بدھ، 7 اگست، 2013

مسائل پاکستان ۔



لکھنے والوں کے لئے پاکستان کا ماحول جتنا زرخیز ہے اتنا ترق یافتہ ممالک کے لوگوں کا نہیں ہے ۔

مسائل  کا انبار ہے ،  کہ جس پر لکھنے والے اگر چاہیں تو لکھ لکھ کر کی بورڈ گھسا دیں 
لیکن 
بد نصیبی کی انتہا ہے کہ لکھنے والوں کو جس دانش کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ دانش عنقا ہے پاکستان میں ۔
فوجی آمریت کے خلاف لکھنا موضوع کے لحاظ سے آسان ہے  ،لیکن زمینی حقائق؟ بندہ غائب شائب ہو جاتا ہے۔ لاش بن کے نمودار ہوتا ہے ۔ میت کی ٹوٹی ہڈیوں کی تفصیل ،بوڑھا بات مرنے والے کے دوستوں کے بتاتا تو ہے، لیکن انسو باپ کی انکھوں میں بھی نہیں ہوتے کہ
زبردست مارے بھی اور رونے بھی ناں دے ۔
یہ غائب شائب ہو کر لاش کی صورت نمودار ہونے والے بڑے سازشی لوگ ہوتے ہیں ، دشمن کے ایجنٹ ہوتے ہیں ، فرشتوں کی بدنامی کی کامیاب سازش کر کے مر جاتے ہیں ۔
اور بد نام ہوتی ہیں سیکورٹی ایجینسیاں ۔
حالنکہ ایجیسیوں کا بھلا اس میں کیا قصور ، موت تو خدا کے ھاتھ ہے اور مرنے کا دن بھی مقرر ہے ۔
استعمار کے خلاف لکھنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے والی بات ہے ۔
بندے نے معاشرے میں رہنا بھی ہے۔
لیکن یارو پہلے تعلیم کی بات کریں کہ
یہ استعمار ہوتا کیا ہے؟؟
پاکستان میں استعمار اور کفر دو ایسی چیزیں ہیں جو مخالف پارٹی اور دوسرے مسلک کے لوگ کرتے ہیں ۔
آمریت ہوتی ہے فوج کی حکومت
اور 
استعمار ہوتا ہے ، جو عوام کے نام پر فرعون بن بیٹھے ۔
نام ہو جمہوریت کا 
لیکن پارٹی کے اندرونی الیکشن کا نام لینے والے کو شر پسند ، احمق ، غدار ، بکا ہوا یا بریف کیا ہوا کا لیبل لگا کر دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے ، یا کہ کسی نامعلوم کی گولی سے مر جائے اور پارٹی لیڈر کو نئے نعرے دے کر جائے ۔
پاکستان میں تعلیم ہی اس طرح کی دی گئی ہے کہ
لوگ معجزوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔
پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح کے کردار کا انتظار ہے جی سیاسی اور حقیقی دنیا میں ۔
برستی گولیوں میں ایک گنڈاسے کے ساتھ دشمنوں کی کشتیوں کے پشتے لگا دے۔
مظلوم کی آواز بغیر کسی لاؤڈ سپیکر کے میلوں دور تک سن  لے اور موٹی موٹی زنجیریں توڑ کر 
دنون کا فاصلہ سیکنڈوں میں طے کرتا ہوا آئے اور ظالموں کو سزا بھی دے اور مظلوم کی اشک شوئی بھی ۔
ڈورون حملوں کو روکنے کی بڑکیں ہیں 
لیکن پھر ان داتا امریکہ کی مار کون کھائے گا؟
بجلی کی کمی بس دور ہوئی ہی جاتی ہے
کیسے کہاں سے کون سی مشین سے ؟
بس جی بڑکاں ای بڑکاں تے 
چمچے ای چمچے ۔
کوئی کسی کس چمچہ اور کوئی کسی کا
اور ہیڈ چمچہ ہوگا فرشتوں کا چمچہ
اور فرشتے؟
نازک مقامات بھی آتے ہیں جی سوالوں میں ۔
ایک چمچہ در چمچہ کا کلچر ہے
کہ ہر چمچہ اندر سے خوف زدہ ہے ۔ 
اور اس خوف سے نجات کے لئے اپنے سے طاقت ور کی چمچہ گیری ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts