منگل، 23 نومبر، 2010

توہین کا قانون

میں کبھی بھی توہین رسالت یا توهین اسلام پر سزا کے قانون کا حامی نهیں بن سکتا
کیوں که میرے خیال میں
اگر ایک لوٹے پانی میں پیشاب کا قطرھ پڑ جائے تو لوٹے کا پانی پلید هوجاتا هے لیکن اگر کسی دریا میں کوئی شرارتی پیشاب کردے تو کیا هو گا؟؟
دریا کی بڑائی اس پلیدی کو پاک کردے گیا ور اترائ والے لوگ اس پانو کو پی سکنے تک پاک جانیں گے
اسی طرح اگر کوئی بندھ یه کہے که کسی غیر مسلم کو قران ناں دو که قران پلید هو جائے گا تو
میں اس کی بھی مخالفت کرتا هوں که
قران پلید نهیں هو گا
هاں وھ غیر مسلم پاک هو سکتا هے
ایک دفعہ میں بنکاک میں ایک جاپانی نوجوان سے باتیں کررها تھا
که بات مذہب کی چل پڑی تو اس کے کہا که هاں میں بھی اسلام کو تھوڑا سا پڑھا هوں
میں نے پوچھا که کیا پڑھا ہے
تو اس نے بتایا که
یه مذہب ایک بندے نے شروع کیا تھا
جس کو اس کے گاؤں والوں نے گاؤں سے نکال دیا تھا اور اس بندے نے زور حاصل کرکے اپنے ابائی گاؤں پر قبضه کرلیا تھا
اب اپ هی بتائیں که میں اس کو کیا کہوں بات تو ٹھیک هے لیکن انداز بیان کچھ زیادھ هی لاتعلق سا هے
که
بنی پاک و مکه چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی
یه بھی ایک حقیقت هے
اور بعد میں بنی پاک نے مکے پر فتح بھی حاصل کی
میں نے اس بندے کو بجائے غصہ کرنے کے ایک قہقہ لگیا اور کها که بات تو تمہاری سچی هے لیکں هم اس کو کچھ اسطرح کہتے هیں که٠٠٠٠٠٠
اور میں نے اس کو تفصیل سے بتایا که نبی پاک کا مذہب شروع کرنے سے پہلے کیا کردار تھا
اور ان کی مخالفت کرنے والے کون تھے اور کیا کیسے هوا تو
اس جاپانی کی تسلی هو گئی
لیکن کیا اکز وھ پاکستان میں هوتا تو
اگر اس کو توهین
کے قانون کے تحت مار بھی دیا جاتا تو اسلام کو کیا فائدھ تھا؟؟
لیکن جس طرح میں نے اس کو سمجھایا
اس طرح کم از کم ایک بندے کو تو اسلام کی معلومات ملیں که نهیں

11 تبصرے:

fikrepakistan کہا...

جو بات آپ نے بتائی ھے کم از کم یہ بات تو توہین رسالت صلی علیہ وسلم کے زمرے میں نہیں آتی۔ اور آپ نے جو اسے بریفنگ دی اس سے یقیناَ ایک غیر مسلم تک اسلام کا پیغام پہنچا ھے۔

خرم کہا...

غیر مسلموں پر تو توہین رسالت کا قانون لاگو ہی نہیں ہوتا کہ جب وہ رسالت کو ہی نہیں مانتے تو توہین کیسی؟ لیکن یہ بات ان کو کیسے سمجھ آئے جن کی روزی روٹی ہی کفر و شرک کے فتاوٰی جڑنا ہے؟

ABC کہا...

Dear brother ! uss japnies young boy sy ziada to app ko Islam k mutalik janany ki zaroorat hai...agar koi ghair muslim app k parents ko galian dy bura kahay Harami kahy to app kia kaho gy...its ok wo gair muslim hai is liye usy chor dia jay....To phir app ny ye kesy soch liya k koi ALLAh k sub sy Ziada pyary mahboob nabi ko bura kahy aur usuy mazid bura kahny k liye chor dia jay...
"App SAWW sy farmaya:tum my koi shakhas us waqt tak musalman nahi ho sakta jab tak wo sub sy barr kar mujay na chahy muj sy mohabat na kary....apny ghar walo sy b barr kar..."

Rahi app ki galat tarin mesal k na-pak gair muslim ko Quran hand-over kar dia jay, to sunaye...jab Hazrat Umar R.A ny Islam qabool nahi kia tha to tab app k(Hazrat Umar) bahnoi aur behan nay islam qabool kar lia tha ...jab Hazrat Umar ny quran k Kuch pages dakhany/parrny k liye magy to Hazrat umar ki behan ny uny Quranic pages dainy sy is liye Inkar Kar dia k app na-Pak hai...Pehly Gusal kary pak hoo phr app ko QuranPak dikhya ja sakta hai...

ABC کہا...

masala app ka nahi app ki tarbiat ka hai....Aksar log rich hony k bad Islam k prinsiples ko khala g ka wara samaj lety hai ...aur apni marzi karny ki koshish karty hai...

app ki pehli masal Darya wali to suno...abu lahab nay APP SAWW ki anda c tohin ki...wo gair muslim tha...us lanti ny kaha k Ay Muhammad tary hath tut gai..(Nauzbillah) to Allah to us k mukabaly mai puri Quran ki SURRAT(Surah Lahab) nazil farmai...aur kaha k ay lahab tary dobo hath he tut gai...aur hua b aysa wo dono hatho sy tunda (disable) ho gia...

Khudara Islam ko Mazak mat banao...Toba Karo ALLAh sy jo app ny Post kia....Warna kis Muu sy ALLAh k Darbar ny Aur Hazoor k Darbaar my Hazir ho gy....Wasaalm...

عنیقہ ناز کہا...

تجارتی بنیادوں پہ اسلام کو ٹھیکے پہ چلانے والوں کے لئے منافع کا بہترین موقع۔ جلدی آئیے جلدی آئیے اور حسب مرتبہ اپنا حصہ ڈالئیے، اس سے پہلے کہ آسیہ بی بی زندہ بچ جائے ۔
قرآن پاک دنیا کے تمام ممالک اور تمام اچھے اسٹورز پہ دستیاب ہے ، نیٹ پہ موجود ہے اور کوئ بھی غیر مسلم اسے کسی مسلمان کی اجازت کے بغیر نہ صرف چھو سکتا ہے بلکہ پڑھ بھی سکتا ہے۔ اور چاہے تو سمجھ بھی سکتا ہے۔ خیر، اصل بات یہ ہے کہ
یہ سارے لوگ جو اس وقت چیخ چیخ کر توہین رسالت کے قانون کو اسلام کے لئے ضروری سمجھ رہے ہیں ان کو یہ جواب دینا ضروری ہے کہ پاکستان میں اتنے زیادہ توہین رسالت کے واقعات کیوں ہوتے ہیں جبکہ دنیا میں ایسے اسلامی ممالک موجود ہیں جہاں غیر مسلم اقلیتیں ہماری طرح دو فی صد نہیں چالیس فی صد تک ہے مگر وہاں اتنے مسائل نہیں کھڑے نہیں ہوتے۔ اسکا جواب انہیں دینا پسند نہیں۔ کیونکہ انکے پاس اسکا جواب ہے ہی نہیں۔
اسکا جواب یہ ہے کہ ہمارا پورا نظام غیر منصفانہ اور ریاکارانہ قوانین پہ مشتمل ہے۔ زبردست جو چاہے کرے وہ اسکے لئے آزاد ہیں۔ چاہے وہ قانون کا نظآم ہو یا حکومت کا کوئ اور نظام۔
یہ نظام ڈاکٹر شاذیہ کے زنا بالجبر کے کیس میں اتنا کمزور ہوتا ہے کہ اسے بھاگ کر کسی اور غیر مسلم ملک میں پناہ لینی پڑتی ہے۔ یہی نظام پسند کی شادی کرنے والے لوگوں کو غیرت کے نام پہ قتل کر کے انہیں قانونی تحفظ دینے میں مستعد نظر آتا ہے۔ یہی نظام کرپشن کے بڑے بڑے مجرموں کو تو سر جھکا کر سلام کرتے ہیں مگر ایک عام شخص دو مہینے بل نہ داد کرے تو سہولت کٹ آف۔
اسی نظام میں مقدس مولوی صاحبان بیٹھ کر اسلامی قوانین اور حدود کی باتیں کرتے ہیں زنا کرنے والے کے لئے رجم کا مطالبہ کرتے ہیں مگر یہی مولوی صاحبان ان زنا کرنے والوں سے اپنے لئے آسانیاں چاہتے ہیں انکے ساتھ اپنے شب و روز گذارتے ہیں۔
قانون کہتا ہے کہ چھوٹے بچوں کو تحفظ دیا جائے۔ مگر والدین اپنے بچوں سمیت خود کشی کرتے ہیں، والدین اپنے بچوں پہ غیر انسانی تشدد کرتے ہیں، اپنی لڑکیوں کو بیچ دیتے ہیں، تب قانون کتابوں میں بند رہتا ہے۔
یہی بچے روڈوں اور سڑکون پہ بھیک مانگتے ہیں، ہر قسم کے جرائم کرتے ہیں حتی کہ جسم فروشی کے لئے استعمال ہوتے ہیں قانون خاموش۔ اسلام اور قانون کی حکمرانی کے نعرے لگانے والے بے حس۔
ایسا کیں ہوتا ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب مذہب یا وطن کے نام پہ قتل و غارت گری اور خون بہا دینے اور انسانوں کے ٹکڑے کر دینے کی باتیں ہوتی ہیں تو ایک گروہ ایسے سرگرم ہو جاتا ہے کیسے اسے نئ زندگی مل گئ ہو۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب لوگ غیر انسانی حالات میں جیتے ہیں اور حیوانوں کی طرح زندگی گذارتے ہیں تو لوگوں کا ایک گروہ بیٹھ کر آرام سے ہنسی مذاق کرتا ہے یا نا قوانین کے نفاذ کی بات کرتا ہے جو کبھی نافذ نہیں ہونگے۔ مگر جب انسانی زندگی کو ختم کرنے کی بات ہو تو یہ ہجوم ہر چیز کو ملیا میٹ کر دینے پہ تیار ہوتا ہے۔
ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ یہ گروہ اپنے اندر کے حیوان اور اسفل انسان سے نجات نہیں پا سکا۔ کیونکہ یہ حیوانیت ہے اس لئے انہیں لامحالہ مذہب کے نام پہ تجارت کرنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ شخص جو حیوانیت کے اس درجے پہ چلا جائے انکا ہیرو یا ہیروئین بن جاتا ہے۔ اسکی زندگی بچانا ایک جہاد بن جاتا ہے۔
چنگیز خانی سوچ سے لطف اٹھانا انسانی نفسیات کا ایک رخ ہے۔ جب ہی ہم لرزہ خیز انسانی مظالم کی داستانیں پڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ انہیں کون کرتا ہے۔ حالانکہ یہ لوگ ہمارے درمیان وجود رکھتے ہیں۔
آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ عافیہ صدیقی جیسے مشکوک کردار رکھنے والی ایک عالم خاتون کو جو ان لوگوں کی ہیروئین ہے۔ ایک بھٹے پہ کام کرنے والی جاہل اور محنت کش عورت کو ہم کیسے عبرت کا نشان بناتے ہیں۔
دہشت گردی کے الزام میں چھیاسی سال کی قید پانے والی خاتون کے الزام میں ہم آسیہ بی بی کو کیا سزا دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
مسلمانوں متحد ہو جاءو۔ ایک عافیہ کے بدلے ہمیں کئ آسیاءوں کو نبٹانا ہے، یہی صحیح اسلامی روح ہے۔ جو یاسا نہیں کرے گا وہ ملعون ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں سب سے زیادہ مستعد وہ نظر آتے ہیں جو ان ملعون ممالک کے شہریت اختیار کر چکے ہیں اور ان ملعون ممالک کے شہری کی حیثیت سے اسکی تمام سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں۔

