جمعہ، 7 فروری، 2014

معاشرتی باتیں


ابھی زمانہ اتنا ایڈوانس نامی جنگل نہیں بنا تھا ،ترقی کے نام پر بد نظمی ابھی معاشرے میں عود کر کے نہیں آئی تھی ۔
ریسکائکلنگ کا ایک نظام تھا جو صدیوں سے چلتا آ رہا تھا۔
کچے گھروں کے صحنوں کی صفائی نمی والی خاک پھلا کر جھاڑو دی جاتی تھی ، یہ خاک باہر “ روڑی” پر چلی جاتی تھی ، روڑی کی خاک کھیتوں میں کھاد کے طور پر چلی جاتی تھی ۔
مکئی ، جوار، اور کماد کی جڑوں کو کھیتوں میں سے نکالنے کے لئے سارے گاؤں کے لوگ لگے ہوے تھے کہ
ان جڑوں کو جلا کر ایندھن کا کام لیا جاتا تھا ۔
چاول کے پودے کی پرالی اور گندم کے پودے کی توڑی اگر جانوروں کے کھانے کے کام  آتی تھی تو لیپا پوتی میں یہ چیزیں وہی کام کرتی تھی جو اج فائبر گلاس کی بنی چیزوں میں روغن میں مل کر فائبر کے ریشے کرتے ہیں ۔
درختوں کی کانٹ جھانٹ  ہر سال سردی کے موسم کا ایندھن بنتا تھا،
بھینسوں کا گوبر جہاں ایندھن کے لئے کام آتا تھا ، وہیں  چکنی مٹی میں ملا کر  پانی سے پتلا کر لیا جاتا تھا ، اس مکسچر کا لیپ کچے گھروں کے صحنوں میں ایک وقتی سی “لئیر” سی بن جاتا تھا جو کہ دھول اڑنے  سے بچاتا تھا ۔
اسی طرح ایک لمبی بات ہے کہ ہم نے وہ زمانہ دیکھا کہ
ہمارے معاشرے میں بغیر کسی حکومت کے ایک معاشرتی نظم پایا جاتا تھا۔
کہتے ہیں کہ یہ نظم راجہ بکرم اجیت کے زمانے سے ہند میں چلا آتا تھا ۔
راجہ بکرم اجیت جس کا زمانہ عیسی علیہ سلام کی پیدائش سے بھی کوئی آدھی صدی پہلے کا زمانہ تھا ۔

آج پاکستان میں ٹوائلٹ کے حالت پر ایک لطیفہ یاد آیا
کہ
کہیں شہر میں دیوار کے ساتھ گاغ ہونے کے لئے ایک بندہ بیٹھا تھا کہ
پولیس والوں کی نظر پڑی کہ چلو کچھ خرچا پانی بناتے ہیں
اس لئے فاغ ہونئ کی کوشش میں مبتلا بندے کو عین موقع واردات سے پکڑ لیا
جب اس بندے کو لے کر چلنے لگے تو
اس نے آواز لگائی
اوئے قانوں کے رکھوالو! جرم کا ثبوت تو اٹھا کر ساتھ لے لو!!،

ابھی اگلے دن کی بات لگتی ہے
جب ہم لوگ ٹوائلٹ کے لئے کھیتوں میں جایا کرتے تھے۔
ہم اس کو جاڑہے بیٹھنے جانا کہتے تھے ۔
شام کے ہلکے اندہیرے میں  گانؤں (گاؤں) کی عورتوں  گروہ در گروہ “باہر بیٹھنے” جایا کرتی تھیں ۔
شہروں میں بسنے والے ہو سکتا ہے کہ یہ سمجھیں کہ
پینڈو جاڑہے بیٹھا ہو اور  آوارہ کتا آ جائے تو پینڈو “لکدی  چک” کر بھاگتا ہو گا
لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا
کیونکہ صفائی کے لئے “وٹوانی” کا ڈہیلا ، اگر کھینچ کر مارا جائے تو ، نسلی ترین کتے کی بھی ٹیاؤں ٹیاؤں نکل جاتی ہے ۔

قصبے کے اندورنی گھروں میں  میں ٹٹی خانوں کا رواج تھا
لیکن ان گھروں کی عورتیں اور مرد صبح  شام “باہر “ ہی بیٹھنے جاتے تھے ۔
گھر پر گند ، ناگزیر حالات میں ڈالا جاتا تھا۔
ٹٹی خانوں میں چولہے کی خاک بچھائی ہوئی ہوتی تھی ، تاکہ چھوٹے پیشاب کو “ کنڑرول “ کر کے رکھ سکے ۔

