باپ کا مال ۔
بات
یہ چل نکلی کہ
ایشیا کے ممالک میں جاپانی ایسی قوم ہیں جن کے یونیورسٹی پاس لوگوں کی اکثریت کو انگریزی بولنی نہیں اتی!!!۔
ایشیا کے ممالک میں جاپانی ایسی قوم ہیں جن کے یونیورسٹی پاس لوگوں کی اکثریت کو انگریزی بولنی نہیں اتی!!!۔
ہمارے
ہان تو ایک گریجویٹ کا ایمج ہی فر فر
انگریزی بولتے شخص کا ہے
کجا
کہ جاپانی جو کہ ایشیا کی تعلیم یافتہ
ترین قوم ہے ، اس قوقم کی کریم لوگ یعنی
گریجویٹ لوگ لوگ لیکن انگریزی سے پیدل۔
ایک
بندے نے اس جواب یہ بھی دیا کہ
انگریزی
بول سکنا ہی کیوں اعتراض کی بات ہے؟
لیکن ایک معقول شخص نے بتایا کہ
لیکن ایک معقول شخص نے بتایا کہ
ایشیا
کے ممالک کی بد قسمتی یہ ہے کہ ان ممالک
کی زبانوں میں یونورسٹی کے لیول کی تعلیم
کے لئے الفاظ کی کمی ہے
جس
کمی کو پورا کرنے کے لئےان ممالک میں بچوں
کو انگریزی میں تعلیم دی جاتی ہے
اور
یہی بچے بعد میں معاشرہ بناتے ہیں
اور
معاشرے میں انگریزی کی بوجھ ، ایک کوالٹی
بن جاتی ہے ۔
مجھے
یہ حقیقت سن کر بڑا افسوس ہوا کہ
جس
خطے سے میرا تعلق ہے
اس
خطے کی ابانوں میں الفاظ کی تو کمی نہیں
تھی لیکن
جب
اس
خطے میں دین کے نام پر بے دینی مسلط کر دی
گئی تو
صدیون
کا فلسفہ ، تکنیک اور علوم کے پیچھے لٹھ
لے کر دوڑ پڑے
اور
اس لٹھ لے چڑھنے کو علم دوستی اور علم
پھیلانے کے جہاد کا نام دیا گیا۔
دنیا
بھر مین جہاں تک قدیم زبانوں کا کھوج ملا
ہے ، ان زبانوں کو اشکال کی صورت میں لکھا
پایا گیا ہے۔
فراعین
مصر کی زبان !
تصویروں میں
کہانیان لکھی گئی ہیں ۔
چینی
زبان اشکال میں لکھی جاتی ہے ۔
چین
جو کہ چار ہزار سال کا حکومتی ریکاڈ رکھتا
ملک ہے
یاد رہے کہ یہ ریکارڈ مسلسل نہیں ہے جنگوں اور قدرتی افات میں صدیاں گم ہو جاتی ہیں لیکن صدیون کا ریکارڈ محفوظ رہ جاتا ہے ۔
یاد رہے کہ یہ ریکارڈ مسلسل نہیں ہے جنگوں اور قدرتی افات میں صدیاں گم ہو جاتی ہیں لیکن صدیون کا ریکارڈ محفوظ رہ جاتا ہے ۔
لیکن
ایک ہی زبان اور ایک ہی ملک کی چار ہزارسال
کی تاریخ مرتب کرنے میں تسلسل بنا ہی لیا
جاتا ہے ۔
لیکن
سنسکرت میں اواز کو تحریر کی شکل دی گئی۔
جو بولا جاتا ہے وہ اگر پڑھا جائے تو سننے
والے کو وہی سنائی دے گا جو کہنے والے نے
لکھوایا تھا۔
اس
طرز تحریر کے بعد کی ساری اقوام کی ترظ
تھاری ہیں کہ اج
ہم
لکھ پڑھ سکتے ہیں ۔
جس
کی سب سے بڑی مثال انگریزی ہے۔
اشکال
اور مورتوں کے لکھنے والاے انسان کو ایک
صوتی خط یا طرز تحریر تک پہنچنے کے لئے
کتنی صدیاں لگی ہوں گی؟؟
چیزوں
کو کننے کے لئے ہاتھوں پیروں کی انگلیوں
کی گنتی سے لے کر ہندسوں تک کے ارتقاء حیات
کا سفر بھی تو لمبا ہو گا ہی
لیکن
ہندسوں
میں صفر کا اضافہ کرنے والے بندے کی تعلیم
کے پیچھے کتنے سالوں کی رضایتیں ہوں
گی؟؟
مکمل ترین ضابطہ حیات کا دعوہ کرنے والے مذہب ، جو کہ جدید ترین دین ہونے کا دعوہ بھی رکھتا ہے ۔
مکمل ترین ضابطہ حیات کا دعوہ کرنے والے مذہب ، جو کہ جدید ترین دین ہونے کا دعوہ بھی رکھتا ہے ۔
اس
میں کلینڈر کی حالت یہ ہے کہ
زرعی
معاشروں میں اس کلینڈر کا کام ہی نہیں ہے
۔
اور
خود اس دین (سسٹم
) کے
تہواروں میں بھی ابہام بنا ہوا ہے۔
لیکن
راجہ بکرم اجیت کو کلینڈر بنا کر دینے
والے رشیون کی کیا تعلیم ہو گی کہ جنہون
نے
اسلام
کی پدایش سے بھی چھ سو سال پہلے موسمی
کلینڈر بنا کر ایک زرعی معاشرے کو منظم
دین دیا تھا؟
اسلام
کی کتابوں میں ایک کہاوت لکھی گئی ہے جس
کو بہت سے لوگ حدیث کے طور پر بھی مانتے
ہیں ۔
علم
مومن کی میراث ہے ، اس لئے علم جہان سے بھی
ملے لے لینا چاہئے
اس کہاوت کو سلیس زبان میں لکھیں تو اس کے معنی بنتے ہیں
اس کہاوت کو سلیس زبان میں لکھیں تو اس کے معنی بنتے ہیں
کہ
علم
مومن کے باپ کے مال جسی چیز ہے
اس
لئے جہاں سے بھی ملے باپ کا مال سمجھ کر
اس کو چھوڑنا نہیں ہے
جہاں
سے بھی ملے اس کو لے کر اپنے گھر میں ڈال
لینا ہے۔
لیکن
اسلام کے ماننے والے
اس
کہاوت کے ساتھ بھی وہی حال کرتے ہیں جو کہ
وہ دوسرے علوم کے ساتھ کرتے ہیں ۔
یعنی
پر
اچھی بات کا تغرہ بنا کر دیوار پر لٹکا
لیتے ہیں
ناں
سجھتے ہیں
ناں
عمل کرتے ہیں ۔
اس
لئے اج کل کے پاکستان میں جو ‘‘ دین اسلام
‘‘ چل رہا ہے
اس
میں
میراث(
باپ کا مال)
ہندو علم سمجھ
کر نفرت کی جاتی ہے۔
سائینسی
علم کو کفر کی علامت سمجھ کر اس سے بچنے
کے ٹوٹکے کئے جاتے ہیں ۔
ایل
علم اقوام کی بنائی ہوئی چیزوں کے بائیکاٹ
کی تبلیغ کر کے لوگون کو ثواب پر اکسایا
جاتا ہے۔
جس
لئے ہماری زبانوں کے الفاظ مرتے جا رہے
ہیں
اور
ہم لوگوں کو تعلیم بھی یر ملکی زبانوں میں
لینی پڑتی ہے۔
لفظ
ڈائیجسٹ کے معنی میں نے جب ماسٹر گلام نبی
صاحب سے پوچھے تو
انہوں
نے کہا کہ اردو کی اسان زبان میں اس کا
معنی نہیں ہے
لیکن
تم اس طرح کرو کہ اس کے معنی کو ذود ہضم کے
لفظ سے یاد کر لو۔
اب
مجھے ذود ہضم کے معنی کون بتائے گا؟
لیکن اگر مقامی زبانوں کا علم ہوتا تو
لیکن اگر مقامی زبانوں کا علم ہوتا تو
مجھے
یہ بھی بتایا جا سکتا تھا کہ
امتحان
دینے میں تو تمہارے کا نہیں ائے گا
لیکن
تمہاری سمجھ کے لئے بتا دیتا ہون کہ پنجابی
میں اس کو
پچن
ہار
سمجھ
لو۔
لفظ
نیم گرم کو سمجھنے کے لئے بس تم پنجابی کا
کوسا
سمجھ
لو۔
اس
لئے جاپانی سیانے کی یہ بات کہ ایشیا کی
اقوام کی زبانوں میں الفاظ کی کمی ہے
کو
میں یہ کہوں گا کہ
میری
زبان میں الفاظ کی کمی تھی نہیں
لیکن
نظام
تعلیم جو مجھ پر مسلط کر دیا گیا ، اس نظام
نے مجھے میری زبان سے دور کر دیا ہے۔
ایک
قدیم مکالمہ ہے
یہ
وہ
اندہیری راہوں میں کیوں مارے گئے؟؟
جواب
ان
کے باپوں نے ان سے جھوٹ بولا تھا!!!۔
اگر
میری قوم کے بڑے
نظام
تعلیم تو یہی اپان لیتے جو ان پر مسلط
کردیا گیا لیکن زبان
اپنی
میں موڈیفائی کر لئے تو؟؟
اس
میں یا میری قوم تعلیم ‘‘حاصل‘‘ نہیں
کر ہی ہوتی
بلکہ
تعلیم
کو اپنے اندر اتار کر اپنے اندر جزب کر
چکی ہوتی۔
لیکن
اب باتوں کا علم تب ہوتا ہے جب کسی کو اس
بات کی روشنی لگتی ہے
کہ
علم
کو باپ کا مال سمجھ کر کیسے جھپٹنا چاہئے
۔
6 تبصرے:
خاور صاحب ۔ قصور دین اسلام کا نہیں اور نہ اسے ماننے والوں کا ہے ۔ یہ سب کیا دھرا اُن لوگوں کا ہے جو دین اسلام پر عمل پیرا نہیں ہوتے اور سینہ ٹھنک کر کہتے ہیں ”میں مسلمان ہوں“۔ میں نے دس جماعتیں اُردو میڈیم سکول میں پڑیں ۔ ساری عمر میں نے اُردو بولنے والے کے ساتھ اُردو اور پنجابی بولنے والے کے ساتھ پنجابی بولی ۔ مگر میرے اتھرے ہموطن انگریزی نہ بولیں تو اُنہیں کھانا ہضم نہیں ہوتا چاہے بولنا آتی نہ ہو . اصل سبب یہ ہے کہ نئی تحقیقات کے ترجمے نہیں کئے گئے ۔ ایوب خان نے ایک ادارہ اسی کام کیلئے بنایا تھا اور اس نے کام شروں کر دیا تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو نے اس ادارے کو غیر فعال بنا دیا ۔ اس کے بعد ضیاء الحق نے اسی ادارے کو فعال کیا اور تراجم کا کام شروع ہو گیا ۔ اُس کے بینظیر بگھٹو نے اس ادرے کے ماہرین کا اِدھر اُدھر تبادہ کر دیا ۔ پرویز مشرف نے وہ ادارہ ہی ختم کر دیا
’’مکمل ترین ضابطہ حیات کا دعوہ کرنے والے مذہب ، جو کہ جدید ترین دین ہونے کا دعوہ بھی رکھتا ہے ۔ اس میں کلینڈر کی حالت یہ ہے کہ زرعی معاشروں میں اس کلینڈر کا کام ہی نہیں ہے ۔‘‘
گویا اب مسئلہ یہ نہیں رہا کہ ملا یا مولوی اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں۔ اب تو صاف کہا جارہا ہے کہ اسلام کا مکمل ضابطہ حیات ہونے اور جدید ترین دین ہونے کا دعویٰ ہی ٹھیک نہیں، کیونکہ اس میں زرعی معاشرے کے لیے کوئی کیلینڈر نہیں دیا گیا۔
واہ ، خاور صاحب۔ لگتا ہے اب آپ نے مرحومہ آنٹی کا مشن سنبھال لیا ہے۔ یعنی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی برا کہنا۔
ٹھیک ہے اگر آپ اسلام کو مکمل ضابطہ حیات نہیں مانتے تو نہ مانیں، اور راجہ بکرم کی پیروی کرلیں، جس نے بکرمی کیلینڈر دیا۔
لیکن آپ بھول رہے ہیں کہ اسلام میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ آپ قمری کیلینڈر کے علاوہ کچھ استعمال نہیں کرسکتے ۔ نمازیں بھی شمسی حساب سے ہوتی ہیں اور دنیا کے موسموں کا حساب بھی سورج کے گرد زمین کی گردش کے حساب سے ہوتا ہے، تو شمسی حساب کتاب سے آپ کو کون روکتا ہے؟ کم از کم اسلام تو نہیں روکتا۔
