اتوار، 10 جولائی، 2011

پاکستان کے اہل علم

پاکستان میں کسی کا کسی بڑے عهدے پر هونا
اس کے سیانے هونے کی دلیل نهیں هوتی هے
بلکه اس کی
سفارش کے تگڑے هو نے کی دلیل هوتی هے
جاپان میں خبروں کی سائیٹ کے ایڈیٹر اور جاپان انٹرنیشل پریس کلب کے صدر شاہد چوھدری صاحب کا فون آیا که
جمعه کی رات اتھ بجے ٹوکیو پہنچ جائیں
جنگ کے کالم نگار عرفان صدیقی صاحب کی دعوت کی هے
اس لیے میں جمعے کی شام ٹوکیو گیا
پینڈو شهر میں
اکے بکرو کے اسٹیشن کے قریب مرحبا ریسٹورینٹ ميں تقریب تھی
اهل علم سے ملاقات بندے کو صدیوں کے مطالعه گا چسکا دو جاتی هے جی
اہل علم سے ملاقات
لیکن جی
جس طرح که میں نے اوپر ذکر کیا ہے که
پاکستان میں کسی کا کسی بڑے عهدے پر هونا
اس کے سیانے هونے کی دلیل نهیں هوتی هے
بلکه اس کی
سفارش کے تگڑے هو نے کی دلیل هوتی هے
اس لیے
عرفان صدیقی صاحب سے ملاقات میں علم میں اضافه هو تو
لیکن
اس بات کے علم کا که پاکستان میں گزار کرنا کیسے هے
ان کی تقریر میں سب سے پہلے اس بات کا ذکر کیا گیا که جی پاکستان ميں انے والی هر حکومت دباؤ میں هوتی هے
اور تیس سال تو جی " انہوں " نے خود هی حکومت سنبھالے رکھ هے جی پاکستان کی ساتھ ساله تاریخ میں !!!ـ
لو جی نون لیگ خوش
لیکن یه بات سن کر میں نے سوچا که عرفان صدیقی صاحب
پاکستان پہنچ کر غائب ناں هو جائیں
لیکن جی
صدیقی صاحب نے
اس کے بعد پاک فوج کے ایک بڑے اور منظم ادارے هونے کی بابت بڑی وضاحت سے بتایا
اور ان کے پاکستان کے لیے ناگزیر جیسا هونا وغیرھ وغیرھ
اس کے بعد جی
پاکستان کے بڑے بڑے دماغوں
لیڈروں
اور پردھانوں کی سوچ کی انتہا کی بات شروع کردی جی
انهوں نے که پاکستان کے لوگ بڑے دل والے هیں اور چندھ وغیرھ دینے میں بڑے سخی هیں جی
اور میں نے اس کے لیے چندے کا کها تو
اتنا پیسه جمع هو گیا اور میں نے کسی کے لیے کها تو
یه هو گیا
ایک بیمار بچے کے لیے
کوشش کی وغیرھ وغیرھ
تقریر لمبی هی هوتی جارهی تھی
تو میں نے جی
ان کے منه سے دعائیه خواهش نکلتے هیں
اونچی آواز میں آمین کهنا شروع کر دیا
دوسری آمین میں کچھ اور بھی شال هو گئے اور تیسری امین پر صدیقی صاحب نے تقریر ختم کرنے کی مہربانی کی اور
کھانا شروع هوا
کھانا بڑا مزے دار تھا
گوشت پالک
تے
لونے چاول
سب لوگ تقریباً کھانا کھا چکے تھے میں صدیقی صاحب کی کرسی کے پاس گیا اور پوچھا که
کیا اپ کو علم ہے که
لوگ اردو میں بلاگ بھی لکھتے هیں؟؟
ان کا جواب تھا که جی نهں جی
مجھے علم نهیں هے
اردو کے انسائکلوپیڈیا کے متعلق علم هے ؟؟
جی نهیں جی علم نهیں هے
پھر میرے منه سے نکل گیا که
اچھا جی یعنی که جو لکھنے والے کسی میڈیا کے جغادری سے تعلق نهیں رکھتے
اپ ان کا علم هی نهیں رکھتے؟
تو ان کا جواب تھا جی مجھے ان باتون کا کچھ علم نهیں هے
تو جی یه حال هے
ان اهل علم کا
ان کو اج کی دنیا میں کیا هو رها هے
کتنے نئے ستارے طلوع هو رهے هیں
ان سیاستدانون کے حاشیه آراؤں
نے
اپنے سپانسروں کے مفادات کے گرد اتنے حاشیے لگائے هیں که
اج کے پاکستان میں ناں سیاست
هے ناں ادارے
ناں سسٹم ہے
ناں ڈسپلن
بس جی حاشیے هی حاشیے هیں
حالانکه تحریر هو گی تو اس کا حاشیه بھی اچھا لگے گا
یا تصویر هو گی تو اس حاشیه بھی هو سکتا هے
لیکن
جی
پاکستان میں تو پچھلی تین نسلوں نے صرف حاشیے دیکھے هیں
مغالطے هی مغالطے
اور مبالغے هی مبالغے

