نوکر شاہی
جون ایلیا ایک شاعر ایک ادیب ـ میں ان کی تحاریر کو پسند کرتا هوں که یه سچ کی کڑواہٹ لکهتے هیں ـ
ان کو معاشرے کے دکهوں کا احساس هے ـ
جون ایلیا کا لفظوں کا انتخاب اور فقرے کی ساخت مثالی ہے ـ
پاسپورٹ کے معاملے کے لیے آج کل مجهے پاکستان کے پبلک سرونٹ لوگوں سے معامله پڑا هوا ہے ـ
اسلام آباد میں اردو اور انگریزی کے بلاگر اجمل بهوپال صاحب بهی میرے لیے بهاگ دوڑ کر رہے هیں ـ
جون ایلیا کی ایک تحریر ''بادشاھ گر'' پڑهتے هیں ـ
جون ایلیا لکهتے هیں ـ
جانے کس ستم ظریف نے کب اور کہاں نوکر شاہی کا لفظ ایجاد واختراع کیا تها ـ
اس ستم ظریف موجد کے اور مخترع کے وهم گمان میں بهی نه هو گا که یه لفظ یا دو لفظی مرکب شہنشاہوں ،شاهوں اور حکمرانوں کو شانوں پر پیر تسمه پا بن کر سوار هو جائے گا اور سکه چاهے کسی بهی بادشاه کا چلے اور شاهی چاهے کسی بهی خاندان کی هو مگر ''حکومت''نوکرشاهی کے هی قبضے میں رہے گي ـ
جسے اس بات پر شک هو اور جو اس بیان پر یقین کرنے میں ذرا بهی جهجک محسوس کرتا هو
وه
تاریخ اٹهائے اور وزیروں اور ''امیروں'' کا جاھ جلال اور اوج کمال دیکھے ـ
یحیی برمکی اور جعفر برمکی هیں که ان کے تزک احتشام کے سامنے ہارون الرشید کا اہتمام اور انصرام ماند پڑ جاتا ہے اور وه دیکهتا رھ جاتا ہے ـ
آخر کار جعفر برمکی کا سر قلم کراکے اور اس کے باپ یحیی برمکی کو تبباہی کا نشانه بنا کر هی ہارون ان دونوں باپ بیٹوں سے نجات پاتا ہے
اور حقیقی معنوں میں ''خلیفه ہارون الرشید '' کی حثیت اختیار کرتا ہے ـ
ابوالفضل اور فیضی هیں که ان کے اثر رسوخ کے آگے مہابلی اکبر کے نورعین شہزادھ سلیم کی ایک نہیں چلتی ،یہاں تک که اسے ابوالفضل سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے لیے قاتل کے خنجر آبدار کا سہارا لینا پڑتا ہے ـ
ہم یحیی برمکی ،جعفر برمکی اور ابوالفضل اور فیضی کے علمی مرتبے کے منکر نہیں هیں
اور ان کی عظمت مسلّم هے ـ
ہم تو صرف نوکر شاهی کے تعلق سے ان کا ذکر کر رہے هیں !ـ
سیدان بادشاھ گر هیں کہ جسے چاهیں حخت پر بٹها دیں اور جسے چاهیں تخت سے اتار دیں ـ
انہی کے اشارے سے زندگی کے چراغ گل هوتے هیں اور انہی کے اشارے سے شہزادے ازاد ذندگی کا سانس لیتے هیں ـ
هم چند ضدیوں کی هی تاریخ کیوں دیکهیں ـ
دو ہزار ، تین هزار اور چار پانچ ہزار برس پہلے کے دور پر نظر ڈالیں
فراعنه هوں یا قیصر کسری کے پُر جلال دربار ہر جگه اور ہر بارگاھ عالی میں وزیران باتدبیر اور امیران باتوقیر اور ان کی نگرانی میں کام کرنے والی نوکر شاهی حکومت نظرآئے گی ـ
ٹکسالوں میں سکه شاہوں کے نام کا ڈهلتا ہے اور سلطنت میں حکم ان کی نوکر شاهی کا چلتا ہے ـ
شہنشاهی اور نوکر شاهی کی ناک میں اگر نکیل ڈالی تو وه جمہوریت نے ڈالی لیکن
یه وهیں ممکن هو سکا جہاں واقعی عوام کی مرضی اور منشا سے حکومتیں بنتی بدلتی هیں ـ
اور جن کی ناخوشی اور برہمی سے ایوان ہائے حکومت اور اورنگ هائے سلطنت لرزه براندام هوتے هیں ـ
ہم نے یه ملک جمہوریت کے نام پر بنایا تها
لیکن نوکر شاهی سے تعلق رکهنے والے ایک ''غلام'' نے اس جمہوریت کا ایسا گلا گهونٹا که پهر وه ڈهنگ سے پنپ نه پائی ـ
اب ہمارے يہاں
جمہوریت کے نام پر جو انتشار پهیلا هوا ہے
اس نے نوکع شاهی کو بے لگام کر دیا ہے
چهوٹے سے چهوٹا اہلکار جسے چاهے نہال کردے اور جسے چاهے اسے عبرت ناک زوال کا نمونه بنا دے
جسے چاهے عزت بخشے اور جس کی حرمت کو چاهے تار تار کرڈالے ـ
کوئی بهی نہیں جو اس کی دست برد سے محفوظ هو ـ
ان کے نزدیک کسی کی بهی شخصیت اور آبرو مندی کوئی حثیت نہیں رکهتی ـ
ایسی صورت حال ،ایسی وہشت ناک اور دہشت ناک صورتحال کسی بهی جمہوری حکومت کو راس نہیں آتی ـ
راس آ هی نہیں سکتي
اور کوئی بهی منتخب حکمران دوبارھ عوام کے دربار میں بار نہیں پاتا ـ
اس لیے آپنے حکمرانوں سے استدعا ہے که نوکر شاهی کو آپنے قابو میں لائیں ـ
ان کے تابع مہمل بن کے نه رهیں اسی میں حکمرانوں کی بقا ہے اور اس میں عوام کی بہبودہے ـ
یہاں ایک خاص بات قابل ذکر ہے ـ
اور وه یه ہے که نوکر شاهی کوئی قومی پس منظر نهیں رکهتی ـ
یه انگریزی سامراج کا '' کرم پروانه '' تحفه ہے جس سے ہمیں نوازا گیا ہے ـ
یه وه طبقه ہے جو عوام کا طبق قلٹنے کے لیے وجود میں لایا گیا ہے ـ
اس گروه کو اس کی حد میں رکها جائے اور اسے آزاد جمہوری معاشرے کے آداب سکهائے جائیں ـ
یہی قوم اور ملک کے لیے نسخه نجات ہے ـ
1 تبصرہ:
پتہ نہیں کیوں ہمارے حکمران بیرونی دوروں کے دوران یورپی نوکرشاہی کی خوبیاں نہیں دیکھتے اور ان کو پاکستان میں کیوں نہیں اپناتے؟
ایک تبصرہ شائع کریں