ہند کی ذاتیں اور پاک قوم
اگرچہ کہ پرانوں میں لکھا ہے
کہ وہ بندہ جو دھرم بھاؤ والا ہو ، جس کے کھانے پینے اور پہننے میں اصول اور ضوابط ہوں ، جو پربو ( خدا) کی عبادت میں مگن رہتا ہو ،
اس کو معاشرے کا معزز ترین بندہ تسلیم کیا جانا چاہئے ۔
اس کو برہمن کا نام دیا گیا ۔
وہ جو اپنے جان کی بازی لگا کر وطن کی ،دھرتی ماں کی حفاظت کرتا ہے ،
اگرچہ کہ اس کے قول میں کبھی جھوٹ بھی شامل ہوتا ہے اور کھانے میں نشے کی بھی احتیاط نہیں کرتا ، اس کو معاشرے میں دوسرا درجہ دیا جائے گا ۔
اور اس کو کشھتری کہیں گے۔
اسی طرح دوسری جاتیوں کا کا انتطام ہے کہ ان کی بھی ڈیفینیشنز بنائی گئیں ۔
تیسری کاسٹ “ویش “ کی ڈیفینیشنز ہیں
کہ وہ لوگ جو سیکھے ہوئے کام کرتے ہیں اور اپنے اولادوں کو بھی سکھاتے ہیں ۔ یعنی کہ سیکھے اور سکھائے ہوئے کام کرنے والے لوگ ۔
کمہار ، جولاہے ، ترکھان لہار وغیرہ ، ۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسا کہ مذاہب کے ساتھ ہوتا ہے ان کی تعلیمات میں بدعدتیں اتی جاتی ہیں ، اسی طرح یہ ہوا کہ
برہمن کا بیٹا برہمن ہی کی طرح ٹریٹ کیا گیا ، چاہے کہ اس کی عادات نیچوں جیسی ہی کیوں نہ ہوئیں ،۔
پے در پے بیرونی حملوں نے ہند کے کشھتریوں کو اہم سے اہم درجات پر بلند کر دیا ۔
پہاڑوں سے اتر کر انے والے اجڈ اور وحشیوں کے حملوں سے تحفظ یہی کشھتری کیا کرتے تھے ۔
پھر بیرونی حملہ آوروں نے “ اسلام “ متعارف کروایا ، جس میں پہلی بار ہند کے لوگوں کو انسانوں کی برابری کا علم ہوا۔
ہند میں برابری کے نام پر اسلام لانے والوں نے چند ہی صدیوں میں ہند کے ذات پات کے اصولوں اور روایات کو مشرف اسلام کرلیا ۔
برہمن کی جگہ ، اسلام نے سید کو متعارف کروایا ۔ ہند کے زیادہ تر علاقوں میں سود خور مہاجن کو “شاھ جی” کے نام سے پکارا کرتے تھے ، بادشاہ کی طرح کا بندہ جو کہ دولت مند ہوتا تھا ، اس کو شاھ جی کہتے تھے ، جب برہمن کا اسلامی ایڈیشن نکلا تو ہند کے سیانوں نے ان کو بھی شاھ جی کا نام دے دیا ، اس نام کو دینے کے پیچھے کیا رمزیں تھیں ان پر اپ خود سوچ بچار کریں کہ یہ ناقابل تحریر ہیں ،
لیکن جو بھی دھرم ہوا کہ مذہب ،اس نے ہند کے ذات پات اور چھوت چھات کو برقرار رکھا۔ پھر انگریز آ گیا ، جس نے برابری کا نظام متعارف کروایا ، بلکہ اپنے ملک میں تو اس کو رائج کرکے دے دیا ،
انگریز کو برابری کا یہ نظام دینے کی وجہ سے قدرت نے جو عروج دیا ہوا ہے اس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی ۔
لیکن اس انگریز کے گماشتوں نے بھی ہند میں ہندو کو اسی ذات پات میں مبتلا رکھا اور مسلمان نے پیری مریدی کے نظام میں مبتلا کرکے اسی ذات پات کے نظام کو برقرار رکھا ۔
