جمعہ، 9 ستمبر، 2011

سیب کا جوس


بخدمت جناب برین واشنگ ونگ
اسلام علیکم
صورت احوال یه هےکه
یهاں مری والے سیب کےباغات جو که جرنل صاحب کی ملکیت هیں
ان میں اس دفعه
یهود وهنود کی سازش کی وجه سے تیز هوائیں چلتی هی هیں
جس کی وجه سے سارے سیب گر گئے هیں
اس لیے اب یه سیب مارکیٹ مين فروخت کے قبل نهیں رهے هیں
جرنل صاحب کے کهنے پر میں اب کو لکھ رها هوں که
اس سال ان سیبوں کا صرف جوس هی فروخت کیا جاسکتا هے

لیکن قوم میں سیب کا جوس پینے کی سکت نهیں هے
اس لیے کیوں نان کچھ ایسا طریقه کریں که لوگ اس سال زیادھ سے زیاده سیب کا جوس پینا شروع کر دیں
تاکه جرنل صاحب کے باغات کے سیب ضائع هونے سے بچ جائیں
فقط
هیڈ مالی
باغات جرنل ٠٠٠٠٠

جناب هیڈ مالی صاحب
اپ کا لیٹر ملا
هم نے اس بات کے لیے جرنل صاحب سے ڈائریکٹ رابطه کیا هے
اب اپ بے فکر هو جائیں
انچارج
سرکاری میڈیا کا برین واشنگ ونک

جناب
جرنل صاحب جیسا که اب سے فون پر بات هوئی تھی اور اپ نے حکم دیا تھا
که مالی کے خط پر ایکشن لیا جائے تو هم نے
یه ایک پیغام تیار کیا هے
اس پیغام کو ملک ميں رائج کرنے کے لیے اپ کے حکم کا انتظار ہے
اور اگر اپ کے ذهن میں اخباروں ميں شائع کروانے کی بجائے
کوئی اور طریقه هو تو اس کے متعلق گائیڈ کرکے برین واشنگ ونگ کو مشکور فرمائیں
پیغام مندرجه ذیل هے

ضروری اطلاع ؛ ڈاکٹر ندیم علی جو قائد اعظم یونیورسٹی میں مائکرو بیالوجسٹ ہیں ، انہوں نے اپنی ریسرچ سے ثابت کیا ہے کہ ایپل جوس(سیب کے رس) میں لیمن جوس( لیموں کے رس) کے چند قطرے ملا کر ڈینگی کے مریض کو پلایا جائے تو اسکا وائرس ختم ہو جاتا ہے ، مہربانی فرما کر اسے آگے بڑھائیں، تاکہ جانیں بچائیں جا سکیں


اپ کا تابعدار
میجر ٠٠٠٠٠٠

میجر
اسلام علیکم
مجھے تمهارے ونگ کا لکھا هوا یه پیغام پسند ایا
میرے خیال میں اس بیغام کو فیس بک پر لگا دو
باقی یهاں محقق بننے کے خواهشمند خود هی اس کو شئیر کرکر کے عام کردیں گے
جرنل ٠٠٠٠٠

4 تبصرے:

Adnan Zahid کہا...

کیا بات ہے خاور دل خوش کر دیا آپ کی پوسٹ نے۔

جعفر کہا...

ھا ھا ھا ھا
اعلی ہے جی بہت اعلی

خالد حمید کہا...

واہ جی واہ۔۔۔
کیا بات ہے۔۔
زبردست

جہالستان سے جاہل اور سنکی ۔ کہا...

آپ کا ہمارے بلاگ کے وزٹ اور تبصرے کا شکریہ ۔ ہم آپ کا بلاگ دیکھتے رہتے ہیں اور ہمیں آپکا عورتوں کی بستی پر لکھا ہوا آرٹیکل بہت ہی پسند آیا تھا ۔
دوسروں کو بتانے کے لائق خدمت، اولاد سے تو مکاری سے ہی کروائی جاسکتی ہے ۔ پہلے اولاد بدنامی کے خوف سے ایسا کر گزرتی تھی لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا ۔ والدین کے لئے بہتر رہتا ہے کہ اولاد پر واقعی بوجھ بننے سے پہلے ہی کسی ایسے طریقے سے خود کشی کرلیں جسمیں اولاد کی بدنامی کے امکانات نہ ہوں ۔ خودکشی کرسکنے کا وقت گزر جانے کے بعد کی زندگی یوں بھی عذاب ہی ہوا کرتی ہے ۔ جہاں تک خوشی سے پالنے کی بات کی گئی ہے تو اصلی خوشی وہ ہے جو سچ بولنے کی پاداش میں بطور غم ملے ۔ اسی کی مدد سے بدنامی برداشت کرنے کی عادت بھی پڑ جاتی ہے اور مکاروں کی مکاری کی سمجھ بھی لگنی شروع ہو جاتی ہے ۔ مکاری لگانے کی سمجھ آجائے تو پھر مکاری لگانے پر ڈبل مار پڑنے کے امکانات بھی ہو جایا کرتے ہیں ۔
آپکا یہ آرٹیکل بھی بہت اچھا ہے اور مکاری کو ایکسپوز کرنے کیلئے آپکا انداز بھی ۔
امید ہے آنا جانا لگا رہیگا ۔ ایک دفعہ پھر آپکی آمد کا شکریہ ۔

Popular Posts