گدھے کھوڑے کے مول کا فرق
اندھا راجه اندھیر نگری والی کہانی کے شروع میں لکھا ہے که پیر اور مرید جب اس شہر کے پاس سے گزرے جهاں هر چیز کا ایک هی ریٹ تھا تو مرید اس بات پر بہت خوش هوا تھا لیکن پیر نے خوف کا اظهار کیا تھا که جس ملک میں چنگے اور مندے کی پہچان ناں هو وھاں سے نکل لینا چاھیے
پاکستان ميں سنا ہے که جاپان سے جانے والی مشینری کا ریٹ دوسو روپے کلو هے
یعنی که تکنیک تول کر
ایک خراد میشین هو که پریشر جیک ، بجلی کی موٹر هو که واٹر پمپ ، هر چیز تول کر دوسو روپے کلو،
پنجابی میں کسی کم عقل کو جس کو کوالٹی کی پہچان ناں هو اس کو طنزیه پوچھا جاتا تھا
تو کی کھوتا گھوڑا اکو مل سمجھیا اے
جی هاں باکستانی لوکاں نے کھوتا گھوڑا ایک هی مول بنا کے چھوڑنا ہے
یهاں ایک حد تک تو پاکستان اندھیر نگر ی بنی هوئی هے
ایک حد تک اس لیے که ابھی هر چیز ایک هی مول نهیں هوئی هے
لیکن اس میں خوش هونے والی بات نہیں هے جن چیزوں کے مول میں فرق ہے وھ بھی ایک المیه هے که اہل نظر کو رونا آجائے
پاکستان کے قیام سے پہلے اور شروع کے سالوں میں کالا چنا ایک نیچ جنس سمجھی جاتی تھی
یاد رهے چنے کو کالا هو که کابلی پنجابی میں همیشه صیغه جمع میں پکارا جاتا ہے اگر اس کو صیغه واحد میں پکاریں تو یه فحاشی میں آتا ہے ـ
تو جی اس صیغه جمع والے کالے چھولے کی یه پوزیشن تھی که اگر گندم میں کہیں مکس هو جاتا تھا تو لوگ گندم کو قبول کرنے سے انکار کردیتے تھے ، وڈانک گندم جس کا بوٹا انسانی قد سے بڑا هوتا تھا کیا کسی کو یاد ہے ؟؟
اس دور مين لوگ کھیتوں میں گندم اور چنا ایک هی جگه بو دیا کرتے تھے ، چنا جلدی تیار هوجاتا هے اس لیے اس کو پہلے چن لیا کرتے تھے اور بعد ميں گندم کی کٹائی هوجاتی تھی لیکن اکر کوئی بوٹا چنے کا بچ جاتا تھا تو وھ گندم کی چھڑائی میں گندم کے ساتھ مل جاتا تھا
میرا خاندان جو که ٹھیکے پر زمین لے کر کاشتکاری کیا کرتا تھا اور هے ، ان کو ٹھیکے کی ادائیگی گندم یا چاول کی صورت میں کرنی هوتی تھی کیونکه میں جس دور کی بات کررها هوں اُس وقت ابھی کرنسی کو معاشرے میں اتنا اہم نهیں سمجھا جاتا تھاـ
تو جی زمینوں کے مالک اس گندم کی ادائیگی کو نامنظور کردیتے تھے
اور جب کالے چنے کی قیمت گندم سے بڑھی تو مجھے یاد هے که همارے گھر ميں کئی دفعه اس بات کا ذکر هوا که چّول جنس (کمتر) کی قیمت ساؤ جنس (اعلی) سے زیادھ هو گئی هے ، یه تو قیامت کی نشانی هے
گھر پر اس وقت جب که ٹی وی نهیں هوا کرتا تھا ،هماری ڈیوڑھی ميں دوپهر کے وقت برادری کی خواتین مل بیٹھتی تھیں ،جهان پوٹے کی سویاں اور چنگیر چھابے بناتی تھیں اور باتیں کیا کرتی تھیں
میں نے کمتر جنس کی قیمیت بڑھنے پر اپنی برادری کی انپڑھ خواتین کو تاسف کا اظہار کرتے اتنا سنا که مجھےاب تک یاد هے
کالے چنے کی قیمت بڑھنے سے قیامت تو نهیں آئی لیکن ........
جی هاں افتخار بتا رها تھا که پاکستان ميں مٹی کے تیل کی قیمت ڈیزل سے زیادھ ہے
لو جی گدھے گھوڑوں سے قیمتی هو گئے هیں
اسی لیے هنر مند ذلیل هے بھلا مانس کمینه هے مزدور نیچ هے
اور بے ہنر لیڈر هیں بدمعاش معتبر هیں ، اور کام چور لوگ باهر کی کمائی نسلی بنے بیٹھے هیں
اور سب سے بڑی بات
یه که
ریاکار
عاشق رسول ہے
اور مسلمان دھشت گرد
قادری صاحب شیخ السلام هیں اور توحید پرست گمراھ!!ـ
پاکستان میں نظر دوڑا کردیکھیں
ھیٹھلی ، اُتّے ائی هوئی هے
اپنے گریبان میں جھانکیں تو جی
کمیاروں
کا
منڈا
بے لاگ لکھتا ہے،
اسی لیے وھ ایک چیمه صاحب هیں همارے پنڈ کے وھ کہا کرتے هیں خاور کو اپنی اوقات بھول گئی هے ـ
چیمه صاحب میرے اوپر لکھے کو ان معنوں میں لیتے هیں اور کسی کمّی کی ترقی کو قیامت کی نشانی سمجھتے هیں ـ
ان کے خیال میں کمّیوں کی ترقی چول جنس کا ساؤ جنس سے مہنگا هونے جیسا هے
انسانوں میں چول اور ساؤ کو ماپنے کے لیے وھ والا فارمولا جو حجةالوداع ميں رسول صلعم نے بتایا تھاوھ پاکستان میں ...........
10 تبصرے:
خاوربھائی کیا تصویر کھینچی ہے پاکستانی معاشرے کی ...
ناں جی
پھر لوگ بھالے کہتے ہیں کہ پہلے تو بڑی تعریفیں کرتے تھے اس کی
اب کیا ہوگیا ۔۔۔
نچوڑ نکال کے رکھ دیا ہے
اگر زجازت ہو تو
آوے ہی آوے کا ایک نعرہ لگا دوں
ویسے بھی مجھے اس پوسٹ کو پڑھنے کا بڑا مزہ آیا ہے
کہ اس میں کچھ کچھ
چنا واحد کا ذکر ہوا ہے
;)
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
خاوربھائی آپکی تحریرواقعی جاندارہےجوکہ ہمارےمعاشرےکی عکاسی کرتی ہےلیکن میں کہتاہوں کہ اس میں بھی ہمارااپناہی دوش ہےکیاکمی کمین کابیٹاپڑھ کرافسرلگ اورزمیندارکابیٹاانپڑھ رہ گياتواس میں قصورکس کاہے؟دراصل ہمارےہاں ابھی تک عزت کےمعیارکوخاندانوں سےپہنچاناجاتاہےجوکہ اچھی روایت نہیں ہے۔
اوربھائي خاور،آپکی تحریرمجھےکٹی کٹی نظرآتی ہےپتہ نہیں کیاوجہ اس کومیں پہلےایکسل میں کاپی کرتاہوں پھرورڈمیں کاپی کرکےپڑھتاہوں اس کاکوئی حل سوچیں۔
والسلام
جاویداقبال
نچوڑ دیتا جے۔بے مول تے انمول تحریر ۔چنے کی صیغہ واحد اور صیغہ جمع بات والی کچھ سمجھ نہیں آئی۔
بہت زبردست لکھا ہے ۔۔ ہمارے ملک کا نام روشن کرنے والے زیادہ تر کمیوں سے ہی نکلتے ہیں ۔۔ اور نام بدنام کرنے والے ان نام نہاد بڑے آدمیوں سے ۔۔۔ کمیوں کی ترقی کی بہت ضرورت ہے ۔۔
جناب یاسر آپ تو خوامخواہ جاپانی ہیں آپ کو واحد جمع کی سمجھ نہیں آءے گی
اف۔۔۔۔۔۔تویاما میں ایک ریسٹورنٹ ھے۔دل نام کا ۔انکے مالک سے آج نماز عیشا کے بعد ایک تعلیمی و علمی مفصل ایک ؛لفظ؛کا مطلب سمجھنے کے بعد طبع نازک صاف ھوئی۔
خاور جئے ہو آپ کی۔۔۔۔کیا زبردست لکھا ہے لکھنے کا حق ادا کردیا۔
کام چور بیرون ملک کے خیراتی اور بھیگ منگے پاکستان میں کاٹن کا جوڑا پہنے، سنہری گھڑی کلائی پر باندھے ہمارے ہنرمند اور محنتی پاکستانیوں پر حکمرانی کرتے ہیں تو جی بےحد کڑتا ہے۔
کیا بات ہے خاور صاحب۔۔ سولہ آنے درست بات۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں