یوم تکبیر
یوم تکبیر
بہت تکینیکی باتیں عام لوگوں کو بور کرتی هیں
کچھ عام سے اندازمیں که ایٹم بم دو طرح کے مواد سے بنتے هیں یورینیم اور پلوٹونیم سے!ـ
اب یورینم بھی دو قسم کا هوتا ہے ایک لچا اور دوسرا چنگا
ان میں بھاری اور ہلکے کا فرق کہ لیں یا ان کے ایٹموں ميں الیکٹرون کے بهاؤ کی مقدار کہ لیں ـ
یه لچا ایٹم لچ تلنے کے لیو یعنی ایٹم بنانے کے لےکام اتا هے اور چنگا ، چنگے کام کرنےکے لے یعنی بجلی بنانے کے لے یا دوسرے کاموں میں جہاں توانائی کی ضروت هوتی ہے
یورینم کے بم میں ایٹموں کو کچھ اسطرح رکھتے هیں که جب ان کا ٹکراؤ هوتا هے تو پھٹتے هیں اور پھٹتے هی چلے جاتے هیں لیکن پلوٹونیم میں مواد کو ایک خاص ترکیب سے لگانا پڑتا ہے که جب بم کے اندر دھماکه هو تو سب کے سب اٹم ایک دفعه میں پھٹ جائیں ورنه جو ایٹم پہلے دھماکے میں نہیں پھٹتے وھ پھٹ هی نہیں سکتے ـ
اس لیے خیال کیا جاتا هے که یورنیم رکھنے والے ممالک کو ایٹمی دھماکه کرنے کی ضرورت نہیں هوتی ہے کیوں که ایسے ممالک یا لوگ جب بھی چاھیں ان ایٹموں کو پھاڑنے والا بم بنا کر چلاسکتے هیں لیکن پلوٹونیوم والے ممالک کو فزکس کی باریکیوں کے ساتھ بم بنانے کا حساب کتاب نکالنا پڑتا ہے اور اس کا تجربه بھی کرکے دیکھنا پڑتا ہے که کہیں وقت کے وقت ٹھس هی ناں کرجائے
پلوٹنم کہاں سے آتا ہے ؟
یورینم سے چلنے والے ایٹمی پاور پلانٹ سے بنتا ہے !!ـ
لیکن پاکستان کے پاس تو ایٹمی پاور پلانٹ هی نهیں هے
اور اگر ہے تو بجلی کی اتنی قلت کیوں هے ؟
اگر یورینم کی افزدگی کے قابل سسٹم ہے تو اس سے پاور پلانٹ بنا کر بجلی کی قلت دور کیوں نہیں کی جاتی؟
پاکستان ایک عجیب ملک هے
یہاں کا باوا آدم هی نرالا ہے
ایک یه یوم تکبیر ہے
کیا مذاق ہےجی اس قوم کا خود اپنا مذاق اڑاتی ہے اور اس پر فخر کرتی هے
مندرجه بالا تکنیکی خیال کے مطابق اگر پاک سائنسدانوں نے پروڑسیوں کے ٹیسٹیکل آرتھ کرنے کے لیے بم دھماکه کرهی دیا تھا تو اس بات پر فخر کرنے کی بجائے کچھ گریبان میں جھانک لیں
پنجابی کا محاورھ هے پلے نہیں دھیلا تے کردی پھرے میلا میلا
ایک سادھ سی مثال سے واضع کرتے هیں ایٹمی طاقت هونے کے جاپان اور اور پاکستان کے ، حالانکه جاپان ایٹمی طاقت نهیں کہلواتا ہے
ایٹم ایک اتھرا گھوڑا ہے جسے اگر کھلا چھوڑ دیں تو ایٹمی تابکاری کو دولتے مار مار کر سب پڑوسیوں اور خود کو بھی لہولهان کرلے گا، اور پاکستان نے اس گھوڑے کی تڑی سے پڑوسیوں کو قابو کیا هوا هے
اور جاپان وھ ذهین لوگ هیں جنهوں نے اس اتھرے گھوڑے کو لگام ڈال کر اس کو کام پر لگایا هوا ہے که بجل پیدا کر رها هے اور حرارتی توانائی کی ضرویات کو پورا کررها هے
جاپان کی توشیبا کمپنی دنیا میں ایٹمی پاور پلانٹ بنانے والی چند بڑی کمپنیوں ميں سے ایک ہے
اور جاپان ایٹمی طاقت نهیں هے
جاپان کا ایک ایٹمی پاور پلانٹ جس کا نام هے مونجو جس کو چودھ سال معطل رکھنے کے بعد دوبارھ چالو کیا گيا ہے ، اس کی کوالٹی ہےکه یورینمم کے جلنے سے جو پلوٹونیم پیدا هوتی ہے اس کو دوبارھ یورینم کے ساتھ ملاکر استعمال کریں گے اور ان دو دھاتوں کے جلنے سے جو ناٹوریم پیدا هو گی اس کو بھی یورینم کے ساتھ پلوٹونیم کی جگه ملا کر استعمال کیا جائے گا ، اس طرح باری باری پلوٹونیم اور ناٹوریم نامی دھاتوں کے ایٹم یورینم کے ساتھ مل کر حرارت پید اکریں گے ، یهاں نکتے کی بات یه هے که ایٹمی پاور پلانٹوں سے نکلنے والا ایٹمی فضله ناٹوریم استعمال کیا جارها هے ،
اور یه ایک بہت بڑی بات ہے !!ـ
اور یه وھ سسٹم ہےجس کو تجرباتی طور پر چلا کرفرانس ناکام هو کر اس قسم کے پلانٹ کو ستر کی دھائی میں بند کرچکا ہے
امریکه ابھی تک اس ٹیکنالوجی کا اهل نهیں ہے
روس وھ ملک ہے جس کے پاس یه تکنیک هے لیکن جاپانیوں سے بہت پیچھے
اس لیے پچھلے کتنے دنوں سے فرانس اور روس کے سفیر اس ایٹمی پاور پلانٹ کی ایک ایک لمحے کی خبر رکھ رهے هیں ـ
اور پاکستان کی پوزیشن یه ہے که اردو کے میڈیا میں اس پاور پلانٹ کے چالو هونے کی تاریخ کے متعلق اور چالو هونے پر صرف خاور نے لکھا تھا ، روزنامه اخبار سائیتاما پر
لیکن جن کے لیے لکھا تھا ان کو ناں تو سمجھ ہے اورناں هی دلچسپی،
باقی کے میڈیا کے جغادری مشہوریوں کے پیسے بنانے اور اور ان پر ٹکیس چوری کرنے میں مصروف هیں
فرانس اور روس کے ساتھ ساتھ دوسرے سیانے ممالک کے مستری اس پلانٹ کی سیر کو بھی آچکے هیں ، تاکه علم حاصل کریں
اور پاک مستری کهاں هیں ؟
یوم تکبیر منا رهے هیں ؟؟
کی خیال ہے جی تھاڈا؟؟
پاک لوگ علم حاصل کرنے جیسے مصیبتوں ميں نہیں پڑا کرتے پاک لوگ یوم منایا کرتے هیں
نعرے لگایا کرتے هیں
میٹنگیں کیا کرتے هیں بسیار خوری کیا کرتے هیں
علم کی باتیں کرنے والوں کو پیٹھ پیچھے اور مذاق کے انداز ميں منه پر بھی مراثی کہا کرتے هیں ـ
6 تبصرے:
آپ نے صحیح کہا کہ یہ ٹیکنیکل باتیں ہیں۔ کچھ چیزوں کی میں وضاحت کرنا چاہونگی۔ وجہ، میں بنیادی طور پہ ایک کیمسٹ ہوں۔
اب تک دریافت ہونے والے عناصر میں کچھ عناصر تابکار عناصر کہلاتے ہیں۔ انکی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ انکا مرکز آہستہ آہستہ شعاعوں کی شکل میں اپنی توانائ خارج کرتا رہتا ہے۔ خاص شعاعوں کی شکل میں۔ جو مختلف عناصر کے لئے مختلف ہوتی ہیں۔ اور اس طرح وقت کے ساتھ ان عناصر کا مرزہ تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ ایک نَ عنصر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
کچھ عناصر کی بہروپی زشکال ہوتی ہیں۔ عناصر کی بہروپی اشکال کے لءَ آپکو میری یہ پوسٹ پڑھنی پڑے گی۔
ایک عناصر کی ساری بہروپی اشکال تابکار نہیں ہو سکتیں۔ کچھ ہوتی ہیں کچھ نہیں ہوتیں۔ انہی تابکار عناصر میں سے یورونیئم کا شمار ہوتا ہے۔
ایٹمم بم بنانے کے لئے عام طور پہ دو طرح کی تینکی استعمال کرتے ہیں۔ ایک میںایٹم کے مرکزے کو آہستہ رفتار نیوٹرونز کے ذریعے توڑ دیا جاتا ہے۔ ان نیٹرونز کی تعداد کو کنٹرول میں رکھ کر اس تعامل کو کنٹرول میں کر لیا جاتا ہے اسے چین ری ایکشن کہتے ہیں۔ مرکز کے ٹوٹنے سے جو توانائ پیدا ہوتی ہے وہ چونکہ قابو میں ہوتی ہے اس لئے اسے انسانی استعمال میں لے لیا جاتا ہے۔ اس سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔
دوسری صورت میں اگر ان نیٹرونز کی تعداد کو کنٹرول میں نہ رکھا جائے اور ایٹم خود بھی ایک اتنا حساس مرکز رکھتا ہو تو اس عمل کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا اور اس طرح ایٹم بم ووجد میں آتا ہے یعنی وہ توانائ جو کنٹرول میں نہ ہو۔ کیسے طالبان کی توانائ کنٹرول میں نہیں ہے۔ اور وہ ایک خطرہ ہیں انہیں نوجوانوں کی اس توانائ کو اگر بہتر رخ دے دیا جائے تو زیادہ بہتر اور مثبت صورت حال سامنے آ سکتی ہے۔ یر یہ ایک مذاق تھا امید ہے آپ سمجھتے ہونگے۔
پلوٹونیئمن کی دو بہروپی اشکال میں سے ایک ایسی ہے جسے قابو میں رکھا جا سکتا ہے وہ پلوٹّونیئم 239 بہا جبکہ دوسری جسے قابو میں رکھنا مشکل ہے وہ پلوٹونیئم 240 ہے۔ اس طرح سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر کسی مادے میں پلوٹونیئم 240 زیادہ ہوگا تو اسے بم بنانے میں استعمال کیا جائے گا اور اگر کسی مادے میں 239 زیادہ ہوگا تو اسے بجلی بنانے میں۔
اب یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ تباہی کی چیزوں پہ لاگت زیادہ نہیں آتی، البتہ دوران خون بڑھنے سے جو ایڈرینالن پیدا ہوتا ہے اس سے ایک ایسا نشہ طاری ہوتا ہے جو دنیا میں بہت لطف دینے والی چیزوں میں آتا ہے۔ کسی شخص کی زبان کی نوک پہ ایک موتی ایک سوراخ کر کے پڑا ہو تو دیکھنے والے کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور پہننے والے کو بھی لیکن اس تکلیف میں زخم کو سہلانے والا مزہ ہوتا ہے۔ سہلانے سے زخم زیادہ گہرا اور تکلیف دہ ہوتا چلا جاتا ہے لیکن اسکی تکلیف جو مزہ دیتی ہے اسکی وجہ سے سہلانے کا عمل رکتا نہیں ہے۔
لیجئیے ابھی ایک مقولہ پڑھ کر آ رہی ہوں۔ خواتین جب ڈپریس ہوتی ہیں تو زیادہ کھاتی ہیں یا شاپنگ پہ چلی جاتی ہیں۔ مرد جب ڈپریس ہوتے ہیں تو دوسرے ملک پہ چڑھائ کر دیتے ہیں
ابھی باندر بانٹ ھو رہی ھے کہ کس کے مستری کو جاپان کی سیر کرائی جائے۔ہمارا ایٹم بم ایسا ھے جی کہ جیسے آپ نے گاوں میں بھینس پال رکھی ھو اور اس بھینس کو ضرورت کے وقت نمک کا ڈھیلا چاٹنے کیلئے دے دیا جائے۔اب جناب آپ کا اگر دل جل رھا ھے اور آپ لالٹین کی روشی میں عیاشی کے چکر میں ھیں تو وہ کونے میں نمک کا ڈھیلا پڑا ھے چاٹ لیں۔
آپ نے ٹیکنیکل باتوں کو کچھ اس سادگی سے بیان فرمایا ہے کہ ہم جیسے لوگ بھی کسی کے سامنے بات کرنے کے قابل ہو گئے ہیں
بات یہ ہے کہ کبھی کبھار بندے کو وہ کام بھی کرنے پڑتے ہیں جن کا وہ اہل نہیں ہوتا ہے ہم بھی اگر انڈیا کے جواب میں دھماکے نہ کرتے تو ہم کئی بار جنگ کے بھٹی میں دھکیل دیے جاتے
یہ ایک اکیلا مسلہ تو نہیں ہے، بجلی تو ہوائی چکیوں سے بھی بنائی جا سکتی ہے، کالا باغ ڈیم بھی بنایا جا سکتا تھا۔ سستی بجلی کے لیے ایران یا چین سے بھی رجوع کیا جا سکتا تھا۔ لیکن جب مسلہ جیب بھرنے کا ہو اور عوام جاہلوں اور مفاد پرستوں سے بھری ہو تو سیاستدانوں کو کھلی چھٹی ہوتی ہے کہ وہ جتنے عرصے کے لیے چاہیں بےوقوف بناتے رہیں۔
شب برات۔شادی بیا ہ پر پٹاخے چلا کرکانوں میں انگلیاں رکھنے والےاس پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔ سوری
ایک تبصرہ شائع کریں