ظہیر کیانی اور تھرڈ پرسن
پاکستان کے طاقت ور ترین بندے ، جناب اشفاق کیانی صاحب کے اصلی والے سالے جناب ظہیر کیانی صاحب سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
جاپان کی کین اباراکی کے ایک گاؤں سووا ماچی میں ، اب یہ گاؤں کوگا شہر میں شامل ہو کر کوگا شہر ہی کہلواتا ہے
انیس سو اٹھاسی میں میں نے جاپان انے کی کوشش شروع کردی تھی
اگر چہ کہ ان دنوں گوجرانوالہ سے دو ایجنٹ بھی بندے جاپان اسمگل کرتے تھے لیکن
کیوں کہ ہم لوگ غریب تھے ، ان کی فیس افورڈ نهیں کرسکتے تھے
اور کچھ ،جھے انگریزی بھی بولنی آتی تھی
اس لیے زمانے کے رواج کے مطابق میں خود کو سیانا بھی سمجھتا تھا کیوں کہ مجھے انگریزی اتی تھی اس لیے
یه اس زمانے کی بات
اب تو خود کو سیانا سمجھنے والا مغالطہ نکلے بھی زمانے هو گئے
ان دنوں همارے گاؤں کے علامه صاحب جاپان آ چکے تھے
تو جی میں نے علامه صاحب کا ایڈریس لیا اور جاپان پہنچ گیا
پوچھتا هوا میں ناریتا کے انٹرنیشنل ائر پورٹ سے ٹریں کا سفر کرتے کوگا کے اسٹیشن پر پہنچا
یہاں سے بس پر میں سووا کے محلے شاکا کے اسٹاپ کر اترا کیوںکہ علامہ صاحپ کا ایڈریس شاکا کا تھا
لیکن
بعد میں علم ہوا کہ میں ایڈریس کے نزدیک والے اسٹاپ سے ایک اسٹاپ پہلے اتر گیا تھا
اس لیے
مجھے پھر کسی سے پوچھا پڑا
اور جاپانیوں کا انگریزی ميں برا حال ہے
لیکن
شرافت مں اوّل نمبر کے ہیں
اس لیے جس بندے کو میں نے پوچھا اس کو سمجھ نہیں لگی لیکن اس نے کیا کیا کہ مجھے ساتھ لے کر پولیس چوکی پہنچ گیا
اب جی پولیس کو بھی انگریزی نهیں آتی تھی
تو؟
انهوں نےکیا کیا کہ
مجھے پٹرول کار میں بٹھایا اور اور ایک فیکٹری میں پہنچ گئے
سواتو سوگ نامی اس کمپنی میں
جناب اشفاق کیانی صاحب کے سالے ظہیر کیانی بھی کام کرتے تھے
علامه صاحب کا معلوم ہوا کہ وہ تو یہاں سے کام چھوڑ کر جاچکے ہیں
ظہیر کیانی صاحب یہاں غیر قانونی طریقے سے مقیم تھے
بغیر ویزے اور بغیر ورک پرمٹ کے
اس لیے پولیس کی فیکٹری میں امد سے کیانی صاحب خوف زدہ ہو گئے تھے کہ
اگر پولیس نے پکڑ کر واپس بھیج دیا تو پھر وہی غریبی دیکھنی ہو گی جس سے جان چھڑا کر جاپان آئے ہیں
اور میں بھی اسی خوف کا شکار تھا
کیانی صاحب کو میرے پر بڑا غصه ایا که
تم ٹیکسی پر نهیں آ سکتے تھے ؟؟
اوئے تم کتنے احمق ہو ؟
اؤے تم پولیس کو هی ساتھ لے کر آگئے هو؟
اسی لیے ہم تھرڈ پرسن کو منہ نہیں لگاتے
یه تھرڈ پرسن کو منہ ناں لگانے کا دعوہ انهوں نے
کوئی ایک سو بار کیا ہو گا ایک ہی دن میں
تو میں نے پوچھا جی اخر کیانی صاحپ بلا کیا ہیں ؟
تو معلوم ہوا کہ ان کے بہنوئی فوج میں بہت ہی بڑے افسر ہیں
میرے علم میں فوج کا اس سے بڑا عہدہ چیف اف آرمی اسٹاف کا ہی تھا
میں نے پوچھا که کیا چیف اف ارمی اسٹاف ہیں
تو
اقبال نے بتایا که چیف تو نهیں ہیں لیکن ہیں بهت ہی بڑے افسر
حالانکه اعلی نسلی کیانی صاحب کو دوسروں نے کہا بھی
اگر پولیس اس کو چھوڑنے آئی بھی تھی تو کیا هوا ؟
ہمیں تو کچھ نهیں کها ناں ؟
لیکن جی ان کا غصه ٹھنڈا هی نهیں هو رها تھا
که جی اکر هم پکڑے جاتے تو؟
تو میرے علم ميں اس وقت یه اضافه ہوا کہ
فوج کے لوگ ہم لوگوں کو بلڈی سویلین کہتے ہیں اور
