اتوار، 24 جولائی، 2011

امریکه شریف

جب میں نے یهان جاپان میں اپنا سکریپ یارڈ کھولا تو اس کے لیے ایک بابی کیو پارٹی بھی کی تھی
اس سال فروری میں
طوفان باد بارں کے باوجود کوئی چالیس کے قریب دوست آ هی گئے تھے
حالانکه مجھےامید سینکڑوں میں تھی
بہر حال جو آئے ان کی مہربانی اور جو نهیں آئے
ان سے درخواست هے که دوبارھ بابی کیو کرنے والا هوں نیٹ پر خبر دیکھ کر
اس دن ضرور آئیں
تو جی اس دن
سارے بالغ اکھٹے تھے اور بالغوں والے لطیفے چل پڑے
اس بات کو چھڈو که
سنانے والا کون تھا
لیکن جی
یهاں کسی نے سوال کردیا که یه لطیفے اتےکهاں سے هیں
سب کا منه خاور کی طرف هو گیا که تسی دسو جی
اوئے بھلے لوکو اج کل سب کچھ امریکه سے اتا ہے
کمپیوٹر کی تکنیک سو لے کر ادب کی باریکیاں
کهانیاں ، حتی که منافقت کی مخالفت پر کمر بسته منافت بھی اپنی منافقت کے لیے انگریزی سے ترجمعه کرتے هیں جی
دوائیاں اور ڈاکٹر تک امریکه سے اتے هیں جی
بات کو کچھ اور بڑھاتے هوئے خاور نےیه بھی کها که
اج کے دور کا نظام اور فلسفه بھی امریکه سے هی اتا هے
تو
ایک صاحب نے فرمایا که
لیکن جی هم تو مسلمان هیں ناں جی

یملا بھی یهیں تھا
اکھڑ گیا جی
هتھے سے کون سا اسلام جی
سوکھا سوکھا (اسان) اسلام سارا امریکه سے ایا هے
اوئے روس کے خاف جنگ چھیڑ کر امریکه نے هی هم کو بتایا هے نان جی که یهاں سے اپ لوگوں کو شهادت نصیب هو سکتی هے اور شهید کے گھر والوں کو ڈالر
اور
شهید کو شهادت اور اس کے گھر والوں کو ڈالر پہنچانے کی ذمه داری پاک فوج نے اٹھائی هے اور اس لے پاکستان کے سارے رقبے اور کارنر پلاٹ
حساس ادارے کے افسروں کے هوئے هیں
اسان سا اسلام
جنت میں کنواری حوریں منتظر
بغیر روزے رکھے
سحریان اور افطاریاں کا کلچر کیا
کمهاروں نے دیا هے اوئے پاکستان کو ؟؟
یه سب امریکه نے بتایا هے
عمرے کے نام پر شاپنک کا کیا
امریکه کے سوا کسی نے راسته بتایا هے تو مجھے بھی بتاؤ
کسی نے روکا
که
بس یار بس
تو خاور نے ایک شعر فارسی کا سنایا که
زبان یار من ترکی ، من ترکی نمی دانم
چه خوش بودے ، گر بودے زبان یار من در دهن ما
یملے نے کها که اب تم امریکیوں کی حمایت میں ایرانیوں کو الزام دینے جا رهے هو لیکن
اب اس شعر کے دوسرے مصرے کا معنی نهیں بتا دینا
اس شعر کے دوسرے مصرح پر بات هوئی اور خوب هوئی سب بالغ هی تھے اس بابی کیو پارٹی ميں

تو پھر اس شعر کے متعلق کیا خیال ہے

در ہيبتِ شاہِ جہاں ۔ لَرزَد زمين و آسماں
اُنگُشت در دَنداں نہاں نيمِ درُوں نيمِ برُوں

اور اس شعر سے وابسطه مغل شهزادی کا قصه بھی تھا اور اس کے بات بدلنے کا انداز
که کیا خوب بات کو بدلا

حالانکه اس نے جو چیز ادھی اند ادھی باهر دیکھی تھی وه دانتوں میں دبی انگلی نهیں تھی

مغلوں کی ہم جنس پرستی
یا افیم خوری
یا
شراب نوشی
یا
اندرون خانہ جنسی تعلقات
کی باتاں بھی هوئیں
جن
کا که پاکستان میں نہیں پڑھایا جاتا
پاکستان ميں تو جی مغلوں کے اسلام کی
کی باتاں هوتی هیں جی
اسلام کی
ٹوپیاں بنانے والے
ٹوپی ڈراموں کی
باتیں هوتی هیں

3 تبصرے:

گمنام کہا...

پہلا فارسی شعر کچھ یوں ہے
چہ خوش بودے اگر بودے زبانم در دہانِ یار
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم

پہلا مصرع یوں بھی بیان کیا گیا ہے
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من

غلام مرتضیٰ علی

گمنام کہا...

مگر جناب کے گندے لطیفے تو سکھوں کے بارے میں ہواکرتے تھے اور ان کی پیدائش اور پرورش پنجاب کے پانیوں سے ہوئی لگا کرتی تھی؟؟؟
Abdullah

گمنام کہا...

یہ دروں اور بروں کی داستانیں سنانے والے بزرگوار،
لگتا ہے ایسی باتوں میں خاصی ریسرچ ہے اور شائد پریکٹس بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
:)

مگرایسی باتیں کرتے وہ اپنے اور اپنے لیڈران اکرام کے گریبان میں منہ ڈالنا ہمیشہ بھول جاتے ہیں!!!!
:)

Abdullah

Popular Posts