وکھری سوچ
کچھ مینوفکچرنگ فالت هوتا ہے که کوالٹی که بندھ بچپن سے هی کچھ وکھری ٹائپ کا هوتا ہو جس نے بڑے هو کر بھی کچھ کھسکے هوءے کام کرنے هوتے هیں ـ
پنجابی کا محاورا
که سولاں جمدیاں دے ای منه ترکھے هوندے نے
اردو میں
هونہار بروا کے چکنے چکنے پات والا بات جی ـ
پھل آ گئے نی کیکراں نوں
سولاں وانگوں ڈنگ جاندے نے لوکی چنگیاں فکراں نوں ـ
کیکر کے پھول ؟؟کون ان کی نزاکت کی بات کرتا ہے یا کون ان کو بھولوں کے طور پر دیکھتا ہے ؟
اسی لیے شاعر نے ان کو ماھیے کا پہلا مصرع بنا ڈالا
بس جی ان دنوں بھی جب میں چھوٹا سا هوتا تھا تو اس بات پر کڑتا تھا که لوگ اپنے اپنے گھر کے جھگڑوں کو کیوں چوھدریوں کے ڈیروں پر لے کر جاتے هیں ـ
بھائوں کا اختلاف کیوں ان کے گھر میں حل نهیں هوتا
کچھ تو جی یمارے گاؤں کے چوھدری تھے بھی بڑے طاقتور که آپ اس بات سے اندازھ لگا لیں که اخری دنوں میں چوھدری قمر الہی کا برا حال تھا که اس کے پاس چند سو روپے بھی نهیں هوتے تھے لیکن جب وھ فوت هوا تو ان دنوں مشرف صاحب صدر تھے اور جناب مشرف صاحب بنفس پلید ان کو جنازے میں شامل هونے کے لیے تلونڈی گئے تھے
میں خود ان دنوں فرانس مين تھا که گاؤں گیا تو پاجں دن بعد هی کچھ هواؤں کا رخ خراب دیکھ کر واپس فرانس چلا گیا تو اپنے چوھدری ظفر کہوٹ نے حیران هو کر پوچھا که اپ تو چند مہنیوں کے لیے گئے تھے؟ یه کیا هوا که چند دن بعد هی واپس ؟؟
اگلے دن هی بھائی ننھا کا فون آگیا که جی چوھدری قمر الہی فوت هو گئے هیں ، اب اگر اپ آجائیں تو کیسا ہے
لیکن جی میں ٹکٹ افورڈ نهیں کرسکتا تھا ، اس لیے بس پھر !!ـ
ایک دفعه میں واشنگٹن ڈی سی میں اپنے ملک غلام حیدر کے ساتھ پھر رها تھا که ایک ریسٹونٹ پر جب ملک صاحب نے ٹیکسی روکی (ملک صاحب ٹیکسی چلاتے تھے اور میرے پیار کے بندھے مجھے مفت میں گمھاتے تھے) تو پارکنگ میں ایک ادھیڑ عمر مرد کھڑا تھا ملک صاحب نے سرگوشی میں کہا ، یه هے وھ بندھ جس نے بے نظیر کے دور میں سکھوں کی لسٹیں انڈیا کو پہنچائی تھیں ـ جب ان صاحب سے سلام لی تو انهوں نے مجھے پوچھا که جی کہاں سے تعلق هے تو میں نے تلونڈی کا نام هی لیا که کہنے لگے اچھا جی آپ چوھدری قمر الهی کے گاؤںكے هیں ؟
جب میں گاؤں گیا تو چوھدری صاحب نے مجھے بلایا که بات سن جاؤ ، تو اک کمہار کی کیا جرأت کی ناں جائے
جب میں ملنے کے لیے ڈیرے گیا تو چوھدری صاحب نے واشنگٹن والے صاحب کا نام لے کر کہا که ان سے ملاقات هوئی تھی !ـ
جی !!ـ
بس یار ذرا بات کرتے هوئے هماری عزت کا بھی خیال رکھا کرو !ـ تم بات کرتے هوئے ڈرتے هی نهیں هو ، سچ زیادھ بھی اچھا نهیں هوتا وغیرھ وغیرھـ
جمالی صاحب جو بعد میں وزیر اعظم رهے هیں انهوں نے ان چوھدروں کے کہنے پر همارا ٹیلی فون رکوا دیا تھا ، جو که نهیں لگ سکاتھا ـ
هماری برادری کے سب ووٹ ان کے هوتے تھے ـ
اور میں مخالفت هی کیا کرتا تھا که جی بے شک ووٹ ان کو هی دو لیکن ذرا اپنا وزن بھی تو بناؤ ناں جی لیکن میری کوئی سنتا هی نہیں تھا جی ان دنوں میں ابھی اپنی عمر کے ٹین میں تھا ناں جی