اس لیے اگر میری یه تحریر آپ کو خاور کی بونگی ماری لگے
تو
یاد رهے
که
خاور تو ایک عام سا بندھ ہے ناں جی
ناں که تگڑی سفارش سے کسی جغادری اخبار کا
کالم نگار

7 تبصرے:

میرا پاکستان کہا...

اسے بونگی نہیں بلکہ حقیقت کہا جائے گا۔ اچھا کیا جو آپ نے اردو بلاگرز اور وکیپیڈیا کے بارے میں انہیں آگاہ کیا۔ اب امکان غالب ہے کہ وہ ضرور اس میڈیا کے بارے میں بھی سوچیں گے۔

راشد کامران کہا...

اردو اخبارات کے بیشتر کالم نگار ( اپنے تئیں سابقہ صحافی)ایک ہی ٹیمپلیٹ پر مستقل کالم لکھتے ہیں۔۔ کالم بھی کیا، کہہ لیں حکایات رومی کی جدید شکل۔ بلاگنگ، اردو انسائکلو پیڈیا اور ویب یہ انکی ٹیمپلیٹ کے بدترین دشمن ہیں۔

ڈاکٹر جواد احمد خان کہا...

میرے خیال میں آج کی صحافت اپنی کا سارا کمال اپنی نیک نامی کو برقرار رکھتے ہوۓ اپنے شخصی مفادات کی حفاظت تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے. کالم نگاروں کی ایک بہت بڑی اکثریت یہی کام کر رہی ہے اور اپنے قلم کی قیمت وصول کر رہی ہے. عطاالحق قاسمی ، عرفان صدیقی صاحب یہ کام نواز شریف کے لئے ، نذیرناجی اور عباس مہکری پیپلز پارٹی کے لئے ، ہارون الرشید بظاھر عمران خان کے لئے اور درحقیقت ایجنسیوں کے لئے اور نجم سیٹھی امریکا کے لئے ...اس بازار میں سب نے اپنی قیمتیں لگائی ہوئی ہیں اور اپنا سیانا پن کیش کروا رہے ہیں...

جعفر کہا...

راشد صاحب نے بالکل درست کہا۔ایک ہی سانچہ بنا رکھا ہے، کالم نویسوں نے اور عرضی نویسوں کی طرح نام پتہ بدل کے، گاہک کو بیچی جارہے ہیں

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

عرفان صدیقی صاحب کا غالبا آتھ مرلے کا گھر ہے۔

ممکن ہے انکی دلچسپی ایک پاکستانی کی حیثیت سے نواز شریف کے ساتھ ہوں جوکہ باعث ندامت نہیں۔ کیونکہ ہر پاکستانی تقریبا کسی نہ کسی جماعت اور پارٹی کا قائل نظر آتا ہے مگر یہ ان گنے چنے ۔ صحافیوں میں سے ہیں ۔ جنہوں نے پاکستانی کی صحافی دنیا میں شرافت اور صداقت کو قائم رکھا اور نواز شریف کے خلاف بھی لکھا اور حق میں میں بھی لکھا۔ مگر انصاف کے عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا۔

