ہفتہ، 20 جون، 2009

تاریخی لوگ

وھاں گوجرانواله گے پاس ایک گاؤں ہے تلونڈی موسے خاں ، جهاں کے چیمے چوھدی گورنمنٹ برطانیه کے خطاب یافته تھے ، ذیلدار چوھدری فضل الہی چیمه ان کا ایک بیٹاتھا چوھدری مشتاق چیمه ، پاکستان میں فیٹ ٹریکٹر کی ایجینسی دادنز کا چیئر مین تھے جی چوھدری صاحب اور پاکستان فوٹوگرافر ایسوسی ایشن کے صدر اور ایشیا فوٹوگرافر ایسوسی ایشن کے ایک دفعه صدر بھی رهے هیں ـ اب بھی اس خاندان کے لوگ بڑے طاقتور هیں اپنے مشرف صاحب کے پيچھے بھی اس خاندان کی طاقت تھی که اقتدار جانے کے بعد بھی شریفین کے گڑھ لاهور میں مجرے کروایا کرتے تھے ـ همارا اج کا موضوع مشرف کی پشت پناھ طاقتوں کا تذکرھ نهیں هے که اس موضوع پر ابھی بات کرنا موت کو دعوت دینے والی بات ہے ـ تو جی بات هو رهی تھی چوھدری مشتاق چیمه صاحب کی ، ایک دفعه کا ذکر ہے که جب چوھدری صاحب ابھی چھوٹے تھے ان دنوں ایمن اباد والا بیساکھی کا میله بڑا دھوم دھام سے هوا کرتا تھا ،پاکستان بننے کے بعد بھی دھائیوں تک پنجاب میں اس میلے کی ایک حثیت تھی که یہاں جانوروں کی منڈی بھی لگتی تھی اور لوکوں کے کشتی ، وزن اٹھانے ، دوڑ کبڈی وغیرھ کے مقابلے بھی هوتے تھے ، مقابلوں سے ایک بات یاد اگئی که یہاں ایک مقابله چھٹ اٹھانے کا هوتا تھا ، پنجاب سے ختم هوتی هوئی اس رسم کاتذکرھ کریں که اس میں میرے خاندان کا بڑا نام تھا ، چھٹ دو جڑی هوئی بوریوں کو کہتے هیں جو که گدھے پر اناج لادھنے کے لیے استعمال هوتی هے ، گدھے کی پشت پر ایک بوری ایک طرف اور دوسری ایک طرف هونے سے توازن بن جاتا هے ـ اس چھٹ کو اٹھا کر گدھے کی پشت پر لادھنے کے لیے ایک مضبوط لاٹھی استمال هوتی هے جس کو چواڑی کہتے هیں ـ چھٹ میں مٹی ڈال کر اس کو چواڑی سے اٹھانے اور اٹھا کر کندھے پر رکھنے کا مقابله هوتا تھا
ایک قسم میں دو پہلوان مل کر اٹھاتے تھے که اس دونوں کی جیت هوتی تھی که مل کر کتنا وزن اٹھایا گیا ، اور دوسرے میں دو حریف دونوں سروں پر هوتے تھے که کو ن پہلے کندھے تک لے جاتا ہے ـجیتنے والے پہلوانوں کو چواڑی ٹرافی کے طور پر ملتی تھی ، جس کو لے کر اگلے میلے میں یه پهلوان پھر جایا کرتے تھے اور اگر کوئی دوسرا جیت جایا کرتا تھا تو چواڑی اس کو دے دی جایا کرتی تھی ـ
ٹرافی کی یه چواڑی دھائیوں تک همارے گھر میں رهی هے که همارے بزرگ اس کو جیت کر لایا کرتے تھے
میں نےبھی اپنے بچپن میں دیکھا ہے که فیض پہلوان اور صدیق پہلوان چواڑی لے کر آئے تھے تو سب برادری میں بڑا خوشی کا سا ماحول تھا تو میری دادی نے بتایا که ایسا کیوں هے اور اس روایت کیا هے
پر یه هوا پنجاب کا ماحول هی بدل گیا اب کھیلوں کا مزاج هی بدل گيا هے ـ
اب کے جوان صرف بستر پر هی کھیلنے کو کھیل سمجھتے هیں ـ
تو جی اپنی چوھدری مشتاق صاحب نے بیساکھی کے روز اپنے اباجی چوھدری فضل الہی کو کہا که اباجی میلے میں جانا هے کچھ پیسے تو دیں (پچاس کی دھائی کی بات ہے)بڑے چوھدری صاحب کے پاس کیش نهیں تھا تو انہوں نے ڈیرے پر بیٹھے لوگوں سے پوچھا که کسی نے گاؤں میں بیساکھی منائی هے
ایک ادمی نے ان کو اطلاع کی که جی اپنے شریف نائی نے کڑاھ (حلوھ) بنایا هے بساکھی کی خوشی ميں ـ
وڈے چوھدری صاحب نے بندھ بھج کر شریف نائی کو ڈیرے بلا لیا اور اس نے پوچھا که
اوئے سکھوں کو یہاں سي گئے زمانه گزر گيا هے اور توں اب بھی سکھوں اور ھندؤں کو رسم بیساکھی مناتا ہے ؟؟
شریف نائی تھا جی شریف بندھ تھر تھر گانپ رها تھا اور ھاتھ جوڑے کھڑا تھا
چوھدری صاحب نے فرمایا که تمهاری سزا یه ہے که یاتو پانچ لتر کھا لو یا پانچ روپے جرمانه ادا کردو!ـ
شریف نائی نے گھر سےمنگوا کر پانچ روپےجرمانه ادا کر دیا تھا
یه پانچ روبے وڈے چوھدری صاحب نے چوھدی مشتاق کو دیے که لو اب جا کر بیساکھی کا میله دیکھ آؤ ـ
پنجاب میں اگر کوئی لڑکا بال لمبے رکھ لیتا تھا تو اس کی ٹنڈ کروا دی جایا کرتی تھی
اور دھلے هوئے کپڑے پہننے پر بھی کوئی ناں کوئی سزا هو جایا کرتی تھی ـ
اور اج زمانه بدل گیا هے که جس کا جی چاھتا ہے اٹھ کر موٹر سایکل لے لیتا ہے
او جی ان کمی کمین لوگوں کو شرم هی نهیں آتی ، آپنی اوقات بھول جاتے هیں ـ چوھدریوں کی ریس کرنے لگتے هیں ـ یہاں جاپان میں همارے گاؤں کے ایک چیمه صاحب اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رهتے هیں ـ
اب جی زمانه کافی بدل گیا هے ، همارے طبقے کے پاس بھی باھر کے ممالک کی کمائی سے یا رشوت کی کمائی سے کیش آ گیا هے تو جی لوگ بھالے اب اپنی تاریخ لکھوانا چاھتے هیں ـ هم جیسےلوگ بھی اپنے آپ کو وڈے چوھدری صاحب کی طرح کے ڈیرے دار دادے کی اولاد ثابت کرنے کی کوشش مین ایسی ایسی تاویلیں دے رهے هوتے هیں که جی خدا کی پناھ ـ
ذیلدار صاحب کے ڈٍیرے میں چوھدری صاحب منجی(چارپائی)پر بیٹھے هوتے تھے اور دوسرے لوگ نیچے دری یا پیال پر بیٹھے هوتے تھے ، لیکن اب اگر کوئی بندھ افسر بن جائے یا امیر تو جی یه بندھ بھی دوسرے لوگوں کو نیچے بٹھایا چاھتا ہے لیکن اب زمنه بدل گياهے اس لیے کڑتا رھتا ہے یا پھر داؤ لگے تو دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر خوش هوتا هے ـ
ان دنوں هر ایرھ غیرھ نتھو خیرا ، ماجھا گاما ، موبائل فون اٹھاے پھرتے هیں ، اور اپنے زردار لوگوں کے مخول بنا بنا کر میسج بھیجتے هیں ـ دل تو یه چاھتا تھا که ان لوکےن کی سروس هی بند کردی جاتی لیکن هر میسج پر چارج بڑھا کر اپنے بچوں کے میلے کا خرچ پانی نکالنے کا گر تو ان ایلیٹ کلاس کے دادو پردادوں کو بھی اتا تھا ـ
کسی کے بال منھوا کر کسی کے کپڑوں کو قینچ مار کر اذیت دینے والوں کی اولاد یه ایلیٹ حکمران مخلوق اج بھی ٹوٹی هوئی سڑکوں لوڈ شیڈنگ ، بلوں کی لائنیں ، اور طرح طرح کی اذیتیں دے کر لوگوں کو اپنی اوقات میں رکھتے هیں ـ

4 تبصرے:

محمد وارث کہا...

کیا خوبصورت باتیں لکھی ہیں آپ نے، سچی اور سوہنی۔

افتخار اجمل بھوپال کہا...

بہت خُوب میرا بچپن یاد کراد دیا آپ نے ۔ جس زمانہ میں ہم لوگ بالغ ہوئے اگر کوئی لڑکا کُشتی یا کبڈی میں حصہ نہ لے تو اسے زنخا کہا جاتا تھا ۔ میں کبڈی کا کھلاڑی تھا ۔ ہاکی اور فٹبال کو مردانہ کھیل اور کرکٹ کو سُست لوگوں کا کھیل کہا جاتا تھا ۔ میں ہاکی کا کھلاڑی تھا

جعفر کہا...

کیا اعلی تحریر ہے۔۔۔
اپنے کلچر اور لوگوں سے جڑی

DuFFeR - ڈفر کہا...

سر جی پوسٹ ٹائٹل کا فانٹ تبدیل کر دیا ہے پوسٹ کا بھی کر دیں
تحریر پڑھنے کے لطف میں مزید اضافہ ہو جائے گا

Popular Posts