لیکن انگریز کے سو سالہ نظام کی وجہ سے کچھ تعلیم اور روشنی تھی کہ قدرت کا نظام کہ
تیسری جاتی (ویش) کے لوگوں کو اپنی وقعت کا احساس ہونے لگا۔
کہ ہم بھی انسان ہیں ۔
اور کچھ یہ ہوا کہ ہند کی تقسیم ہو گئی
اور کمیوں ، کسانوں اور کاریگروں کو پاکستان مل گیا ۔
یہاں اب ان لوگوں نے اپنی صدیوں کی بے وقعتی احساس مٹانے کی کوششیں شروع کر دیں ۔
پیشے ، شرمناک چیز بن کے رہ گئے ،ہر کسی کو اپنے دادے کے پیشے پہ شرمندگی ہونے لگی ۔
اکثریت کی سوچ کہ ،پیشے کو چھپانے کی کوشش میں کیا کیا جائے کہ لوگ مجھے نیچ نہ سمجھیں ؟
لیکن اس بات کا احساس نہ ہوا کہ کون نیچ اور کون اٗچار؟
جب میں کمہار ہوں تو پڑوسی جولاہا نہ ہوا تو لوہار ہو گا۔
ہر حال میں خود کو چھپانے کی کوشش کی گئی ۔ جن کے داوں کی آئل ملیں تھیں ان کو تیلی کی بجائے ملک کہلوانے میں پناھ ملی ۔
سرامک انڈسٹری والوں کی اولادیں کمہار کہلوانے کی بجائے “رحمانی” کہلوانے لگیں ۔
http://khawarking.blogspot.jp/2006/10/blog-post_26.html
لیکن ہر کسی کے اپنے نام کے لاحقے یا سابقے میں اس بات کا خیال رکھا کہ
میں ایک بے پیشہ بندہ ہوں ،۔
ملک صاحب ، شیخ صاحب ، سید صاحب ، چوہدری صاحب ، ان کے نام سن کر بندہ کسی پیشے کا اندازہ نہیں لگا سکتا ۔
وہ لوگ جو اپنا علاقہ نہیں چھوڑ سکتے تھے ، انہوں نے اپنے نام کے ساتھ اپنی گوت کا اضافہ کرکے ، اپنے پیشے کو چھپانے کی کوشش کی ۔ جیسا کہ کھوکھر ، بھٹی ، رانا وغیرہ ۔
کچھ یہ بھی ہوا کہ زمانے کی ہوائیں بدلنے لگیں ، پیشوں میں بھی ایک تنوع پیدا ہوا ،۔
اب باٹا والوں کو موچی تو کہنے سے رہے ۔ یا کہ فونڈری کے کام والے کو لوہار !!۔
حالانکہ مسواکیں بیچنے والا بھی تو ایک قسم کا ٹمبر مرچنٹ ہی ہوتا ہے ۔
یہ ساری چیزیں دیکھ کر مجھے
جاپان کے شہنشاہ میجی ، ( 1852to 1912) کا ایک تاریخی کام یاد آ گیا
کہ
شہنشاہ نے اپنے دور میں ایک حکم کے ذریعے سب لوگوں کو ایک خاندانی نام چننے کا کہا،۔
اس حکم کے تحت ہر جاپانی کا ایک نام ہو گا اور ایک اس کا خاندانی نام ہو گا ۔
یعنی ہر بندے کا نام کے دو حصے ہوں گے،
نام ، اور فیملی نام !۔
فیملی نام نسل در نسل چلے گا
اور نام وہ ہو گا جو والدین کسی بھی بچے کا رکھیں گے ۔
اور یہ خاندانی نام چننے کا حق لوگوں کو دے دیا گیا ، یا یہ کہہ لیں کہ ان لوگوں کو جس نام چیز سے یا بات سے ان کے قریبی لگ پہچانتے تھے ، وہ الفاظ ان کا خاندانی نام ہوں گے۔
حکومتی اہلکارا، سارے ملک میں پھیل گئے ۔
اس کام کے لئے کہ مردم شماری اور لوگوں کے نام رجسٹر میں چڑھانے کے لئے۔
لوگوں کا فیمل نام چننے کا طریقہ کچھ اس طرح تھا کہ
