جمعہ، 11 ستمبر، 2009

امریکه امریکه اے جی

انتہا پسند بھی امریکی ویب هوسٹ استعمال کرنے کو ترجیع دیتے هیں جی ، اپنی اپنی ویب سائیٹ بنانے کے لیے
میری طرح !!ـ میں بھی بنیاد پرست هوں ، اور اس بات پر فخر کرتا هوں که جی میری بھی ایک بنیاد هے
اسلام!!ـ
لیکن جی جادو وھ جو سر چڑھ کر بولے !!ـ
حقیقت وھ جو روز روشن کی طرح عیاں هو ـ
خوبی وھ جس کا دشمن بھی اعتراف کریں ـ
اپنے نبی پاک صعلم کے متعلق مشہور تھا که ایماندار هیں اور جی دشمن بھی اپنی امانتیں ان کے پاس رکھ جایا کرتے تھے که نفرت اپنی جگه لیکن محمد کے پاس مال محفوظ رهے گا ـ
بس جی امریکه کا بھی کچھ ایسا هی حال ہے ان دنوں ـ
که وھ پنجابی میں کہتے هیں جی ـ
گالاں کڈیاں زنانیاں گبھن نهیں هو جاندیاں ـ
تو جی امریکه کو برا کہنے کے متعلق میں کهوں گا که یه معامله حب علی سے زیادھ بغض معاویه ہے ـ
لفظ اس طرح بدل لیں حب اسلام سے زیادھ بغض امریکه ہے ـ
اسلامی دنیا مين کوئی ایک بنک بھی نهیں هے جس پر لوگ اعتماد کریں که ان کا مال محفوظ رهے گا ـ
لیکن امریکه کی بات ہے که ساری دنیا کا گند لوگ جو که اپنوں کو دھوکه دیتے هیں وھ بھی اس بات کا اعتراف کرتے هیں که ان کا لوٹا هوا مال امریکه میں محفوظ رهے گا ـ
میں بھی اپنا یه بلاگ ایک امریکی کمپنی کے هوسٹ پر لکھتا هوں اور امریکه کے خلاف لکتا هوں لیکن اکر امریکه کی بجائے کوئی پاک لوگ هوتا تو اب تک اپنے ناپاک هونے کا ثبوت دے چکا هوتا ـ
میں نے ایک دفعه کوششکی کی که ڈاٹ پی گو کا دومین بناؤں تو جی ان کی شرط هے که اپ اپنا دی این ایس کوڈ بھیج دیں ، هم اس کو ذال دیں کے ـ
اور امریکی کمپی گوڈیڈی والوں کے ساتھ اس وقت میرے بیس کے قریب دومین رجسٹر هیں ، میں ان مين خود ڈی این ایس ڈال سکتا هوں ، ان کو ری ڈائریکٹ کرسکتا هوں ، ان کو کسی کو ٹرانسفر کرسکتا هوں ، میں نے پسے دئے هیں اس لیے میں ان کا مالک هوں اور ان کو اپنی مرضی سے چلا سکتا هوں
لیکن که پی کے والوں کے ساتھ معامله هی دوسرا هوتا ہے ـ
هر گاھک چھوٹے لوگ هوتا هے ، اور اسکو اس کی اوقات یاد کرتے رھنا هی پاک سٹائل هے ـ

