الفاظ کی ساخت
آگر بات تو سکول میں گزارے تعلیی سالوں کو تو اس وقت اردو میں بلاگ لکھنے والوں میں سب سے کم سال میں نے سکول میں گزارے هیں ـ
یه نہیں که میں بڑا ذهین تھا اور ایک ایک سال میں پٹوسیاں مارتا دو دو جماعتیں پاس کرتا گیا تھا
لیکن یه ایک حقیقت ہے که تکینک کی ترقی نے مجھے بھی اھل قلم میں شامل کر هی دیا ہے
اھل قلم جو زمانے کو الفاظ دیتے هیں ، الفاط رائج کرتے هیں
منو بھائی نے اپنے ایک ڈرامےسونا چاندی میں ایک لفظ دیا تھا '' بے فضول '' منو بھائی کا مقصد ایک لطیفه تھا
لطیفه نکلا ہے لطیف سے ، لطیف سی هوا
که نظر نهیں آتا اور دل کو چھو کرگزر جاتا ہے
یا کثیف سمجھ والوں کا نهیں لطیف سمجھ والوں کا کام ہے لطیفے کو سمجھنا
بے فضول جو که فضول ناں هو
اردو میں یه لفظ هی نهیں بنتا
لیکن بعد میں کسی انٹرویو میں منو بھائی نے اس تاسف کا اظہار کیا تھا که انہوں نے تو ایک لطیف سا مذاق کیاتھا لیکن معاشرے میں یه لفظ رائج هو گیا ہے
اردو مين بلاگ لکھنے والے یا وکی پیڈیا پر علمی کام کرنے والے لوگ بھی اب اس پوزیشن میں هیں که الفاظ کو رائج کرسکیں
لیکن سب سے پہلے تو ان لکھنے والوں کو احساس هونا چاھیے که یه کر کیا رہے هیں
ایک بلاگ لکھنے والے کا مقصد کومنٹ کا انتظار نهیں هونا چاھیے
بلکه یه سوج هونی چاھیے که انے والے زمانوں کے لوگ اپ کی تحریر پڑھ کر کیا سوچیں گے
جیسے که یه لوگ کیا کھاتے تھے کیا پہنتے تھے
ان کے عمرانی رویے کیا ھے
کن چیزوں پر ھنستےتھے اور کن پر مذمت یا پھر کڑتے تھے
وغیرھ وغیرھ
اگر کومنٹ کا حصول هی هو تو متنازعه موضوعات پر لکھيں
بدنام جو هوں گے تو کیا نام ناں هو گا
بد بن کے نام پیدا کرنا اسانی پسند لوگوںکا کام ہے اور مزے کی بات ہے که ان کو جب اس بات کا احساس هوتا ہے که یه راھ تو کانٹوں بھری ہے تو اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا هوتا ہے
میںاس دفعه جب دوبارھ جاپان ایا هوں تو دیکھا که لوگوں نے اکروں کو سکریپ کرنے کے کارخانے لگا لیے هیں جس کو سب لوگ کھائیتائی کہتے هیں کیونکه جاپانی میں یه لفظ رائج هے
اور یا پھر یارڈ کا لفظ رائج ہے
اور جو لوگ صرف گاڑیوں کی خرید فروخت کرتے هیں وه اپنی جگه کے لیے لفظ استعمال کرتے هیں پارکنگ
جاپان میں پاکستانی لوگ امیر تو هیں لیکن اھل علم نهیں هیں
لیکن زیادھ تر خود کو عقل کل سمجھتے هیں
سمجھیں بھی کیوں ناں جی که ایک بندھ ڈکریاں لے کر سالهاسال سکول جا کر ایم بی اے کرکے بزنس میں آتاهے اور یہان جاپان میں میری طرح کا ایک بندھ انڈر میٹرک گاڑیوں کے کام میں آتا ہے
نوے کی دھائی میں گاڑی مفت مل جاتی تھی جو که افریقه یا لاطینی امریکه جا کر دس هزار ڈالر کی هوتی تھی
هر مہنیے پندرھ بیس گاڑیاں ایکسپوٹ کرنے والا
اور کچھ هی سالوں میں انٹرنیشنل لیول کا بزنس میں بن جاتا هے تو جی
