اتوار، 21 نومبر، 2010

شادیاں اور جوڑے

بھٹو کے دور میں کچھ دن یه رواج چلا تھا که لوگ ایک دوسری برادری میں شادی کرنے لگے تھے
لیکن پھر برادری میں شادی کا هی طریقہ چلتا آ رها ہے
میرے خیال میں برادری میں شادی کا روجحان اس لیے هے که لوگ خود کو معاشرے میں غیر محفوظ سمجھتے هیں
برادری میں شادیوں سے اپنے اتحاد اور تحفظ کا احساس هوتا ہے
کیونکہ حکومت لوگوں کو تحفظ کا احساس دے هی نہیں سکی
هر بندے کے دل میں ایک ڈر هے که یهاں بڑے بڑے لوگ هیں پته نهیں کس سے ٹھن جائے
اور جس کی سفارش هو گی جس کے تعلقات هوں کے وهی کامیاب هو گا
اور تعلقت میں پائیداری اپنی برادری سے هی پیدا هوتی ہے
هاں بھٹو کے دور ميں کچھ دن کاروباروں میں تیزی ائی تھی که عام لوگوں نے بھی پیسه دیکھا تھا
هر ادمی میں خود اعتمادی پیدا هوئی تھی
شائد اسی لیے لوگ بھٹو کو بھولتے هی نهیں هیں
که اس کے دور ميں کچھ عزت کا احساس پیدا هوا تھا
خود میرے ابا جی نے بھی دکان اور مکان ایک ساتھ هی ڈھا کر بنوانے شروع کردے تھے
ہمارے قصبے اور نزدیکی دیہات میں مشہور هو گیا تھا که ان کو دوکان کے ڈھانے پر پانڈا(برتن) ملا هے
برتن ملنے کی ٹرم ان دنوں اس لیے استعمال هوتی تھی که تقسیم کے دنوں میں ہندوستان چلے جانے والوں کی جائیداوں میں دبائے زیوارات ملے هیں ـ
ارینجڈ میرج تو اج بھی هوتی هے جیسا که پہلے هوا کرتی تھی لیکن اب محبت کرنے والے خود هی ارینج کرلیتے هیں
جو نہیں کرسکتے ان کی اخبار میں خبر لگ جاتی هے
جو که ہمیشه عورت کو ورق لگانے (ورغلانے)کی هوتی ہے
یه ارینجڈ میری بھی ایک هی عذاب هوتا هے جی
کوئی بندھ بات کررها تھا که جی هم دو بھائی تھے
دونوں هی خاندانی دشمنی میں دشمنوں کے هاتھو ں مارے گئے
سننے والے نے کہا که جی اپ تو زندھ هو!!ـ
تو اس بندے نے بتایا که ایک بھائی دشمنوں کی گولی لگنے سے مرا تھا که پنچائیت میں فصلہ هوا که قاتل کی بہن کا رشتہ مقتول کے بھائی کو دے دیا جائے
ایک طرح سے یه اس طرح سنائی دیتا تھا که قاتل کی بہن مقتول کے بھائی کو دے دی جائے
لیکن
جب سہاگ کی رات میں نے
گھونگٹ اٹھایا
تو میرے منه سے بھی یہی نکلا جی میں مرگيا
کیوں
یار میری بیوی کا نام تو بی بی اقبال هے
لیکن
وھ
لگتی بھائی اقبال ہے
گورے لوگ اچھے هیں جی اپس میں ایک دوسرے ٹھونک بجا کرشادی کرتے هیں
یا نہیں بھی کرتے که
ساری عمر اس پرکھنے کے کام میں گزر جاتی هے
قوت فیصله کی کمی هوتی هو گی ان میں !!ـ
سننے والے نے کہا
هاں یار یه گوروں میں قوت فیصلہ والے اور نہیں والے لوگ بلکل علیحدھ هی هیں
جو شادی کا فیصلہ جلدی کرتے هیں وھ طلاق کا بھی جلدی هی کرلیتے هیں اور پھر شادی کا بھی جلدی هی اور پھر اس شادی کی طلاق کا بھی
لیکن
جو فیصله نهیں کرسکتے وھ ساری زندگی ایک سے دوسرا ساتھی بدلتے اور اخری عمر میں کتے اور بلیوں کے ساتھ گزار دیتے هیں ـ
کتا کلچر !!ـ سننے والے نے تاسف سے کہا
تو جی اپنے کلچر کو کیا کہو گے؟
ارینجڈ میرج میں ملنے والی چیز کو جس جانور کا نام دو گے کیا وھی کلچر پاکستان کا هو گا ، کیا؟؟

10 تبصرے:

عثمان کہا...