پھر ہم نے ترقی کرنی شروع کر دی ، فلیش سسٹم جو کہ یورپ میں کوئی تین صدیاں پہلے ایجاد ہوا تھا
ہمارے گھروں میں چلا آیا
اور پھر یہ ٹوائلٹ گھروں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا
کہ
ہمیں معاشرتی زندگی کا شعور ہی اتنا ہے کہ
ہم ابھی تک صرٖف گھریلو ہی ہوئے ، شہری نہیں !، اسی لئے ہمارے حکمران بھی ہمیں عام تو کہتے ہیں ، پاکستان کے شہری نہیں  کہتے۔
اج ہمارے شہروں کا یہ حال ہے کہ اگر کسی کو پیشاب آ جائے تو ؟
کھائے خصماں دا سر ! ۔
تے سانوں  کی؟؟
بازاروں میں سونے کا بازار ہو کہ کپڑے کا منیاری کا بازار ہو کہ  متھائی کا ، کروڑوں کا کاربار ہو رہا ہے ، رنگ برنگے پیرہن پہنے لوگ چل پھر رے ہیں
لیکن کہیں بھی ، کسی منظم ٹوائلٹ کا انتظام نہیں ہے ۔
اصلی میں ایسی گندی چیزوں کا ذکر تک کرنا ، ان کو تحریر میں لانا ، اس قسم کی باتیں کرنا پاکستان جیسے پاک معاشرے میں “ناپاک” سی چیز لگتی ہے ۔
اب میں بھی جو یہ بلاگ پوسٹ لکھ بیٹھا ہوں تو کئی لوگوں کی “نفیس” طبیعت پر بڑی کثیف سی گزرے گی
لیکن میں کیا کروں کہ میں ایک انسان ہوں  جس کو “پوٹی” بھی اتی ہے اور سو سو بھی !۔
لیکن میرے شہروں کا یہ حال ہے کہ سارے کے سارے شہر ٹوائلٹ بنے ہوئے ہیں ،۔
جس کو “ڈاڈہی “ آ جائے وہ کیا کرے؟
کا کیا ہے کہیں بھی کر لے۔ سارا پاکستان ہی ٹوائلٹ ہے ۔
لیکن
اس گند میں ،ایک کاروبار کا آئیڈیا ہے
کہ
اگر کوئی بندہ ، گوجرانوالہ میں بازاروں کی عقبی گلیوں میں ، مارکیٹوں کے پچھواڑے میں اگر مکان خرید کر ان میں ٹوائلٹ بنا کر ، ان پر کچھ چوہڑے اور پلمبر رکھ کر ایک نظام بنا لے تو۔

بڑا پیسہ ہے جی اس کام میں ، کہ میرے جیسے انسانوں کو جب ڈاڈہی  آتی ہے تورقم خرچ کر ہی لیتے ہیں ۔

اس پوسٹ کے لکھنے پر نفیس طبع لوگوں سے بہت ہی معذرت ، ۔


2 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال کہا...

مجھے چھوڑنے کی عادت نہیں اسلئے تبصرہ لکھ رہا ہوں ۔ بہت کھری بات لکھی ہے آپ نے ۔ لیکن میں نے تو 8 کروڑ روپے مالیت کی کوٹھی میں رہنے والوں کو اپنا کوڑا دیوار کے اُوپر سے باہر پھنکتے دیکھا ہے ۔ وہ مٹی کے گھروں والے تو ایسا نہیں کرتے تھے ۔
تلونڈی والی سرکار ۔ میرے ہموطنوں کو اپنے آپ سے شرم آتی ہے ۔ ٹٹی کہنا بدتمیزی ہے اور پوٹی کہنا تعلیم یافتہ ہونے کی نشانی ۔ اللہ انہیں عقل عطا کرے اور عقل کا استعمال بھی سکھائے

اسد حبیب کہا...

بہت ہی خوب صورت تحریر۔
واقعی دوران سفر یا بازار میں اگر کسی کو ضرورت پڑ جائے تو مسئلہ ہوتا ہے۔
اب خواتین تو قریب میں کسی بھی گھر پر دستک دے کر "اپنی اماں کو بھیجو" اور "اماں" کو مسئلہ بتا کر گھر کا باتھ روم استعمال کر لیتی ہیں۔ ہم لوگوں کو گھوٹنا ہی پڑتی ہے۔ :)

Popular Posts