ABC کہا...

Anika:

app apni baat kary k ap ko Toheen Risalat manzoor hai...kia logo ko ye na-Pak harkat karny ka bar bar moka dena chahti hai....Afsoos ...k ap chahy lakh Nazazy, Quran, Hajj kar ly Agar app Apny Nabi ki IZAT he na kar pai to Kasi ibadat kesa Islam...Just deciving yourself on this behalf and thinking u have...

افتخار اجمل بھوپال : کہا...

کافی برس پہلے کی بات ہے میں نے جنرل ضیاءالحق کے حمایتی ایک مولوی سے پوچھا کہ آپ حضرات ذوالفقار علی بھٹو کی جان کے دشمن کیوں بنے ہوئے ہیں؟ کیوں ایک کمزور مقدمے کی بنیاد پر ان کو پھانسی چڑھانے کے لیے اچھل کود کررہے ہیں؟ تو ان کا جواب بڑاہی سادہ تھا۔ موصوف نے فرمایہ وہ معاشرے میں فحاشی، عریانیت اور بے راہ روی کو فروغ دے رہے ہیں اور اسلامی مملکت میں غیر اسلامی رجحانات پیدا کر رہے ہیں۔

مجھے جواب پر بڑی حیرت ہوئی۔ پھر سوال کیا، ‘لیکن انہوں نے شراب پر پابندی لگائی، احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرایا اور ہندوستان سے ایک ہزار برس تک لڑنے کا نعرہ لگایا تب بھی آپ کو لگتا ہے وہ غیر اسلامی رجحانات پیدہ کر رہے ہیں؟‘

مولوی کو بڑا تاؤ آیا فورا فرمایا، ‘میاں اللہ اور ان کے رسول نے جو احکامات دیئے ہیں ان سے انحراف کی سزا موت ہے۔‘

میں ڈر گیا اور چپ سادھ لی۔

جنرل ضیاء کے زمانے سے پہلے دلیل اور بحث میں اللہ اور ان کے رسول کے احکامات کو ڈھال بنا کر عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن جنرل صاحب کے بل بوتے پر، عقل اور علم کا خون پی کر پروان چڑھنے والے نیم حکیموں کی گُڈی ایسی چڑھی ہے کہ اب آپ نے دلیل، منطق، فلسفے اور سائنس کی بات زبان پر لائی نہیں کہ فتوابازوں کے تن بدن میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور وہ اسلام دشمنی اور رسول دشمنی کے نعرے لگاتے آپ پیچھے پڑجاتے ہیں۔

جنرل ضیاء کے زمانے سے پہلے دلیل اور بحث میں اللہ اور ان کے رسول کے احکامات کو ڈھال بنا کر عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا

آپ نے کہا کہ بھائی پاکستان میں لگ بھگ تمام توہین رسالت کے مقدموں کا پیغمبرِ اسلام کی توہین سے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا بلکہ لوگ ذاتی دشمنیوں کی بنیاد پر اس قانون کا استعمال کرتے ہیں اس لیے قانون کو تبدیل کیا جانا چاہیے، تو ایک دم سے جذباتیوں کا جمعہ بازار لگ جاتا ہے اور دین دشمنی کے فتوے جاری ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں آج تک کسی بھی شخص کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں موت کی سزا پر علمدرآمد نہیں ہوا اور تقریباً تمام ملزمان مقامی عدالتوں میں سزا پانے کے بعد، اعلیٰ عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں (یہ اور بات ہے کہ ان میں سے کئی کو زیادہ عرصہ جینے نہیں دیا جاتا)۔ ان حالات میں کیا یہ تجویز غلط ہے کہ یا تو اس قانون کو ختم کیا جائے یا تبدیل کیا جائے۔

چار بچوں کی ماں آسیہ بی بی کو ابھی صدارتی معافی ملی بھی نہیں کہ مذہبی منافرت کے دلدادہ افراد نے ملک میں دھمکیوں کا بازار گرم کردیا ہے۔ کوئی بولے تو ٹھک سے اسلام اور دین دشمن قرار۔

پاکستان میں جو لوگ مسیحیوں یا دوسری اقلیتوں کے افراد کو جانتے ہیں ان کو اندازہ ہوگا کہ وہ بے چارے کس قدر سہمے ہوئے ہوتے ہیں، کیا ان کو اپنی جان گنوانی ہوگی کہ وہ مسلمانوں کے پیغمبر کے خلاف زبان درازی کریں؟

آپ کہیں کہ ملک میں شدت پسندی، قتل و غارت گری، مذہبی اور لسانی فسادات نے معاشرے کو انتہائی پژمردہ کردیا ہے ایسے میں کچھ نہ کچھ ثقافتی اور فنون لطیفہ کی سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں تو سڑکوں پر اور میڈیا میں مصروف ‘جہادی بریگیڈ‘ اللہ اور رسول کے احکامات سے انحراف کی تلوار لیکر میدان میں کود پڑتی ہے۔ کہتے ہیں آپ بے حیائی اور عریانیت پھیلا رہے ہیں اور یہ مملکت خداداد میں ہونے نہیں دیا جائے گا۔

حال میں ایک بڑے اخبار کے ’توپ صحافی‘ کا ‘عریانیت اور فحاشی‘ کے خلاف کالم پڑھا جو پڑھ کر کچھ ایسے ہی خیالات اور جذبات ابھرے جیسے پاکستان کے اخبارات میں آئے دن پاکستانی فلموں میں عریانیت کے موضوع پر چھپنے والے ان لاتعداد مضامین سے ابھرتے ہیں جن میں پاکستانی ہیروئنوں کی بڑی بڑی تصاویر چھاپی جاتی ہیں اور ان تصاویر میں ہیروئنیں کے جسم کے متعدد حصوں کو سیاہ دھاریاں لگا دی جاتی ہیں۔

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں اسلام اور دین کے احکامات کے خودساختہ ٹھیکیدار، لوگوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے تمام خیالات کو بھی اسی طرح سیاہ دھاریاں لگا دینا چاہتے

عنیقہ ناز کہا...

ایم دانش صاحب، آپکو اپنے ذہن کو یہ سوچنے کی بھی تکلیف دینی چاہئیے کہ یہ حرکات آپکے ہی ملک میں کیوں بار بار ہوتی ہیں۔ جبکہ یہاں اقلیتی طبقہ صرف دو فی صد ہے وہ بھی آپکے ملک کا نظام ایسا ہے کہ انکی بڑی تعداد ان پڑھ اور معاشرے کے کم ترین حیثیت کے لوگوں پہ مشتمل ہے۔ مگر آپ ایسا نہیں کریں گے۔ کیونکہ آپکو اس ہستی کے نام پہ جو اپنے آپکو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجی جانے والی ہستی کہتی ہے اسکے اس قول کو عملاً غلط ثابت کر کے دکھانا ہے آپکو یہ ثابت کرنا ہے کہ دین کی صحیح روح نعوذ باللہ رسول اللہ نے صحیح نہیں پہچایا بلکہ آپ نے صحیح پہچانا ہے۔
اسکے علاوہ آپکے جوش جذبے کی کوئ حیثیت نہیں۔ آپ جہسے لوگ انتہائ قابل رحم حالت میں جی رہے ہیں جو ذرا سی ذرا سی بات پہ پوری انسانیت کے درگو ہو جاتے ہیں۔ آپ میں سے کوئ ایک بھی انسانیت کی کوئ معمولی خدمت بھی انجام دینے سے قاصر ہے مگر دعوی کرتے ہیں رحمت اللعالمین کی غلامی کا۔ آپ جیسے لوگوں کو تو یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ معاشرے کے کم ترین لوگ زندگی گذارتے کیسے ہیں۔ انکے روئیے اور رد عمل کس طرح پنپتے ہیں۔ آپکے ملک کے مختلف ثقافتی گروہ ایک معاملے پہ کس طرح اور کیوں مختلف اپچ رکھتے ہیں۔ بات کرتے ہیں کہ کیا آپ پاکستان میں یہ حرکات بار بار کروانا چاہتی ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے توآپ سب بڑے سرگرم عمل ہیں اور اتنا ہی زیادہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ تو کیا اب آپکی خواہش ہے کہ واقعتا کسی کو پھانسی پہ چڑھایا جائے تاکہ آپکے تشدد پسند ذہن کو کچھ آرام ملے ۔ مگر تشدد پسندی کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک دفعہ سے سکون نہیں پاتا اور نہ کسی ایک کو ختم کر کے۔ امریکہ کی مثال موجود ہے۔ زیادہ دور نہ جائیے آپکے پڑوس میں ہندو انتہا پسند یا ہندو طالبان بھی یہی کرتے ہیں۔ پورے گجرات کو ختم کردیتے ہیں مگر تسلی نہیں ہوتی۔ خدا ایسے تاجروں سے دنیا کو پاک کرے۔

ABC کہا...

Anika Naaz:
app ny kuch baty achi ki...lekin shaid app ye kahna chahti hai k dusro ko khush karny k liye apny Deen mai aur deen k bunyadi principals mai amendments ajj ki Zaroorat hai...aysa pehli bar nahi hoo raha....apsy pahly logo ny b SAWW ki toheen kar k bachny ki Koshish ki...lekin aysa har bab nahi hta...k koi b uthy aur Mery NABI PAK SAWW par APP k kirdar par KICHAR uchalny ki koshis kary aur hum ye soch ka kamosh rahay k ye to non-muslim hai issy kia kahna...aysa app to kar sakty hai par ak gharat mand insan nahi karsakta...
App kis Boot parast k samany usy k booto ko gali dy par dakhna app ka wo kia hashar karty....

Abdullah کہا...

اے غیرت مند انسان مجھے صرف اتنا بتا کہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر کتنا عمل کرتا ہے؟؟؟؟؟؟

ABC کہا...

Al-hamdulilah !

Muj sy Jitna Ahkamat par amal ho sakta hai mai karta hun...aur Allah sy Mazid Amal karny ki DUA b karta hun aur ALLAH Dua B Qubool Farmata hai...
App Jitna Amal karary hai wo app ki batto sy nazar aa raha hai...

Popular Posts