جمعہ، 8 جولائی، 2005

محمود غزنوى!! هيرو يا ڈاكو؟

لڑائی کا گھمسان ہوا۔ راجپوت پسپا ہوئے۔ محمود نے آگے بڑھ کر نگر کوٹ کے مندر کو لوٹا۔ چاندی سونے موتیوں اور جواہرات کے انبار جو مدتوں سے دیندار اور بااعتقاد ہندوئوں کے چڑھائے ہوئے مندروں میں جمع تھے' سب لوٹ کھسوٹ کر غزنی میں لے گیا۔

غزنی پہنچ کر محمود نے ایک بڑی بھاری دعوت کا سامان کیا۔ تمام افغانوں کو بلوایا۔ تین دن تک ان کی ضیافت کی۔ ہند سے جو زر و جواہر ریشم و کمخاب سونا اور چاندی لوٹ کر لایا تھاـ نمائش کے طور پر چوکیوں پر سجا کر سب کو دکھایا۔ سرداروں اور امرا کا تو کہنا ہی کیا ہے' ان کو تو نہایت قیمتی تحفے دئیے اور غریب سے غریب افغان بھی ایسا کوئی نہ تھا کہ دعوت سے خالی ہاتھ گیا ہو اور ایک معقول انعام نہ لے گیا ہو۔
جى هاں محمود غزنوى ٩٩٧ء سے ١٠٣٠ء پاكستان ميں پڑهايا گيا هے كه
محمود بہادر سپاہی تھا۔ اپنے ہم عصروں سے زیادہ ظالم اور بیرحم نہ تھا۔ لڑائی میں جو قیدی ہاتھ آتے تھےـ ان کو قتل نہیں کرتا تھا۔ سلطنت افغانستان کا انتظام بڑی خوبی کے ساتھ کرتا تھا۔ ہندوستان کی دولت سے اس نے غزنی میں بڑی بڑی عالیشان عمارتیں بنائیں اور اس کی رونق بڑھائی ـ بہت سے شاعر اور باکمال دور دراز ملکوں سے آکر غزنی میں آباد ہوئے۔
فردوسی شاعر کے ساتھ ايكـ کارروائی ۔ محمود نے فردوسی سے شاہنامہ لکھنے کی فرمائش کی اور صلے میں فی شعر ایک اشرفی دینے کا وعدہ کیا۔ تیس برس کی محنت کے بعد فردوسی ساٹھ ہزار شعر لکھ کر لایا۔ محمود ایک کتاب کے لیے ساٹھ ہزار سونے کی شرفیاں دینے سے ہچکچایا اور اشرفیوں کی جگہ چاندی کے ساٹھ ہزار دینار دینے لگا ـ فردوسی نے دینارلے كر آپنے اس خادم كو دے دئيےجس نے يه شاه نامه لكهنے كے دوران عظيم فردوسى كى خدمت كى تهى اور خود فردوسى مایوس ہو کر فارس میں اپنے وطن کو چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد محمود اپنی حرکت پر پشیمان ہوا اور ساٹھ ہزار سونے کی اشرفیاں دے کر قاصد کو فردوسی کے پاس بھیجا۔ مگر اب کیا ہونا تھا ادھر محمود کا قاصد اشرفیوں کی تھیلیاں لیے شہر میں داخل ہوا ادھر معلوم ہوا کہ فردوسی کا جنازہ قبرستان کی طرف چلا جا رہا ہے۔

