پاکستان کے اہل علم
پاکستان میں کسی کا کسی بڑے عهدے پر هونا
اس کے سیانے هونے کی دلیل نهیں هوتی هے
بلکه اس کی
سفارش کے تگڑے هو نے کی دلیل هوتی هے
جاپان میں خبروں کی سائیٹ کے ایڈیٹر اور جاپان انٹرنیشل پریس کلب کے صدر شاہد چوھدری صاحب کا فون آیا که
جمعه کی رات اتھ بجے ٹوکیو پہنچ جائیں
جنگ کے کالم نگار عرفان صدیقی صاحب کی دعوت کی هے
اس لیے میں جمعے کی شام ٹوکیو گیا
پینڈو شهر میں
اکے بکرو کے اسٹیشن کے قریب مرحبا ریسٹورینٹ ميں تقریب تھی
اهل علم سے ملاقات بندے کو صدیوں کے مطالعه گا چسکا دو جاتی هے جی
اہل علم سے ملاقات
لیکن جی
جس طرح که میں نے اوپر ذکر کیا ہے که
پاکستان میں کسی کا کسی بڑے عهدے پر هونا
اس کے سیانے هونے کی دلیل نهیں هوتی هے
بلکه اس کی
سفارش کے تگڑے هو نے کی دلیل هوتی هے
اس لیے
عرفان صدیقی صاحب سے ملاقات میں علم میں اضافه هو تو
لیکن
اس بات کے علم کا که پاکستان میں گزار کرنا کیسے هے
ان کی تقریر میں سب سے پہلے اس بات کا ذکر کیا گیا که جی پاکستان ميں انے والی هر حکومت دباؤ میں هوتی هے
اور تیس سال تو جی " انہوں " نے خود هی حکومت سنبھالے رکھ هے جی پاکستان کی ساتھ ساله تاریخ میں !!!ـ
لو جی نون لیگ خوش
لیکن یه بات سن کر میں نے سوچا که عرفان صدیقی صاحب
پاکستان پہنچ کر غائب ناں هو جائیں
لیکن جی
صدیقی صاحب نے
اس کے بعد پاک فوج کے ایک بڑے اور منظم ادارے هونے کی بابت بڑی وضاحت سے بتایا
اور ان کے پاکستان کے لیے ناگزیر جیسا هونا وغیرھ وغیرھ
اس کے بعد جی
پاکستان کے بڑے بڑے دماغوں
لیڈروں
اور پردھانوں کی سوچ کی انتہا کی بات شروع کردی جی
انهوں نے که پاکستان کے لوگ بڑے دل والے هیں اور چندھ وغیرھ دینے میں بڑے سخی هیں جی
اور میں نے اس کے لیے چندے کا کها تو
اتنا پیسه جمع هو گیا اور میں نے کسی کے لیے کها تو
یه هو گیا
ایک بیمار بچے کے لیے
کوشش کی وغیرھ وغیرھ
تقریر لمبی هی هوتی جارهی تھی
تو میں نے جی
ان کے منه سے دعائیه خواهش نکلتے هیں
اونچی آواز میں آمین کهنا شروع کر دیا
دوسری آمین میں کچھ اور بھی شال هو گئے اور تیسری امین پر صدیقی صاحب نے تقریر ختم کرنے کی مہربانی کی اور
کھانا شروع هوا
کھانا بڑا مزے دار تھا
گوشت پالک
تے
لونے چاول
سب لوگ تقریباً کھانا کھا چکے تھے میں صدیقی صاحب کی کرسی کے پاس گیا اور پوچھا که
کیا اپ کو علم ہے که
لوگ اردو میں بلاگ بھی لکھتے هیں؟؟
ان کا جواب تھا که جی نهں جی
مجھے علم نهیں هے
اردو کے انسائکلوپیڈیا کے متعلق علم هے ؟؟
جی نهیں جی علم نهیں هے
پھر میرے منه سے نکل گیا که
اچھا جی یعنی که جو لکھنے والے کسی میڈیا کے جغادری سے تعلق نهیں رکھتے
اپ ان کا علم هی نهیں رکھتے؟
تو ان کا جواب تھا جی مجھے ان باتون کا کچھ علم نهیں هے
تو جی یه حال هے
ان اهل علم کا
ان کو اج کی دنیا میں کیا هو رها هے
کتنے نئے ستارے طلوع هو رهے هیں
ان سیاستدانون کے حاشیه آراؤں
نے
اپنے سپانسروں کے مفادات کے گرد اتنے حاشیے لگائے هیں که
اج کے پاکستان میں ناں سیاست
هے ناں ادارے
ناں سسٹم ہے
ناں ڈسپلن
بس جی حاشیے هی حاشیے هیں
حالانکه تحریر هو گی تو اس کا حاشیه بھی اچھا لگے گا
یا تصویر هو گی تو اس حاشیه بھی هو سکتا هے
لیکن
جی
پاکستان میں تو پچھلی تین نسلوں نے صرف حاشیے دیکھے هیں
مغالطے هی مغالطے
اور مبالغے هی مبالغے
اس لیے اگر میری یه تحریر آپ کو خاور کی بونگی ماری لگے
تو
یاد رهے
که
خاور تو ایک عام سا بندھ ہے ناں جی
ناں که تگڑی سفارش سے کسی جغادری اخبار کا
کالم نگار
7 تبصرے:
اسے بونگی نہیں بلکہ حقیقت کہا جائے گا۔ اچھا کیا جو آپ نے اردو بلاگرز اور وکیپیڈیا کے بارے میں انہیں آگاہ کیا۔ اب امکان غالب ہے کہ وہ ضرور اس میڈیا کے بارے میں بھی سوچیں گے۔
اردو اخبارات کے بیشتر کالم نگار ( اپنے تئیں سابقہ صحافی)ایک ہی ٹیمپلیٹ پر مستقل کالم لکھتے ہیں۔۔ کالم بھی کیا، کہہ لیں حکایات رومی کی جدید شکل۔ بلاگنگ، اردو انسائکلو پیڈیا اور ویب یہ انکی ٹیمپلیٹ کے بدترین دشمن ہیں۔
میرے خیال میں آج کی صحافت اپنی کا سارا کمال اپنی نیک نامی کو برقرار رکھتے ہوۓ اپنے شخصی مفادات کی حفاظت تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے. کالم نگاروں کی ایک بہت بڑی اکثریت یہی کام کر رہی ہے اور اپنے قلم کی قیمت وصول کر رہی ہے. عطاالحق قاسمی ، عرفان صدیقی صاحب یہ کام نواز شریف کے لئے ، نذیرناجی اور عباس مہکری پیپلز پارٹی کے لئے ، ہارون الرشید بظاھر عمران خان کے لئے اور درحقیقت ایجنسیوں کے لئے اور نجم سیٹھی امریکا کے لئے ...اس بازار میں سب نے اپنی قیمتیں لگائی ہوئی ہیں اور اپنا سیانا پن کیش کروا رہے ہیں...
راشد صاحب نے بالکل درست کہا۔ایک ہی سانچہ بنا رکھا ہے، کالم نویسوں نے اور عرضی نویسوں کی طرح نام پتہ بدل کے، گاہک کو بیچی جارہے ہیں
عرفان صدیقی صاحب کا غالبا آتھ مرلے کا گھر ہے۔
ممکن ہے انکی دلچسپی ایک پاکستانی کی حیثیت سے نواز شریف کے ساتھ ہوں جوکہ باعث ندامت نہیں۔ کیونکہ ہر پاکستانی تقریبا کسی نہ کسی جماعت اور پارٹی کا قائل نظر آتا ہے مگر یہ ان گنے چنے ۔ صحافیوں میں سے ہیں ۔ جنہوں نے پاکستانی کی صحافی دنیا میں شرافت اور صداقت کو قائم رکھا اور نواز شریف کے خلاف بھی لکھا اور حق میں میں بھی لکھا۔ مگر انصاف کے عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا۔
جب پاکستان کے نوے پچانوے فیصد صحافی مشرف کی مدح سرائی میں لکھ رہے تھے۔ عرفان صدیقی کو کریڈت جاتا ہے کہ انہوں پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر کے خلاف لکھا اور بے دھڑک لکھا۔
اس بات کی گواہی نوائے وقت کے وہ صحفات دینگے جن پہ عرفان صدیقی اس وقت کی حکومت یعنی اور مشرف کے خلاف لکھتے تھے۔
ممکن ہے انھیں ارادو بلاگنگ کے بارے نہ علم ہو ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ویسے بھی لوگ بہت کم کمیوٹر استتعمالتے ہیں اور بجلی ویسے بھی ساتھ نہیں دیتی۔ وہاں انٹیر ںیٹ پہ بلاگنگ صرف اور صرف اردو یا انگریزی میں ہاکستان سے دلچسپی رکھنے والے کمپیوٹر کو استعمالنے والے لوگ ہی آپس میں ایک دوسرے کو پڑھتے ہیں یا اس پہ لکھتے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے باہر نسبتا اچھے وسائل رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اسلئیے لازمی نہیں کہ پاکستان میں لوگ روازانہ پاکستانی بلاگز دیکھتے ہوں۔
آپ نے انھیں بتایا ہے اچھا کیا ہے۔ مگر ایک شخص کی کسی خاس موضوع یا تکینک کے بارے میں لا علمی کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ مثلا ہم نے اپنے ﷽ائی علاقے میں کرڑوں روپے خرچ کر کے دنیا کی ہر جدید سہولت کا بندوبست کر رکھا ہے ۔ جس میں بستی میں یوروپ و امریکہ کی طرح بجلی کے پول اور پری بستی میں پچیس تیس سال قبل سے سیوریج سسٹم کا بندبست کیا ہوا ہے۔ مگر اس بجی کا کیا کریں جو جب گھنٹے کے لئیے جاتی تھی اور پی ٹی سی والوں کے ایکسچینج سے چودہ چودہ گھنٹے لائنز ڈیڈ پڑی ہوتی تھیں ۔ جواب انکا یہ ہوتا تھا جی ہماری بیٹریز چارج نہیں ہو پاتیں بجلی آنے جانے کی وجہ سے۔ انھیں باہزار حجت بجلی جنریٹر کا بندوسبت کیا۔ ایسے حالات میں کسطرح باقی دنیا سے رابطے میں رہا جاسکتا ہے؟
جہاں تک فوج اور اداروں کی بات ہے ۔ اس بارے آزما کر دیکھ لیں پاکستان کی کوئی بھی زمہ دار شخصیت عام میٹنگ میں پاکستان سے باہر کبھی بی قطعی طور پہ فوج تو درکنار پاکستان کی عام صرتحال یا اسکی وقت کی حکومت جسے وہ خود بھی نااہل سمجھتے ہوں۔ اس پہ تنقید نہیں کریں گے۔ اور یوں صرف پاکستان کی شخصیات کا پاکستان کے ساتھ ۔ بیرون ممالک رویہ نہیں۔ بلکہ اس بارے تقریبا پوری مہذب دنیا کے لوگ یہ ہی رویہ اپناتے ہیں۔
یہ بات میں دعوے سے کہہ رہا ہوں
اس سلسلے میں صرف پاکستانی گھٹیا سیاستدانوں کو اشتناء حاصل ہے۔
