مندرجہ ذیل پوسٹ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ تبدیلی بھیک مانگنے سے نہیں دینے سے آتی ہے ،۔
میرے ذہن وہ ویڈیو گھوم رہی تھی جس میں مذہبی لیڈر خادم حسین رضوی صاحب ملکی معیشت کو بھیک سے چلانے کا آئیڈیا دے رہے تھے ،۔
میرا خیال تھا کہ عمران کے ذہن میں جاپانی یا امریکی معاشی ماہرین کا کوئی آئیدیا ہو گا لیکن عمران صاحب کے ذہن میں بھی خادم حسین رضوی صاحب والا کمپیوٹر سیٹ کر کے لانچ کیا گیا ہے ،۔
سن 2008ء کے اگست میں جاپان میں بہت بڑا مالی بحران آیا تھا ، امریکہ میں لیہمین بنک کے دیوالیہ ہوتے ہی ایسا لگا کہ جیسے جاپان میں کرنسی نامی چیز ہی غائب ہو گئی ہے م،۔
لوہے کے سکریپ کا ریٹ 60 ین فی کلو سے گر کر 3 روپے ہو گیا تھا ،۔
منڈی میں جو ٹرک ڈھائی ملین کا بک رہا تھا ، اس کو کوئی ڈھائی لاکھ میں بھی لینے کو تیار نہیں تھا ،۔
جاپان میں لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کی حکومت تھی ، ایک سال بعد الیکشن تھے ، لبرلز معیشت کو سنبھالا نہیں دے سکے ،۔
1955ء سے اپنے قیام سے مسلسل اقتدار میں موجود پارٹی کو 2009ء کے الیکشن میں شکست ہوئی تھی کیونکہ اپوزیشن پارٹی ڈیموکریٹ پارٹی جاپان نے معیشت کو سنبھالا دینے کا وعدہ کیا تھا ،۔
ڈیموکریٹ پارٹی نے اقتدار سنبھالتے ہیں معیشت کے ماہرین سے مشورہ کیا تو ان کو بتایا گیا کہ ملکی معیشت کی تیزی کا انحصار حکومتی خرچوں پر منحصر ہوتا ہے ، حکومت جو خرچ کرتی ہے ، یا کہ اسان سود اور شرائط پر جو قرضے دیتی ہے ملک کی معیشت اس سے تیزی پکڑتی ہے ،۔
جس کے لئےدیموکریٹک پارٹی نے تعمیرات کے ٹھیکوں کی شکل میں ٹریلین ین کی رقم ملکی کمپنیوں میں بانٹی ، بڑی کمپنیوں نے ذیلی کمپنیوں کو ٹھیکے دے کر اس رقم کو اگے پھیلایا ،۔
اس کے علاوہ بنکوں سے اسان شرائط پر قرضے دئیے گئے
لیکن معیشت پر طاری سستی دور نہ ہو سکی ،۔
اس حکومت کے وزیر اعظم ہاتو یاما پر ان دنوں الزام لگا کہ ان کو ہونے والی ماہانہ ایک کروڑ چالیس لاکھ کی امدن پر ٹیکس نہیں دیا جا رہا ،۔
جس پر ہاتو یاما صاحب نے قوم کو بتایا کہ یہ رقم ان کی امدن نہیں ہے بلکہ ان کو اپنی ماں کی طرف سے ملنے والا جیب خرچ ہے ،۔
ایک کروڑ چالیس لاکھ ، جو کہ ان دنوں کوئی دو لاکھ امریکی ڈالر بنتے تھے ، ۔
جاپانی میڈیا نے اس بات کا بہت مذاق اڑایا کہ ایک کروڑ چالیس لاکھ ین ماہانہ جیب خرچ ؟؟
میڈیا اینکر جب ہاتو یاما صاحب کی ماں سے یہ پوچھنے کے لئے گئے کہ کیا اپ واقعی اتنی بڑی رقم جو کہ جاپان کے تنخواھ دار کی اوسط سالانہ رقم سے بھی تین گنا زیادہ ہے اتنی رقم ماہانہ جیب خرچ کے لئے دیتی ہیں ؟
تو یاتو یاما کہ ماں نے بتایا کہ ہاں میں اتنی رقم اپنے بیٹے کو جیب خرچ دیتی ہوں ،۔
جس پر جاپانی میڈیا نے قوم کو اگاھ کیا کہ وزیراعظم ہاتو یاما صاحب کی ماں بریج سٹون ٹائر بنانے والی کمپنی کے مالک کی بیٹی ہے ، اور اس کو بھی اپنے باپ سے جیب خرچ ملتا ہے ،۔
ہاتو یاما صاحب کے جیب خرچ والی بات ایسے ہی باتوں سے بات نکل آئی ہے اور اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں کہ قانونی طور پر اپنی انکم کو بانٹ کر انکم ٹیکس کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے ، جس سے ملک کو بھی نقصان نہیں اور ٹیکس گزاروں کو بھی تسلی رہتی ہے ،۔
اب ہوا یہ کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی چار سال کی حکومت میں معیشت سنبھل نہ سکی ،۔
لبرل ڈیموکریٹکس نے معیشت کو سنبھالا دینے کا نعرہ لگایا،۔
قوم نے الیکشن میں دوبارہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو منتخب کر لیا ۔،
نئے وزیر اعظم شینزو آبے صاحب نے معاشی ماہرین سے مشورہ کیا ،۔
ماہرین نے بتایا کہ
معیش میں تیزی لانے کا فارمولا بس حکومتی خرچوں کو بڑھانے میں ہی ہے ،۔
جب ماہرین سے پوچھا گیا کہ ڈیموکریٹکس کی حکومت تین ٹریلن ین کی رقم مارکیٹ میں پھینک چکی ہے ، اس کا نتیجہ کیوں نہیں نکلا ؟
تو ماہرین نے بتایا کہ معاشی بحران سے قوم میں عدم تحفظ کا احساس بن گیا ہے جس کی وجہ سے لوگ خرچ کرنے کی بجائے رقم کو سنبھال کر بیٹھ گئے ہیں ، قوم کا یہ احساس ختم کرنے یا کم کرنے کے لئے مذید رقم مارکیٹ میں لانی ہو گی ، تاکہ عام عوام کے بٹوے تک رقم پہنچے اور عام اپنے بٹوے خرچ کے لئے کھولنے پر امادہ ہو جائے ،۔
وزیر اعظم شینزو آبے صاحب نے اپنے دور اقتدار میں تین دفعہ بڑی بڑی رقوم مارکیٹ میں پھینکی ہیں ،۔
بنکوں کو قرضے دینے پر مجبور کیا ہے ،۔
بلکہ جاپان نے بنکنگ کی تاریخ میں پہلی بار مائینس سود کا فارمولا متعارف کروایا ہے ،۔
ماینس سود کے فارمولے والی بات یہ ہے کہ
ملکی بنک اپنے کھاتا داروں کی رقوم ، طلب گاروں کو سودی قرضے پر دیتے ہیں ،۔
زاید رقوم سٹیٹ بنک میں رکھتے ہیں ، جہان سٹیٹ بنک ان کو سود ادا کرتا ہے ،۔
جاپان نے یہ رول متعارف کروایا کہ بنکوں کی سٹیٹ بنک میں رکھی رقوم پر سود ادا کرنے کی بجائے وصول کیا جائے گا ، اگر بنک یہ سود ادا نہیں کرنا چاہتے تو اپنی رقوم کو شہریوں کو قرضے دینے میں استعمال کریں ،۔
جاپان ے ملک کے اندر معاشی ٹیکٹ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ خارجی محاذ پر تجارت کے لئے نئے معاہدے کئے ، نئی شرائط طے کیں جن کی تفصیل آج کا موضوع نہیں ہے م،۔
ابھی تک جاپان کی معیشت میں روانی نہیں آئی ہے لیکن حالات بہتری کی طرف رواں ضرور ہیں ،۔
پاکستانیو ، عقل نوں ہتھ مارو ،۔
جاپان کی نقل ہی کر لو ،۔