ہفتہ، 23 اپریل، 2011

مخصوص ذہنیت

امراض مخصوصه زنانه
امراض مخصوصہ مردانہ
اگر ایک بچه کسی بڑے سے ان کا پوچھ هی بیٹھے تو ؟
کیا جواب هو گا ؟
اپ بھی تو اب بڑے هیں
کسی بچے کو ان امراض کے متعلق سوال کیا کیا جواب دیں گے؟
مولوی اشرف ، اس سوال کو سن کر پہلے تو ایک نظر لڑکے کو دیکھے گا
اگر اس کی عمر هی دس سال یا اریب قریب هو گی تو
اس کا جواب هو گا
چل بھاگ جا
ایسے سوال تیرے ذہن میں پیدا هی کیسے هوئے اوئے
اور هو سکتا هے که منڈے کے ابا جی کو بتائے که منڈا اب اس قسم کے سوال پوچھنے لگا ہے
اورامکان هے که منڈے کو جھڑکیاں پڑ جائیں
اب جی کچے ذہن میں یه بات چڑ پکڑ لے گی کہ که جو لفظ هے ناں مخصوصہ ، اس میں کوئی معیوب بات هے
اس لے جس کو بھی که لفظ لگ جائے گا وھ معیوب کم معتوب هو گا
اسی لیے اپ دیکھیں گے که پاکستان میں
لفظ
مخصوص ذہنیت
کو ایک گالی (مہذب قسم کی)کو طور پر استعمال کیا جاتا هے
فقرے میں استعمال
وھ جی مخصوص ذہنیت کے لوگ هوتے هیں ،
کچھ مخصوص ذهنیت کے لوگ
وغیرھ وغیرھ
لیکن اس مخصوص ذہنیت کی خاصیت هے کیا؟؟
اس پر غور نهیں کیا جائے گا
بس
امراض مخصوصه کی طرح کی چیز سمجھ کر استعمال کرتے جائیں کے
حالانکه
میں بھی ایک مخصوص ذهنیت کا بندھ هوں
میری ذہنیت کی خاصیت هے که
میں توحید کے معاملے میں سمجھوتے کا قائل هی نهیں هوں
یا که
جھوٹ سے نفرت کرنے والوں کی مخصوص ذہنیت
شراب سے رغبت رکھنے والی مخصوص ذہنیت
یه مخصوص ذہنیت بد بھی هو سکتی هے اور نیک بھی لیکن
اس لفظ کو گالی بنا دیا کيا هے
اردو کی بلاگنگ میں
اج کل ایک مخصوص ذہنیت کے لوگوں نے
ایک لفظ روشن خیالی کو گالی سا بنا دیا هے
اور دوسری طرف ایک مخصوص ذهنیت کے لوگوں نے اپنی سوچ کو روشن خیالی کا نام دیا هوا هے
اردو کے بلاگ لکھنے والوں کے لیے ایک بات که
اب جب اپ بلاگ لکھ رهے هیں تو
جس عمر میں اپ نے تعلیم حاصل کی تھی اس وقت کے لکھایوں اور اج کے لکھاریوں میں کیا فرق هونا چاهیے یا
که حالات نے پیدا کردیا هے
اس کو سمجچھنے کی کوشش کریں
پہلے جب کوئی اپنا لکھا کسی اخبار میں یا رسالے میں شائع کروا لیتا تھا تو
قاری کے لیے یہی حرف اخر هوتا تھا
یا اگر کسی نے خط لکھ بھی دیا لکھاری کو تو کیا هے ؟؟
لکھاری جواب دے یا ناں دے
جو خط لکھاری کی انا کو تسکین دیں ان کو رکھ لے اور باقی کو ردی کردے
لیکن اب اگر اپ کو کسی سے نظریاتی اختلاف هے
جی هاں نظریاتی اختلاف ناں که ذاتی اختلاف
تو اس کے نظریے کے بخیے ادھیڑ دیں جی اس کے بلاگ پر تبصرے کرکرکے
اور اگر اس بلاگ پر تبصرے کرنے میں قدعن لگا هوا هو تو؟
اپ اپنے بلاگ پر اس کے خلاف لکھیں
لیکن کیا اپ کو نظریاتی اختلاف اور ذاتی اختلاف کا فرق معلوم هے؟؟
میں خود
جب کسی موٹے پداں والے کے خلاف لکھتا هوں یا کسی ساکے بھٹی کے خلاف یا کسی بھی اپنی بہن کے یار برے بندے کے متعلق لکھتا هوں تو اس سے مجھے ذاتی اختلاف هوتا هے