اور میرے میچور هونے تک یه خاندان ختم هو چکا ہے
بات کہاں سے کہاں چلی گئی که میں لکھنا یه چاحتا تھا که ایسا کیوں هوتا هے که چھوٹے لوگوں کے فیصلے ، لندن ، واشنگٹن ، اور سعودیه میں هوتےهیں ، اپنے گھر میں کیوں نهیں هو جاتے ؟؟
دین (سسٹم ) لوگوں کو شعور دیتے هیں ، لیکن جی همارا تو دین بھی باھر سے کنٹرول هوتا هے ، جب ترکوں پر عروج تھا تو جی هم حنفی هوا کرتے تھے که امداد وھان سے آتی تھی ، تھوڑی سی امداد ایران سے آتی تھی اس لیے جی هم اھل تشیع بھی هوا کرتے هیں ،اور پھر اب جب امداد سعودیه سے آتی هے تو هم هیں جی اھل حدیث ،
اور سعودیه کی پروڈکٹ کجھوروں وغیرھ کی تعریف میں حدیثیں سنتے سناتے هیں ، اور عربی کی ٹرم ایسے ایسے سناتے هیں که اکر میں نے لکھا تو توھین رسالت میں کوئی مجھے قتل کرکے غازی بن جائے گا ـ
وھ اک سجدھ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ھزار سجدوں سے دیتا هے آدمی کو نجات
کتنے بد نصیب هیں جی هم لوگ که شخصیات مين نجات دھندھ تلاش کر رهے هیں
کوئی شریفین میں اور کوئی زرداروں میں ، اور کوئی بھائی لوگوں ميں ، اور یه لیڈر کہلوانے والے روحانی پیشوا نما فرعون نما بادشھ بنے هوئے لوگ اگر اپنی اپنی موت پر قادر هوتے تو رب کہوانے سے بھی نهیں چوکتے
لیکن موت ہے که ان کو خدا کہلوانے سے باز رکھے هے اپنے قادری صاحب کو بات دوسری ہے که انہوں نے تصوف کی چال جلی هے جس مں مات هوتی هی نهیں هےـ
4 تبصرے:
باتیں تو آپ کی پتے کی ہوتی ہیں اور وہ بھی خاوری انداز میں۔ یہی سچ ہے کہ مذہب صرف غریبوں کو بیوقوف بنانے کیلیے استعمال ہوتا ہے وگرنہ امرا کا مذہب سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ جونہی حکمران بنے، دکھاوے کے دو چار عمرے کر لیے اور ساری عمر اندھیرے میں گناہ کرتے رہے۔ خدا ان منافقوں سے بچائے مگر بچائے گا نہیں کیونکہ ہم بچنا ہی نہیں چاہتے۔
آخری فقرے میں تو آپ نے لپیٹ دیا نا پھر سب کچھ آج۔۔ یہ پوسٹ پڑھ کر ناجانے کیوںایک شعر یاد آیا شاید بے محل ہو کہ
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حساب جاں برسر عام ر کھ دیا۔۔۔
لالہ کافی عرصہ بعد پرانے خاور سے ملاقات ہوئی۔
جاگیردارانہ معاشرے میں ہر سطح پر سوچ جاگیردارانہ ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ زور آور کو سلام ہے اس لیے جب کسی پر زور نہ چلا تو بیوی پر غصہ اتار دیا۔ ٹریفک سگنل پر غلطی اپنی ہونے کے باوجود دوسرے کو مغلظات بکنا شروع کر دیں۔ یہ سب جاگیردارانہ نظام کے مظاہر ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اپنے مسائل خود حل کرنے کے بجائے چودھری کے پاس جایا جائے۔ جب مسئلے ملکی سطح کے ہوں تو بھی یہی سوچ کارفرما۔ کبھی امریکہ، کبھی برطانیہ اور کبھی سعودیہ کو بلاتے ہیں۔
تحریر بہت شاندار ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں