دھتکارے لوگ
نکلنا خلد سے ادم کا سنتے آئے تهے مگر
بڑے بےابرو هو کے تیرے کوچے سے هم نکلے
تارکین وطن کہتے هیں جی پڑهے لکهے لوگ ہم رانده درگاھ لوگوں کو مہربانی ہے جی ان سیانے لوگوں کی که اخلاق سے پیش آتے هیں ورنه اگر ہم لوگوں کو بهگوڑے رانده درگاھ یا رفیوجی(دھتکارے گئے)بهی کهـ لیں تو یه بهی حقیقت ہے ـ
ہم بہت هی غریب تهے
اتنے غریب که باهر کے ملکوں میں مجهے ایک بهی ایسا نہیں ملا جو که میرے جیسا غریب هونے کا اعتراف کرے ـ
میں نہیں کہتا که باہر کی کمائی سے امیر هو کر اپنے اپ کو چهپاتے هیں بلکه باہر انے والے تهے هی امیر لوگ اس لیے کبهی کبهی ان لوگوں پر ترس بهی آتا ہے که ان امیر لوگوں کو بهی گھر سے بے گھر هونا پڑا ـ
آپنی تو یه پوزیشن تهی که میٹرک کے امتحان کے لیے داخله بهیجنے کے پیسے نهیں تهے
پلے داری بهی کی ہے جی کمر پر بوریاں ڈهوتے تهے
ابلے آلو کی طرح کمر چھل جاتی تهی
ہاتھوں پر چنڈیاں پڑی هوتی تهیں
هاتھ گریس کے گندے هوتے تهے که میں دوسروں کے هاتھ رشک سے دیکها کرتا تها
بیٹری کے تیزاب سے کپڑوں کا رنگ اڑ کر دهبے بنے هوتے تهے ـ
کبهی عید پر هاتھ صاف کرنے کی امنگ جاگتی تو چھری سے ھاتھوں کو کرچھ کرچھ کر میل اتارتے تهے ـ
هاتھ سرخ سے هوجاتے تهے مگر صاف نہیں هوتے تهے ـ
اسی کی دهائی کے اخیر تک ہمارے گهر پر ریڈیو یا ٹیلی وژن تو کجا کیلکولیٹر تک نہیں تها
ٹیپ ریکارڈ یا کیمرھ امیر لوگوں کے چونچلے جانتے تهے
اس طرح کے حالات ميں شاید میں پاکستان کے حالات میں مس فٹ تها
یا پاکستان میرے ساتھ مس فٹ تها
اس لیے مجهے تو پاکستان سے بهاگنا هی پڑا
آہسته آهسته جب حالات ٹهیک سنبهلنے لگے تو پهر فلسفے بهی سوجنے لگے اور حالات پر تنقید بهی انے لگی ـ
میں یه سب اپنے متعلق اس لیے لکھ رها هوں کیونکه اور لوگ کہیں غصه نه کرجائیں ـ
لیکن یه ہم بیرون ملک مقیم زیاده تر پاکستانیوں کے حالات هیں
میں نے اپنے گھر اور دوسروں کے حالات کو کافی باریکی سے دیکھ کر اندازه لگایا ہے که تم باہر رہنے والوں پاکستان میں رہنے
والوں کو مثبت کی بجائے منفی طور پر متاثر کر رہےهیں۔ بیرونِ ملک مقیم چچا تایا اور ماموں اپنے بھائی بھتیجوں کو ہر ماہ بیٹھے بٹھائے سو دو سو ڈالر یا پاؤنڈ یا یورو بھیج دیتاہے
جس کی بھیجنے والوں کے لئے تو کوئی حیثیت نہیں ہوتی لیکن مقامی روپے میں یہ ایک اچھی خاصی رقم بن جاتی ہے۔ چنانچہ بیٹھے بٹھائے بغیر محنت کے اتنی رقم کا نتیجہ نکمے پن، منشیات کی لت یا دن میں بڑے بڑے خواب دیکھنے کی شکل میں سامنے آ رھا ہے
اور یوں محنت یا کام کاج کا رھا سہا جذبہ بھی سرد پڑ رہا ہے۔
جاٹ کا بیٹا جو کاشتکاری سے جڑے ہوئے کام کچھ برس پہلے تک خود کرتا تھا اب کھیت میں ہل جوتنے یا پانی کے نالے پر پھاوڑا چلانے کے کام کو بھی گھٹیا سمجھنے لگا ہے۔
اسکا خواب اب یہ رھ گیا ہے کہ یا تو باہر جائے گا اورباہر نہ جا سکا تو بس یا ٹرک خرید کر چلائے گا یا چلوائے گا ورنه کچھ بھی نہیں کرے گا
اسکا یہ طرزِعمل باہر انے والی محنت کش نسل کے طرزِ عمل سے قطعاً مختلف ہے۔
وه طرز عمل جس جو کچھ کرکے دیکهانے کی خواہش سے پیدا هواتها اور محنت کشی کی عادت نے جس کو عملی جامه پہنایا تها ـ
هم باهر والے اس بات پر پهلے تو فخر کرتے هیں که ماں کو پیسے بهیج رہے هیں
اور پهر جب مفت کی دولت سے ماں کو کها کهاکر شوگر هو جاتی ہے تو پھر اس کو دوائیوں کے لیے پیسے بهیجتے هیں ـ
بهائیوں کو پیسے بهیجتے هیں که ان کی خواہشیں پوری کریں اور پهر جب یه بهائی مال مفت سے ہڈ حرام هو جاتے هیں تو ان سے لڑائیاں کرتے هیں
اور پھر باهر کی کمائی سے بنائی جائداد پر مقدمے بازی اور جگ ہنسائی ـ
اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اس طرزِ عمل کے بڑھاوے کے ذمے دار بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر تارکینِ وطن ہی ہیں۔
کیا ہم دهتکارے لوگوں نے نادانستگی میں اپنے معاشرے سے بدله تو نهیں لے رہے؟
ان کو کام چوری کی لت لگا رہے هیں
مفت کی کهلا کهلا کر ان کو شوگر کے مریض بنا رہے هیں
باقی کو چرسی اور شرابی بنا کر دے رہے هیں
ہم تو ڈوبے هیں صنم
تم کو بهی لے ڈوبیں گے
1 تبصرہ:
حضرت جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ۔۔ آپ نے قبلہ غالب صاحب کی روح کو تھوڑا تڑپا دیا ہے۔۔ شاید یہ کچھ یوں تھا۔۔
نكلنا خلد سے آدم كا سنتے آئے ہيں، ليكن
بہت بے آبرو ہوكر ، ترے كوچے سے ھم نكلے
ایک تبصرہ شائع کریں