اتوار، 29 اکتوبر، 2017

ایک اور خواب

میں نے ایک پلان دیا تھا
کہ اس طرح کرتے ہیں
کہ
کتابیں چھاپتے ہیں ،۔
کیڑے مکوڑوں کی تصاویر اور ان کے دیسی نام ، پرندوں کے نام ،جڑی بوٹیوں کے نام اور پہچان ،۔
کیونکہ میں نے یہان جاپان میں دیکھا تھا کہ   یہاں بچوں کو اپنی زمین پر اگنے والے پودوں درختوں اور پرندوں کے علاوہ  بھی بہت سی باتوں کا علم ہوتا ہے  ،۔
میں نے اپنے بچپن میں دیکھا تھا کہ
جانور کے پاؤں کے نشان دیکھ کر ، مینگیناں اور پھوس دیکھ کر ہمارے بزرگ لوگ  جان جایا کرتے تھے کہ کون سا جانور یہاں سے گزرا ہے ،۔
یہان جاپان میں دیکھا کہ تیسرے جماعت کے بچے کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جس میں جانوروں کے پاخانے کی تصاویر دے بتایا گیا ہے کہ کون سا جانور کیا کھاتا ہے اور کیا ہگتا ہے م،۔
مختصر یہ کہ
میں نے پلان یہ دیا تھا کہ
سارے پیسے میں دیتا ہوں ، ایک کتاب چھاپتے ہیں ،۔
جو کہ نہیں بکتی !!،۔
میں دوسری کتاب کے پیسے دیتا ہوں
کتاب چھاپتے ہیں ،۔
وہ بھی نہیں بکتی
لیکن مارکیٹ میں پڑی رہنے دیتے ہیں اور میں تیسری کتاب کے بھی پیسے دیتا ہوں ،۔
اسی طرح دس کتابوں کی کوشش کرتے ہیں ،۔
ان میں سے کوئی تو بکے گی ،؟
کتاب کی فروخت سے ہونے والی کمائی کو ایک اکاؤنٹ میں رکھ لیتے ہیں
اور میں گیارویں کتاب کے لئے مدد کرتا ہوں کہ پچھلی  فروخت ہوئی کتابوں کی کمائی سے اور میری رقم سے نئی کتاب شائع کی جائے م،۔
مجھے امید واثق تھی کہ اتنی کتابوں میں سے کوئی نہ کوئی کتاب تو  کمائی دے گی ہی ناں جی ،۔
اس کمائی  کو میں ہم اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ پاکستان میں کتاب پر کام کرنے والے لوگوں کو معقول سی اجرت دے کر باقی کے پیسے دوبارہ کتابوں پر ہی انوسٹ کر دئے جائیں ،۔
مجھے میری رقم واپس نہیں چاہئے بس ایک سلسلہ بن جائے ، ایک ٹرسٹ نما ہو ، ایک کمپنی سی ہو جو کہ کتابیں چھاپنے کے کام کو جاری رکھ سکے ،۔
وقت کے ساتھ چلنے کے لئے کتاب کو ای بک کی شکل بھی دی جا سکتی ہے انٹرنیٹ پر بھی فروخت کی جا سکتی ہے ،۔
اس کام کو خلوص نیت سے کیا جائے تو یہ کمپنی ، ٹرسٹ ، یا کہ کام صدیوں تک بھی چل سکتا ہے ،۔
میری بد قسمتی کہ
میں نے غلط لوگوں کے سامنے یہ پلان رکھ کر اس پلان کی بنیادوں میں ہی بربادی رکھ دی تھی ،۔
اب میں دوبارہ نئے لوگوں کو ساتھ لے کر چلوں گا ،امید ہے کہ رب سائیں  مدد فرمائیں گے ،۔