امریکه وھ ملک ہے که اکرآج کہـ دے که پاکستان کے سارے مرد لوگوں کے لیے چھ ماھ کی امریکه کی ویزھ فری انٹری هے اور پابندی ہے که ایک دفعه انٹر هو کر دس سال امریکه سے باھر نهیں جانا ہے !!ـ
تو؟؟؟
جی؟؟؟؟
پھر پاکستان میں عورتوں کی آبادی کا تناسب کیا هو گا ؟؟؟
اور جی ان کی ضروریات کون پوری کرے گا؟؟؟
اگر رقم هی سب کچھ هوتی تو جی لوگ بچے نهیں رقم هی پیدا کرلیا کرتے ـ
بس جی کبھی کبھی امریکی بحری بیڑا ، کرانچی اور مکران کے ساحلوں پر آجایا کرے اور چاردن گھوم پھر جایا کریں ـ
دنیا بھر میں ایسے لوگ هیں جو اپنے بچے امریکه میں محفوظ سمجھ کر ان کو امریکه تعلیم کےلیے بھیج دیتے هیں ـ
اپنی رقموں کو امریکه بنکوں میں رکھتے هیں ـ
امریکه کے ویزے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلتے هیں؟
وھ جب سے میرا پاکستان والے افضل صاحب نے امریکه کی ایمبیسی کے متعلق لکھا ہے جی اپنے اندر کا ایک کمینه سا احساس کچوکے لگاتا ہے که امریکی لوگ تو جی هوئے اشرف المخلوقات اور جی هم لوگ کیا هیں ؟؟
امریکی حکومت چاھتی هے که ان کے پاسپورٹ ھولڈر جب پاکسان آئیں تو پاک لوگوں کو کان هوجانے چاھیے که کوئی امریکی آیا ہے ـ
اور امریکی لوگ پاک قانون سے مارواء هونے چاھیں ، هاں فریڈم آف سپیچ آپ کو بھی دے دیں گے ، بے شک امریکی لوگوں کو ناپاک کہـ لو اور خود کو پاک ، لیکن جی هم ڈیکشنری میں معنے هی بدل دیں گے پاک اور ناپاک کے ـ
میں بھی سب مسلمانوں کے ساتھ هوں آؤ مل کر امریکه کو تباھ کردیں !!ـ
امریکه سےزیادھ امانت دار بن کر امانتداری میں اس کو شکست دے دیں
امریکه سے زیادھ جمہوری بن کر اس کو جمہوریت شکست دے دیں
امریکه سے زیادھ سائینس میں ترقی کرکے امریکه کو ذلیل کرکے رکھ دیتے هیں جی میں بھی اپ کے ساتھ هوں
امریکی لوگ سچ بولنے میں فخر کرتے هیں ، هم لوگ ان کو سچ بولنے میں شکست دے سکتے هیں ، امریکیوں کو ملاوٹ ناں کرنے کے مقابلے میں هرایا جاسکتا ہے ـ
بہت سے میدان هیں جی جن میں امریکه کو ناکوں چنے چبوا دینے چاھیں ـ
میں امریکه کو ایسی مار مارنا چھتا هوں که پھر یه همارے مقابلے میں سر ناں اٹھا سکے
اور یه مار صرف ٹکینیک میں ترقی کرکے هی مار سکتے هیں ـ
لیکن جی همارے تو سارے انجنئر اور ڈاکٹر اور پڑھے لکھے بھی امریکه کے ساتھ مل گیے هیں ان کا کیا کریں گے؟؟
بس جی مسلمانےن کو همشه غداری نے مارا ہے ، یه لوگ غدار هو گئے هیں ، ان کو واپس آکر پاک حکومت میں شامل لوگوں سے بے عزتی کروانی چاھیے ، اور جگه جگه ذلیل هو کر اپنے اصل اور پکے پاکستانی هونے کا ثبوت دینا چاھیے ـ
تھانے ميں لتروں سے تشریف لال کروا کر پاکستانی هونے کی مہر ثبت کروائیں جی ـ
ورنه هم سمجھیں گے که آپ لوگ دشمن کے ساتھ مل کر غدار هو گئے هو ـ
نئیں تے سانوں وی ویزھ کلّو !!!!!!ـ

10 تبصرے:

عنیقہ ناز کہا...

آپ کی یہ میل مجھے بے حد پسند آئ، کیونکہ یہ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔لوگ دکھاوے کی امریکہ دشمنی کرتے ہیں۔ان میں سے کسی کو موقع ملے تو امریکہ جانے سے نہیں ہچکچاتا۔ اور پھر چاہے وہاں جیسے حالات ہوں یہاں واپس آنے کو کوئ تیار نہیں ہوتا۔ سلام پاکستان۔

Qadeer Ahmad کہا...

ایک بات بتائیے۔ کیا ایمان کے لیے روح اور جسم کی پاکیزگی ہونا ضروری ہے یا بس یہ سوچ ہی کافی ہے کہ میری بنیاد اسلام ہے؟

میرا پاکستان کہا...

خاور صاحب، شکریہ آپ نے ہمارے مسئلے کا حل پیش کر دیا مگر یہ حل ذرا اوکھا ہے جس پر عمل کرنا ہر مسلمان کے بس کی بات نہیں ہے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

آپکی تحریر کے مقصد سے تو مجھے اتفاق ہے۔ کہ مسلمانوں کو علم و سائنس میں ترقی کرنی چاہئیے۔ نیز انھیں اچھی اخلاقی اقدار اپنانی چاہئیں۔ اس تحریر کے کچھ حصوں سے اختلاف ہے۔ ۔۔۔۔ گالاں کڈیاں زنانیاں گبھن نهیں هو جاندیاں۔۔۔ یہ جملہ بھی بجائے خود گالی کے زمرے میں آتا ہے اور ۔۔ گبھن۔۔ وغیرہ جانوروں کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے ۔اسے انسانی مخلوق کے لئیے استعمال کرنا اور سرعام لکھنا ۔انسانیت اور خواتین کی توہین۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ کچھ گنوار لوگ چسکا لے کر ایسی مثالیں ضرور دیتے ہونگے مگر۔ آپ ماشاءاللہ شعور رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ تشبیہ یا مثال درست نہیں۔ اگر آپ جیسا باشعور انسان اور اچھے بُرے کی تمیز رکھنے والا انسان ایسی بات لکھے گا تو پھر ہم پاکستانی پولیس پہ کیسے تنقید کر سکیں گے کہ وہ عام شہریوں کو تھانے میں بند کر کے تشریف لال کرتے ہوئے حب الوطنی کی ڈوز دینے کا سلسہلہ بند کریں ۔ کیونکہ ان میں اور آپ میں ایک بہت بڑا فرق ہے کہ آپ باشعور ہیں اور وہ ہر قسم کے شعور اور اخلاق سے بیگانہ ہیں۔

امید کرتا ہوں آپ میری بات کا برا نہیں منائیں گے۔ دوست وہ ہوتا ہے جو بات صاف کر جائے خواہ وقتی طور پہ آپ کو بات کتنی بری کیوں نہ لگے۔

امریکہ کی بحث بہت لمبی ہے۔ مسلم دنیا کے بیشتر حکمران اور انتظامیہ کے ذمہدار۔ ان ممالک کی اشرافیہ ، سیاستدان۔ جرنیلیہ۔ میڈیا/ صحافی وغیرہ وغیرہ پچھلی کی کئی دہائیوں سے امریکہ اور برطانیہ کے لے پالک ہیں ۔ کچھ تو ان کی پے لسٹ پہ ہیں۔ ایسے میں کسی مسلم ملک میں علم و سائنس کی ترقی۔؟ چہ معنی دارد۔؟؟ کونکہ جیسے آپ نے بجا ارشاد فرمایا کہ علم و سائنس کی ترقی کے بغیر امریکہ وغیرہ کا مقابلہ کرنا یا اپنے عوام کو ترقی دینی ناممکن ہے۔ تو ایسے حالات میں صرف پاکستان کی مثال لے لیں۔ سازش یہ ہے کہ یکساں تعلیمی نظام نہیں ۔ یکساں تعلیمی نصاب نہیں۔ پھر کیسی ترقی اور کیسا مقابلہ۔؟ تعلیم کا معیار غریب اور امیر ، عوام ، خواص۔ رعایا اور بادشاہوں کے لئیے یکسر مختلف ہے۔

اسی طرح کی دوسرے مسائل ہیں ۔ جسمیں بنیادی ضروریات ، آٹا ، چینی ، چاول، اور سانس لینے سے لیکر زندگی گزارنے کی مشقت میں صبح کو شام اور شام کو صبح کرنے والے پچاسی فیصد عام عوام جب امیریکہ کے لے پالک سیاستدوانوں ، جرنیلیہ ، اشرافیہ ، انتظامیہ اور چور حکمرانوں کی لُوٹ کھسوٹ بندر بانٹ اور غریب آدمی کے ملکی وسائل پہ قابض دیکھتے ہیں تو سائے ٹھنڈی سانسیں لیکر رہ جاتے ہیں۔ تو ایسے میں لا محالہ مسلمان ملکوں میں امریکہ کے خلاف نفرت بڑھے گی۔

امریکہ ایک ساہوکار کی طرح صرف اپنے مفادات کو ترجیج دیتا ہے۔ یہاں تک تو شاید سبھی صبر کر جائیں مگر فتنہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب امریکہ اپنے ساہوکارانہ مفادات کے لئیے دھونس دھمکی اور بسا اوقات غریب مسلمان ممالک سے جنگ و جدل پہ اتر آئے۔ جنگی ٹیکنالوجی میں دنیا کا ترقی ترین یافتہ اور امیر ملک امریکہ دنیا کے غریب ترین اور پسماندہ ملک افغانستان پہ پچھلے آٹھ سالوں سے جنگ مسلط کرتے ہوئے قبضہ کئیے بیٹھا ہے۔

