جمعہ، 2 ستمبر، 2011

بصیر و نظیر


میرے کان گرمیوں میں بینڈے کی آواز سنتے هیں

اور

میرے ذهن کی بصارت مجھے میرا بچپن دیکھاتی هے

وه قبرستان كے پاس سے گزرنے والی کچی سڑک جس پر دهول اڑتی تھی

اور میں ننگے پاؤں هوتا تھا

میں کسی کی هنسی دیکھتا هوں

تو

مجھے میرا ذہن مجھے وه مدھر گیت سناتا هے جو دل

میں اتر کر پھر اترتے هی چلے جاتے هیں

کبھی میں دیکھ کر سنتا هوں اور کبھی

سن کر دیکھتا هوں

میرے رب نے مجھے کیا کیا لطف عطا کیے هیں که

اس کی عطا کی صفات کے تہـ در تہـ لطف اٹھاتا هوں اور

لہر در لہر بہتا هی چلا جاتا هوں

هاں میرے رب نے قران میں ایک احسان جتلایا هے

که

جس کو کینے سے پاک دل دیا

اس پر بڑا احسان کیا


میں کینے سے پاک دل کی وجه سے
کتنی هی اذیتوں سے بچالیا گیا هوں
که ورنه
ان اذیتوں ميں بھی تو ایک پرتوں کا سلسله هونا تھا

1 تبصرہ:

غلام عباس مرزا کہا...

جی میرے خیال میں خدا نے سب کو جمالیاتی حس دے رکھی ہے لیکن کسی میں کم ہے اور کسی میں ذیادہ۔بہرحال یہ بہت بڑی نعمت ہے۔یہ انسان کو اپنے اندر چھپی خوشی تک لے جاتی ہے جسے عموما انسان مادی چیزوں میں ڈھونڈھتا پھرتا ہے۔صبح، شام، آتے جاتے موسم،فطرت کے نظارے،جانور، پرندے، گیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ دنیا کتنی خوبصورت ہے اگر آپ کے پاس صحت مند دل ہے۔خدا ایسا دل سب کو دے امین!

Popular Posts