ان کے رشتے دار ہم لوگوں کو
تھرڈ پرسن کہتے ہیں ،۔
اور فوج میں عہدوں کا صرف تھرڈ پرسن کو بتایا جاتا ہے
اصلی میں
ایک مخصوص گروە اس کو کنٹرول کرتا ہے جو ایک کے بعد دوسرا سامنے اتا رهتا ہے
اپنی ایمان داری سے بتائیں کہ کسی نے انیس سو اٹھاسی تک کسی اشفاق پرویز کیانی کا نام کہیں پڑھا یا سنا
تھا؟
سووا ماچی کی اس فیکٹری سے میں اگلے دن ایک ایجنٹ منیر کے گھر منتقل کردیا گیا تھا
جب تک میں یهاں رہا
ظہیر کیانی صاحپ کے منہ سے اپنے لیے تھرڈ پرس کا سنتا رہا اور دوسری بات جن کی تکرارا تھی وھ
تھی کہ
سواتا نامی جاپانی
جو که فورمین تھا
کیانی صاحب کو مسلسل گالیاں دیتا رہتا ہے
سواتا کی گالیوں سے بھی کیانی صاحب اتنے ہی بے مزه ہوئے جا رہے تھے جتنا کہ میرے پولیس کی گاڑی پر فیکٹری انے پر بے مزہ ہوئے تھے
جاپان کی کین اباراکی کے ایک گاؤں سووا ماچی میں ، اب یہ گاؤں کوگا شہر میں شامل ہو کر کوگا شہر ہی کہلواتا ہے
انیس سو اٹھاسی میں میں نے جاپان انے کی کوشش شروع کردی تھی
اگر چہ کہ ان دنوں گوجرانوالہ سے دو ایجنٹ بھی بندے جاپان اسمگل کرتے تھے لیکن
کیوں کہ ہم لوگ غریب تھے ، ان کی فیس افورڈ نهیں کرسکتے تھے
اور کچھ ،جھے انگریزی بھی بولنی آتی تھی
اس لیے زمانے کے رواج کے مطابق میں خود کو سیانا بھی سمجھتا تھا کیوں کہ مجھے انگریزی اتی تھی اس لیے
یه اس زمانے کی بات
اب تو خود کو سیانا سمجھنے والا مغالطہ نکلے بھی زمانے هو گئے
ان دنوں همارے گاؤں کے علامه صاحب جاپان آ چکے تھے
تو جی میں نے علامه صاحب کا ایڈریس لیا اور جاپان پہنچ گیا
پوچھتا هوا میں ناریتا کے انٹرنیشنل ائر پورٹ سے ٹریں کا سفر کرتے کوگا کے اسٹیشن پر پہنچا
یہاں سے بس پر میں سووا کے محلے شاکا کے اسٹاپ کر اترا کیوںکہ علامہ صاحپ کا ایڈریس شاکا کا تھا
لیکن
بعد میں علم ہوا کہ میں ایڈریس کے نزدیک والے اسٹاپ سے ایک اسٹاپ پہلے اتر گیا تھا
اس لیے
مجھے پھر کسی سے پوچھا پڑا
اور جاپانیوں کا انگریزی ميں برا حال ہے
لیکن
شرافت مں اوّل نمبر کے ہیں
اس لیے جس بندے کو میں نے پوچھا اس کو سمجھ نہیں لگی لیکن اس نے کیا کیا کہ مجھے ساتھ لے کر پولیس چوکی پہنچ گیا
اب جی پولیس کو بھی انگریزی نهیں آتی تھی
تو؟
انهوں نےکیا کیا کہ
مجھے پٹرول کار میں بٹھایا اور اور ایک فیکٹری میں پہنچ گئے
سواتو سوگ نامی اس کمپنی میں
جناب اشفاق کیانی صاحب کے سالے ظہیر کیانی بھی کام کرتے تھے
علامه صاحب کا معلوم ہوا کہ وہ تو یہاں سے کام چھوڑ کر جاچکے ہیں
ظہیر کیانی صاحب یہاں غیر قانونی طریقے سے مقیم تھے
بغیر ویزے اور بغیر ورک پرمٹ کے
اس لیے پولیس کی فیکٹری میں امد سے کیانی صاحب خوف زدہ ہو گئے تھے کہ
اگر پولیس نے پکڑ کر واپس بھیج دیا تو پھر وہی غریبی دیکھنی ہو گی جس سے جان چھڑا کر جاپان آئے ہیں
اور میں بھی اسی خوف کا شکار تھا
کیانی صاحب کو میرے پر بڑا غصه ایا که
تم ٹیکسی پر نهیں آ سکتے تھے ؟؟
اوئے تم کتنے احمق ہو ؟
اؤے تم پولیس کو هی ساتھ لے کر آگئے هو؟
اسی لیے ہم تھرڈ پرسن کو منہ نہیں لگاتے
یه تھرڈ پرسن کو منہ ناں لگانے کا دعوہ انهوں نے
کوئی ایک سو بار کیا ہو گا ایک ہی دن میں