آپ نے لکھا ہے امریکی جھوٹ نہیں بولتے۔؟ امریکی قوم کے جھوٹ کا یہ عالم ہے کہ عرب دنیا کی علم و سائنس میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم عراق کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لئیے اجتماعی بربادی کے ہتیاروں کے ننگے جھوٹ کا افسانہ گھڑا گیا۔ تلاشی کے بہانے ۔ صدام حسین کے بیڈ روموں تک کی تلاشی لے ڈالی ۔ قسم قسم کے انسپکٹر بلا روک ٹوک عراقی اقتدارِ اعلٰی کی توہین و تذلیل کرتے ہوئے عراق کے چپے چپے کی متواتر کئی سالوں تک تالاشی کے بہانے ہر قسم کی جاسوسی معلومات اکھٹی کرتے رہے۔ پوری امریکن قوم کے نمائیندے ۔ کانگریس اور سینٹ سمیت امریکن میڈیا امریکی انتظامیہ ۔ امریکی سیاستدان ، امریکی حکمران اور امریکی صدر ہر قسم کے اخلاقی ضابطے سے عاری لہجے میں عراق میں اجتماعی بربادی کے ہتیاروں پہ جھوٹ بیان کرتے رہے رہے ۔ جھوٹے افسانے گھڑتے رہے۔(جبکہ امریکہ کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ بلکہ باقی ساری دنیا کے ملا کر اجتماعی بربادی کے ہتیاروں سے زیادہ اجتماعی ہتیار ہیں) امریکہ میں صبح شام ڈاک کے ذرئیے بھیجے،گئے کسی نہ کسی عمار ت سے سفید رنگ کے سفوس کے لفافے برآمد ہونے لگے ۔ پوری پوری عمارتیں سیل کرنے کا ڈرامہ رچایا جاتا ۔ ٹی وی پہ براراست ساری دنیا میں دکھایا جاتا کہ کسطرح امریکی خصوصی دستے خلاء نودروں کی طرح عجیب و غریب لباس پہنے ماسک چڑھائے تین تین دن تک مذکورہ عمارت کی تلاشی لیتے پھرتے ہیں جبکہ امریکہ حکومت جانتی تھی کہ سب جھوٹ اور ڈرامہ ہے ۔ پوری دنیا میں عراق کے خلاف جنگی ھذیان پھیلایا گیا۔صبح شام کاروبار ِ جھوٹ تھا جو جاری و ساری تھا۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

امریکہ کے ظلم کو اسوقت تک صبر نہ آیا جب تک عراق اور عراقی قوم کی اینٹ سے اینٹ نہ بجادی گئی۔ اسکے بعد نہ امریکہ کی کسی بلڈنگ سے سفوف برآمد ہوا نہ اسطرح کا کوئی جھوٹا ڈرامہ رچایا گیا ۔عراق میں اجتماعی بربادی کے ہتیاروں کی موجودگی اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے جو امریکنوں نے بشمول اپنے کذاب صدر سمیت پلے کیا۔

جمہوریت کی بھی آپ نے خوب کہی ۔ امریکہ کو عراق میں مطلوبہ ہتیار نہ ملنا تھے ۔نہ مل کہ امریکہ نے پروپگنڈا کیا کہ عراقی عوام بغداد کے دروازے پہ پھولوں کے گلدستے تھامے، ڈکٹیٹر سے نجات پانے پہ ، امریکی افواج کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے ، خوش آمدید کہنے ے لئیے بے چین کھڑے ہیں (جبکہ صدام کو عراق کا حاکم بھی امریکہ نے بنایا تھا)۔ جب ایک دنیا نے دیکھا کہ عراقی عوام نے امریکن افواج پہ نفرت سے تھوکنا تک بھی گوارہ نہیں کیا۔ تو عراق پہ چڑھائی کے بعد جھوٹ اور منافقت کے ریکارڈ توڑتے ہوئے امریکی صدر نے کہا ۔ امریکن افواج عراقی عوام کو ایک بدترین آمر صدام حسین سے نجات دلانے کے لئیے عراق پہ حملہ آور ہوئی ہیں ۔امریکن فوجی عراقی عوام خصوصی طور پہ اور مشرق وسطٰی کے مسلمان عوام کو عمومی طور پہ جمہوریت سکھانے آئے ہیں ۔ پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ کسطرح ابوغریب میں عظیم اور پاک صاف امریکہ نے عراقیوں کو جمہورت کے طور طریقے سکھائے۔ اور متواتر سات آٹھ سالوں سے پورے عراق کو ابو غریب بنا رکھا ہے۔ جبکہ اسی دوران امریکہ کو پاکستانی قوم کی جمہوریت اتنی عزیز ہوئی کہ ننگ ِ ملت۔ ننگِ وطن پاکستانی آمر مشرف کو امریکی صدر کے عظیم دوست کا ہونے کا خطاب دیا گیا۔ اور وہ "عطیم دوست" متواتر آٹھ سال تک پاکستانی قوم کو روشن خیالی کی ٹکٹکی پہ چڑھا کر بنیادی جمہوریت کی پان لگاتا رہا۔ آج یہ عالم ہے کہ پاکستان میں کہنے کو جمہوریت تو ہے مگر قوم مفقود ہوچکی ہے۔اور امریکہ ہر طرف موجود ہے۔

افغانستان پہ چڑھائ سے پہلے ٹی وی کیمرے پہ ٹوپی دار برقعہ چڑھا کر اسے بازار میں گھما کر مغربی عوام کو بتایا گیا کہ افغانی عورت کسقدر پسی ہوئی ہے ۔اسلامی دہشت گردوں کے ہاتوں مجبور بیچاری افغان عورتیں یہ کچھ دیکھ پاتی ہیں جو آپ اسوقت کیمرے کی آنکھ سے برقعے کی جالی سے اس پار دیکھ رہے ہیں کہ کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ ہے افغانستان میں مسلمان دہشت گردوں کے ہاتھوں عورتوں کی نظر بندی جس کے خلاف ہماری عظیم افواج ان مظلوم عورتوں اور افغانی عوام کو آزادی دلانے جارہی ہیں۔ آج بھی برقع ویسے ہی کابل میں استعمال ہوتا ہے ۔ ہر جگہ نظر آتا ہے۔ مگر افغانستان پہ چڑھائی کے لئیے حیلہ و بہانہ کے مقاصد پورے ہو چکے ہیں۔

واہ رے امریکہ تمھاری سچ کہنے اور حق پرستی کو ، تمہاری جمہورت اور جمہور دوستی کو سلام

امریکہ اس تاریخی کردار کا ایک تسلسل اور حصہ ہے جو خلافتِ بغداد اور خلافتِ قرطبہ کے سقوط کے بعد سے تہذیبی طور پہ اسلام سے ٹکراؤ اور مسلمانوں کو مزید کمزور کرنے کے متواتر عمل کا حصہ دار ہے اور جسکے ڈانڈے صیلبی جنگوں میں نصرانیت اور نصرانی افواج کی مسلمانوں کے ہاتھوں تاریخی بدترین شکستوں کے انتقام اور کدورت سے جا ملتے ہیں۔ مگر قانون فطرت ہے ۔ تاریخ عالمی طاقتوں اور سپر پاورز کا قبرستان ہے۔ یہ دائرے کا سفر ہے جس میں قومیں ابھرتی ڈوبتی ۔ بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ کیا عجب اگر درست سمت میں سفر کیا جائے تو ایک دن مسلمان پھر سے طاقتور اور ترقی یافتہ ہونگے۔

تب تک آپ کو اگر کسی پی کے ڈاٹ کام والوں سے کوئی شکوہ ہے تو آپ انھیں بے نقط سنائیں مگر آپ ہم سے ۔ ہم غریب اور بے بس عوام سے ، جو دیکھتے ہیں اور کڑھتے ہیں ۔ اور جانتے ہیں کہ انکے حکمران ہی ان کے مجرم ہیں اور انکا رسہ گیر امریکہ ہے۔ تو ہم عوام سے امریکہ کو لعن طعن کرنے کا بنیادی جمہوری حق تو نہ چھ

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

لعن طعن کرنے کا بنیادی جمہوری حق تو نہ چھیں ۔

اسماء پيرس کہا...

خاور چچا جی آپ کی تمام باتيں امريکہ متعلق درشت ہيں اور اپنے لوگوں متعلق بھی مسئلہ يہ ہے کہ مجھےسٹار پلس اور ساس بہو جھگڑے سے فرصت ملے تو ميں ايسی نسل تيار کروں جس ميں وہ خوبياں پائی جاتی ہوں جو آپ نے بتائی ہيں امريکہ کی ايک برائی اسکی تمام اچھائيوں پر حاوی ہے اور وہ اسکا خود کو دنيا کا ٹھيکدار سمجھنا ہے

راشد کامران کہا...

دو چیزیں اپ نے ایسی بیان کردیں جو حلق سے اتارنی مشکل ہیں۔۔ ایک تو امریکہ کی بطور سوسائٹی تعریف کی اور دوسرا جہاد کا ایک وہ رخ دکھایا جو فی الوقت ہم دیکھنا نہیں‌ چاہتے یا بغیر تیر، تلوار، خون، زخم اور خود کش بم جہاد کا تصور ہی ناپید ہے۔ لیکن شاید علاج کے لیے کڑوی دوا ہی پینی پڑے گی آسان جنت سے تو کم نہیں چل رہا۔

Yasir کہا...

اگر خاور صاحب کی بات میں دم ہے تو کیا جاوید صاحب کی بات میں نہیں ہے، تو ثابت یہ ہوا کہ امریکی اپنے آپ کے ساتھ مخلص ہہیں، اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے وہ جھوٹ بھی بولتے ہیں، مگر اپنے ملک کے اندر انہوں نے ایک سٹینڈرڈ بھی قایم کر رکھا ہے،
نو ملاوٹ
نو جھوٹ
نو رشوت
لیکن مسلمانوں کے خلاف ان کے معیار بدل جاتے ہیں، فلیسطین میں ہونے والے اسرایلی قتل عام پر تو کوءی امریکی جریدہ سچ نہیں بولتا، اوباما کہتا ہے کہ اسرایل کو اپنے دفاع کا پورا حق ہے اور امریکہ اور اسرایل کی دوستی اٹوٹ ہے
پھر کہاں گیا سچ ؟
جناب راشد صاحب اور جناب خاور صاحب
جواب چاہیے

Yasir کہا...

معیار قائم کرنا چاہیے ، ضرور کرنا چاہیے، کم ازکم اپنے ملک کے اندر، اپنے بھائیوں کے ساتھ،
جھوٹ مت بولیں، دھوکہ مت دیں، رشوت مت لیں ، سرکاری افسران غریب بھائیوں کے مسلے رشوت کے بغیر حل کریں، سیاستدان ٹریفک سگنل نہ توڑیں، اگر ہمارے اندر ایک دفعہ اسلام قائم ہو گیا تو ہمیں کوئی نہیں ہرا سکے گا
ہمیں کب کہا گیا کہ ہم ڈائریکٹ بات جنگ سے شروع کریں، کس نے ہمیں‌کہا کہ ہم بندوق اٹھا لیں ؟
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پہلے اپنی کریڈیبلٹی قائم کی، ایسے معاشرے کے اندر جہاں جھوٹ فریب دھوکہ چالاکی بدمعاشی عام تھی، وہاں پر صادق اور امین کا لقب پایا ، 63 سالہ زندگی میں 40 سال کریڈیبلٹی بنایئی، 23 سال اللہ کا پیغام پھیلایا اور پھر فلک نے دیکھا کہ مکہ سے ہجرت کرنے والا ایک دن بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ آیا اور بنا ایک خون کا قطرہ بہائے مکہ فتح کر لیا، علاقہ فتح نہیں‌کیا، پہلے دل فتح کیے، اگر ہم اس روشنی کو پیچھے چلیں گے تو اللہ ہمیں‌کامیابی عطا فرمائے گا، ہم بندوق کی نوک سے اسلام قائم نہیں‌کر سکتے، کچھ عرصہ قبل جاوید چودھری نے بھی ایک ایسی ہی تحریر لکھی تھی، مگر ربط ابھی میرے پاس موجود نہیں۔

ہمیں خود سے مخلص ہونا پڑے گا، اپنے مقصد سے مخلص ہونا پڑے گا، یہی لب لباب ہے اس تبصرے کا

Popular Posts