تیس برس کی عمر میں محمود تختِ شاہی پر جلوہ گر ہوا۔ جب تک بارش کا موسم رہا اور درے برف سے صاف نہ ہوئےـ خاموش بیٹھا رہا۔ اس کے بعد اپنی فوج لے کر ہند پر چڑھ آیا۔ بہت سے اونٹ اور گھوڑے لوٹ کا مال لاد کر لے جانے کو اپنے ساتھ لایا۔ دیکھا کہ جے پال جو اس کے باپ سے لڑ چکا تھاـ اس کے مقابلے پر لڑنے کو موجود تها لیکن محمود اور اس کے افغان ہمراہیوں نے جے پال کو بھگا دیا اور بہت سا قیمتی مال و زر لوٹ کر غزنی لے گئے۔
انند پال نے دیکھا کہ ہندوستان کے سر پر ہر وقت خطرہ لگا ہوا ہے۔ پس اس نے اجین ـ گوالیارـ قنوج ـ دہلی اور اجمیر کے راجائوں کو پیغام دیا اور کہا کہ محمود سالِ آئندہ میں ضرور پھر حملہ کریگاـ آپ آئیں اور میرے ہمراہ ہو کر اس کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے منظور کیا اور راجپوتوں کے دل كےدل پنجاب میں داخل ہوئے۔ لیکن شمالی سرد ملکوں کے افغان ہند کے گرم میدانوں کے راجپوتوں سے طاقتور تھے۔ لڑائی کا گھمسان ہوا۔ راجپوت پسپا ہوئے۔ محمود نے آگے بڑھ کر نگر کوٹ کے مندر کو لوٹا۔ چاندی، سونے، موتیوں اور جواہرات کے انبار جو مدتوں سے دیندار اور بااعتقاد ہندوئوں کے چڑھائے ہوئے مندروں میں جمع تھےـ سب لوٹ کھسوٹ کر غزنی میں لے گیا۔
اور ايكـ دعوت كا انتظام كيا جس دعوت كا ذكر اس پوسٹ كے دوسرے پيرے ميں كيا گيا ەے ـ

ایسی ایسی ترغیبوں اور تحریصوں سے محمود افغانوں کو ہند پر چڑھا لاتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی ہمت کا دریا طغیانی پر تھاـ ہر بار جو قدم تھا آگے ہی آگے پڑتا تھا۔ جہاں کہیں کسی مالدار شہر یا مندرکا پتہ پایا وہیں اپنی فوج کو لے کر جا طوفان بپا کیا۔ مندر ڈھائےـ بت توڑےـ پجاریوں کے سینکڑوں برس کے جوڑے ہوئے مال و اسباب لوٹے۔ راجپوت راجا آپس میں لڑتے تھے مگر مندروں کے مال کو ہاتھ نہ لگاتے تھے۔ اس سبب سے مدتوں کی آمدنی سے ہر مندر میں دولت کے انبار اکٹھے ہوگئے تھے۔ ترک ایرانی اور افغان اس مال و دولت کے لوٹنے پر ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ جہاں اس نے ہند پر حملہ کرنے کے لیے فوج کے جمع ہونے کا حکم دیا وہیں یہ لوگ آندھی کی طرح اٹھے چلے آئے۔ پھر محمود کے ہر حملے میں فوج کی کثرت نہ ہوتی؟ تو کیا ہوتا؟
محمود١٠٢٤ء میں آخری بار ہند پر حملہ آور ہوا اور سومناتھ کے مندر پر پہنچا۔ یہ گجرات دیس میں ایک بہت پرانا اور بڑا مندر تھا جو اپنی بے شمار دولت کے سبب تمام ہند میں مشہور تھا۔ سندھ کے ریگستان میں ساڑھے تین سو میل کا دور دراز سفر طے کر کے محمود اس مندر کے سامنے آن موجود ہوا اور ہندوئوں کی اس بڑی فوج کو شکست دی۔ جو مندرکی حفاظت کے لیے جمع کی گئی تھی۔ جب یہ مندر کے اندر داخل ہوا تو ڈرتے کانپتے پجاریوں نے التجا کی کہ اگر آپ ہمارے سومناتھ دیوتا کی مورت کو جوں کا توں چھوڑ دیں تو ہم اس کے عوض آپ کو بہت سا روپیہ دینے کو تیار ہیں۔ لیکن ان کی بات نہ مانی ـ
یہاں سے افغانستان واپس جانے کے کچھ ہی عرصے بعد محمود مر گیا۔ یہ خود ہند ميں كبهى نہیں ٹھیرا ــ

کوئی تبصرے نہیں:

Popular Posts