جمعہ، 13 اپریل، 2007

مشاہدھ

انسان مشاہدے کا غلام هوتا ہے ـ اور مشاہده هی اس کو شعور دیتا ہے اور مشاہده هی اس کو گمراه بهی کرتا ہےـ
باریک بین کا مشاہده دوسروں سے بہتر هوتا ہے یاپهر تعلیم نالج دیتی هے اور اس نالج اور مشاہدے سے بهی آدمی شعور حاصل کرتا ہے ـ
جاپانیوں کی پچهلی دو نسلوں کا مشاہده هے که اگر ایک ملک ترقی کرنے لگے تو وه ترقی کرتا ہی چلا جاتا ہے ـ یا چیزیں صرف مثبت انداز میں تشکیل پاتی جاتی هیں ـ
لیکن جاننے والے جانتے هیں که معاملات کچھ اور هی طرح چلتے هیں که دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکه کے بعد دوسرا امیرترین ملک ارجنٹائین اکیسویں صدی میں پہنچنے تک غریب ترین هوچکا تها ـ
صدیوں سے ایمیگرینٹ اکسپٹ کرنے والے برصغیر کے لوگوں کو اکیسویں صدی میں خود دوسرے ممالک میں ایمگریشن لینی پڑ رہی هے ـ
سیّد مرزے چغتائی بیگ لودهی وغیره وغیره برصغیر میں ایمگرینٹ هی تو هیں ناں جی ـ
مشاہدے میں مغالطه هم پاکستانیوں کاخاصه هے ـ
بات هو رهی تهی بهیڑوں کی فارمنگ کی او میں بهیڑوں کی فارمنگ کرنا چاہتا ہوں اس لئے میں اس کی حمایت میں دلائل دے رہا تها ـ
میں نے بتایا کی برطانیه ہالینڈ اور اسٹریلیا نیوزی لینڈ جیسے ممالک کی اکنامک میں بهیڑوں کا بہت هاتھ هے
بلکه آسٹریلیا تو اون ایکسپورٹ کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے ـ
میری اس بات کو سن رہا ایک ادمی کچھ دنوں بعد محفل میں کہـ رها تها که مجهے خاور نے بتایا هے که
اسٹریلیا دنیا ميں اون کا سب سے بڑا ضرورت مند ہےـ
میں جو بات کہـ رهاہوں یه صاحب اس سے الٹ سمجھ رہے هیں اور اس الٹے سمجهے کو دوسروں کو بهی بتا رهے هیں ـ
تازه تازه باپ مرے پچهے دولتمند بنا جوان گاڑیاں لے لیتا ہے اور مکینک کے ساتھ تکنیکی بحث کرکے مکینک کو زچ کردیتا ہے اور اس کو آپنی کوالٹی سمجهتا ہے ـ
غریب مکینک کے احساسات کیا هوں گے؟؟
جسکے علم اور ہنر کو اس کے سامنے غلط ثابت کیا جارہاہے اور وه اس کو غلط بهی نہیں کہـ سکتا آپنی غریبی کے ہاتھوں مجبور ـ
یارو لوگ شخصیات پر هی باتیں کیے جاتے هیں
فلاں صاحب اچهے هیں اور فلاں برے
شخصیات پاکستانیوں کا دهرم بن چکا ہے ـ جب بهی ان کی باتیں سنیں یه کسی اوتار کے انتظار میں بیٹھے هیں که آئے اور ہمارے مسائلک حل کرئے ـ
بینظیر نواز شریف پر بحث هو رہی هے که مشرف پر تنقید که ایک کہے گا چلو باقی سارے دیکھ لئے هیں اب عمران کو آزما لیں ـ تو کوئی عمران کو گالیاں دینے لگے گا ـ
جاپان فرانس ہالینڈ جرمنی سپین کے سربراهان مملکت کا نام کم هی لوگ جانتے هوں گے مگر یه سب هی جانتے هیں که یه ممالک ترقی یافته هیں اور آگر ویزه مل جائے تو کمائی کے قابل ملک هیں ـ
شخصت پرست پاکستانیوں کو میں بتانا چاهتا هوں که ان ممالک میں ایک سسٹم ہے جس نے ان کو کامیاب کیا ہے ـ
پہلے آپ لوگ اس بات کو سمجھ لیں که پاکستان کو سسٹم کی ضرورت ہے پهر سسٹم بهی بن جائے گا لیکن آگر اپ کا مشاہده اس قابل بهی نہیں ہے که آپ شخصت اور سسٹم کا فرق سمجھ سکیں تو آپ ایک کم علم اور جاہل آدمی هیں کسی وجه سے آپ اگر دولت مند بهی ہیں تو بهی آپ عقلمند نہیں هیں ـ
یه میرا مشاہدھ ہے اور یه غلط بهی هو سکتا ہے کسی بهی ایسے آدمی کی نظر میں جو بہت بهی باریک بین هو اور اہل علم بهی ـ

4 تبصرے:

گمنام کہا...

سلام
سیسٹم کی اہمیٹ سے کسی کو انکار نہٰن ہو سکتا لیکن سیسٹم خود بخود نہیں چلتا۔ اس کو چلانے کے لءے کسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو لیڈر بھی کہا جا سکتا ہے۔
جیسے ہر زمانے میں پرانے سیسٹم کو تبدیل کرنے کے لءے نبی آتے رہے۔ ان کے سلسلے کے ختم ہونے پر باقی قوموں میں انقلاب ٓنے لگ گءے ہم چونکہ مسلمان ہیں لہزا ہم میں نہ مانوں ہار سجنا پر عمل کرتے ہیں اور حضرت عیسی کے انتظار مٰن بیٹھے ہیں کہ اگر بجلی کا بل بھی جعم کرانا ہے تو ان کا انتظار کر لیا جاءے۔
ہماری آدھی قوم گاڈ فادر بننے کے چکر میں ہے جس کی وجہ سے یہ باقی ٓآدھی قوم کو ہڈ حرامی کی عادت ڈال دیتی ہے جیسے ہم لوگ باہر جا کر گھر والوں کو ہر آساءش فراہم کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور گھر والے کچھ عرصے بعد اتنے عادی ہوتے ہیں کہ ٓپ والی بات کہ کام دھندے کا پوچھنے پر کہتے ہیں کہ میرا بھاءی باہر ہوتا ہے۔

گمنام کہا...

اسلام آباد کے جی ۔ 9 مرکز [المعروف کراچی کمپنی] میں ایک دکاندار سے میں سودا لیتا ہوں وہ شکر گڑھ کا رہنے والا ہے ۔ اس کا سودا اچھا اور بازار سے رعائت ہوتا ہے ۔ ایک ماہ قبل میں سودا لینے گیا تو ایک سال پرانے چاول جو اس سے ایک ہفتہ قبل 34 روپے فی کلو تھے وہ 46 روپے فی کلو تھے ۔ میں نے کہا اب تو نئی فصل آ چکی ہے اسلئے چاول سستے ہونے چاہیں ۔ اُلٹا اتنے مہنگے ہو گئے ہیں ۔ دکاندار کہنے لگا کہ وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ہمارے ملک میں کوئی سسٹم باقی نہیں بچا ۔ جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کرتا ہے اور پوچھنے والا کوئی نہیں ۔

Unknown کہا...

آپ کی بات بلکل درست ہے ہم لوگ شخصیات پر بحث کرکے وقت ضائع کرتے رہتے ہیں اور حالات کو سدھارنے کی بات نہیں کرتے۔

خاور کھوکھر کہا...

جناب اجمل صاحب ایک بات یه بهی ہے که پرانے چاول مہنگے هوتے هیں نئے کی نسبت ـ
شادی بیاه پر تین چار سال پرانے چاول کهلانے والے کی بڑی واه واه هوتی تهی
اب تو جی کهپرا آ گیا ہےـ
پرانے چاول کے شوقین اب ترسا کریں گےـ
ہم پر جراثیمی ہتهیاروں سے حمله هو چکا ہے اور ہمیں پته هی نہیں اور حکمران دفاع کی مضبوطی کے للکارے مار رہے هیں ـ

Popular Posts