ہفتہ، 21 اکتوبر، 2017

گاما اور بیوی

گامے کی بیوی کی برتھ ڈے پر گاما مجبور کردیا گیا
 کہ
 بیوی کو کوئی نیا سوٹ دلائے  ،۔
گاما بیوی کے ساتھ آرائیناں والی گلی میں گیا ، ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی ، گوجرانوالہ کی گلیاں  کیچڑ میں لوگ بھالے پانچئے اٹھائے چل رہے تھے ۔
گامے کی بیوی ایک سے دوسری دوکان میں داخل ہوتی ہے ، تیسری سے چوتھی سے پھر پہلی دوکان میں ، کوئی پانچ سو سوٹ نکلوا کر دیکھتی ہے ،۔
جن میں سے سو کے قریب پر کنفیوز ہو کر اخر میں کوئی پچیس  جوڑے منتخب کرتی ہے ،۔
یہاں وہ گامے کو بلا کر ان پچیس میں سے کوئی پانچ  علیحدہ کرنے کی تجویز مانگ کر  خود ہی علیحدہ کر کے تاثر دیتی ہے کہ گامے نے علیحدہ کئے ہیں ، فائینلی  کوئی پانچ گھنٹے کی  خجل خواری کے بعد ایک سوٹ منتخب کر کے  دیتی ہے
گاما رقم کی ادائیگی کرتا ہے ،۔
دوکان سے باہر نکل کر پرانے جی ٹی ایس کے اڈے پر بنی مفت کی کار پارکنگ میں سے کار نکالتے ہوئے  بیوی کو کہتا ہے ،۔
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ حضرت آدم بھی کیا لکی مرد تھے کہ ان کے زمانے میں پتوں سے تن ڈھانپتے تھے ،۔
ان کو اماں حوّا کے لباس کے لئے میری طرح خجل خوار نہیں ہوتا پڑتا ہو گا ،۔
گامے کی بیوی اس کو بتاتی ہے کہ
تمہیں کیا معلوم کی جنگل میں کئی طرح کے کئی قسم کے درخت ہوتے ہیں ،۔ پتہ نہیں  بابے آدم کو کتنے درختوں پر چڑھ چڑھ کر کتنے پتے آماں حّوا کو دیکھانے پڑتے ہوں گے ،۔
درختوں پر چڑھتے اترتے بابا  جی ہلاکان ہو جاتے ہوں گے ،۔
ان کے مقابلے میں تم نے کیا کیا ؟
وہاں گلی میں کھڑے ، پانچئے اٹھائے ہوئی عورتوں کی پنڈلیاں تاڑ رہے تھے ،۔
ہیں ؟
گاما لاجواب ہو کر بیوی کا منہ ہی تکتا رہ گیا م،۔
شیرانوالہ باغ سےمڑ کر  پھاٹک پار کر کے ڈنگروں کے ہسپتال کے سامنے تھے جب گامے کی بیوی اس سے پوچھتی ہے ،۔
تمہاری سالگرہ بھی تو آ رہی ہے تم اپنی برتھ ڈے پر  مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟؟
گامے نے ٹھنڈی آھ بھری اور  کراھ کر کہتا ہے ،۔
ایک دفعہ بس ایک دفعہ ، صرف سالگرہ پر نہیں کسی بھی دن بس ایک دفعہ میں کسی بحث میں تم سے جیتنا چاہتا  ہوں م،۔

ہفتہ، 7 اکتوبر، 2017

تحرکِ ختم نبوت

میرے پاس اس بات کا ثبوت تو نہیں ہے لیکن
میرا تجزیہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد تعلیم یافتہ طبقے کو دو گروہوں میں تقسیم کریں تو ایک اردو سپیک تھے اور دوسرے پنجابی مرزائی،۔
ان دونوں میں ایک مقابلہ یا کہ چپکلش کہہ لیں ، ہر دو پاکستان میں وہ مقام چاہتے تھے جو کہ امریکہ مں یہودیوں کو حاصل ہے ،۔
اس چپکلش میں غیر مرازائی پنجابی بھی اردو سپیک کے ساتھ شامل ہو گئے تھے کہ یہ لوگ خوف زدہ تھے کہ انفرادی طور پر یہ لوگ اکیلے اکیلے تھے اور ان کے مقابل مرزائی ایک مسلک کی لڑی میں پرویا ہوا گروپ تھا ،۔
جب مرزائیوں کو کونے لگانے کے لئے ان کے خلاف تحریک چلائی گئی تو مرزائی اتنے خود اعتماد تھے کہ مرزا ناصر نے غیر مرازئی لوگوں کو کافر تک قرار دے دیا تھا ،۔
مرزائیون کو اقلیت قرار دے دینے سے بھی ان کو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا ، بلکہ انہون نے ایک علیحدہ مضبوط اقلیت بن کر اکثریت پر حکومت کرنی تھی ،۔
حادثہ یہ ہوا کہ بھٹو افغانستان میں سیاسی انتشار پھلا چکا تھا ، اور یہاں پاکستان میں ضیاء صاحب نازل ہو چکتے تھے ، جب افغانستان نے روس کو بلا لیا ، اور روس کو روکنے کے لئے امریکہ کو پاکستان میں "اسلام " کی ضرورت تھی ،۔ اور یہ ضروت صرف جہادی اسلام پوری کر سکتا تھا اور مرزائی لوگ غیر جہادی ہوتے ہیں ،۔
اس لئے بڑی شدت سے نظام مصطفے اور اسلام پاکستان پر نازل ہوا جس میں اقلیت کا معانی ہی کافر بنا دیا گیا ،۔

******************
تحریک حتم بنوت کے مجاہدین سے التماس کہ
میں قادیانی یا کہ مرازائی نہیں ہوں ،۔
پھر بھی اپ کو گلیاں زور سے آئی ہوں تو ؟
تہاڈی مرضی ۔ میں کی کر سکنا واں ۔ْ

Popular Posts