آٹو درائیو کاریں ۔
آٹو ڈرائیو کاریں ۔
جاپان کے وزیر اعظم جناب آبے نے عندیہ دیا ہے کہ دوہزار بیس تک کاریں آٹو ڈارئیو پر ہو جائیں اور دوہزار تیس تک سڑکوں پر بھی دوڑنے لگیں ،۔
پہلے پہل لوکل اور ابادیوں کی سڑکوں پر چلائی جائیں اور اور اگلے مرحلے میں ہائی ویز پر ،۔
آٹو ڈرئیو کی کاروں اور ٹرکوں کو آٹو ڈرائیو پر منتقل کر کے گاڑی میں سوار لوگوں کی ایکٹویٹی پر پرزینٹشنز ویڈیو بنا کر دیکھائے جا رہے ہیں ،۔
کہ کیسے گاڑی آٹو ڈائیو پر چل رہی ہے اور گاڑی میں سوال لوگ سیٹو کے منہہ ایک دسرے کی طرف کر کے میٹنگ میٹنگ کھیل رہے ہیں ۔
یا کہ لمبی مسافتوں کے مال بردار ٹرک کے ڈرائیور ، ٹرک کو آٹو پر کرکے کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں یا کہ سمارٹ ڈیوئیس پر ویڈیو ، گانے یا کہ اپنے معاملے کے لئے روابط کر کے وقت کو استعمال کر رہے ہیں ،۔
یہ کوئی خواب و خیال کی گپیں نہیں ہیں گاڑیاں ، ورکشاپوں میں تیار ہو رہی ہیں ، دوہزار بیس بس دو سال بعد ہی آنے والا ہے ،۔
اور بارہ سال بعد دوہزار تیس ، ہم سے کئی لوگ زندہ ہوں گے اور کئی میچور ہو چکے ہوں گے ،۔
پلٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
والی تصویر بنتی جا رہی ہے کہ
اکیسویں صدی کی یہ آٹو ڈرائیو گاڑیاں ، ہند کے گاؤں دیہات میں چلنے والی بیل گاڑیوں ، گھوڑے کے ٹانگے کی طرح ہوں گی ،۔
بیل گاڑیوں پر مال لادھے ہوئے شہر کی طرف منہ کئے گڈھے کا ڈائیور مال سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوتا تھا ،۔
علاقائی زبان کی کوئی منظوم لوک کہانی ، ماہئے یا کہ گیت گا رہا ہوتا تھا ،۔
بیل خود سے چلتے جاتے تھے ،سامنے سے آنے والی چیزوں ، انسانوں مکانوں سے بچ کر نکل جانے میں ڈائیو ر کو ٹینشن نہیں لینی پڑتی تھی ،۔
ٹانگے کا کوچوان باگیں ڈھیلی کئے ، پائیدان پر پیر ٹکائے بانس پر تشریف رکھے ہوئے ، تماشاہائے اہل کرم دیکھ رہا ہوتا تھا ،۔
پھر انجن والی گاڑیاں آ گئیں ، سٹئیرنگ تھامے ہوئے ڈارئیور کی انکھ جھپک گئی یا دھیان بٹ گیا تو ؟
کئی جانئں ،جان سے گئیں ،۔
لمبی مسافتوں کے ڈارئیور لوگوں کے اعصاب تنے رہ رہ کر چٹخ جاتے تھے ،۔ آنکھیں پتھرا کر رہ جاتی تھیں ، ،۔
میوزک ،جو کہ امیروں کی عیاشی ہوا کرتی تھی آڈیو کے انے سے ڈرائیور کو ایک یہی عیاشی میسر تھی کہ کیسٹ بدلو اور گانے سنو،۔
لیکن دھیان نہ بٹ جائے کہ جان سے جاؤ گے اور گھر پر بیوی بچے انتظار ہی کرتے رہ جائیں گے ،۔
آٹو ڈارئیو کے انے سے بیلوں کی نکیل ، گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑ کر وقت کو انجوئے کرنے والے گاڑی بان یا کوچوان کی طرح اب ڈرئیور بھی ٹرک کو آٹو ڈرائیو کر کے وقت کی بچت کر لیا کریں
گے ،۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ وقت کی بچت ؟ پیسے کی طرح وقت کو بچا کر رکھ لیا جانا ناممکن ہے ۔
اگر کوئی کسی کو وقت کی بچت کا طریقہ بتا رہا ہو تو ؟
یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اس پر پھر کبھی سہی ،۔
ابھی اپ اپنے تصور میں آٹو ڈرائیو والے ٹرک اور بیل والے گڈھے کا تقابل کر کے انجوائے کریں ،۔
جاپان کے وزیر اعظم جناب آبے نے عندیہ دیا ہے کہ دوہزار بیس تک کاریں آٹو ڈارئیو پر ہو جائیں اور دوہزار تیس تک سڑکوں پر بھی دوڑنے لگیں ،۔
پہلے پہل لوکل اور ابادیوں کی سڑکوں پر چلائی جائیں اور اور اگلے مرحلے میں ہائی ویز پر ،۔
آٹو ڈرئیو کی کاروں اور ٹرکوں کو آٹو ڈرائیو پر منتقل کر کے گاڑی میں سوار لوگوں کی ایکٹویٹی پر پرزینٹشنز ویڈیو بنا کر دیکھائے جا رہے ہیں ،۔
کہ کیسے گاڑی آٹو ڈائیو پر چل رہی ہے اور گاڑی میں سوال لوگ سیٹو کے منہہ ایک دسرے کی طرف کر کے میٹنگ میٹنگ کھیل رہے ہیں ۔
یا کہ لمبی مسافتوں کے مال بردار ٹرک کے ڈرائیور ، ٹرک کو آٹو پر کرکے کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں یا کہ سمارٹ ڈیوئیس پر ویڈیو ، گانے یا کہ اپنے معاملے کے لئے روابط کر کے وقت کو استعمال کر رہے ہیں ،۔
یہ کوئی خواب و خیال کی گپیں نہیں ہیں گاڑیاں ، ورکشاپوں میں تیار ہو رہی ہیں ، دوہزار بیس بس دو سال بعد ہی آنے والا ہے ،۔
اور بارہ سال بعد دوہزار تیس ، ہم سے کئی لوگ زندہ ہوں گے اور کئی میچور ہو چکے ہوں گے ،۔
پلٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
والی تصویر بنتی جا رہی ہے کہ
اکیسویں صدی کی یہ آٹو ڈرائیو گاڑیاں ، ہند کے گاؤں دیہات میں چلنے والی بیل گاڑیوں ، گھوڑے کے ٹانگے کی طرح ہوں گی ،۔
بیل گاڑیوں پر مال لادھے ہوئے شہر کی طرف منہ کئے گڈھے کا ڈائیور مال سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوتا تھا ،۔
علاقائی زبان کی کوئی منظوم لوک کہانی ، ماہئے یا کہ گیت گا رہا ہوتا تھا ،۔
بیل خود سے چلتے جاتے تھے ،سامنے سے آنے والی چیزوں ، انسانوں مکانوں سے بچ کر نکل جانے میں ڈائیو ر کو ٹینشن نہیں لینی پڑتی تھی ،۔
ٹانگے کا کوچوان باگیں ڈھیلی کئے ، پائیدان پر پیر ٹکائے بانس پر تشریف رکھے ہوئے ، تماشاہائے اہل کرم دیکھ رہا ہوتا تھا ،۔
پھر انجن والی گاڑیاں آ گئیں ، سٹئیرنگ تھامے ہوئے ڈارئیور کی انکھ جھپک گئی یا دھیان بٹ گیا تو ؟
کئی جانئں ،جان سے گئیں ،۔
لمبی مسافتوں کے ڈارئیور لوگوں کے اعصاب تنے رہ رہ کر چٹخ جاتے تھے ،۔ آنکھیں پتھرا کر رہ جاتی تھیں ، ،۔
میوزک ،جو کہ امیروں کی عیاشی ہوا کرتی تھی آڈیو کے انے سے ڈرائیور کو ایک یہی عیاشی میسر تھی کہ کیسٹ بدلو اور گانے سنو،۔
لیکن دھیان نہ بٹ جائے کہ جان سے جاؤ گے اور گھر پر بیوی بچے انتظار ہی کرتے رہ جائیں گے ،۔
آٹو ڈارئیو کے انے سے بیلوں کی نکیل ، گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑ کر وقت کو انجوئے کرنے والے گاڑی بان یا کوچوان کی طرح اب ڈرئیور بھی ٹرک کو آٹو ڈرائیو کر کے وقت کی بچت کر لیا کریں
گے ،۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ وقت کی بچت ؟ پیسے کی طرح وقت کو بچا کر رکھ لیا جانا ناممکن ہے ۔
اگر کوئی کسی کو وقت کی بچت کا طریقہ بتا رہا ہو تو ؟
یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اس پر پھر کبھی سہی ،۔
ابھی اپ اپنے تصور میں آٹو ڈرائیو والے ٹرک اور بیل والے گڈھے کا تقابل کر کے انجوائے کریں ،۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں