اتوار، 31 جنوری، 2016

خدا کے مدد گار


کہیں کسی گامے نے حکومت سے زمین الاٹ کروائی
جو کہ جھاڑ  جنگھاڑ کا جنگل تھا۔
گامے نے  اس جنگل کی صفائی شروع کی  صبح سے شام تک زمین کو قابل کاشت بنانے کے لئے جتا رہتا تھا۔
ایک دن وہاں سے ایک پادری کا گزار ہوا۔
پادری گامے سے پوچھتا ہے ۔
کیا کر رہے ہو؟
گاما اس پادری کو بتاتا ہے کہ زمین کو قابل کاشت بنانے کے لئے صفائی کر رہا ہوں ۔
پادری گامے کو دعا دیتا ہے
خداوند خدا تمہاری مدد فرمائے ۔ آمین ۔؎
کہہ کر پادری چلا جاتا ہے ۔
کسی سال بعد جب پادری کا دوبارہ وہاں سے گزر ہوتا ہے ۔
تو پادری دیکھتا ہے کہ وہ زمین ایک بہت خوبصورت فارم میں تبدییل ہو چکی ہے ۔
ترتیب سے لگے درخت ، پھولوں کی کیاریاں ، کھیتوں میں اگی سبزیاں اور پھلوں کے درخت ، سب کچھ بہت ہی ترتیب سے حسن کی بہار دیکھا رہا تھا
گاما   بھی وہیں  کام کر رہا تھا
پادری ، گامے کے  سلام کا جواب دے کر  کہتا ہے
تم نے خداوند خدا کی  مدد سے اس زمیں کو بہت  خوب صورت بنا لیا ہے ۔
دل میں تپا ہوا گاما  بڑی ملائمت سے پادری کو جواب دیتا ہے ۔
فادر ! اپ دیکھ لیں کہ
میری مدد سے خدا اس فارم کو کتنا خوبصورت  بنا دیا ہے
ورنہ جب تک خدا اکیلا لگا تھا اس وقت کی حالت بھی تو اپ نے دیکھی تھی ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں تبلیغی جماعت کو جامعات اور دیگر درسگاہوں میں “ تبلیغ” سے منع کر دیا گیا ہے ۔
کینٹ کے علاقوں میں  کوئی دو سال پہلے ہی منع کر دیا گیا تھا ۔
پاکستان اسلام کا قلعہ  قرار دیا گیا اور مولوی کو  اس کی ترتیب کے کام پر لگا دیا گیا ،۔
مولوی نے خدا کی مدد سے اس ملک کو اتنا محفوظ بنا دیا کہ   مسجدوں میں نماز بھی حفاظت  کے ساتھ ادا ک جانے لگی ۔
مولوی کو  خدا کی مدد سے ہٹا کر کسی  ماجھے گامے کو  لگا دو کہ وہ شائد خدا کی مدد سے گامے کی طرح اس ملک کو ایک خوبصورت فارم کی طرح بنا دے ،۔
پاکستان کے ارباب اختیار فرشتو!!۔
یہ جی ایچ کیو کے گملوں میں اگے ہوئے
مولوی ، دانش ور ، سیاستدان ، پچھلے تیس سال میں ایک جنگلی جھاڑ جھنگاڑ بن چکے ہیں ،۔
فرشتوں اب خدا کی مدد کے لئے کوئی گاما چاہئے جو اس جنگل کو  فارم ہاؤس بنا سکے ،۔

جمعرات، 28 جنوری، 2016

نروان


بارسلونا میں ایک ریسٹورینٹ میں بیٹھا تھا کہ ایک بریلوی مسلک کے دیہاتی بزرگ سے ملاقات ہوئی
مذہبی باتوں میں وہ بابا مجھ سے چڑ گیا کہ تم ہو کیا ؟
تم تو چکڑالوی ہو !!۔
اس دیہاتی بابے نے مجھے بتایا کہ ان کے گاؤں کا ایک بندہ  جو کہ بریلوی گھرانے کا تھا ، وہ گمراھ ہو کر  وہابی ہو گیا تھا
کچھ مدت بعد وہ وہابیت بھی چھوڑ کر تمہاری طرح چکڑالوی ہو گیا تھا ۔
پھر کچھ وقت ایسا بھی آیا کہ لوگ کہنے لگے تھے کہ وہ عیسائی  ہو گیا تھا ۔
لیکن خاور پتر تمہیں مزے کی بات بتاؤں کہ وہ بندہ  پچاس  کے پیٹے میں پہنچتے پہنچتے دوبارہ بریلوی ہو چکا تھا  ۔
آج جبکہ میں اپنی عمر کی پچاسویں دھائی میں ہوں تو مجھے وہ بابا یاد آ رہا ہے
کہ
میں نے ایک سنی بریلوی گھرانے میں جنم لیا ۔
قران کے مطالعے نے مجھے شرک سے نفرت  کا احساس شدت سے ہوا تو میں نے  بریلوی مسلک کو  مشرک سمجھ کر چھوڑ دیا ۔
توحید کا درس دینے والے اہل حدیث  کی باتیں اچھی لگیں لیکن جب غور کیا تو جھوٹ کا پلندہ  کہ لوگ منکر حدیث کہنے لگے  ۔
میں نے قران کے فلسفے پر بڑا غور کیا ور دیگر مذاہب کی کتابیں پڑہیں
کہ لوگ مجھے بھی غیر مسلم سمجھنے لگے
آج میں اعتراف کرتا ہوں کہ
میں دوبارہ اپنے خاندان  کے ساتھ ان کی رسوم اور عبادات میں شامل ہونا پسند کروں گا
آپ مجھے  واپس پلٹ آیا ہوا کہہ سکتے ہیں ۔
لیکن
یہ سب کیون ہوا ؟
کیسے ہوا ؟
میں نے کن کن کربوں کی خاک چھانی ، کن مغالطوں کے جنگل گھومے ، مبالغوں کے کن اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہا ؟
اگر وہ سبب احوال میں نے لکھ دئے تو؟
لوگ مجھے قتل کر دیں گے ۔
شائد اسی کیفیت کے لئے
میاں محمد بخش صاحب نے لکھا تھا
خاصاں دی گل ، عاماں اگے
تے نئیں مناسب کرنی
دودہ دی کھیر پکا محمد
تے کتیّا اگے رکھنی ۔

اتوار، 24 جنوری، 2016

جاپانی لوک کہانیوں کی بات

جاپانی لوک کہانیوں میں ایک دیوتا کا بڑی کثرت سے ذکر ملتا ہے ۔
جسے “بیمبو گامی “ کہتے ہیں ، یعنی کہ غریبی کا دیوتا ،۔
غریبی کا دیوتا بینبو گامی بڑا سست الوجود اور کاہل واقع ہوا ہے  ،۔
بینبو گامی جس گھر میں ڈیرا ڈال لے اس گھر میں غریبی گھر کر جاتی ہے ،۔
بینبو گامی کے ڈیرا کرنے سے گھر کے لوگ بھی سست الوجود اور کاہل ہو جاتے ہیں ،۔
بینبو گامی گھر کے کونے کھدروں میں  کہیں ایسی جگہ ڈیرا کر لیتا ہے جہاں گھر کے افراد کی نظر یا قدم نہ پڑیں ، جیسے کہ 
چھت کے چھتیروں کی اوٹ وغیرہ ،۔
جس گھر میں بینبوگامی کا ڈیرا ہو وہ گھر ترقی نہیں کر سکتا ،  اس گھر کے افراد کا پہناوا گندا ہو کر چھیتڑوں میں تبدیل ہو جاتا ہے ،۔
افراد کے منہ پر رونق نہیں رہتی اور اس گھر کے افراد کے منہ پر حالات کی خرابی کا شکوہ اور دوسروں کی سازشوں اور دوسروں کے حسد  کی تکرار ہوتی ہے ،۔
جیسا کہ دنیا بھر کی لوک کہانیاں ،لوگوں کو دانش دینے کے لئے ہوتی ہیں اسی طرح  جاپان کی بیمبو گامی کی کہانیاں بھی  لوک دانش  سے بھر پور ہوتی ہیں ،۔
ان کہانیوں میں  بینبوگامی کی بسیرے کے حالات کو بتا کر یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ   غریبی کا یہ دیوتا  کسی بھی گھر سے کن حالات میں  بھاگ نکلتا ہے ،۔
اور حالات بدل جاتے ہیں ،۔
جاپان کی ان لوک کہانیوں میں  بتایا جاتا ہے کہ
جب بھی کوئلے کی آگ پر لوہا گرم ہو  ،اور بہت زیادہ گرم ہو جائے تو  ؟
اس گرمی ، بو اور ٹرخ سے جو حالات پیدا ہوتے ہیں وہ غریبی کے دیوتا  بینبوگامی کی برداشت سے باہر ہو جاتے ہیں اور غریبی کا دیوتا بینبو گامی بھاگ نکلتا ہے  ،۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل مطالعہ
لوہے کو ڈھالنے والی فونڈری ہی کسی ملک کی غریبی کا سب سے بہتر حل ہے  ،۔
ماضی قریب  میں برطانیہ نے لوہے کو ڈھال کر ساری دنیا کو ریل کی پٹریاں سپلائی کی اور غیربی بھاگ نکلی ،۔
جاپان میں بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد  ملک کی بڑی بڑی انڈسٹری کوئلے کی کانون سے کوئلہ نکالنا اور اس کوئلے سے لوہا ڈھالنا تھیں ،۔
جرمنی اور روس  کی غریبی  کو بھگانے میں بھی  لوہے کو کوئلے پر گرم کر نے والا  جاپانی لوک کہانیوں والا فارمولا نظر آتا ہے  ،۔

