شاستر
مستان نامی ایک جگه ہے نیپال میں
جهاں پہنچنے کے لیے
ایورسٹ سر کرنے سے تھوڑی هی کم مصیبت اٹھانی پڑتی ہے
یہاں کے رهنے والے لوگ بہت هی غریب هیں
ناں خوراک اچھی اور ناں هی زندگی کی کوئی اور سہولت
ایک دن یهاں سے ایک "کافر" کا گزر هوا
یه کافر هے بقول مولوی کے
اور اگر کسی درویش نے دیکھا تو دنیا دار کتا کہے گا
اور یه کافر اگر ان دونوں کو دیکھے گا بھی تو؟
کومنٹ دینے سے زیادھ اس کو کچھ "اور " چیزوں کی فکر هو گی
تو جی یه بنده تھا ایک جاپانی
ستر کی دھائی میں جاپان کی حکومت کے ایک پروگرام کے مطابق مستان کی چوٹیوں پر گیا تھا
که یهان رهنے والے لوگوں کی بهتری کے لیے کام کرسکے
تیز هواؤں اور خشک ٹھنڈک والی ان چوٹیوں پر گھاس بھی کم هی اگتی هے
اور زمیں هے که
جس کو اردو ميں بنجر کہیں گے
بنجر که جس مٹی میں پتھر اتنے زیاد هوں که ہل چلانا بھی مشکل هو
اس بندے نے مستان کے لوگوں کو کچھ دینے کا تہیه کر لیا
اور اس نے ان کو
کھیتی باڑی کا طریقه بتایا
که
پہاڑوں سے انے والے پانی کو کھڑا کرنے کے لیے پتھروں سے روکاوٹیں کھڑی کیں
هوا سے اوٹ دینے والی پہاڑیوں کی اوٹ میں درخت اور کھاس اگائی
اور یهاں سبزیاں اگائیں
اب مجھے اس کا نام یاد نهں ارها
لیکن اس جاپانی کی عمر اس وقت
نوے سال ہے
اور ابھی زندھ ہے
گھوڑے پر بیٹھے اس بابے کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر ایک یا دو جوان چلتے هیں
گندے کپڑے پہنے میلے سے چهروں والے دیهاتیوں کے چہرے اس بابے کو دیکھ کر کھل اٹھتے هیں
بابے کا کام هتھیلی پر سرسوں جمانے والا نهیں تھا
که
روم ایک دن میں نهیں بن جاتا
سبزیوں کی کاشت کے لیے زمین کو تیار کرنے سے لے کر
سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار تک
ایک عرصه لگا
یه پھل اور سبزیاں مستان کے لوگوں کے دسترخوان پر رونق کا باعث بنیں
پیٹ بھر کر کھانا نصیب هوا تو
اگلے ایک عرصے ميں ان سبزیوں اور پھلوں کو مارکیٹ تک پہنچا کر
کمائی کا راسته بنایا
تب جا کر مستان کے لوگوں میں
اپنے انسان هونے کا احساس پیدا هوا
که اس وقت تک مستان کے جوان کمائی کے لیے شهروں کی طرف چلے جایا کرتے تھے که دیهاتوں میں بابے اور مائیاں هی ره جاتی تھیں
جب مقاممی لوگوں کو روزگار ملا تو
یه باهر جانے کے روحجان میں کمی آئی تو جی
جاپانی بابے نے ان دیهاتیوں کے بچوں کے لیے
تعلیم کا انتظام بھی کر دیا
که
ان کو سکول بنا دیا
اور ان کی صحت کے لیے ایک شفا خانه بھی بنوا دیا
ایک بندے نے
اپنی جوانی
کسی اور ملک کے لوگوں کی بھلائی کے لیے وقف کر کے
اپنی ساری صلاحتیں
مستان کے لوگوں کے لیے لگا دیں
پاک سوچ کے مطابق سوال پیدا هوتا هے که
اپنے لیے کیا بنایا؟؟
کچھ بھی نهیں
نان سوئس بنکوں میں اکاؤنٹ
اور ناں هی اسلام اباد کے پلاٹ
اور ناں هی سڑکوں اور پلوں کے افتتاح کی تختیاں
لیکن یه بابا
بڑا مطعمن هے نوے سال کی عمر میں بھی
کیوں که اس سے جب زمینوں کی بحالی کا کام کیا تو
سب لوگوں کی زمین جیسے اسی کی زمیں سی بن گئی
اور اپنا بھی فارم بنا لیا
جس میں ایک گھر بھی هے
ساری زندگی اچھا کھانا کھایا
اپنی مرضی کے گھر ميں رها
ایک سوال
زندگی کیا ہے؟؟؟
جواب
جو دن هم گزار رهے هیں !!ـ
تو جی اس کا مطلب هوا که اگر کسی کا اج اچھا نهیں هے تو اس کی زندگی اچھی نہیں هے
اگر کوئیاپنی اچھی زندگی کے لیے اپنا اج برا کرکے کمارها هے تو
اس کے سارے اج برے هوں گے
تو
اس کی اچھی زندگی کب شروع هو گی ؟؟
کبھی نهیں !!!ـ
تو جی بابے نے اپنی ساری زندگی
اپنی خواهش کے مطابق گزاری ہے
که اس کی خواهش هی کسی کے کام انا تھا
کسی کے کام انے کی خواهش کی تکمیل
اور اس کی لذت
کے ساتھ ساتھ
اچھا کھانا
اچھے کپڑے
اچھا مکان
اور اچھی سواری
که بابا جی کے پاس اچھے گھوڑے هیں
اب ایک بہترین بڑهاپا
لوگ بابے کے اگے پیچھے پھرتے هیں اور دل سے خواهش کرتے هیں که باباجی
همیشه زندھ رهیں
یه تحریر اس بات کے تناظر میں لکھی ہے که
پاکستان میں جب بھی
ارباب اختیار سے بات هوتی ہے که ملک کے معاشی حالات کی بہتری کے لیے کچھ کریں
تو
ان کے منه
سے نکل جاتا هے
تے پیسے کتھوں اؤن گے