھا۔
ایک بڑی دلچسپ بات ان دنوں کی مجھے یاد ہے ، بات کہہ لیں یا کہ ان دنوں کا میرا ایک احساس ۔
کہ جب بھی کوئی جاپانی منیر ایجینٹ سے منلے آتا تھا تو ایک شاھ صاحب کا بہت ذکر ہوتا تھا، “ جتین شاھ” صاحب کا ،۔
کچھ تو ان دنوں کوجرانوالہ کے ایک شاھ صاحب کی ایجینٹی کا بھی بڑا نام تھا اور کچھ ، جاپان میں کچھ شاھ صاحب فیملیاں بھی تھیں ، اور کچھ شاھ صاحبان کے نام بھی ہم “پینڈو” لوگوں کے لئے عجیب ہوتے ہیں ، اس لئے میں سوچا کرتا تھا کہ کوئی بہت ہی مشہور شاھ صاحب ہیں جن کا ذکر بہت زہادہ ہو رہا ہے ۔
لیکن بعد میں پتہ چلا کہ “ جتین شاھ” جاپانی میں سائکل کو کہتے ہیں ۔
بلکہ ہر چلنے والی چیز کو شاھ کا لاحقہ لگاتے ہیں ۔
پاکستان میں ہم جو لفظ “ رکشہ” استعمال کرتے ہیں ، کم ہی لوگوں کو علم ہو گا کہ یہ لفظ بھی جاپانی زبان کا ہے۔
جاپانی میں “ریڑھی” جس کو انسان کھینچتے ہیں ، اس کو “جِن ریک شاھ”کہتے ہیں ، جو کہ تین الفاظ جِن رِیک اور شاھ کا مرکب ہے ۔ جن بمعنی انسان ، ریک بمعنی کشش یا طاقت اور شاھ ! تو جی ہر چلنے والی چیز کو کہتے ہیں ۔
جن ریک شاھ ہمارے زبان میں پہنچتے پہنچتے صرف رکشہ رہ گیا ۔
جاپان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں معیار زندگی میں امیر غریب کا فرق نہ ہونے کے برابر ہے۔
میں نے دنیا گھومی ہے ، یورپ جس کی کشش کا ایک زمانہ دیانہ ہے ، وہاں میں نے امیر غریب کا اتنا فرق دیکھا ہے کہ، کچھ لوگ ساری زندگی اپنے بچوں کے لئے ایک سائکل تک نہیں خرید سکتے اور کچھ لوگوں کے ذاتی ہائی اور بحری جہاز ہیں ۔
لیکن جاپان میں ، امیر غریب کا فرق ، ان کی بنک سٹیٹمنٹ کی کاپی پر موجود ہندسوں تک ہی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ورنہ ہر جاپانی کے گھر میں بنیادی سہولیات زندگی موجود ہیں ۔
ہم پاکستانیوں کی یہ عادت ہے کہ
بقول ایک شاعر کے
تم نے تو عادت ہی بنا لی ہے منیر آپنی
جس شہر میں بھی رہنا ، اکتائے ہوئے رہنا
لیکن دو ممالک میں رہنے والے پاکستانی اپنے پناہ دینے والے ملک کے معترف رہتے ہیں ۔
ایک جاپان اور دوسرا جرمنی!۔
میں بھی اس ملک جاپان میں اپنی غریبی کے ہاتھوں مجبور ایا تھا ۔
اج اللّٰہ کی مہربانی ہے کہ مں نے اس ملک سے پیسا تو جو کمانا تھا کمایا ، یہان سے سچائی کی راہ بھی پائی ہے ،
یہ وہ ملک ہے جہاں آپ بغیر جھوٹ بولے ، بغیر کسی کو دھوکا دئے ، بغیر کسی دھکم پیل کے بڑی ہی آسان زندگی گزار سکتے ہیں ،
بات شروع ہوئی ھی سائکلوں کی بہتات سے اور کہاں کی کہاں پہنچ گئی ۔
یہں صرف سائکلوں کی ہی نہیں بہت سی چیاوں کی بہتات ہے ، جاپان میں جو پاکستانی لوگ بہت بڑے بڑے بزنس میں بنے ہوئے ہیں ۔
یہ صرف اتنا ہی کر رہے ہیں کہ جاپان کے کوڑے کو ٹھکانے لگا رہے ہیں ۔
ٹرک ، بسیں ، کاریں ، مشنری ، کمپیوٹر یا سرور ، ایک زمانہ تھا کہ جاپانی پیسے دے کر اٹھواتے تھے ۔
اس کوڑے کو ٹھکانے لگا لگا کر زیادہ تر پاکستانیوں کی سفید پوشی بنی ہوئی ہے ۔
لیکن مزے کی بات ہے کہ جاپانی معاشرہ ہمیں عزت دیتا ہے ۔
لیکن یہ عزت ہر کسی کو حاصل نہیں ہے ۔
جاپانی بڑے مردم شناس لوگ ہیں ۔
کھوچل اور چالاک لوگوں کو کونے لگا دیتے ہیں
اور
اصلی والے سچے اور بھلے مانس کو سر انکھوں پر بٹھاتے ہیں ۔
جو لوگ اس ملک جاپان میں جتنے اچھے ہیں ، جاپان ان کے جنت نما ہے ۔
ہم نے دیکھا ہے کہ برے لوگ اس ملک سے ختم ہوتے چلے گئے اور اچھے لوگ یہان مستقل ہوتے چلے گئے۔
لیکن
مذہب کے نام پر گند ڈالنے والوں کا کوئی علاج ابھی تک یہ معاشرہ نہیں کر سکا ۔
منیر نیازی کے کہا تھا
شیطان کولوں تے میں بچ ویساں
منافقاں کولو مینوں ، رب بچائے۔