ہفتہ، 2 جنوری، 2016

ڈسکو ڈانس

بابا گاما  گاؤں جانے والی بس کے انتظار میں لاری اڈے پر کھڑا تھا
کہ
پیجو بدمعاش  کا وہاں سے گزر ہوا ۔
پیجو کے دل میں  اپنی دہشت بٹھانے کے لئے بابا گاما ایک اسان شکار نظر آیا ۔
پیجو پستول نکال کر  بابے کے قریب  آتا ہے ۔
سارے اڈے کے لوگوں کا دھیان اس کی طرف ہو جاتا ہے ۔
پیجو ، بابے سے پوچھتا ہے
اوئے بابا ،کدی ڈسکو ڈانس وی کیتا ای ؟
بابا گاما سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر کہتا ہے ، نئیں پتر !!۔
تے لے فیر اج کر کے ویکھ  ، کہہ کر پیجو  بابے کی پاؤں  کی طرف گولیاں چلانے لگتا ہے  ۔
بابا گاما اپنے پیر بچانے کے لئے اچھلنے لگتا ہے ،۔ سارے اڈے  کے لوگ ہنسنے لگتے ہیں ۔
پیجو ساری گولیاں ختم کر کے  پلٹتا ہے اور مجمعے کی طرف  فخر کی ایک نظر ڈال کر دو ہی قدم چلتا ہے کہ
بابا گاما  قمیض کے نیچے بغل سے کٹے ہوئے بٹ والی  دو نالی نکال کر  دو نالی کے دونوں گھوڑے چڑھا لیتا ہے ۔
گھوڑے چڑھنے کی آواز سے سارے مجمعے  کو چپ لگ جاتی ہے ، سارے اڈے پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے
کہ سوئی گرنے کی آواز بھی جس میں سنائی دے  ۔
پیجو کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی لہر سی گزر جاتی ہے
دہشت بھری نظروں سے جب پلٹ کر دیکھتا ہے تو
دونالی  کے بیرل اس کو توپ جیسے نظر آتے ہیں ۔
بابا گاما مسکراتے ہوئے  اس سے پوچھتا ہے ۔
پتر ناں کی اے تیرا ؟؟
پیجو: جی پیجو ، پیجو حرام دا!!!۔
بابا گاما : پتر پیجو  ، کدی چوٹے دے پتالو چم کے ویکھے نے ؟؟
نئیں بابا جی نئیں ، پر میرا دل بہت کردا جے ، میں ہنے ای تہانوں چم کے ویکھانا واں
او ویکھو او کھلوتا ہے گجراں دا چوٹا
پیجو یہ کہتا ہوا چوٹے کی طرف لپکتا ہے
بابا اس کو کہتا ہے اوئے پستول مجھے دے اور ہو جا شروع۔
پیجا بڑے احترام سے خالی پستول بابے کو تھما کر بھینسے کی ٹانگوں کے درمیان لپکتا ہے ۔
حاصل مطالعہ
اک تو پستول کی ساری ہی گولیاں نہیں چلا دینی چاہئے
اور دوسرا  بابے لوگوں کی عزت کرنی چاہئے کہ بابوں نے بھی جوانی دیکھی ہوئی ہوتی ہے ۔

Popular Posts