ایسا بندھ هوا ناں جی عقل کل ؟
اب ایسا بندھ ایم بی اے کیے هوئے ڈگری هولڈر کو ملازم رکھ سکتا ہے
تو ایسے عقل کل لوگوں کو ڈیل کرنا بھی بڑا مشکل ہے
خاص طور پر اگر آپ امیر نهیں هیں تو
پچھلے سال میں نے بھی کوئی ادھا ایکڑ زمین کرائے پر لے کر اس میں ورکشاپ سی بنائی اور جس نے بھی پوچھا که کیا کررهے هیں تو میں نے بتایا که ورکشاپ بنا رهاهوں
تو ایک دفعه تو اس نے چونک کر دیکھا اور بہت سے نے دھرایا
ورک شاپ
ان دنوں میں کتنے هی لوگوں سے اپنی اپنی جگه کھائی تائی هو که یارڈ کو ورکشاپ کہنے کا سن رها هوں
بارپی کیو کو هماری بولی میں تکه پارٹی کہا کرتے تھي لیکن میرو جاپان کے پچھلے زمانے میں کیونکه همیں بھی انگریزی کا شوق تھا اس لیے تکه پارٹی کو باربی کیو هی کہا اور یه لفظ کیونکه جاپانی زبان میں بھی رائیج تھا اس لیے سب نے اس کو باربی کیو هی کها
اس دفعه جاپان انے کے بعد بہت سے لوگوں کو تکه پارٹی کرتے دیکھا
اور میں نے تکه پارٹی کا لفظ بولا تو پہلے پہلے تو لوگوں کو اجنبی لگا لیکن اب کچھ دوست باربیکیو کو تکه پارٹی کہنے لگے هیں
جاپان زبان میں بھی کئی الفاط هیں که ان کو پنجابی میں مثال دے کر لوکوں کو اکر بتایا تو وهی ان کی زبان پر چڑھ گیا
میں ان الفاظ کی تفصیل نهیں لکھوں گا کیوں که جاپانی ناں جاننے والوں کے لیے ایسی بات بے مقصد سی هو جائے گي
اس تحریر کا مقصد یه نہیں ہے که میں بہت سیانا هوں بلکه اس کا مقصد یه بتانا ہے که هماری قوم کا اپنی زبانوں کا زخیرھ الفاظ بھی کم هوتا جارها ہے
اکر کوئی شخص خوش قسمتی سے ایسے ماحول میں پلا بڑھا ہے که جہاں پشتو پنجابی ،سندھی سرائیکی یا بلوچی کے الفاظکو سمجھنے کا موقع ملا ہے تو ایسے بندے کو باھر نکل کر احساس هوتا ہے که پاکستان کے لوگوں کا زخیرھ الفاظ گھٹتا جارها هے
2 تبصرے:
سر جی ۔۔۔ ہم احساس کمتری اور ذلتوں کے مارے لوگ ہیں۔
مادری زبان بولنے والا اخلاق سے بے بہرہ سمجھاجاتاہوتو
ذخیرہ الفاظ کیسے بڑھے گا؟؟
اور ذلتیں تو قدم قدم پر ہیں ہمارے لئے۔۔۔۔
گلی محلے سے لے کر تھانے کچہری تک۔۔۔
اور جہاں تک لکھنے کا سوال ہے تو
لکھنا بھی کتھارسس کی ایک شکل ہے کم ازکم میرے لئے۔۔۔
اب یہی دیکھ لیں کہ کتھارسس کا اردو مترادف معلوم نہیں مجھے۔۔۔۔
ایک اور پہلو بھی ہے اس کا۔۔۔ برتر تہذیب اپنے آپ کو نافذ کردیتی ہے کمتر لوگوں پر۔۔۔ لباس، زبان ، طرز زندگی ، تقریبا ہر چیز پر۔۔۔
میں آپ سے اتفاق کروں گا اور اس کے بڑے سبب کی طرف آپ نے اشارہ کرہی دیا ہے کہ الفاظ غیر ضروری طور پر متروک ہوتے جارہے ہیں۔۔ ایک چلن سا ہوچلا ہے کہ اپنی زبان سے واقفیت نہ ہونا بھی ایک قابل فخر بات مانی جانے لگی ہے اور دوسری طرف ایک جماعت انٹرنیٹ کا ترجمہ کرنے میں جتی ہوئی ہے اس سے عام زبان دو انتہاؤں میں کہیں رل رہی ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں