سیب کا جوس
بخدمت جناب برین واشنگ ونگ
اسلام علیکم
صورت احوال یه هےکه
یهاں مری والے سیب کےباغات جو که جرنل صاحب کی ملکیت هیں
ان میں اس دفعه
یهود وهنود کی سازش کی وجه سے تیز هوائیں چلتی هی هیں
جس کی وجه سے سارے سیب گر گئے هیں
اس لیے اب یه سیب مارکیٹ مين فروخت کے قبل نهیں رهے هیں
جرنل صاحب کے کهنے پر میں اب کو لکھ رها هوں که
اس سال ان سیبوں کا صرف جوس هی فروخت کیا جاسکتا هے
لیکن قوم میں سیب کا جوس پینے کی سکت نهیں هے
اس لیے کیوں نان کچھ ایسا طریقه کریں که لوگ اس سال زیادھ سے زیاده سیب کا جوس پینا شروع کر دیں
تاکه جرنل صاحب کے باغات کے سیب ضائع هونے سے بچ جائیں
فقط
هیڈ مالی
باغات جرنل ٠٠٠٠٠
جناب هیڈ مالی صاحب
اپ کا لیٹر ملا
هم نے اس بات کے لیے جرنل صاحب سے ڈائریکٹ رابطه کیا هے
اب اپ بے فکر هو جائیں
انچارج
سرکاری میڈیا کا برین واشنگ ونک
جناب
جرنل صاحب جیسا که اب سے فون پر بات هوئی تھی اور اپ نے حکم دیا تھا
که مالی کے خط پر ایکشن لیا جائے تو هم نے
یه ایک پیغام تیار کیا هے
اس پیغام کو ملک ميں رائج کرنے کے لیے اپ کے حکم کا انتظار ہے
اور اگر اپ کے ذهن میں اخباروں ميں شائع کروانے کی بجائے
کوئی اور طریقه هو تو اس کے متعلق گائیڈ کرکے برین واشنگ ونگ کو مشکور فرمائیں
پیغام مندرجه ذیل هے
ضروری اطلاع ؛ ڈاکٹر ندیم علی جو قائد اعظم یونیورسٹی میں مائکرو بیالوجسٹ ہیں ، انہوں نے اپنی ریسرچ سے ثابت کیا ہے کہ ایپل جوس(سیب کے رس) میں لیمن جوس( لیموں کے رس) کے چند قطرے ملا کر ڈینگی کے مریض کو پلایا جائے تو اسکا وائرس ختم ہو جاتا ہے ، مہربانی فرما کر اسے آگے بڑھائیں، تاکہ جانیں بچائیں جا سکیں
اپ کا تابعدار
میجر ٠٠٠٠٠٠
میجر
اسلام علیکم
مجھے تمهارے ونگ کا لکھا هوا یه پیغام پسند ایا
میرے خیال میں اس بیغام کو فیس بک پر لگا دو
باقی یهاں محقق بننے کے خواهشمند خود هی اس کو شئیر کرکر کے عام کردیں گے
جرنل ٠٠٠٠٠
4 تبصرے:
کیا بات ہے خاور دل خوش کر دیا آپ کی پوسٹ نے۔
ھا ھا ھا ھا
اعلی ہے جی بہت اعلی
واہ جی واہ۔۔۔
کیا بات ہے۔۔
زبردست
آپ کا ہمارے بلاگ کے وزٹ اور تبصرے کا شکریہ ۔ ہم آپ کا بلاگ دیکھتے رہتے ہیں اور ہمیں آپکا عورتوں کی بستی پر لکھا ہوا آرٹیکل بہت ہی پسند آیا تھا ۔
دوسروں کو بتانے کے لائق خدمت، اولاد سے تو مکاری سے ہی کروائی جاسکتی ہے ۔ پہلے اولاد بدنامی کے خوف سے ایسا کر گزرتی تھی لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا ۔ والدین کے لئے بہتر رہتا ہے کہ اولاد پر واقعی بوجھ بننے سے پہلے ہی کسی ایسے طریقے سے خود کشی کرلیں جسمیں اولاد کی بدنامی کے امکانات نہ ہوں ۔ خودکشی کرسکنے کا وقت گزر جانے کے بعد کی زندگی یوں بھی عذاب ہی ہوا کرتی ہے ۔ جہاں تک خوشی سے پالنے کی بات کی گئی ہے تو اصلی خوشی وہ ہے جو سچ بولنے کی پاداش میں بطور غم ملے ۔ اسی کی مدد سے بدنامی برداشت کرنے کی عادت بھی پڑ جاتی ہے اور مکاروں کی مکاری کی سمجھ بھی لگنی شروع ہو جاتی ہے ۔ مکاری لگانے کی سمجھ آجائے تو پھر مکاری لگانے پر ڈبل مار پڑنے کے امکانات بھی ہو جایا کرتے ہیں ۔
آپکا یہ آرٹیکل بھی بہت اچھا ہے اور مکاری کو ایکسپوز کرنے کیلئے آپکا انداز بھی ۔
امید ہے آنا جانا لگا رہیگا ۔ ایک دفعہ پھر آپکی آمد کا شکریہ ۔
ایک تبصرہ شائع کریں