نہیں۔۔
یہ وجہ صرف دیہات تک اہم ہوسکتی ہے۔ شہروں میں اس وجوہ کی اتنی اہمیت نہیں۔ اس کے باوجود شہروں میں بھی اپنی ذات برابری میں شادی کرنے کا بڑا مظبوط رواج ہے۔ ایک اور چیز غور کریں کہ معاملہ محض شادی تک بھی محدود نہیں۔ لوگ عموما اسی جگہ اور شہر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ان کی پیدائش اور پرورش ہوئی۔ اپنے آبائی پیشے سے جڑے رہنے کو ہی فوقیت دیتے ہیں۔ اپنے خاندان حسب نسب اور باپ کی حثیت پر فخر کرتے دیکھائے دیتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ آپ ان سب کی کیا توجیہہ پیش کرتے ہیں؟
میرے نزدیک بنیادی وجہ تعلیم اور اس سے پیدا ہونے والے شعور کا فقدان ہے۔ جو بالاآخر فضول رسم و رواج کو تقویت اور تسلسل دیتا ہے۔ بنیادی وجہ خود شناسی اور خود اعتمادی کی کمی ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ وہ اپنے زور بازو سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ترقی کرسکتے ہیں۔ تو بس انھیں پہلے سے بنے بنائے عارضی سہارے چاہیں۔ جو ان کی زندگی میں انھیں تقویت دے سکیں۔
اب ذرا انھیں وجوہات کو الٹا کردیکھیں تو آپ کو ترقی یافتہ معاشرے میں رسم و رواج کی کمزوری کی وجہ بھی سمجھ آجائے گی۔
شادی کے معاملے میں ایک بڑی معیوب چیز میں نے یہ دیکھی ہے کہ لوگ دوسری ذات برادری کے متعلق بہت منفی اور غیر حقیقی خیالات رکھتے ہیں جو ان کی روزمرہ کی زندگی سے متعلق ہیں۔ غیر ذات میں شادی کرتے وقت لوگوں کو یہ بہت فکر ہوتی ہے کہ غیر خاندان کے اطوار کیسے ہوں گے۔

fikrepakistan کہا...

کچھ عرصہ پہلے میں نے پنجاب اور دوسرے صوبوں کے دیہی علاقوں کی اس ہی جہالت کا ذکر کیا تھا تو خاور صاحب کو بہت ناگوار گزرا تھا۔ میرے کئی سوالوں کا جواب آج خاور صاحب نے خود ہی اپنی پوسٹ میں دے دیا۔ میں آپ کی شکایت سے سو فیصد متفق ھوں پاکستان کے دیہات صدیوں سے اس ہی جہالت کا شکار تھے اور ہیں، اور مستقبل بعید میں بھی اس جہالت سے نکلنے کا کوئی چانس نظر نہیں آتا، مجھے ہمدردی ھے آپ اور آپ جیسے متاثرہ لوگوں سے۔

یاسر خوامخواہ جاپانی کہا...

بہت خوب!۔
برادری میں شادی کی وجہ بھی ڈر ہی ہوتا ھے
اس ڈر کی بھی کئی وجوہات ہوں گی لیکن سب سے بڑی وجہ جہیز سسٹم اور اس کے بعد عورت کی حفاظت کا خیال۔۔۔۔غیر میں اپنی بچی دینے سے بھی لوگ ڈرتے ہیں کہ نہ جانے کیسے لوگ ہوں۔

عنیقہ ناز کہا...

کراچی میں اردو اسپیکنگ میں ذات برادری کا جھگڑآ نہیں ہے۔ اب ایسا زمانہ ہے کہ کسی سے بھی شادی کرنے پہ تیار ہو جاتے ہیں۔ وجہ؟ تقسیم کے وقت اکثر گھرانے توٹ پھوٹ گئے۔ یوں ذات برادری کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ چیز فیوڈل سوچ کے ساتھ چلتی ہے۔ جہاں برادری کی بنیاد پہ مضبوطی حاص کرنے کا سوچا جاتا ہے اور برادری کی بنیاد پہ اپنے مسائل حل کئے جاتے ہیں۔ کراچی میں برادری کی بنیاد پہ سیاست بھی نہیں ہوتی۔ میرا خیال ہے کہ اس حساب سے کراچی میں حالات بہتر ہیں۔
لیکن ہمارے یہاں بھی شادی کے مسائل ہوتے ہیں اور شدید ہیں۔ کوئ لڑکی اگر کم صورت ہو یا کم اسٹیٹس سے تعلق ہو تو برادری میں کہیں نہ کہیں کھپ جاتی ہے۔ مگر جب برادری کا ٹنٹا نہیں رہا تو لرخے کی اماں بلا مبالغہ ہزار لڑکیاں دیکھنے کے بعد بھی سوچ میں ہوتی ہیں کہ اس سے اچھی کوئ لڑکی ہو تو بتاءو۔ اس طرح وہ لڑکیاں جو شکل یا اسٹیٹس کے حساب سے کمزور ہیں وہ محروم رہ جاتی ہیں۔ اب یہ بتائیے کہ کیا شادی پہ حق صرف ان لڑکیوں کا ہے جو کسی نہ سی اداکارہ سے شباہت رکھتی ہیں یا جنکے والدین معاشی حیثیت سے مضبوط ہیں یا شادی ایک مسلم معاشرے میں ہر شخص کی جسمانی ضرورت کو جائز طریقے سے پورا کرنے کا نام ہے۔

کاشف نصیر کہا...

کراچی میں ایسا نہیں ہے جیسا عنیقہ جی کا ماننا ہے۔ گو بہت سی شادیاں ایسی ضرور ہیں اردو بولنے والوں میں بھی اکثر شادیوں میں زات برادری کا مسئلہ نظر آتا ہے۔ بہاری کی لڑکی بہاری کو ہی ملتی ہے۔ میمن میمنوں ہی میں شادی کرتے ہیں۔ دہلی والے دہلی والوں ہی میں رشتہ کو فوقیت دیتے ہیں اور یوپی کے یوپی لوگ یوپی والے ہی ڈھونڈتے ہیں اور حیدر آبادی حیدرآبادی ہی دیکھتے ہیں۔

ایم۔اے۔امین کہا...

میں عنیقہ ناز صاحبہ کی بات سے متفق ہوں۔ کہ اب یہ معاملہ کم از کم کراچی کی حد تک تو دیکھنے کو نہیں ملتا، مگر ہمارے جاگیردارانہ گھرانوں کے زیرِ اثر خاندانوں اور دیہاتوں میں آج بھی ذات برادری اور ادلے بدلے کی بے جوذ شادیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

عنیقہ ناز کہا...

بھیا کاشف نصیر، گمان ہے کہ آپ بہاری ہیں اور کراچی میں گلشن بہار کے علاقے میں رہتے ہیں۔ آپ اگر صرف اتوار کا جنگ اخبار اٹھا لیجئیے یا شہر کے معروف شادی دفتروں کے چکر لگا لیں تو آپکو اندازہ ہوگا کہ عنیقہ آپا کی بات کس حد تک صحیح ہے۔ سوائے میمنوں کے باقی یہ رواج کراچی میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ جن گھرانوں میں ہے وہ حد سے زیادہ روایت پسند یا دقیانوسی کہے جا سکتے ہیں۔ ادھر کراچی میں آجکل ہونے والی زیادہ تر شادیاں یا تو پسند کی ہوتی ہیں یا پھر والدین کو شادی سے پہلے کم از کم لڑکے کو پسند ضرور کروانا پڑتا ہے۔
خود میرے اپنے گھر میں لکھنوء، دہلی، علی گڑھ، بہار، الہ آباد، بھوپال، پنجاب اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں۔
ادھر اردو اسپیکنگ میں جو ذاتیں ہوتی ہیں وہ سید، پٹھان، مغل پٹھان،شیخ صدیقی، قریشی، اور انصاری شامل ہیں۔ یہ ترتیب برتری کے حساب سے ہے۔ ایک زمانے میں سیس سید میں اور پٹھآن پٹھانوں میں کرتے تھے۔ لیکن تقسیم کے بعد چونکہ لوگوں نے اپنی ذاتیں بھی تبدیل کی تو اب لوگ اس بات کے قائل ہو چلے ہیں کہ کون شجرہ ء نسب معلوم کروائے۔ انسان کا خود اچھا ہونا ضروری ہے۔ میں خود پٹھان ہوں، اور یہ نخرہ ہمارے یہاں بھی ایک نسل پہلے تک موجودتھا۔ لیکن اب اس نسل میں ہونے والی زیادہ تر شادیاں غیر پٹھانوں میں ہوئ ہیں۔
تو آپ کب جا رہے ہیں کسی شادی دفتر؟

عثمان کہا...

اللہ واسطے کوئی مجھے بھی بتا دے شادی دفتر کا پتا۔
دعائیں دوں گا۔
ذرا جلدی کیجئے مجھے ٹکٹ بھی بنوانا ہے۔

وقار اعظم کہا...

انیقہ جی کیا کہنے آپ کے گمان کے۔۔۔۔
سارے بہاری تو جی صرف گلشن بہار میں ہی رہتے ہیں باقی سارا کراچی تو اچے تے سچے مہاجروں کا ہے ہیں جی۔۔۔۔۔
باقی جناب میں کاشف کی بات سے متفق ہوں۔ کراچی میں شادیوں میں ذات اور برادریوں کا فیکڑ کسی حد تک اہمیت ضرور رکھتا ہے۔

Abdullah کہا...

اہمیت رکھتا ہے مگر سندھ پنجاب سرحد بلوچستان کی طرح جنونیت نہیں ہے اس مسئلے پر،کیا سمجھے بے عقل لوگ۔۔۔۔۔۔

Popular Posts