تو میں نے پوچھا جی اخر کیانی صاحپ بلا کیا ہیں ؟
تو معلوم ہوا کہ ان کے بہنوئی فوج میں بہت ہی بڑے افسر ہیں
میرے علم میں فوج کا اس سے بڑا عہدہ چیف اف آرمی اسٹاف کا ہی تھا
میں نے پوچھا که کیا چیف اف ارمی اسٹاف ہیں
تو
اقبال نے بتایا که چیف تو نهیں ہیں لیکن ہیں بهت ہی بڑے افسر
حالانکه اعلی نسلی کیانی صاحب کو دوسروں نے کہا بھی
اگر پولیس اس کو چھوڑنے آئی بھی تھی تو کیا هوا ؟
ہمیں تو کچھ نهیں کها ناں ؟
لیکن جی ان کا غصه ٹھنڈا هی نهیں هو رها تھا
که جی اکر هم پکڑے جاتے تو؟
تو میرے علم ميں اس وقت یه اضافه ہوا کہ
فوج کے لوگ ہم لوگوں کو بلڈی سویلین کہتے ہیں اور
ان کے رشتے دار ہم لوگوں کو
تھرڈ پرسن کہتے ہیں ،۔
اور فوج میں عہدوں کا صرف تھرڈ پرسن کو بتایا جاتا ہے
اصلی میں
ایک مخصوص گروە اس کو کنٹرول کرتا ہے جو ایک کے بعد دوسرا سامنے اتا رهتا ہے
اپنی ایمان داری سے بتائیں کہ کسی نے انیس سو اٹھاسی تک کسی اشفاق پرویز کیانی کا نام کہیں پڑھا یا سنا
تھا؟
سووا ماچی کی اس فیکٹری سے میں اگلے دن ایک ایجنٹ منیر کے گھر منتقل کردیا گیا تھا
جب تک میں یهاں رہا
ظہیر کیانی صاحپ کے منہ سے اپنے لیے تھرڈ پرس کا سنتا رہا اور دوسری بات جن کی تکرارا تھی وھ
تھی کہ
سواتا نامی جاپانی
جو که فورمین تھا
کیانی صاحب کو مسلسل گالیاں دیتا رہتا ہے
سواتا کی گالیوں سے بھی کیانی صاحب اتنے ہی بے مزه ہوئے جا رہے تھے جتنا کہ میرے پولیس کی گاڑی پر فیکٹری انے پر بے مزہ ہوئے تھے
5 تبصرے:
بس جناب، ایسی ہی سادہ اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے لوگوں کا بھرم کھل جاتا ہے۔ کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اگلے کو پٹخنی لگا دی، یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اگلے کے ذہن کے کسی گوشے میں بیٹھ گئ ہے۔ اب وقت مقررہ پہ نکلے گی اور سب ہلا دے گی۔
جب طاقت کا قانون رائج ہو اور پسند اور سمجھ آتا ہو تو معاشروں کو جنگل ہی بننا پڑتا ہے۔ آخر کو ہم آج کیوں ایک جنگل میں رہ رہے ہیں۔
يہ تھرڈ پرسن صرف فوجيوں کے رشتہ دار نہيں کہتے بلکہ سويلين بيوروکريٹ بھی کہتے ہيں ۔ قصور ان کا نہيں ہے ۔ قصور ہے اُن سويلين لوگوں کا جو انہيں سر پر چڑھائے رکھتے ہيں ۔ ہمارے مُلک ميں ايسے سياسی ليڈر بھی پائے جاتے ہيں جو اپنے آپ کو عوام دوست کہتے ہيں اور تابعداری جرنيلوں کی کرتے ہيں ۔ آپ ہی بتايئے کہ آپ نے کتنے لوگ ديکھے ہيں جو ان اجاراداروں کے سامنے بولنے کی جُراءت رکھتے ہيں ؟ اگلے روز ايک ٹی وی مذاکرے ميں اپنے آپ کو بڑا روشن خيال اور تعليميافتہ خق پرست سمجھنے والے پی ايچ ڈی ھُود بھائی کی امريکا کے خلاف بات سُن کر پتلون گيلی ہو رہی تھی
جس دے ہتھ وچ ڈنڈا ہوندا اے اوہنوں باقی سارے ڈنگر ہی لگدے نیں۔
بس جی ساری بات وقت کی ہے، ساری دنیا ہمیں تھرڈ ورلڈ کہتی ہے، اور ہمارے ملک کے صاحب اقتدار و صاحب اختیار ہمیں مزید تھرڈ پرسن کہتے ہیں۔ اتنی تھرڈ ڈگری کے بعد تو سمجھ بھی نہیں آتا کہ ہم اصول ریاضی کے مطابق ہیں بھی یا نہیں۔
بہر کیف حال جاپان و کیانی و دل سنانے کا بہت بہت شکریہ۔
اچھا بلاگ ہے ایسے ہی شیئرینگ کرتے رہا کیجئے
ایک تبصرہ شائع کریں