میرے عزیز هم وطنوں
ایگ پرانی کہانی هے که
کسی جگه ایک کفن چور رهتا تھا
جس کا نام تھا مشرف
جب وھ مرنے لگا تو اس نے بیٹے کو وصیت کی که
کوئی ایسا کام کرنا که لوگ مجھے اچھاکهیں
بیٹا بڑا فرمانبردار تھا
اس نے باپ کے مرنے پر خوش اخلاقی اور لوگوں کے کام انے کا سلسله شروع کردیا
تو لوگ
جن کے متعلق پنجابی کا محاورھ ہے که
داتری کوایک طرف اور زمانے کو دونوں طرف دنت هوتے هیں
کهنے لگے که بات تو کفن چور تھا لیکن بیٹا تو جی ولی هے ولی
بس جی اسی کو کهتے هیں
چنگیاں دے گھر برے تے بریاں دے گھر چنگے
اس پر فرمان بردار بیٹوں کو پریشانی هو گئی که اب کیا کریں
تو جی انهوں نے
اپنے زرداری نامی بھائی کو باپ کی نیک نامی پر لگا دیا
اس نے کیا کیا که
کفن چوری کے کام میں دھوم مچا دی
باپ تو کفن چوری کرکے لاش دفن کردیتا تھا لیکن
جی
اس باپ کے پتر نے یه کیا که لاش کو ایسے هی پڑا رهنے دیا
سارے زمانے ميں دھوم مچ گئی که
اس کا باپ اچھا آدمی تھا
پتر نالائق نکلا هے
پس ثابت هوا که فوج کو پہلے سیاستدانوں کو بدنام کرکے ملکی حالات کو خراب کرکے حکومت پر قبضه کرنے کے لیے راسته هموار کرنا چاهیے
تاکه میرے عزیز هم وطنوں سے شروع هونے والی تقریر کے لیے عوام ذہنی طور پر تیار هوں
جیسا که
لاطینی امریکه اور افریقه کے کچھ ممالک میں فوجی سربراھ کرتے هیں
اگر کوئی فوجی سربراھ ایسا ناں کرے تو فوج کی بدنامی هوتی هے
بہت اچھی بات ہے که پاکستان کی فوج سارے کام
قومی مفاد ميں کرتی ہے
ورنه
پته نهیں پاکستان کا کیا بنتا