جب پاکستان کے نوے پچانوے فیصد صحافی مشرف کی مدح سرائی میں لکھ رہے تھے۔ عرفان صدیقی کو کریڈت جاتا ہے کہ انہوں پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر کے خلاف لکھا اور بے دھڑک لکھا۔

اس بات کی گواہی نوائے وقت کے وہ صحفات دینگے جن پہ عرفان صدیقی اس وقت کی حکومت یعنی اور مشرف کے خلاف لکھتے تھے۔

ممکن ہے انھیں ارادو بلاگنگ کے بارے نہ علم ہو ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ویسے بھی لوگ بہت کم کمیوٹر استتعمالتے ہیں اور بجلی ویسے بھی ساتھ نہیں دیتی۔ وہاں انٹیر ںیٹ پہ بلاگنگ صرف اور صرف اردو یا انگریزی میں ہاکستان سے دلچسپی رکھنے والے کمپیوٹر کو استعمالنے والے لوگ ہی آپس میں ایک دوسرے کو پڑھتے ہیں یا اس پہ لکھتے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے باہر نسبتا اچھے وسائل رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اسلئیے لازمی نہیں کہ پاکستان میں لوگ روازانہ پاکستانی بلاگز دیکھتے ہوں۔

آپ نے انھیں بتایا ہے اچھا کیا ہے۔ مگر ایک شخص کی کسی خاس موضوع یا تکینک کے بارے میں لا علمی کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ مثلا ہم نے اپنے ﷽ائی علاقے میں کرڑوں روپے خرچ کر کے دنیا کی ہر جدید سہولت کا بندوبست کر رکھا ہے ۔ جس میں بستی میں یوروپ و امریکہ کی طرح بجلی کے پول اور پری بستی میں پچیس تیس سال قبل سے سیوریج سسٹم کا بندبست کیا ہوا ہے۔ مگر اس بجی کا کیا کریں جو جب گھنٹے کے لئیے جاتی تھی اور پی ٹی سی والوں کے ایکسچینج سے چودہ چودہ گھنٹے لائنز ڈیڈ پڑی ہوتی تھیں ۔ جواب انکا یہ ہوتا تھا جی ہماری بیٹریز چارج نہیں ہو پاتیں بجلی آنے جانے کی وجہ سے۔ انھیں باہزار حجت بجلی جنریٹر کا بندوسبت کیا۔ ایسے حالات میں کسطرح باقی دنیا سے رابطے میں رہا جاسکتا ہے؟

جہاں تک فوج اور اداروں کی بات ہے ۔ اس بارے آزما کر دیکھ لیں پاکستان کی کوئی بھی زمہ دار شخصیت عام میٹنگ میں پاکستان سے باہر کبھی بی قطعی طور پہ فوج تو درکنار پاکستان کی عام صرتحال یا اسکی وقت کی حکومت جسے وہ خود بھی نااہل سمجھتے ہوں۔ اس پہ تنقید نہیں کریں گے۔ اور یوں صرف پاکستان کی شخصیات کا پاکستان کے ساتھ ۔ بیرون ممالک رویہ نہیں۔ بلکہ اس بارے تقریبا پوری مہذب دنیا کے لوگ یہ ہی رویہ اپناتے ہیں۔
یہ بات میں دعوے سے کہہ رہا ہوں

اس سلسلے میں صرف پاکستانی گھٹیا سیاستدانوں کو اشتناء حاصل ہے۔

باقی دنیا کے سیاستدان بھی پاکستان سے باہر کوئی اپنی سیاسی جماعت کی کھاؤ تنظیمیں نہیں بناتے

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

عرفان صدیقی صاحب کا غالبا آتھ مرلے کا گھر ہے۔

ممکن ہے انکی دلچسپی ایک پاکستانی کی حیثیت سے نواز شریف کے ساتھ ہوں جوکہ باعث ندامت نہیں۔ کیونکہ ہر پاکستانی تقریبا کسی نہ کسی جماعت اور پارٹی کا قائل نظر آتا ہے مگر یہ ان گنے چنے ۔ صحافیوں میں سے ہیں ۔ جنہوں نے پاکستانی کی صحافی دنیا میں شرافت اور صداقت کو قائم رکھا اور نواز شریف کے خلاف بھی لکھا اور حق میں میں بھی لکھا۔ مگر انصاف کے عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا۔