اپنے گاؤں محلے میں جو خاندان پہلے ہی کسی نام سے پہچناے جاتے تھے ، ان کا فیملی نام بھی وہی لکھ دیا گیا ۔
جس کی مثال اگر میں پنجاب کے دیہاتی ماحول سے دوں تو کچھ اس طرخ کی بنتی ہے ۔
ٹاہلی والئے ، بیری والئے ، سارنگی، وغیرہ۔
شہنشاہ کے اہلکار جب کسی دیہات میں پہنچتے تو ایسا بھی ہوا کہ
ایک گاؤں کے مشرق کے لووں کو “مشرقی” مغرب کی طرف کے لوگوں کو “مغربی” اور اسی طرح شمال اور جنوب والے کا نام دے دیا ، اور گاؤں کے درمیان والوں کو “ وچکارلے “ کا نام دے دیا۔
بہت سے دیہاتی علاقوں میں اس حکم کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ایک وقتی ابال ہے جو کہ جلدی ہی بیٹھ جائے گا اور معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے جیس کہ اب تک چل رہے تھے ۔
اس لئے جب کچھ دیہات میں حکومتی اہلکار پہنچے تو ، لوگ کھیتوں میں کام کر رہے تھے ۔
جب ان سے اپنے نام چننے کا کہا گیا تو ، جس کے ہاتھ میں مولی تھی اس نے کہا کہ چلو میرا نام مولی رکھ دو، ستم ظریف اہلکاروں نے اسی طرح سے ان کے نام رجسٹر کر دئے ۔
بہت کم ہی سہی لیکن اج بھی ایسے جاپانی مل جائیں گے جن کے نام مولی ، بینگن بھی ہوسکتے ہیں ،
بہت ہی عام ناموں میں کی مصال اگر پنجابی میں دیں تو کچھ اس طرح بنتے ہیں ،۔
چھوٹا کھیت ، بڑا کھیت ، درمیانہ کھیت ، کالی لکڑی ، درخت کے نیچے ، لکڑی کا گاؤں ، مغربی گاؤں ، کنکر ، پتھریلا کنواں ، چھوٹا ٹیلا ، بڑا ٹیلا، ۔
تو اب پھر موضوع کی طرف پلٹتے ہیں کہ
پاکستان ، میں بھی لوگون کو اپنے اپنے پیشے سے سے اتنی الرجی ہے کہ کسی اور نے کسی ہنر مند کو نیچ کیا سمجھنا ہے ،
یہ لوگ خود ہی خود کو نیچ جان کر خود کو چھپاتے پھر رہے ہیں ۔
تو کیوں نہ جی پاکستانی قوم کو بھی اس شرمندگی سے بچانے کے لئے ، شہنشاہ میجی کا طریقہ اپنایا جائے
اور لوگوں کو اپنے اپنے پسندیدہ نام چن لئے جانے دئے جائیں ۔
لیکن جو میں دیکھ رہا ہوں تو
اج کے پاکستان میں تعلیم کی کمی اور جھوٹ کی پرورش سے یہ حال ہو چکا ہے کہ “لوغ” انسانوں کی بجائے جانور بننے کو ترجیع دیں گے۔کمہار کہلوانے کی نسبت ایک جانور “شیر” کہلوانا پسند کریں گے ۔ جولاہا کہلوانے کی نسبت “باز” کہلوانا پسند کریں گے ۔
اپ کا کیا خیال ہے ؟ اپ اپنا نام کیا رکھنا پسند کریں گے ؟
یاد رہے کہ یہ نام اپ کی نسلوں کو اپنانا پڑے گا ، صدیوں پر محیط اور نسلوں کی امانت ، کیا اپ ایسا نام رکھنا پسند کریں گے جو کہ اپ کے جذباتی فیصلے کا نتیجہ ہو
اور اپنانا پڑے انے والی نسلوں کو ۔
کہ وہ بندہ جو دھرم بھاؤ والا ہو ، جس کے کھانے پینے اور پہننے میں اصول اور ضوابط ہوں ، جو پربو ( خدا) کی عبادت میں مگن رہتا ہو ،
اس کو معاشرے کا معزز ترین بندہ تسلیم کیا جانا چاہئے ۔
اس کو برہمن کا نام دیا گیا ۔
وہ جو اپنے جان کی بازی لگا کر وطن کی ،دھرتی ماں کی حفاظت کرتا ہے ،
اگرچہ کہ اس کے قول میں کبھی جھوٹ بھی شامل ہوتا ہے اور کھانے میں نشے کی بھی احتیاط نہیں کرتا ، اس کو معاشرے میں دوسرا درجہ دیا جائے گا ۔
اور اس کو کشھتری کہیں گے۔
اسی طرح دوسری جاتیوں کا کا انتطام ہے کہ ان کی بھی ڈیفینیشنز بنائی گئیں ۔
تیسری کاسٹ “ویش “ کی ڈیفینیشنز ہیں
کہ وہ لوگ جو سیکھے ہوئے کام کرتے ہیں اور اپنے اولادوں کو بھی سکھاتے ہیں ۔ یعنی کہ سیکھے اور سکھائے ہوئے کام کرنے والے لوگ ۔
کمہار ، جولاہے ، ترکھان لہار وغیرہ ، ۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسا کہ مذاہب کے ساتھ ہوتا ہے ان کی تعلیمات میں بدعدتیں اتی جاتی ہیں ، اسی طرح یہ ہوا کہ
برہمن کا بیٹا برہمن ہی کی طرح ٹریٹ کیا گیا ، چاہے کہ اس کی عادات نیچوں جیسی ہی کیوں نہ ہوئیں ،۔
پے در پے بیرونی حملوں نے ہند کے کشھتریوں کو اہم سے اہم درجات پر بلند کر دیا ۔
پہاڑوں سے اتر کر انے والے اجڈ اور وحشیوں کے حملوں سے تحفظ یہی کشھتری کیا کرتے تھے ۔
پھر بیرونی حملہ آوروں نے “ اسلام “ متعارف کروایا ، جس میں پہلی بار ہند کے لوگوں کو انسانوں کی برابری کا علم ہوا۔
ہند میں برابری کے نام پر اسلام لانے والوں نے چند ہی صدیوں میں ہند کے ذات پات کے اصولوں اور روایات کو مشرف اسلام کرلیا ۔
برہمن کی جگہ ، اسلام نے سید کو متعارف کروایا ۔ ہند کے زیادہ تر علاقوں میں سود خور مہاجن کو “شاھ جی” کے نام سے پکارا کرتے تھے ، بادشاہ کی طرح کا بندہ جو کہ دولت مند ہوتا تھا ، اس کو شاھ جی کہتے تھے ، جب برہمن کا اسلامی ایڈیشن نکلا تو ہند کے سیانوں نے ان کو بھی شاھ جی کا نام دے دیا ، اس نام کو دینے کے پیچھے کیا رمزیں تھیں ان پر اپ خود سوچ بچار کریں کہ یہ ناقابل تحریر ہیں ،
لیکن جو بھی دھرم ہوا کہ مذہب ،اس نے ہند کے ذات پات اور چھوت چھات کو برقرار رکھا۔ پھر انگریز آ گیا ، جس نے برابری کا نظام متعارف کروایا ، بلکہ اپنے ملک میں تو اس کو رائج کرکے دے دیا ،
انگریز کو برابری کا یہ نظام دینے کی وجہ سے قدرت نے جو عروج دیا ہوا ہے اس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی ۔
لیکن اس انگریز کے گماشتوں نے بھی ہند میں ہندو کو اسی ذات پات میں مبتلا رکھا اور مسلمان نے پیری مریدی کے نظام میں مبتلا کرکے اسی ذات پات کے نظام کو برقرار رکھا ۔
لیکن انگریز کے سو سالہ نظام کی وجہ سے کچھ تعلیم اور روشنی تھی کہ قدرت کا نظام کہ
تیسری جاتی (ویش) کے لوگوں کو اپنی وقعت کا احساس ہونے لگا۔
کہ ہم بھی انسان ہیں ۔
اور کچھ یہ ہوا کہ ہند کی تقسیم ہو گئی
