اتوار، 29 مئی، 2011

اس سال گندم کا حال

میں نے اپنے بھائی کو پچھلے سال کے شروع مین هی بتا دیا تھا که
پاکستان میں گندم کی فصل اچھی هو گی
اس لیے جتنی زیادھ هو سکے خریداری کرلینا
کیوں که
سال دوهزار گیاره اور باره میں یورپ میں گندم کی فصل اچھی نهیں هو گی
اس لیے یورپ میں گندم کی مانگ بڑھے کی ، اگرچه که امریکه اور یوکرین یورپ کو گندم دے سکتے هں لیکن
پاکستان سے افغانستان اسمگل هونے والی گندم اور یورپی منڈی کی مانگ کو دیکھتے هوئے پاکستان ميں بھی گندم کے نرخ بڑھ جائیں گے
میرا بھائی زیادھ سیانا نهیں هے اس لیے میری بات مان لیتا هے
کیونکه اس کی تعلیم صرف چار جماعتیں هے
اس کے بعد اس نے گدھا ریڑھا بنا لیا تھا

مرتضے حاجی ننھا

لیکن کیونکه مجھے رسالے پڑھنے کا شوق تھا
تو
چھوٹے بھائی بھی بقول ابا جی کے اس عادت بد میں مبتلا هو چکے تھے
اس لیے اردو پڑھ لکھ لیتا هے اور انگریزی کو سن کر سمجھ لیتا هے

تو جی اب یورپ سے انے والی خبریں دیکھیں

دوسری بھی

گندم کی فصل اچھی ناں هونے کی خبریں انی شروع هو گئیں هیں
تو
اب کیا کرنا چاهیے؟؟
کم از کم اپنے خاندان کے کھانے کے لیے زخیرھ کر لینا چاهیے
باقی
اس بات کا لکھنے کا یا کسی کو بتانے ایک نقصان هو جائے گا
که
گندم کے بحران پر حکومت کو لعن طعن کرنے کی پوسٹوں کا مواد نهیں ملے گا
امیر بلاگروں کے لیے مشورھ ہے که
پاکستان ميں گندم زخیره کرلیں
کمائی کی "امید" هے
لیکن اگر روپے کی قدر هی کم هو گئی اس دوران



تو؟؟؟؟؟؟؟؟

6 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال کہا...

زندگی ميں پہلا بحران ذوالفقار علی بھٹو کے زمانہ ميں ديکھا تھا ۔ آٹا ۔ گھی ۔ چينی غائب ہو گئے تھے ۔ پياز جو ايک روپے کا 2 کلو ملتا تھا وہ اچانک 5 روپے کا ايک کلو بکنا شروع ہو گيا تھا ۔ سيزن کے بعد گلے سڑے پياز کے درجنوں ٹرک نالاہ لئی ميں پھينکے گئے تھے
پھر آٹے کا بحران آيا تھا جب نواز شريف وزير اعظم اور شہباز شريف وزيرِ اعلٰی پنجاب تھا مگر اس پر جلد ہی قابو پا ليا گيا تھا اس کے بع بحران پرويز مشرف کے زمانہ ميں شروع ہوا اور موجودہ حکومت کے دور ميں دن دونی رات چوگنی ترقی کی ۔ آج ميں اتوار بازار سبزی وغيرہ لينے گيا تو اروی 70 روپے کی ايک کلو بک رہی تھی ۔ ميں تو ڈر کے مارے قريب بھی نہيں گيا

Abdullah کہا...

جب بڑے میاں تاریخ پاکستان میں سے اپنی مرضی کے حصے نکال کر اپنی مرضی کی تاریخ skip کر کے سناتے ہیں تو ہنسی بھی آتی ہے اور شدید غصہ بھی،
آٹا چینی گھی پیاز سب بھٹو اٹھا کر اپنے گھر لے گیا تھا،
اور وہ جو بے چارے ان کے علاقے کے مومن دکاندار،ذخیرہ اندوز اور آڑھتی تھے بس منہ دیکھتے رہے،بے چارے!!!!!