جب پاکستان کے نوے پچانوے فیصد صحافی مشرف کی مدح سرائی میں لکھ رہے تھے۔ عرفان صدیقی کو کریڈت جاتا ہے کہ انہوں پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر کے خلاف لکھا اور بے دھڑک لکھا۔

اس بات کی گواہی نوائے وقت کے وہ صحفات دینگے جن پہ عرفان صدیقی اس وقت کی حکومت یعنی اور مشرف کے خلاف لکھتے تھے۔

ممکن ہے انھیں ارادو بلاگنگ کے بارے نہ علم ہو ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ویسے بھی لوگ بہت کم کمیوٹر استتعمالتے ہیں اور بجلی ویسے بھی ساتھ نہیں دیتی۔ وہاں انٹیر ںیٹ پہ بلاگنگ صرف اور صرف اردو یا انگریزی میں ہاکستان سے دلچسپی رکھنے والے کمپیوٹر کو استعمالنے والے لوگ ہی آپس میں ایک دوسرے کو پڑھتے ہیں یا اس پہ لکھتے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے باہر نسبتا اچھے وسائل رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اسلئیے لازمی نہیں کہ پاکستان میں لوگ روازانہ پاکستانی بلاگز دیکھتے ہوں۔

آپ نے انھیں بتایا ہے اچھا کیا ہے۔ مگر ایک شخص کی کسی خاس موضوع یا تکینک کے بارے میں لا علمی کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ مثلا ہم نے اپنے ﷽ائی علاقے میں کرڑوں روپے خرچ کر کے دنیا کی ہر جدید سہولت کا بندوبست کر رکھا ہے ۔ جس میں بستی میں یوروپ و امریکہ کی طرح بجلی کے پول اور پری بستی میں پچیس تیس سال قبل سے سیوریج سسٹم کا بندبست کیا ہوا ہے۔ مگر اس بجی کا کیا کریں جو جب گھنٹے کے لئیے جاتی تھی اور پی ٹی سی والوں کے ایکسچینج سے چودہ چودہ گھنٹے لائنز ڈیڈ پڑی ہوتی تھیں ۔ جواب انکا یہ ہوتا تھا جی ہماری بیٹریز چارج نہیں ہو پاتیں بجلی آنے جانے کی وجہ سے۔ انھیں باہزار حجت بجلی جنریٹر کا بندوسبت کیا۔ ایسے حالات میں کسطرح باقی دنیا سے رابطے میں رہا جاسکتا ہے؟

جہاں تک فوج اور اداروں کی بات ہے ۔ اس بارے آزما کر دیکھ لیں پاکستان کی کوئی بھی زمہ دار شخصیت عام میٹنگ میں پاکستان سے باہر کبھی بی قطعی طور پہ فوج تو درکنار پاکستان کی عام صرتحال یا اسکی وقت کی حکومت جسے وہ خود بھی نااہل سمجھتے ہوں۔ اس پہ تنقید نہیں کریں گے۔ اور یوں صرف پاکستان کی شخصیات کا پاکستان کے ساتھ ۔ بیرون ممالک رویہ نہیں۔ بلکہ اس بارے تقریبا پوری مہذب دنیا کے لوگ یہ ہی رویہ اپناتے ہیں۔
یہ بات میں دعوے سے کہہ رہا ہوں

اس سلسلے میں صرف پاکستانی گھٹیا سیاستدانوں کو اشتناء حاصل ہے۔

باقی دنیا کے سیاستدان بھی پاکستان سے باہر کوئی اپنی سیاسی جماعت کی کھاؤ تنظیمیں نہیں بناتے

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

عرفان صدیقی صاحب کا غالبا آتھ مرلے کا گھر ہے۔

ممکن ہے انکی دلچسپی ایک پاکستانی کی حیثیت سے نواز شریف کے ساتھ ہوں جوکہ باعث ندامت نہیں۔ کیونکہ ہر پاکستانی تقریبا کسی نہ کسی جماعت اور پارٹی کا قائل نظر آتا ہے مگر یہ ان گنے چنے ۔ صحافیوں میں سے ہیں ۔ جنہوں نے پاکستانی کی صحافی دنیا میں شرافت اور صداقت کو قائم رکھا اور نواز شریف کے خلاف بھی لکھا اور حق میں میں بھی لکھا۔ مگر انصاف کے عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا۔

جب پاکستان کے نوے پچانوے فیصد صحافی مشرف کی مدح سرائی میں لکھ رہے تھے۔ عرفان صدیقی کو کریڈت جاتا ہے کہ انہوں پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر کے خلاف لکھا اور بے دھڑک لکھا۔

اس بات کی گواہی نوائے وقت کے وہ صحفات دینگے جن پہ عرفان صدیقی اس وقت کی حکومت یعنی اور مشرف کے خلاف لکھتے تھے۔

ممکن ہے انھیں ارادو بلاگنگ کے بارے نہ علم ہو ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ویسے بھی لوگ بہت کم کمیوٹر استتعمالتے ہیں اور بجلی ویسے بھی ساتھ نہیں دیتی۔ وہاں انٹیر ںیٹ پہ بلاگنگ صرف اور صرف اردو یا انگریزی میں ہاکستان سے دلچسپی رکھنے والے کمپیوٹر کو استعمالنے والے لوگ ہی آپس میں ایک دوسرے کو پڑھتے ہیں یا اس پہ لکھتے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے باہر نسبتا اچھے وسائل رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اسلئیے لازمی نہیں کہ پاکستان میں لوگ روازانہ پاکستانی بلاگز دیکھتے ہوں۔

آپ نے انھیں بتایا ہے اچھا کیا ہے۔ مگر ایک شخص کی کسی خاس موضوع یا تکینک کے بارے میں لا علمی کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ مثلا ہم نے اپنے ﷽ائی علاقے میں کرڑوں روپے خرچ کر کے دنیا کی ہر جدید سہولت کا بندوبست کر رکھا ہے ۔ جس میں بستی میں یوروپ و امریکہ کی طرح بجلی کے پول اور پری بستی میں پچیس تیس سال قبل سے سیوریج سسٹم کا بندبست کیا ہوا ہے۔ مگر اس بجی کا کیا کریں جو جب گھنٹے کے لئیے جاتی تھی اور پی ٹی سی والوں کے ایکسچینج سے چودہ چودہ گھنٹے لائنز ڈیڈ پڑی ہوتی تھیں ۔ جواب انکا یہ ہوتا تھا جی ہماری بیٹریز چارج نہیں ہو پاتیں بجلی آنے جانے کی وجہ سے۔ انھیں باہزار حجت بجلی جنریٹر کا بندوسبت کیا۔ ایسے حالات میں کسطرح باقی دنیا سے رابطے میں رہا جاسکتا ہے؟

جہاں تک فوج اور اداروں کی بات ہے ۔ اس بارے آزما کر دیکھ لیں پاکستان کی کوئی بھی زمہ دار شخصیت عام میٹنگ میں پاکستان سے باہر کبھی بی قطعی طور پہ فوج تو درکنار پاکستان کی عام صرتحال یا اسکی وقت کی حکومت جسے وہ خود بھی نااہل سمجھتے ہوں۔ اس پہ تنقید نہیں کریں گے۔ اور یوں صرف پاکستان کی شخصیات کا پاکستان کے ساتھ ۔ بیرون ممالک رویہ نہیں۔ بلکہ اس بارے تقریبا پوری مہذب دنیا کے لوگ یہ ہی رویہ اپناتے ہیں۔
یہ بات میں دعوے سے کہہ رہا ہوں

اس سلسلے میں صرف پاکستانی گھٹیا سیاستدانوں کو اشتناء حاصل ہے۔

باقی دنیا کے سیاستدان بھی پاکستان سے باہر کوئی اپنی سیاسی جماعت کی کھاؤ تنظیمیں نہیں بناتے

Popular Posts