باقی دنیا کے سیاستدان بھی پاکستان سے باہر کوئی اپنی سیاسی جماعت کی کھاؤ تنظیمیں نہیں بناتے
عرفان صدیقی صاحب کا غالبا آتھ مرلے کا گھر ہے۔
ممکن ہے انکی دلچسپی ایک پاکستانی کی حیثیت سے نواز شریف کے ساتھ ہوں جوکہ باعث ندامت نہیں۔ کیونکہ ہر پاکستانی تقریبا کسی نہ کسی جماعت اور پارٹی کا قائل نظر آتا ہے مگر یہ ان گنے چنے ۔ صحافیوں میں سے ہیں ۔ جنہوں نے پاکستانی کی صحافی دنیا میں شرافت اور صداقت کو قائم رکھا اور نواز شریف کے خلاف بھی لکھا اور حق میں میں بھی لکھا۔ مگر انصاف کے عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا۔
جب پاکستان کے نوے پچانوے فیصد صحافی مشرف کی مدح سرائی میں لکھ رہے تھے۔ عرفان صدیقی کو کریڈت جاتا ہے کہ انہوں پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر کے خلاف لکھا اور بے دھڑک لکھا۔
اس بات کی گواہی نوائے وقت کے وہ صحفات دینگے جن پہ عرفان صدیقی اس وقت کی حکومت یعنی اور مشرف کے خلاف لکھتے تھے۔
ممکن ہے انھیں ارادو بلاگنگ کے بارے نہ علم ہو ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ویسے بھی لوگ بہت کم کمیوٹر استتعمالتے ہیں اور بجلی ویسے بھی ساتھ نہیں دیتی۔ وہاں انٹیر ںیٹ پہ بلاگنگ صرف اور صرف اردو یا انگریزی میں ہاکستان سے دلچسپی رکھنے والے کمپیوٹر کو استعمالنے والے لوگ ہی آپس میں ایک دوسرے کو پڑھتے ہیں یا اس پہ لکھتے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے باہر نسبتا اچھے وسائل رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اسلئیے لازمی نہیں کہ پاکستان میں لوگ روازانہ پاکستانی بلاگز دیکھتے ہوں۔
آپ نے انھیں بتایا ہے اچھا کیا ہے۔ مگر ایک شخص کی کسی خاس موضوع یا تکینک کے بارے میں لا علمی کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ مثلا ہم نے اپنے ﷽ائی علاقے میں کرڑوں روپے خرچ کر کے دنیا کی ہر جدید سہولت کا بندوبست کر رکھا ہے ۔ جس میں بستی میں یوروپ و امریکہ کی طرح بجلی کے پول اور پری بستی میں پچیس تیس سال قبل سے سیوریج سسٹم کا بندبست کیا ہوا ہے۔ مگر اس بجی کا کیا کریں جو جب گھنٹے کے لئیے جاتی تھی اور پی ٹی سی والوں کے ایکسچینج سے چودہ چودہ گھنٹے لائنز ڈیڈ پڑی ہوتی تھیں ۔ جواب انکا یہ ہوتا تھا جی ہماری بیٹریز چارج نہیں ہو پاتیں بجلی آنے جانے کی وجہ سے۔ انھیں باہزار حجت بجلی جنریٹر کا بندوسبت کیا۔ ایسے حالات میں کسطرح باقی دنیا سے رابطے میں رہا جاسکتا ہے؟
جہاں تک فوج اور اداروں کی بات ہے ۔ اس بارے آزما کر دیکھ لیں پاکستان کی کوئی بھی زمہ دار شخصیت عام میٹنگ میں پاکستان سے باہر کبھی بی قطعی طور پہ فوج تو درکنار پاکستان کی عام صرتحال یا اسکی وقت کی حکومت جسے وہ خود بھی نااہل سمجھتے ہوں۔ اس پہ تنقید نہیں کریں گے۔ اور یوں صرف پاکستان کی شخصیات کا پاکستان کے ساتھ ۔ بیرون ممالک رویہ نہیں۔ بلکہ اس بارے تقریبا پوری مہذب دنیا کے لوگ یہ ہی رویہ اپناتے ہیں۔
یہ بات میں دعوے سے کہہ رہا ہوں
اس سلسلے میں صرف پاکستانی گھٹیا سیاستدانوں کو اشتناء حاصل ہے۔
باقی دنیا کے سیاستدان بھی پاکستان سے باہر کوئی اپنی سیاسی جماعت کی کھاؤ تنظیمیں نہیں بناتے
