ایک فحش پوسٹ ، تاریک گوشے
ادبی ذوق والے لوکاں سے بے ادب پوسٹ پر پیشگی معذرت ،یه پوسٹ اس لیے لکھی گئے هے تاکه شرپسندوں کی زندگی کے تاریک پہلو اجاگر کیے جائیں ، کسی کے ماتھے پر حرامی نهیں لکھا هوتا ہے کچھ تاریک پہلو ، کون ؟کیوں ؟کیسا ہے؟
کہانی اس رات سے شروع هوتی هے جس کو اسحاق بھٹی کی ماں کی سہاگ رات کہ سکتے هیں . سوال یه پیدا هوتا ہے که اس کی ماں کے خصم کی سہاگ رات کیوں نهیں؟
اس لیے که وھ بے چارھ دن بھر شادی کی مصروفیات میں تھکا هوا مسہری والے کمرے میں داخل هوتےهی هیں سو گیا تھا
ارمانوں بھرے دل والی ساقے کی ماں تو بیچاری دل مسوس کر رھ گئی
وھ جو نورجہاں نے کہا تھا
ہماری سانسوں میں اج تک وھ حنا کی خوشبو مہک رهی ہے
اس حنا کی مہکتی خوشبوں میں اسحاق بھٹی کی ماں کے خصم کے خراٹے گونج رهے تھے
اپنی حسرتوں کی لاش لیے ، جسم میں اٹھنے والے سیلابوں کو سنبھالتی ساری رات مسہری پر بیٹھی رهی که شاید اس " مرد " بچے کو جاگ آ جائے
لیکن!!!.
بہرحال دوسری رات اس نے خود هی جرأت کی اور اپنے خصم کے بالوں ميں انگلیاں پھیرنے لگی ، لیکن ہائے آرزو که بخاک شد والی بات . بالوں میں انگلیاں پھرنے سے اس "مرد " بچےکو پھر نیند آ گئی ،
خواہش اس کو کهتے هیں جو مرنے تک بھی پوری هو
جو دل هی دل میں رھ جائے اسے ارمان کهتے هیں
اسحاق بھٹی کی ماں کی خواهش بھی ارمانوں میں بدلنے والی تھی
که تیسری رات بھی جب اس عورت نے اپنے خصم کے سر کو مالش کرنی شروع کی که شائد اس "مرد " بچے کی مردانگی جاگے لیکن وه تو وھ پھر سو گیا
اسحاق بھٹی کی ماں نے اس کے پاؤں دبانے سے لے کر " ٹٹولنے " تک جو بھی هو سکا کیا لیکن وھی ڈھاک کے تین پات!!ـ
بھٹی اور کھوکھر لوگ جب تک اپنا پورا نام ناں بتائیں اپ ان کے مذہب کا اندازھ نہں لگا سکتے خاص طور پر گوجرانواله ڈویژن کے بھٹی اور کھوکھر، گوجرانواله میں ضلعی عدالتوں کے پاس هی ایک گاؤں هے جو که اب شهر کا هی حصه هے ، کھوکھر کے یهاں بڑے بڑے پڑھے لکھے چوھڑے پائے جاتے هیں یه ابادی غیر مسلموں کی ہے اور یهاں نام رکھنے کا رواج بھی کچھ اسطرح کا هے اپ ان کے مذہب کا اندازھ نهیں لگا سکتے،
اسی طرح بھٹیوں کا هے، یه بھی کچھ اس طرح کے نام رکھتے هیں که صرف ان کے گاؤں کے لوگوں کو هی معلوم هوتا ہے که یه چوھڑے هیں یا پھر ان کی عادات سے سیانے ان کو پہچان جاتے هیں ـ
ان کی ایک پہچان یه ہے که جب یه غیر ممالک میں جائیں شراب ضرور پیتے هیں اور پھر اکڑتے هیں ، پنجابی کی چوھڑے والی آکڑ مشہور ہے
اسحاق بھٹی کی ماں اور اس کا خصم بھی غیر مسلم بھٹی تھے
جن کو ان کے علاقے کے لوگ چوھڑے کہتے تھے
اس چوھڑے کا ایک بڑا بے تکلف دوست تھا گاما گمیار ، اس کا بھٹیوں کے گھر بڑا آنا جانا تھا، بچپن سے ہم پیاله هم نواله گامے سےکالو بھٹی کی بڑی بے تکلفی تھی
ایک دوسرے کے گھر میں اجانا بھی تھا ، اس دن جب گاما آیا تو کالو بھٹی نے اس کو بڑے فخر سے بتایا که اس بڑی اچھی بیوی ملی هے ، جو که بڑی هی خدمت گزار ہے ساری رات اس دباتی هے
وھ بھی پاس هی بیٹھی تھی ، اکڑ اکڑ میں کچھ زیادھ هی اکڑ گیا اور بادشاهوں کے لہجے ميں اپنی بیوی سے پوچھتا هے
مانگ ، کیا مانگتی هے ، میں اپنے یار گامے کے سامنے وعدھ کرتا هوں که تمهاری هر خواهش پوری کروں گا!!ـ
اسحاق بھٹی کی ماں نے ھاتھ جوڑ کر اس سے کہا
میرے سر کے تاج ،مجھے طلاق دے دے !!ـ
کالو بھٹی کا تو تراھ هی نکل گيا
اوے وھ کیوں؟؟
بس جی اپ کو بڑی مہربانی هو گی ـ اسحاق بھٹی کی ماں نے ترلامارا.
یهاں گاما انٹری مارتا ہے اور پوچھتا ہے اور اؤے کالو مجھے پوری بات بتاؤ که هوا کیا هے ان تین راتوں میں ؟؟
ساری بات سن کر گامے نے کالو سے کہا که مجھے معاملے کی سمجھ آ گئی هے
اس کو میرے ساتھ ذرا بھیجو ، میں اس کو اکیلے میں سمجھاتا هوں ، پھر یه تم سے طلاق نهیں مانگے گی
گامي نے اسحاق بھٹی کی ماں کو ایسا سمجھایا که وھ بے چاری چند ہفتے بعد هی الٹیاں کرنے لگی ،
گامے کے اس سمجھانے کے ٹھیک دس مہینے بعد اسحاق بھٹی پیدا هوا تھا
اور اس دوران کالو نےاپنی بیوی کو سمجھانے کی ساری ذمه داری گامے پر چھوڑ دی تھی
گاما جو که مسلمان تھا اس نے کالو پر مسلمان هونے کا دباؤ ڈالنا شروع کردیا تھا که اسحاق بھٹی کی تربیت اسلامی طریقے سے هونی چاھیے
اسطرح اس خاندان کو مسلمان کرنے کی سعادت گامے کمیار کے حصے ميں آئی !ـ
اس سحاق بھٹی کا ایک یار ہے پپو لی ، اس کو لی اس لیے کہتے هیں که ایک دن کسی نے اس کو ٹریکٹر کی اوٹ میں لے جاکر اس کی کچھ " لی " تھی .
انگریزی میں هومو سیکسول کی وارادات کہتے هیں غالباً
اس پپو لی نے ایک دن اسحاق بھٹی کو بتایا که
سارے بالغ لوگوں کا کوئی نه کوئی راز هوتا ہے اگر ان کو کہا جائے که مجھے اندر کی بات کا پته چل گیا هے تو خرچا پانی نکلنے کا انتظام هو جاتا ہے
اب اسحاق بھٹی کو یه گر ازمانے کا ایا بھی تو گامے کمیار کو کہنے لگا
مجھے اندر کی ساری بات کا معلوم هو گیا هے !!-
گامے نے حیران هو کر اس کا منه دیکھا اور پوچھا
واقعی؟؟
اسحاق بھٹی کے ہاں کہتے هی گامے نے ایک گھٹنا نیچے ٹکایا اور بانہیں کھول کرکهنے لگا
اچھا تو پھر آؤ اپنے اصلی ابے کے گلے لگ کر ٹھنڈ پاؤ
یهاں سے اسحاق بھٹی کے تراھ نکلنے کا سلسله شروع هوتا ہے که اس نے ٹوھ میں رہنا شروع کردیا
که یه گاما کرتا کیا ہے
ایک دن اس نے گامے کو گھر میں داخل هوتے دیکھ کر چھپ کر اس کو دیکھنے کا چارا کیا تو اس نے کھڑکی کی درز سےکیا دیکھا که گاما اور اس کی ماں پہلوانوں کی طرح قدرتی لباس میں کشتی لڑ رہے هیں اور گاما جیت گیا ہے اور اس کی ماں نیچے پڑی تکلیف سے کراھ رهی ہے
ابھی بچه تھا بے چارھ اس کو سمجھ نهیں لگ سکی که ماں وصل کی لذت کی انتہا پر ہے
لذت کی انتہا سے بے حال ماں کی اس کفییت کو اسحاق بھٹی ماں کا کرب سمجھا اور گامے کو ایک ظالم کے روپ ميں دیکھ کر رونے لگا، اس دن سے اسحاق بھٹی کو سارے کمیار ظالم اور دشمن نظر اتے هیں ، جب بھی شراب پیتا ہے اس کا جی چاھتا ہے که کسی کمیار کو گالیاں دے لیکن جب اس کو گامے کی پریکٹیکل گالی یاد اتی ہے تو اس کے انسو نکل جاتے هیں ،
ایک چوھا کہیں شراب کے ڈرم میں گر گیا ،ڈبکیان کھاتا جب باہر نکلا تو نشے میں چور هو چکا تھا اور نشے نے اتنی ہمت عطا کر دی تھی که اکڑ کر کھڑا هو گیا که ایسا لگتا تھا که دم پر کھڑا ہے
اور للکار کا کہنے لگا
کتھے وے او بلی ؟ لیاؤ اج میں اینوں کچیاں کھا جاواں
بس کچھ اسی طرح جب اسحاق بھٹی شراب پی لیتا هے تو کمہاروں کو فون کرکر کے گالیاں دیتا ہے اور للکار للکار کر منڈی میں انے کو کہتا ہے
لیکن اگلے دن نشه اترنے پر کمہاروں سے ڈر بھی لگتا ہے که وھ حال ناں کریں جو گامے نے اس کی ماں کا کیا تھا
جاپان کے مشہور کمیار کو جب اس نے گالیاں دی تو وھ ہنس کر رھ گیا اور زیر لب بس اتنا کہا تھا
اسحاق بھٹی ولد گاما کمیار، ماں دا بہادر پتر
نوٹ : هو سکتا ہے که اس پوسٹ کی دوسری قسط لکھنی پڑ جائے
20 تبصرے:
آجکل بڑے موڈ میں ہیں اللہ خیر کرے
تاریک گوشوں کے بعد
"تاریک راہوں" نامی پوسٹ کا انتظار ہے
میں تو بڑا حریان تھا کہ کنگ صاحب نے پوسٹ لکھی اور ودڈرا کر لی؟
اس پوسٹ کا کوئی خاص مقصد نظر آتا ہے۔۔۔۔
ویسے یہ کہانی اس سے زیادہ "اچھی" لکھی جا سکتی تھی۔۔۔!۔ :پ
میرا ننھا منھا پاکیزہ ذھن کیوں خراب کرتے ہیں۔دیکھ لیں میں نے بھی کچھ ایسی ھی پوسٹ لکھ ماری ھے۔لیکن پوتر پوتر ھے۔ اب اللہ ھی میری حفاظت فرمائے۔
سکندرسلمان کراچی،اچھی کوشش ہے۔ مستقبل میں مزید کہانیاں آنی چاہئیں۔ ویسےے آپ آہستہ آہستہ ڈبلیو ڈبلیو کی لائن پر آسکتی ہے
اب یہ بتاءووں کہ اسی مرکزی خیال اور کچھ مناظر پہ مشتمل کہانی ایک دفعہ کافی عرصے پہلے سسپنس ڈائجسٹ میں پڑھی تھی۔ اب میں آپ پہ سرقے کا الزام تو نہیں لگا رہ۔ بلکہ توارد ہو گیا ہوگا۔ اسے اپنی ہتک نہ سمجھیں، دنیا میں انسانوں کی بہت ساری چیزیں آپس میں ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ اس کہانی میں موضع ایک کالا مرد اور گوری عورت تھی۔ مجھے کہانیوں کے اس طرح بیان کرنے میں دلچسپی نہیں۔ عام طور پہ گاءووں دیہاتوں کی خواتین اسی طرح باتیں ملا کر باتیں کرتی ہیں۔ لیکن یہ بات شاید صحیح ہو یا غلط۔ گاءوں دیہاتوں کے پس منظر میں رہنے والے لوگوں کو جنس سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے۔ ادھر انگریزی لٹریچر میں بھی جنوبی امریکہ والے اس پہ کھل کر لکھنا پسند کرتے ہیں۔ جیسے گارسیا کا ناول تنہائ کے سو سال۔ مگر ایک بڑا ادب اپنے اندر اسرار رکھتا ہے تاکہ قاری اپنی ذہنی استطاعت، مشاہدے اور اپنے پس منظر میں اسے سوچ سکے۔
ادبی ذوق اپنے اندر گہرائ چاہتا ہے۔ سطحیت نہیں۔ سسپنس ڈایجسٹ اور تنہائ کے سو سالوں میں یہی فرق ہے۔
مجھے یہ جان کر شدید خوشی ہوئی کہ عنہقہ بی بی بھی سسپنس پڑھتی ہیں
یا تھیں۔۔۔
میرے صرف دو سوال ہیں۔
اول جاپان کے مشہور کمیار کو ہر دوسرے مہینے فون پر گالیاں کیوں پڑ جاتی ہیں؟
دوئم عنیقہ بی بی کتنے گاوں رہتی رہی ہیں؟
بدتمیز
ویری گڈ سوال
کمیار فون پر گالیاں کھا کر جو گالیاں منه پر کاڈتا ہے ان کا ذکر کوئی لکھے گا تواپ پڑھیں گے ناں جی
اور فون بہادر لوگ ایسے بھاگتے هیں جیسے کتی (انگریزی میں بچ) وصل سے جان چھڑا کر بھاگتی هے
بی بی عنیقه سے کے گئے سوال کا جواب بی بی جی هی دے سکتی هیں
بحرحال میں نے سرقه نهیں کیا ہے لیکن عنیقه صاحبه کی بات بھی سٹ پانے والی نهیں ہے
سسپنس کا تذکرہ پڑھ کرخوشی ہوئی۔ اب یہ سرقہ ہے یا توارد۔۔ خوشی تو اس بات کی ہے کہ عنیقہ جی سسپنس پڑھتی ہیں۔خوشی اس لیے ہوئی کہ سسپنس میں یہ خادم بھی لکھتارہا ہے
جعفر صاحب، شدید خوشی۔ چلیں کہیں تو آکر ہمارا اور آپکا ڈاک خانہ ملا۔
گمان ہے کہ اگر پوری لسٹ جاری فرما دوں تو آپ کہیں شادی مرگ کا شکار نہ ہوجائیں۔
سکندر صاحب، یہ قصہ اب تھی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس میں زمانے کا خوف غالب آگیا۔
خاور صاحب جاپان میں سسپنس کیسے خریا جاسکتا ھے؟اور یہ کیا کوئی زیرو زیرو سیون ٹائپ کا ناول ھے؟
یاسر صاحب اگر واقعی سسپنس ڈائجسٹ پڑھنا چاہتے ہیں اور مذاق نہیں کررہے تو ان کو لنک بھیجا جاسکتا ہے۔۔۔
میرا اس طرح کے پوسٹ پڑھنے کا پہلا تجربہ ہے۔ مزاحیہ انداز میں آپ نے بہت کچھ لکھ دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ گاما کے دوست کا اصل مسلہ کیا تھا۔
میں نے بھی کسی زمانے میں بازار حسن پر کھل کر لکھا تھا، وہاں کی جنس، گاہک اور مڈل مین کے درمیان گھومنے والی اس کہانی کو پوسٹ کرنے کی مجھے کبھی ہمت نہ ہوئی۔
بھئی واہ کاشف نصیر صاحب!اگر آپ کو اصل مسئلہ ہی پتہ نہیں چل سکا تو آپ نے محبوب کی مہندی پر کہانی کیسے لکھ لی؟ویسے اندازہ ہورہا ہےکہ آپ اپنی کہانی پوسٹ کرنے سے کیوں جھجک رہے ہیں
جعفر صاحب میں واقعی مذاق نہیں کر رہا ۔برائے مہربانی لنک دے دیں
لنک مجھے بھی دینا جی۔
دیکھنا ہے کہ وہ فرہاد علی تیمور والی کہانی ابھی تک چل رہی ہے کہ نہیں
عثمان ڈیئر،فرہاد علی تیمور کی دیوتا کو ختم ہوئے ایک سال بیت گیا
کہاں ہو یارلوگ!اتنی زبردست گرما گرمی کے بعد اتنی ٹھنڈ؟اور میرا ایک مسئلہ تو حل کریں۔ مجھ سے ڈیش بورڈ کا لنک گم ہوگیا ہے اس وجہ سے میںکوئی نئی پوسٹ پڑھنے کے علاوہ پرانی پوسٹس پڑھنے سے محروم ہوں۔براہ کرم مدد کریں۔شکرگزار
سسپنس ڈائجسٹ اعلی درجے کا ادبی ذائقہ رکھتا ہے
ایک تبصرہ شائع کریں