پردیس اور مشکلات
میں غالباً چوتهی جماعت میں پڑهتا تها جب ماموں مشتاق سعودی عرب گئے تهے ـ
ماموں کا ایک خط مجهے یاد ہے جس میں انہوں نے اپنی مشکلات کا ذکر کیا تها ـ اس کو پڑه کر میری ماں بہت روئی تهی اور کتنے هی دن ماں پریشان رهی تهی ـ
اس وقت میں نے سوچا تها که اگر بندے کو مشکلات بهی آئیں تو ان کا پاکستان میں بتا کر سب کو پریشان کرنا ٹهیک نہیں هے ـ
اور میری کوشش رہی هے که میں آپنی مشکلات کا رونا نه روؤں ـ مصبت جو بهی هو اس کو جهیل کر مردانه وار حالات کا مقابله کروں ـ
میری طرح باہر نکلے هوئے لوگوں کا عموماً رویه ایسا هی ہے که پاکستان والوں کو آپنی پریشانیاں نه بتائیں مگر اس کا ایک نقصان هوا که پاکستان والوں کا ذہن بن گیا که باهر والوں کو تو پرشانی ہے هی نہیں بس خوشیاں هی خوشیاں هیں اور باہر والے اپنے حصے کی خوشیاں انجوائے کر کے باقی کی پاکستان بهیج رهے هیں ـ
اس لیے ان باہر والوں کو آپنی پریشانیوں کا بتابتاکر ان کی خوشیاں کم کی جائیں که کہیں ان کو بدہضمی نه هوجائےـ
پاکستانیوں نے ستر کی دهائی میں باہر نکلنا شروع کیا یه ایک چهوٹا سا انقلاب تها جس نے ہماری ذندگیوں کو کافی بدلاـ
اوراس کے مختلف اثرات مرتب هونے لگے قدرتی طور پر ایک کلچر پروان چڑهنے لگا ـ آگر ہمارا معاشره تعلیم یافته هوتا تو یه اثرات مثبت هوتے مگر تعلیم کی کمی نے منفی اثرات کی بہتات کردی ـ
اسانی سے آنے والی دولت نے سود کے اثرات دکهائے که لوگوں میں سے محنت کرنے کی صلاحیت کم هونے لگی ـ
کام چور تو هم پہلے بهی تهے مگر زرمبادله نے رہی سہی کسر بهی نکال دی هے ـ
بچپن اور نوجوانی میں ہر آدمی کو جهڑکیاں تو سہنی هی پڑتی هیں ـ
جهڑکیاں سہتا یه نوجوان جس کی تعلیم بهی واجبی سی هوتی ہو اور تربیت تو هوتی هی نہیں که تربیت کی عمر میں باهر چلےجاتے هیں ـ لیکن باہر جاتے هی کچھ نه کچھ کما کر بهیجنے لگتا ہےپہلی اور دوسری رقم بهیجتے هی باپ کی جهڑکیاں پیار میں بدل جاتی هیں تیسری چوتهی رقم کی ترسیل تک اس جوان کے مشورے بهی سنے جانے لگتے هیں ـ
پهر اس جوان کو احساس هونے لگتا ہے که میں عقلمند هوگیا هوں اور باپ کو بهی عقل کی بات بتا سکتا هوں ـ
بہنیں جو که شکایتیں لگاکر مار پڑوانے میں پیش پیش هوتی تهیں وه بهی لاڈ دیکهنے لگتی هیں ـ
یعنی که اچهاخاصا عقل کا اپهار سا انے لگتا ہے ـ
باہر والوں کی ایک مجبوری هوتی هے مشترکه مکان میں رہنے کی که اگر مکان شئر نه کریں تو بچت نہیں هوتی اور اگر بچت نہیں هو گی تو عزت نهیں هو گي ـ
اب اس مشترکه مکان میں رہنے والے سارے هی ایک جیسے حالات سے گذر کر آپنی آپنی جگه عقلمند هو چکے هوتے هیں ـ
کم تعلیم اور تربیت سے محروم یه لوگ کسی کو تسلیم هی نہیں کرتے
مگر دوسرے بهی
ان کو تسلیم نہیں کرتے اور یه بات لڑائیوں کا باعث بنتی هے ـ
اس مسئلے کا کیا حل هونا چاهیے که ان لوگوں کو بتایا جائے که کیسے اجتماعی زندگی کا شعور حاصل کریں ـ
که اجتماعی زندگی کا شعور معاشرے سے انتشار کو کم کرتا ہے ـ
عقلِ کل سمجهتے هیں آپ ؟
عقلِ کل ادمی کو آپ بتا هی نہیں سکتے که صحیع اور غلط کیا ہے کیونکه اس کو ساری هی باتوں کا علم هوتا ہے ـ
بس عقل کل سے هو جاتے هیں ہمارے پاکستانی باہر جا کر ـ
اور کسی حد تک میں بهی اس کیٹگری میں آتا هوں ـ
اس لیے میری کوشش هوتی هے که کسی کی بات سن لوں هو سکتاہے که بات کرنے والاصحیع هی هو ـ
بیوه عورت کے بچے کی طرح فوراً توُ تکار اور گالی گلوچ پر اُتر آتے هیں ـ
جنریشن گیپ کہتے هیں غالباًاس کو ـ
باقی فیر سہی
2 تبصرے:
بجا ارشاد فرمایا، مگر سچی سی بات ہے ، کہ ہم لوگ جو باہر جا کر “ولایتی“ بن جاتے ہیں ، ہم ہی غلط ہیں ، مگر کیا کریں ہم شاید ان لوگوں میں سے ہیں جو خود مصیبتیں اٹھا کر دوسروں کے لئے آرام کا باعث بنتے ہیں ، اور اب یہ کام دوسروں کا ہے کہ وہ ہمیں کتنا سکون دیتے ہیں
صحیح لکھا ہے آپ نے ۔ میں نے پاکستانیوں کا ملک سے باہر مطالعہ کیا اور پاکستان میں ان کے گھر والوں کا بھی ۔ قصور دونوں طرف ہے لیکن باہر جا کر کمانے والوں کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں جن کا ان کے پاکستان میں بسنے والے لواحقین خیال نہی کرتے ۔ گھر والوں نے کیا کچھ بیچ کر اُنہیں باہر بھیجا ہوتا ہے اسلئے وہ کما کر بھیجنا فرض سمجھتے ہیں ۔ پاکستان میں رہنے والوں کو تکلیفات اسلئے نہیں بتاتے کہ وہ جھوٹ سمجھتے ہیں ۔
ایک تبصرہ شائع کریں