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

سیانے کہتے ہیں جس بارے علم نہ ہو اس بارے اپنا "بُوتھا" یعنی "تھوبڑا" بند رکھنا چاہئیے۔ مگر سنگھے تم بھی کمال کی بےغیرتی کرتے ہو۔ تمہیں علم ہو یا نہ ہو ہر جگہ اپنا لعین تھوبڑا گھسیڑدیتے ہو۔ کسی ایویں کیوں ایوں کے دمدار سیارچے حیا کرو۔ ہر وقت افتخار اجل صاحب سے محض اسلئیے تم اپنا بغض زہر کی شکل انڈیلتے رہتے ہو کہ تمہاری "بِسّ" اور جھانویں یاوہ گوئی نے تمہیں کہیں کا نہیں رکھا ۔کیونکہ افتخار اجمل صاحب ایویں کیوں ایوں کا پول کھولتے رہتے ہیں جس سے تمہاری اور ایویں کیوں اویں کے بے غیرت انقلابیوں کی دم پہ پاؤں رہتا ہے اور تم اپنا لعین تھوبڑا انکے خلاف ہر جگہ گھسیڑنے سے باز نہیں آتے۔

افتخار اجمل صاحب سے کئی باتوں میں مجھے اختلاف رہا ہے مگر جو حقیقت ہو اسے تسلیم کرنا چاہئیے۔ جو لوگ پاکستان کی تاریخ پہ گہری نظر رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کسطرح بھٹو نے ایف ایس ایف بنائی ۔ سیاسی مخالفین کو قتل کروایا ۔ سہالہ کیمپ میں اپنے سیاسی حریفوں کو اسیر رکھا۔فسطائیت کا ایک دور تھا جو پوری قوم نے بھگتا۔ آج بھٹو کو شہید کا تقدس عطا کر کے اسے سارے سیاہ کارناموں سے نظر چرانے والے ابن الوقت خواہ تقدس کے کتنے پردے بھٹو کے دور حکومت کے گرد کھینچ لیں مگر تاریخ بدلی نہیں جاسکتی۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پہلی دفعہ اناج کا بحران آیا۔ جو بحران نہیں بلکہ بے غیرتی سے "راشن ڈپووں " کے نام سے پیپلز پارٹی کے جیالوں کو نوازنے کی پاکستان میں لعنتی رسم کا سرکاری طور پہ آغاز تھا۔ جس کا خمیازہ پاکستانی بے بس عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ بھٹو نے اپنی پارٹی کا ہولڈ ہر جگہ رکھنے کے لئیے پورے پاکستان میں کوچوانوں ۔ تانگہ بانوں ۔ گلی محلے کے دادا اور پہلوان قسم کے پارٹی جیالوں کو پورے ملک کے عوام کے رزق پہ "راشن بندی " کے نام پہ راشن ڈپو قائم کرتے ہوئے بٹھا دیا۔جس کے بعد عام استعمال کے بناسپتی گھی ۔ چینی۔ اور آٹے کے حصول لئیے پاکستان کی شدید موسموں میں عوام نے لمبی قطاروں میں کرب جھیلا اور عوام جن میں خواتین اور بزرگ شہری بھی تھے ۔ اکثر جب آٹا فروخت کرنے والے ٹرک یا راشن ڈپو تک پہنچ پاتے تو جیالے نہائت ڈھٹائی سے فروخت بغیر کسی وجہ کے بند کر دیتے کہ بابا کل آنا۔ وہی آٹا بعد میں دوگنی قیمت پہ عام بلیک ہوتا ۔

یہ آغاز تھا پاکستان میں عوام کو قابو رکھنے اور اپنے جیالوں اور کارکنوں کو نوازنے کی بے غیرت سیاست کا جسے بھٹو کے بعد میں آنے والوں نے اسے کمال بے غیرتی تک پہنچا دیا ہے۔ اور آج حالات یہ ہیں غریب عوام جیسے تیسے دواؤں کے لئیے مانگ تانگ کر پیسے اکھٹے کر کے اپنے کسی عزیز کے علاج کے لئیے دوائی خریدے تو وہ نقلی نکل آتی ہے۔ اوپر سے جئے بھٹو، ایک زراداری سب پہ بھاری ۔ گیلی پتلون مشرف ۔قائد انقلاب ، قائد تحریک الطاف حسین ۔ ہمارا شیر نواز شریف۔ اور پتہ نہیں کیا کیا چاپلوسی اور خوشامدی نعرے لگاتے پاکستانی عوام گلے پھاڑنے پہ مجبور کردیے گئے ہیں۔ محض اس رزق کے لئیے جسے دینے والا اللہ ہے مگر اس پہ دیتے ہوئے اپنے اپنے حلقے اور اپنے سیاسی حمایتیوں کو ذلیل کرنے والے یہ بے غیرت سیاستدان و حکمران ہیں ۔

اور ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔

Abdullah کہا...