عرفان صدیقی صاحب کا غالبا آتھ مرلے کا گھر ہے۔
ممکن ہے انکی دلچسپی ایک پاکستانی کی حیثیت سے نواز شریف کے ساتھ ہوں جوکہ باعث ندامت نہیں۔ کیونکہ ہر پاکستانی تقریبا کسی نہ کسی جماعت اور پارٹی کا قائل نظر آتا ہے مگر یہ ان گنے چنے ۔ صحافیوں میں سے ہیں ۔ جنہوں نے پاکستانی کی صحافی دنیا میں شرافت اور صداقت کو قائم رکھا اور نواز شریف کے خلاف بھی لکھا اور حق میں میں بھی لکھا۔ مگر انصاف کے عمل کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا۔
جب پاکستان کے نوے پچانوے فیصد صحافی مشرف کی مدح سرائی میں لکھ رہے تھے۔ عرفان صدیقی کو کریڈت جاتا ہے کہ انہوں پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر کے خلاف لکھا اور بے دھڑک لکھا۔
اس بات کی گواہی نوائے وقت کے وہ صحفات دینگے جن پہ عرفان صدیقی اس وقت کی حکومت یعنی اور مشرف کے خلاف لکھتے تھے۔
ممکن ہے انھیں ارادو بلاگنگ کے بارے نہ علم ہو ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ویسے بھی لوگ بہت کم کمیوٹر استتعمالتے ہیں اور بجلی ویسے بھی ساتھ نہیں دیتی۔ وہاں انٹیر ںیٹ پہ بلاگنگ صرف اور صرف اردو یا انگریزی میں ہاکستان سے دلچسپی رکھنے والے کمپیوٹر کو استعمالنے والے لوگ ہی آپس میں ایک دوسرے کو پڑھتے ہیں یا اس پہ لکھتے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے باہر نسبتا اچھے وسائل رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اسلئیے لازمی نہیں کہ پاکستان میں لوگ روازانہ پاکستانی بلاگز دیکھتے ہوں۔
آپ نے انھیں بتایا ہے اچھا کیا ہے۔ مگر ایک شخص کی کسی خاس موضوع یا تکینک کے بارے میں لا علمی کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ مثلا ہم نے اپنے ﷽ائی علاقے میں کرڑوں روپے خرچ کر کے دنیا کی ہر جدید سہولت کا بندوبست کر رکھا ہے ۔ جس میں بستی میں یوروپ و امریکہ کی طرح بجلی کے پول اور پری بستی میں پچیس تیس سال قبل سے سیوریج سسٹم کا بندبست کیا ہوا ہے۔ مگر اس بجی کا کیا کریں جو جب گھنٹے کے لئیے جاتی تھی اور پی ٹی سی والوں کے ایکسچینج سے چودہ چودہ گھنٹے لائنز ڈیڈ پڑی ہوتی تھیں ۔ جواب انکا یہ ہوتا تھا جی ہماری بیٹریز چارج نہیں ہو پاتیں بجلی آنے جانے کی وجہ سے۔ انھیں باہزار حجت بجلی جنریٹر کا بندوسبت کیا۔ ایسے حالات میں کسطرح باقی دنیا سے رابطے میں رہا جاسکتا ہے؟
جہاں تک فوج اور اداروں کی بات ہے ۔ اس بارے آزما کر دیکھ لیں پاکستان کی کوئی بھی زمہ دار شخصیت عام میٹنگ میں پاکستان سے باہر کبھی بی قطعی طور پہ فوج تو درکنار پاکستان کی عام صرتحال یا اسکی وقت کی حکومت جسے وہ خود بھی نااہل سمجھتے ہوں۔ اس پہ تنقید نہیں کریں گے۔ اور یوں صرف پاکستان کی شخصیات کا پاکستان کے ساتھ ۔ بیرون ممالک رویہ نہیں۔ بلکہ اس بارے تقریبا پوری مہذب دنیا کے لوگ یہ ہی رویہ اپناتے ہیں۔
یہ بات میں دعوے سے کہہ رہا ہوں
اس سلسلے میں صرف پاکستانی گھٹیا سیاستدانوں کو اشتناء حاصل ہے۔
باقی دنیا کے سیاستدان بھی پاکستان سے باہر کوئی اپنی سیاسی جماعت کی کھاؤ تنظیمیں نہیں بناتے
ایک تبصرہ شائع کریں