اور کمیوں ، کسانوں اور کاریگروں کو پاکستان مل گیا ۔
یہاں اب ان لوگوں نے اپنی صدیوں کی بے وقعتی احساس مٹانے کی کوششیں شروع کر دیں ۔
پیشے ، شرمناک چیز بن کے رہ گئے ،ہر کسی کو اپنے دادے کے پیشے پہ شرمندگی ہونے لگی ۔
اکثریت کی سوچ کہ ،پیشے کو چھپانے کی کوشش میں کیا کیا جائے کہ لوگ مجھے نیچ نہ سمجھیں ؟
لیکن اس بات کا احساس نہ ہوا کہ کون نیچ اور کون اٗچار؟
جب میں کمہار ہوں تو پڑوسی جولاہا نہ ہوا تو لوہار ہو گا۔
ہر حال میں خود کو چھپانے کی کوشش کی گئی ۔ جن کے داوں کی آئل ملیں تھیں ان کو تیلی کی بجائے ملک کہلوانے میں پناھ ملی ۔
سرامک انڈسٹری والوں کی اولادیں کمہار کہلوانے کی بجائے “رحمانی” کہلوانے لگیں ۔
http://khawarking.blogspot.jp/2006/10/blog-post_26.html
لیکن ہر کسی کے اپنے نام کے لاحقے یا سابقے میں اس بات کا خیال رکھا کہ
میں ایک بے پیشہ بندہ ہوں ،۔
ملک صاحب ، شیخ صاحب ، سید صاحب ، چوہدری صاحب ، ان کے نام سن کر بندہ کسی پیشے کا اندازہ نہیں لگا سکتا ۔
وہ لوگ جو اپنا علاقہ نہیں چھوڑ سکتے تھے ، انہوں نے اپنے نام کے ساتھ اپنی گوت کا اضافہ کرکے ، اپنے پیشے کو چھپانے کی کوشش کی ۔ جیسا کہ کھوکھر ، بھٹی ، رانا وغیرہ ۔
کچھ یہ بھی ہوا کہ زمانے کی ہوائیں بدلنے لگیں ، پیشوں میں بھی ایک تنوع پیدا ہوا ،۔
اب باٹا والوں کو موچی تو کہنے سے رہے ۔ یا کہ فونڈری کے کام والے کو لوہار !!۔
حالانکہ مسواکیں بیچنے والا بھی تو ایک قسم کا ٹمبر مرچنٹ ہی ہوتا ہے ۔
یہ ساری چیزیں دیکھ کر مجھے
جاپان کے شہنشاہ میجی ، ( 1852to 1912) کا ایک تاریخی کام یاد آ گیا
کہ
شہنشاہ نے اپنے دور میں ایک حکم کے ذریعے سب لوگوں کو ایک خاندانی نام چننے کا کہا،۔
اس حکم کے تحت ہر جاپانی کا ایک نام ہو گا اور ایک اس کا خاندانی نام ہو گا ۔
یعنی ہر بندے کا نام کے دو حصے ہوں گے،
نام ، اور فیملی نام !۔
فیملی نام نسل در نسل چلے گا
اور نام وہ ہو گا جو والدین کسی بھی بچے کا رکھیں گے ۔
اور یہ خاندانی نام چننے کا حق لوگوں کو دے دیا گیا ، یا یہ کہہ لیں کہ ان لوگوں کو جس نام چیز سے یا بات سے ان کے قریبی لگ پہچانتے تھے ، وہ الفاظ ان کا خاندانی نام ہوں گے۔
حکومتی اہلکارا، سارے ملک میں پھیل گئے ۔
اس کام کے لئے کہ مردم شماری اور لوگوں کے نام رجسٹر میں چڑھانے کے لئے۔
لوگوں کا فیمل نام چننے کا طریقہ کچھ اس طرح تھا کہ
اپنے گاؤں محلے میں جو خاندان پہلے ہی کسی نام سے پہچناے جاتے تھے ، ان کا فیملی نام بھی وہی لکھ دیا گیا ۔
جس کی مثال اگر میں پنجاب کے دیہاتی ماحول سے دوں تو کچھ اس طرخ کی بنتی ہے ۔
ٹاہلی والئے ، بیری والئے ، سارنگی، وغیرہ۔
شہنشاہ کے اہلکار جب کسی دیہات میں پہنچتے تو ایسا بھی ہوا کہ
ایک گاؤں کے مشرق کے لووں کو “مشرقی” مغرب کی طرف کے لوگوں کو “مغربی” اور اسی طرح شمال اور جنوب والے کا نام دے دیا ، اور گاؤں کے درمیان والوں کو “ وچکارلے “ کا نام دے دیا۔
بہت سے دیہاتی علاقوں میں اس حکم کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ایک وقتی ابال ہے جو کہ جلدی ہی بیٹھ جائے گا اور معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے جیس کہ اب تک چل رہے تھے ۔
اس لئے جب کچھ دیہات میں حکومتی اہلکار پہنچے تو ، لوگ کھیتوں میں کام کر رہے تھے ۔
جب ان سے اپنے نام چننے کا کہا گیا تو ، جس کے ہاتھ میں مولی تھی اس نے کہا کہ چلو میرا نام مولی رکھ دو، ستم ظریف اہلکاروں نے اسی طرح سے ان کے نام رجسٹر کر دئے ۔
بہت کم ہی سہی لیکن اج بھی ایسے جاپانی مل جائیں گے جن کے نام مولی ، بینگن بھی ہوسکتے ہیں ،
بہت ہی عام ناموں میں کی مصال اگر پنجابی میں دیں تو کچھ اس طرح بنتے ہیں ،۔
چھوٹا کھیت ، بڑا کھیت ، درمیانہ کھیت ، کالی لکڑی ، درخت کے نیچے ، لکڑی کا گاؤں ، مغربی گاؤں ، کنکر ، پتھریلا کنواں ، چھوٹا ٹیلا ، بڑا ٹیلا، ۔
تو اب پھر موضوع کی طرف پلٹتے ہیں کہ
پاکستان ، میں بھی لوگون کو اپنے اپنے پیشے سے سے اتنی الرجی ہے کہ کسی اور نے کسی ہنر مند کو نیچ کیا سمجھنا ہے ،
یہ لوگ خود ہی خود کو نیچ جان کر خود کو چھپاتے پھر رہے ہیں ۔
تو کیوں نہ جی پاکستانی قوم کو بھی اس شرمندگی سے بچانے کے لئے ، شہنشاہ میجی کا طریقہ اپنایا جائے
اور لوگوں کو اپنے اپنے پسندیدہ نام چن لئے جانے دئے جائیں ۔
لیکن جو میں دیکھ رہا ہوں تو
اج کے پاکستان میں تعلیم کی کمی اور جھوٹ کی پرورش سے یہ حال ہو چکا ہے کہ “لوغ” انسانوں کی بجائے جانور بننے کو ترجیع دیں گے۔کمہار کہلوانے کی نسبت ایک جانور “شیر” کہلوانا پسند کریں گے ۔ جولاہا کہلوانے کی نسبت “باز” کہلوانا پسند کریں گے ۔
اپ کا کیا خیال ہے ؟ اپ اپنا نام کیا رکھنا پسند کریں گے ؟
یاد رہے کہ یہ نام اپ کی نسلوں کو اپنانا پڑے گا ، صدیوں پر محیط اور نسلوں کی امانت ، کیا اپ ایسا نام رکھنا پسند کریں گے جو کہ اپ کے جذباتی فیصلے کا نتیجہ ہو
اور اپنانا پڑے انے والی نسلوں کو ۔
5 تبصرے:
خاور صاحب کی ڈونگیاں سچیاں، کھریاں گلاں ، جو سمجھ گیا وہ سمجھو تر گیا۔
واہ جی واہ ۔ مزا آ گیا ۔ غلام مصطفٰے صاب جی ۔ تُسی دسو کہ کیڑا ناں رکھو گے ؟ میں تے بھوپال ای رہن دیاں گا ۔ ایہہ نہ کوئی پیشہ اے تے نہ کسے وڈیرے دا ناں
زبر دست چولاں نے جی
خاور بھائ اپ سچ کہتے ھو لیکن بلی گلے میں گنٹھی کون باندھے گا
کلس رکھنا پسند کروں گا.
ایک تبصرہ شائع کریں