پاک گندگی
افریقہ میں یہ محسوس ہوا کہ
کالے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس قوم کا رنگ جتنا سفید ہے وہ اتنی دولت مند ہے۔
دیسی لوگ یعنی براؤن لوگ افریقہ کے مشرقی ساحلوں کے ممالک میں کاروباری ہیں ۔
جن میں ہندؤں کی تعداد زیادہ ہے لیکن کاروباری ہونے کی وجہ سے عام افریقیوں کی نسبت ممتول ہیں ۔
اس کے بعد کے رنگون کی سفیدی؟
گورے ، اور مشرق بعید کی اقوام کو تو جی پاکستانی بھی امیر سمجھتے ہیں ۔
بھکاری اور بخشیش کے امیدوار یہان بھی ہوتے ہیں
لیکن
ان کی ایک بات بڑی پسند ائی
کہ
جس کو جو بھی دے دو اس پر شکرگزار ہوتا ہے
اگر اپ کہیں کہ یہ کون سی عجیب بات ہے
ےو
اپ نے پاکستان نہیں دیکھا ہے۔
پاکستان میں اپ ائیرپورٹ پر ٹرالی والے کو ایک سو ڈلر کا نوٹ بھی دے کر دیکھ لیں ۔
اس کے منہ سے نکلے گا۔
بس اتنے سے ہی۔
سو ڈالر جو کہ امریکہ اور جاپان جیسے امیر معاشروں میں بھی ایک اہمیت رکھتا ہے۔
جاپان اور امریکہ کے باشندوں کی ایک بڑی اکثریت کی ایک دن کی کمائی سو ڈالر سے کم ہوتی ہے۔
لیکن پاکستان میں انتی رقم کی بخشیش پر بھی " بس اینے کو ای" کا لفظ سن کر میں نے تو ائیر پورٹ پر سے ٹرالی والے کو یا ٹیکسی والے کو کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
اس لئے نہیں کہ میں بخیل ہوں
اس لئے کہ
میں ان لوگوں کو افورڈ نہیں کر سکتا۔
پاکستان کے پورے معاشرے میں دیکھ لیں کہ
اگر باہر سے کوئی دوست تحفہ لے کر ائے تو
جب تک لیپ ٹاپ کمپیوٹر ناں ہو ۔ اس کو تحفہ ہی نہیں سمجھا جاتا
اور اگر لیپ ٹاپ بھی ہوتا ، وصول کر کے سنا دیا جاتا ہے
کہ
ہاں یہاں پاکستان میں بھی چائینہ والا تیس پینتس میں مل جاتا ہے ۔
افریقہ کے ملک تنزانیہ میں دیکھا کہ
پاکستان کی طرح کچرے کی بہتات نہیں ہے
کاغذوں اور پلاسٹک کا کچرا بھی نہیں اڑ رہا تھا
اور
انسانی فضلہ تو کہیں دیکھا ہی نہیں ۔
جیسا کہ وہاں پاکستان میں ہوتا ہے
اپ کسی بھی ابادی کے مکانوں کے پچھواڑے چلے جائیں ، گوجرانوالہ میں ریل کی پٹری پر دیکھ لیں۔
پاکستان میں ہر چیز کا نام پاک ہوتا ہے
پاک فوج، پاک روپی،پاک اسلام
اب اس طرح کر لیں کہ پاکستان کی گندگی کو بھی پاک گندگی کہ لیا کریں کہ
پاکستان میں ایسا ہی رواج ہے
پاکستان میں جو بندہ ٹوائلٹ کا کام کرئے گا
وہ زرداری کی طرح امیر ہو سکتا ہے
وہ ائیڈیا کیا ہے
کہ
کالے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس قوم کا رنگ جتنا سفید ہے وہ اتنی دولت مند ہے۔
دیسی لوگ یعنی براؤن لوگ افریقہ کے مشرقی ساحلوں کے ممالک میں کاروباری ہیں ۔
جن میں ہندؤں کی تعداد زیادہ ہے لیکن کاروباری ہونے کی وجہ سے عام افریقیوں کی نسبت ممتول ہیں ۔
اس کے بعد کے رنگون کی سفیدی؟
گورے ، اور مشرق بعید کی اقوام کو تو جی پاکستانی بھی امیر سمجھتے ہیں ۔
بھکاری اور بخشیش کے امیدوار یہان بھی ہوتے ہیں
لیکن
ان کی ایک بات بڑی پسند ائی
کہ
جس کو جو بھی دے دو اس پر شکرگزار ہوتا ہے
اگر اپ کہیں کہ یہ کون سی عجیب بات ہے
ےو
اپ نے پاکستان نہیں دیکھا ہے۔
پاکستان میں اپ ائیرپورٹ پر ٹرالی والے کو ایک سو ڈلر کا نوٹ بھی دے کر دیکھ لیں ۔
اس کے منہ سے نکلے گا۔
بس اتنے سے ہی۔
سو ڈالر جو کہ امریکہ اور جاپان جیسے امیر معاشروں میں بھی ایک اہمیت رکھتا ہے۔
جاپان اور امریکہ کے باشندوں کی ایک بڑی اکثریت کی ایک دن کی کمائی سو ڈالر سے کم ہوتی ہے۔
لیکن پاکستان میں انتی رقم کی بخشیش پر بھی " بس اینے کو ای" کا لفظ سن کر میں نے تو ائیر پورٹ پر سے ٹرالی والے کو یا ٹیکسی والے کو کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
اس لئے نہیں کہ میں بخیل ہوں
اس لئے کہ
میں ان لوگوں کو افورڈ نہیں کر سکتا۔
پاکستان کے پورے معاشرے میں دیکھ لیں کہ
اگر باہر سے کوئی دوست تحفہ لے کر ائے تو
جب تک لیپ ٹاپ کمپیوٹر ناں ہو ۔ اس کو تحفہ ہی نہیں سمجھا جاتا
اور اگر لیپ ٹاپ بھی ہوتا ، وصول کر کے سنا دیا جاتا ہے
کہ
ہاں یہاں پاکستان میں بھی چائینہ والا تیس پینتس میں مل جاتا ہے ۔
افریقہ کے ملک تنزانیہ میں دیکھا کہ
پاکستان کی طرح کچرے کی بہتات نہیں ہے
کاغذوں اور پلاسٹک کا کچرا بھی نہیں اڑ رہا تھا
اور
انسانی فضلہ تو کہیں دیکھا ہی نہیں ۔
جیسا کہ وہاں پاکستان میں ہوتا ہے
اپ کسی بھی ابادی کے مکانوں کے پچھواڑے چلے جائیں ، گوجرانوالہ میں ریل کی پٹری پر دیکھ لیں۔
پاکستان میں ہر چیز کا نام پاک ہوتا ہے
پاک فوج، پاک روپی،پاک اسلام
اب اس طرح کر لیں کہ پاکستان کی گندگی کو بھی پاک گندگی کہ لیا کریں کہ
پاکستان میں ایسا ہی رواج ہے
پاکستان میں جو بندہ ٹوائلٹ کا کام کرئے گا
وہ زرداری کی طرح امیر ہو سکتا ہے
وہ ائیڈیا کیا ہے
کہ