کیلینڈر کا دنوں اور مہینوں کا حساب اور چیز ہوتی ہے، اور کسی واقعے کے لحاظ سے سالوں کی گنتی ایک الگ چیز ہوتی ہے۔
اسلامی کیلینڈر کا آغاز نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے ہوتا ہے، نہ ان کی نبوت سے، نہ ہجرت سے۔ وہ 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے ، یعنی کیلینڈر تو اس وقت بھی رائج تھا۔ اسلامی تہوار اور روزے وغیرہ اسی حساب سے ہوتے ہیں، اس لیے مسلمانوں نے اسی عرب کیلینڈر کو استعمال کرنا شروع کیا۔ اسلامی کیلینڈر میں سالوں کی گنتی ہجرت سے شروع ہوتی ہے اس لیے اسے ہجری کیلینڈر بھی کہا جاتا ہے، لیکن اصل میں یہ قمری کیلینڈر ہے۔
شمسی کیلینڈر بھی دنیا میں صدیوں سے استعمال ہوتا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے صرف سالوں کی گنتی شروع ہوتی ہے۔ اگر ان کی پیدائش سے عیسوی کیلینڈر کا آغاز ہوتا تو ان کی تاریخ پیدائش یکم جنوری ہوتی۔
اس لیے خاور صاحب، معاملات کو خلط ملط نہ کریں۔ انسان کو خدا نے عقل دی ہے، اور موسموں کی سمجھ دی ہے۔ اگر اس کے لیے شمسی کیلینڈر استعمال کیا جائے تو یہ کہیں منع نہیں ہے۔ ویسے بکرمی کیلینڈر اور عیسوی کیلینڈر دونوں ہی شمسی ہیں۔ صرف سالوں کی گنتی یا پھر مہینوں کے نام فرق ہیں۔ بنیاد ایک ہی ہے۔ یعنی سورج کے گرد زمین کے ایک چکر مکمل ہونے کو ایک سال قرار دیا گیا ہے اور اسے 12 مہینوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ قمری کیلینڈر میں قمر یعنی چاند کے ایک چکر کو ایک ماہ گنتے ہوئے، 12 مہینوں کو ایک سال گنتے ہیں، جو شمسی سال سے کچھ چھوٹا ہوتا ہے۔دونوں کے اپنے اپنے فوائد ہیں، اور حالات کے لحاظ سے دونوں ہی استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
ویسے ایک دلچسپ بات۔ دنیا کی اکثر زبانوں میں مہینے کے لیے ماہ یعنی چاند کا لفظ ہی رائج ہے۔ انگریزی کا ’ منتھ‘ بھی ’مون‘ سے نکلا ہے، اور جاپانی کا ’تسوکی‘ تو ہے ہی چاند۔ یعنی ابتدائی کیلینڈر قمری ہی ہوا۔
بالکل درست فرمایا
خرابی ہماری زبان میں نہیں ہمارے دماغوں میں ہے
ایسٹونیا کی کل آبادی دس لاکھ ہے وہ ساٹھ ستر سال روسی قبضے میں رہا ہے لیکن تعلیم وہ ایسٹونین میں حاصل کرتے ہیں
عجیب جاہل لوگ ہیں اپنی معاشرت اور اپنی زبان پسند نہیں
علی حسان صاحب، آپ کی بات میں
ایک چھوٹا سا اضافہ کرنا چاہوں گا:
عجیب جاہل لوگ ہیں اپنی معاشرت اور اپنی زبان پسند نہیں۔۔۔
اور اپنا دین بھی پسند نہیں۔ ;)
(آپ کو نہیں کہہ رہا ;) )
عصرِحاضر کے مُلّا نے ھمیں جواسلام دیا ھے اُس کا نتیجہ کُچھ اورکیا ھو سکتا ھے؟
ضیاع الحق کی مُنافقت کا ایک پھلو۔
آںجہانی نے زُبانِ اُردُوۓ مُعلّٰی کووطنِ عزِیز کی سرکاری زُبان کا درجہ عطا کرنے کا شاھی پروانہ اںگریزی میں جاری فرمایا۔
ایک تبصرہ شائع کریں