ہفتہ، 17 اگست، 2013

فوٹواں اور یاداں



یہ فوٹو مجھے ماضی کی یادوں کے ایک سیلاب میں غرق کر گئی ۔ چالیس سال گزر گئے ۔
چہروں پر عمر رفتہ کے ظالم ناخنوں کی خراشیں ہیں ۔ اور سروں میں خواری کی دھول کی سفیدی نظر اتی ہے
اور جس کے بال سفید نہیں ہیں ،
اس کالک میں بدنامیوں کی کالک لگی کالک جھلکتی ہے۔
قبرستان کے ساتھ چوکھنڈیاں بنی ہیں ۔
کسی پیر فیملی کی یاد میں ہاڑ کے مہینے کی آٹھارہ کو میلا بھی لگتا ہے ۔
لیکن یہیں میرا پرائمری سکول بھی ہے ۔
اب شائد سکول محدود ہو گیا ہے
لیکن میرے بچپن میں یہ سکول جہاں چھاؤں دیکھی ، وہیں جماعت بیٹھا دیتے تھے اساتذہ کرام ۔
انیس سو ستر سے انیس سو پچھتر تک میں اسی سکول میں پڑھتا تھا ۔
ماسٹر اقبال صاحب اور ماسٹر لطیف صاحب باورے والے مجھے بڑی اچھی طرح یاد ہیں اور کچھ اساتذہ کے دھندلے نقوش۔
IMG_0295قبروں کا مجاور ہوتا تھا ، سائیں غفور جو کہ سانپوں سے کھیلتا تھا۔بدھ کے دن یہ سائیں "پھیری" پر نکلتا تھا۔
ہر گھر کے دروازے پر اس نے ایک مخصوص صدا دینی ہوتی تھی۔
جس صدا میں کوئی التجا نہیں ہوتی تھی کوئی بھیک مانگنے کا تاثر نہیں ہوتا تھا ۔
ہر گھر سے سائیں غفور کو کچھ ناں کچھ مل ہی جاتا تھا۔
یہ "کچھ" نقدی کم اور اناج زیادہ ہوتا تھا۔
میرے دوسری جماعت کے دنوں میں اس سائیں غفور نے شادی بنا لی تھی اور ایک فربہ سے خاتون کو کہیں سے لے ایا تھا۔ جو کہ سائیں کے لئے مخصوص کمرے میں مغربی دیوار کے ساتھ کچھ پردے لگا کر رہنے لگی تھی ۔
لیکن چند ماہ ہی ہوئے کہ یہ خاتون فوت ہو گئی تھی ۔
جس کی قبر ہماری جماعت کے بیٹھنے والے پلاٹ کے بلکل ہی ساتھ بنادی گئی اور سائیں غفور نے اس قبر کو پکا بھی کردیا تھا ۔
مجھے یاد ہے کہ ہم لوگ اس قبر کو بنچ کے طور ہر اور کرسی کے طور پر کہ ایک تھڑے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
پہلے پہل تو سائیں غفور منع کرتا تھا لیکن پھر یہ قبر ہم آزادی سے استعمال کرتے تھے ۔
سائیں ٖغفور کے ساتھ ایک اور کردار کا ذکر ناں کرنا تلونڈی کی تاریخ کے ساتھ بے ایمانی ہو گی۔
وہ کردار تھا منشی گولے یاں والا!!۔
کھوئے والے برف کے گولے بنانے والا منشی ، جو کہ باورے سے ہمارے گاؤں تلونڈی ، برف کے گولے بیچنے آتا تھا۔
منشی اپنا سائیکل کوٹھی کی دیوار کے ساتھ کھڑا کرتا تھا۔
ٹھیک اس جگہ جہاں اب "عبدلہ شاہ غازی " نامی ارشد کھوکھرعرف بلے کا سٹور ہے اس کے دروازے کے سامنے۔
سائیں غفور اور منشی گولیاں والے سگے بھائی تھے۔
سائیں غفور درویش ہو گیا اور دوسرا بھائی اپنا سا کاروبار کرتا تھا ۔
یہاں قبرستان میں جہاں سائیں لوک بھنگ چرس وغیرہ کا شغل کرتے اور ان کے پاس ہی پرائمری سکول کی کلاسیں لگتی تھی ۔
لیکن معاشرے میں ایک توازن پایا جاتا تھا ، بچوں اور بھنگیوں کی حدود متعین تھیں ۔
کیسے؟
میں اج اپنی بچپن کی یادوں کے سہارے لکھنے کی کوشش کرتا ہوں
اس تحریر میں کچھ بزرگوں کے نام آئیں گے ، یہ وہ لوگ تھے جن کی بنائی ہوئی روایات اور رسوم کی وجہ سے تلونڈی میں نشئی لوگ اور معزز لوگ ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔
جن لوگوں میں اج بزرگ لکھ رہا ہوں ، ہمارے بچپن میں سبھی اپنے زمانے کے جوان تھے۔
لیکن نشے کے خلاف تھے ۔
چوہدری مرید حسین تھانیدار ، چوہدری منظور مرزائی ۔بابا سکندر یہ لوگ اور کئی معزز لوگ تھے جو کہ ان سائیں لوگوں کے پاس ہی بیٹھا کرتے تھے۔
اور یہاں " پاشا" کے کھیل کے میچ ہوا کرتے تھے۔
حقہ کشید کرنے کے شوقین بھی کزرتے ہویئ بیٹھ جایا کرتے تھے ۔
لیکن یہ معزز لوگ کسی بچے کو یہاں ٹھرنے نہیں دیا کرتے تھے
اگر کوئی بچہ کھڑا ہو کر سائیں لوگوں کی ایکٹویٹی کو غور سے دیکھنے لگتا تھا تو
بزرگ لوگ اس بچے کو جھڑک کر دور کردیا کرتے تھے۔
یہ وجوہات تھیں میرے گاؤں کے لوگوں کی نشے سے دور رہنے کی ۔
بہت بعد میں غالبآٓ انیس سو پچانوے میں ، میں اور مظہر سنیارا اور تاری مرزائی یہاں گزر رہے تھے کہ سائیں سلوکی کو آگ دھکاتے دیکھا تو اس کو آگ دیکھانے میں مدد کرنے لگے۔
سائیں سلوکی چائے کا قہوہ بنا رہا تھا۔
جب قہوہ تیار ہو گیا تو اس نے اس قہوے کو المونیم کے ٹیڑھے میڑھے "کول" میں ڈال کر چسکیان لینی شروع کیں
اور دعوت کے انداز میں ہم سے پوچھا کہ " پینی اے"؟؟
تاری مرزائی کا جواب اس کے گھر کی اس کی تربیت کا ایک اعلی ثبوت ہے ۔
تاری نے کہا
کہ اس ڈیرے کا تو سونے کا نوالی بھی ہو تو منہ میں نہیں ڈالنا!!!۔

IMG_0296 IMG_0295 IMG_0301 IMG_0300 IMG_0299 IMG_0298 IMG_0297 IMG_0296 IMG_0295 IMG_0294 IMG_0292

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts