جمعرات، 3 جون، 2010

مکھی په مکھی مار تعلیم

خلاصے اور ٹیسٹ پیپر پڑھ کر تعلیم حاصل کرنے والے ، سمریوں کی سمری کرکے انگریزی یافتہ لوگ۔
 نالج اتنا کہ اس کو اخباری نالج کہتے ہیں ، اخبار بھی وھ کہ انگریزی سے ترجمعہ کرتے ہوئے یه بھی نهیں سوچتے کہ کسی غیر ملک کے  نام کا اصل تلفظ کیا هو گا ۔
یقین یہ ہے کہ
دنیا میں پھول هی پھول کھلے هیں ،
همارا ملک دنیا کا سب سے بہتر ملک هے
هم دنیا میں سب سےاچھے مسلمان هیں ـ
اسلام تو اب صرف پاكستان میں هی رھ گیا ہے
اور جی ان کو جھٹلائے
وھ کھسکا هواہے
مضمون لکھنے میں کسی ناں کسی کی نقل کرنی هے ، اور اس کو معیاری تحریر کہنا ہے ، شاعری یا تو فراز کے وزن پر هونی چاھیے یا امام دین کے وزن پر بلاگ پوسٹ کسی کالم نگار کی طرز پر هونی چاھیے
جو اپنی طرز پر لکھے اس کو گالم نگار کہ دو مقروں کی ساخت استادوں جیسی لفظوں کا چناؤ کہانی کاروں جیسا
تو اصلی معاشرھ کیا هوا؟
کیا پاکستانی زبان میں گالیاں نهیں هوتی هیں ؟
یا کسی نے نہیں سنی هیں ، معاشرے مین اصل میں هو گیا رھاہے اس کی تصویر اگر لکھنے والا نہیں کھینچے گا تو انے والے لوگ بڑھا کریں گے که تحاریر سب اچھا لکھتی هیں تو پاکستان کے معاشرے میں بگاڑ کہاں تھا جی عیوب صاحب کے دور سے لے کر ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
هی اور شی کے تعلقات کو فحاشی لکھتے هیں ، اور هی اینڈ هی کے تعلقات پر لکھنا هی خرام هے بلکه سوچنا بھی حرام ہے تو پھر شی اینڈ شی کے تعلقات تو پاکستان ميں هوتے هیں نہیں هوں گے ؟؟
شتر مرغ کی طرح منه ریت میں دبائے انسانی معاشروں سے طوفان نہیں گزارا کرتے، میرے خیال مين بلاگروں میں تو کچھ ایسے پیدا هونے چاہیے جو اصل بات لکھیں چاھے وھ ادب کے جغادری ناموں سے بلکل هی مختلف کیوں ناں هو
ایسا لکھا هو که پڑھنے والے کو اس ميں اپنا اپ نظر ائے که ایسا تو میں بھی لکھ سکتا هوں ، یه تو میرو اردگرد کا حال هے ، یه واردات تو یهیں هوئی تھی ، یه معامله تو میرا اپنا بھی هو سکتا هے
میرے پاس تعلیم نهیں هے ، میرے پاس تحقیق کے لیے وقت نهیں هے میں غریب گھر کا غریب بیٹا تھا اور اب غریب باپ هوں ، میں اپنی غریبی کو دور کرنے کے لے مسلسل جدوجہد کررها هوں
اور اس جدوجہد میں ایک اصل پن هے ، ناں مين جھوٹ بولتا هوں ناں هی منافقت کرتا هوں ، نان هی وعدھ خلافی کرتا هوں ، مال کو بیچنے سے پہلے اس میں موجود جقائص سے کاہک کو اگاھ کرتا هوں تو بہت سے لوگ طنزیه ہنستے هیں که خاور کبھی کامیاب نهیں هو سکتا که اس کو بزنس کا طریقه هی معلوم نهیں هے
اسی طرح لکھتے هوئے بھی جو میرا دل چاھتا ہے اور جو اندر سے بات اٹھتی ہے لکھ دیتا هوں
اس سوچ میں نہیں پڑجاتا که یه تحریر کسی استاد کی تحریر سے مشابہ هو یا ادبی سی لگے
کوئی اس کو بے ادب سمجھے که مراثی پن ( ویسےکبھی کسی نے مراثی کی بے عقلی کی بات بھی سنی ہے کیا ؟؟؟) میں تو جی ایسا هی هوں ـ
جرنل ضیاع کے رود سے ایسا هوا ہے که هر تقرییب کو تلاوت سے شروع کرنا هے
اور تو جی کنجرییاں بھی پرفارمنس سے پہلے اسیا کرنے لگی هیں ـ
اس طرح کی چیزیں جو رائج هو جاتی هیں هم جیسے لوگ ان روایات کو توڑتے هیں تو پہلے پہل عجیب لگتا هے بعد میں لوگ خاور کو پڑھ سمجھتے هیں که ایسا تو میں بھی لکھ سکتا هوں
تو یهی خاور کی کامیابی هے لیکن جب یه عام سے لوگ لکھنے لگ جاتے هیں تو ان کو خاص بننے کا جنون چڑھتا ہے اور پھر خاور کا لکھا هوا
عامیانه سا لگنے لگتا هے

9 تبصرے:

یاسر خوامخواہ جاپانی کہا...

۔کوئی مائی کالال ھے تو آپ کی پیروڈی ہی لکھ دے۔خیر خاور کی طرح عامیانہ لکھنا آسان ھوتا تو پہلے میں ہی لکھتا۔اردوکےبلاگرز واقعی کالم نگاری کا شوق رکھتے ہیں۔دوسری زبانوں کے بلاگر جو دل میں آتا ھے لکھتے ہیں۔

راشد کامران کہا...

اردو کے بلاگر کالم کی طرز پر نہیں لکھتے بلکہ اکثر کالم ہی پورے کا پورا لکھ دیتے ہیں جی کیونکہ کالم نگاروں نے ہی مت مار رکھی ہے پوری قوم کی۔۔ پہلے اخبار تک محدود تھے پھر ٹی وی کے آنے سے تو مافیا بن گئی ہے۔۔ بلاگرز کو ایک دوسرے کی ایسی کی تیسی کرنے سے فرصت نہیں۔

گمنام کہا...

سر جی کیا بات ہے
بڑے دل برداشتہ سے لگے اس پوسٹ میں

Jafar کہا...

سر جی کیا بات ہے
بڑے دل برداشتہ سے لگے اس پوسٹ میں

DuFFeR - ڈفر کہا...

نئیں جی نئیں
ہالی وی
خاور خاور ای اے

عنیقہ ناز کہا...

ابھی راشد کامران صاحب کا تبصرہ پڑھ کر میں نے اپنی مئ کی کار کدرگی کا جائزہ لیا۔ کل اکیس پوسٹس لکھی ہیں۔ تین کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کی ایسی کی تیسی کرنے کے لئے لکھی ہیں۔ ناٹ بیڈ۔ کبھی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے۔ خاص طور پہ اس وقت جب اکثریت آپکے خلاف محاذ بنا کر کھڑی ہو۔
باقی اٹھارہ ہیں ، ان میں سے چار تاریخ پہ، چار سائینس پہ، تین ادب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور باقی سیاسی اور سماجی مسائل پہ۔
میں نے تو پوسٹ لکھنے میں خاصے تجربے کئے ہیں، اس لئے اس سلسلے میں اپنے آپ پہ کوئ الزام نہیں لیتی کہ فلاں کالم نگار یا افسانہ نویس سے متائثر ہو کر لکھا۔ یہ سب تجربے میری ذاتی سوچ کا نتیجہ تھے۔
میں ایسا کیوں لکھتی ہوں، اس لئے کہ میں ایسا ہی لکھ سکتی ہوں۔ جیسے آپ ایسا ہی لکھ سکتے ہیں جیسا آپ لکھتے ہیں۔ یہ آپکا اصل انداز ہے اور یہی میرا اصل انداز ہے۔ میں اپنی کسی تحریر میں مصنوعی طور پہ کچھ ڈالنے کی کوشش نہیں کرتی۔ اس لئے میں نے جو شروع میں لکھا ہوتا ہے اس میں ہجوں کی غلطیوں کے علاوہ کانٹ چھانٹ کی باری نہیں آتی۔ یوں لگتا ہے تحریر مصنوعی ہو جائے گی۔ اور میں اس میں سے نکل جاءوں گی۔
اسی وجہ سے میرے فی البدیہہ کئے ہوئے تبصروں اور میری پوسٹ کے انداز تحریر میں آپکو فرق نہیں ملے گا۔ سوائے ٹائپنگ کی غلطیوں کے کہ تبصروں میں زیادہ ہوتی ہیں۔
میں آپکے بلاگ پہ اس لئے آتی ہوں کہ گلی محلے کی زبان جان سکوں۔ کیونکہ میں ان سے کچھ فاصلے پہ ہوں۔

عمیر ملک کہا...

سب کا اپنا اپنا انداز ہے۔۔۔۔ لہٰذا جو چھاپا لگاتے ہیں کالموں کا یا ان کی طرح "بنا بنا " کے لکھتے ہیں۔ یہ بھی تو ایک انداز ہی ہوا نا۔۔۔!
ویسے اس تپتی ہوئی پوسٹ کی وجہ پیدائش کیا ہے۔۔؟۔

گمنام کہا...

خاور صاحب ، اگر آپ عامیانہ انداز میں لکھنا چاہتے ہیں ، تو ٹھیک ہے ۔ لیکن اگر کوئی بلاگ کو کالم کے انداز میں لکھتا ہے تو اس پر تنقید یا اعترآض کیوں؟ اسے بھی تو اپنا انداز اپنانے کا حق ہے ۔
اور پھر عامیانہ انداز اپنی جگہ ، لیکن غلط سلط الفاظ اور جملے لکھنا ضروری ہیں ؟ پہلے بھی کئی افراد یہ شکایت کر چکے ہیں ۔ آپ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ ان غلطیوں کی درستگی کے لئے بھی تیار نہیں جنہیں آپ خود غلطیاں تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف آپ چاہتے ہیں کہ معاشرہ وہ سب کچھ تبدیل کرے جسے وہ خود غلط نہیں سمجھتے ۔ صرف آپ کی خاطر تبدیل کرے ۔ لیکن ّپ نے خود کو بالکل نہیں بدلنا ۔۔۔۔۔۔۔۔

عثمان کہا...

چھاپا لگانے کے تو میں بھی سخت خلاف ہوں۔ لیکن یہ "کالم کی طرز پر لکھنے" سے آپ کی کیا مراد ہے۔ ہر بندے کا اپنا سٹائل ہے۔

ایک اور بات۔۔۔۔آپ کی تحریر میں املا کی اتنی غلطیاں کیوں ہیں؟

Popular Posts