گوندل گند،
زرا اپنی گندی آنکھیں کھولکر اور تعصب سے بھرا ذہن خالی کر کے پڑھو کہ میں نے اوپر کیا لکھا ہے اس کے بعد ٹیں ٹیں کرنا،
ہندوستان میں آج بھی راشن کارڈ چلتا ہے،تاکہ غریبوں کو سستا آٹا اور شکر مہیا کی جاسکے،
اب تم لوگوں کو ہر اچھے کام میں گند گھولنے کی بیماری ہو تو کوئی کیا کرسکتا ہے،
مانا کہ بھٹو مہا کمینہ تھا مگر یہ سب کرتوت جو تم نے اوپر لکھے ہیں،کیا یہ سب کرنے والے ہمارے تمھارے جیسے لوگ نہیں تھے،جب عوام ہی گھٹیا ہو تو حاکم آسمان سے بھی اتر کر آجائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا،
اور یہ سارے جیالے، بھٹو کیا اپنے گھر سے لےکر آیا تھا؟
تھے تو تمھارے ہی بھائی بند!
ویسے ایک بات بتاؤ یہ تم سارے فوج کے چمچوں کو بھٹو،لیاقت علی خان، بے نظیر سے ہی خاص نفرت کیوں ہے؟؟؟؟؟؟؟

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

عقل کے اندھے۔ جہاں جھاڑی دیکھتے ہو وہیں سنیگ پھنسا لیتے ہو۔


یہ سارے جعلی"شہید" سیاہ ست دان ہوں یا غازی جعلی انقلابئیے قائد۔ یا فوجی جرنیل جنتا۔ ان سبھوں نے جی بھر کے ملک کو لوٹا ہے اور اب جبکہ پاکستان کی نچڑی ہڈیوں میں شورا باقی نہیں بچا مگر یہ ان ہڈیوں کا بھی سودا کر لینا چاہتے ہیں۔

پوچھو تو کیوں؟ وہ اسلئیے کہ جب تک انھیں گروہ در گروہ بکھرے ہوئے پاکستانی کاٹھ کے الو عوام ملتے رہیں گے ۔ ان کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوگا۔

فارسی کی ایک مثال ہے۔ کہ "پیر خود نہیں اڑتا، اسے مریدان اڑاتے ہیں"۔ کیا سمجھے ؟

اتنی مغز ماری اسلئیے کی ہے کہ لسانی سیاسی، مسلکی اور صوبائی تعصبات سے نکل آؤ اور قوم کو ایک ہونے کا پیغام دو۔ آخر کار تم ھتے سے اکھڑنا اکب چھوڑ رہے ہو؟ قوم کو قطرہ بننے کا سبق نہیں بلکہ سمندر ہونے کی بشارت دینا سیکھو۔

اور ہاں یہ بھی اپنے آقاؤں امریکیوں کی سی آئی اے کو لکھ دینا۔ کہ وہ بھانسی چڑھا دیں۔

Abdullah کہا...

اور ہاں یہ بھی اپنے آقاؤں امریکیوں کی سی آئی اے کو لکھ دینا۔ کہ وہ بھانسی چڑھا دیں۔

کسے تمھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
فکر نہ کرو تم جیسوں کی موت تو ویسے ہی قریب ہے،

اور ہاں مغز ماری کرنے کے لیئے مغز کا ہونا ضروری ہوتا ہے،جبکہ تم تو ہمیشہ ہی سے فارغ ہو،
گز گز بھر لمبی بے مقصد بکواس سے قطرے سمندر نہیں بنا کرتے اس کے لیئے عمل کی ضرورت ہوتی ہے مثبت عمل کی،
اور تمھارا عمل تو تمھارے الفاظ سے ظاہر ہی ہورہا ہے،

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کا تبصرہ29th May, 2011 میں بھارت میں جتنے بے غیرت تھے۔ جن کی دو مرلے زمین نہیں تھی، جھوپروں میں رہتے تھے انیس ترپن کے بعد کراچی آکر حرام کے کلیمز سے بے غیرت سے بے غیرت تر ہوگئے جب اس سے بھی ہوس کا جنہم نہ بھرا تو ایویں کیوں ایویں میں بھرتی ہوگئے


تعصبات سے نکلنے کی نصیحت کرنے والے شیطان،
تم تو خود گوڈوں گٹوں تک تعصب میں ڈوبے ہو،دہشت گردوں کے ہمدرد!

Popular Posts