لیکن جب میں کسی لکھاری کے متعلق لکھتا هوں تو
اس سے مجھے نظریاتی اختلاف هوتا هے

اردو کی بلاگن کی دنیا میں جس زمانے میں میں بلاگ شروع هوئے میں سمجھتا هوں که ان شروع کے دنوں سے اج تک اگر میں ناں هوتا تو ؟
بلاگنگ کی دنیا میں
مذہبی رنگ زیادھ هوتا
اسلام طغرے لگا لگا کر بلاگ سجانے والے زیادھ هوتے اور
شخصیت پرستوں کے بلاگوں پر بڑي بہار هوتی
پیر بکری شاھ کی مینگنیوں میں کستوری کی خوشبو کا لکھا جاتا
اور پیر پھلویری شاھ کے چہرے کے داغوں کو چاند میں دیکھایا جاتا
یه ان کی مخصوص ذہنیت هوتی اور
یه هماری مخصوص ذہنیت هے
اب کرتے هیں جی شخصیات پر بات
بی بی عنیقه ناز
مجھے ان سے کئی دفعه اختلاف هوا
لیکن میں ان کی جس بات کو اچھا سمجھا هوں اس کی تعریف بھی کرتا هوں
عبدالله؟؟
ایک تبصرھ نگار ہے
مجھے اس کے پیچھے ایک عورت نظر اتی هے
جو هر جگه جہاں حقوق نسوان کی بات هو
سینگ اڑا دیتی هے
چلو جی ایک نام رکھ لیا
جعلی هی سہی
اس نام سے تبصرے کیے
اس نام کی بھی ایک مخصوص ذہنیت هو گی
جس کو لکھاری سمجھ هی جائے گا
اور نوک جھونک چلتی رهے گی
لیکن
یه
ایک اور
مخصوص ذہنیت
ہے
جی
ایک بڑا پرانا لطیفه ہے که
ایک بنده جھگڑے میں دوسرے سے پوچھتا هے
تم مجھے جانتے هو؟ میں کون هوں؟
دوسرا بندھ
مجھ سے کیا پوچھتے هو، اپنی اماں سے پوچھو که تم کسی کے هو اور کون هو
اب ان لوگوں کو جو که خود سے کچھ بھی نهیں هیں اور دوسروں کی شناخت استعمال کرکے تبصرےکرتے هیں
ان کو کیا کہوں؟؟

24 تبصرے:

یاسر خوامخواہ جاپانی کہا...

جو کہہ دیا وہ کافی ہے جناب

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

خاور بھائی!

آپ نے بجا بات کی ہے ۔نظریاتی اختلاف ہونا چاہئیے ۔ اختلاف رائے سے بہتر رائے سامنے آتی ہے۔ یہ ہی باشعور لوگوں اور قوموں کا رویہ ہے۔۔


"میں توحید کے معاملے میں سمجھوتے کا قائل هی نهیں هوں۔"

توحید ، لاشریک پہ کوئی دورائے نہیں وجود وحدت ، لاشریک۔ /
۔ شهد أن لا إلـﮧ إلاَّ اللـَّـﮧو أشهد أن مُـכـمَّــدْ رَسُــولُ اللـَّـﮧ

یاسر خوامخواہ جاپانی کہا...

عورت اور مرد کی مساوات کا تصور بے معنی ہے۔عورت اور مرد کے درمیان تو ازلی جنگ جاری ہے۔ صلح صرف فتح کے بعد ظہور میں آتی ہے۔جب ایک صنف دوسری صنف کو اپنا آقاتسلیم کر لیتی ہے تو جھگڑا ختم ہو جاتا ہے۔عورتوں کو مساوی حقوق دینا خطرناک ہے!!!۔

عورت یہ حقوق لیکر قانع نہیں ہوگی!!!۔

زنخا نما نام نہاد روشن خیال مرد کی عورت چنگھاڑتی دھاڑتی گلی کوچوں میں مردانہ صفات کا مظاہرہ کر رہی ہوتی ہے۔جس طرح زنخا نما نام نہاد روشن خیال مرد چھوٹوں کیلئے شفقت اور بڑوں کیلئے احترام کو بے معنی سمجھتا ہے اسی طرح عفت و عصمت اس زن آزاد کیلئے بے معنی ہوتی ہے۔

اگر مرد واقعی مرد ہے توعورت اس کی متابعت پر قانع ہوجائے گی۔نام نہاد روشن خیالی معاشرے میں مردوں کی مردانگی کم ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عورتیں مردانہ صفات کا مظاہرہ کرتی ہیں۔جو شخص واقعی مرد ہوگا وہ عورت کی نسوانیت کو بہرحال قائم رکھے گا۔سب سےاہم بات عورت کی تکمیل اور مسرت اس کی مادریت میں مخفی ہے۔عورت کی فطرت کا ہر جزو ایک چیستان ہے اور ہر چیستان کا ایک ہی جواز ہے۔

بچے پیدا کرنا!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!۔

یعنی عورت اایک بچے پیدا کرنے والی مشین ہے۔ مردوں کی تربیت تو یوں ہونی چاھئے کہ میدان جنگ میں کٹتے رہیں،اور عورتوں کی تربیت تو ایسی ہونی چاھئے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روبوٹ مشین کی طرح بچے پیدا کر کے جنگجو تیار کریں!!!!!!۔

عنیقہ ناز کہا...

سب سے پہلے تو یہ کہ وہ تمام لوگ جو روشن خیالی کو گالی دیتے ہیں۔ وہ تمام ایسے موضوعات سے گریز کریں جسے بیان کرتے وقت بے حیائ کے سوتے پھٹتے ہیں۔ یہ میرا بنیادی نظریہ ہے۔
ورنہ وینا ملک کے انداز میں مجھے پوچھنا پڑے گا کہ یہ کیا بات ہوئ مولوی صاحب میں بولوں تو بے حیائ اور آپ اس کے ہر جز کو تفصیل سے بتائیں تو دینداری۔
دین کا ڈھول پیٹنے والوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی وجہ یہ ہے کہ سمجھ آ گئ تو دنیا کی لذت ہاتھ سے نکل جائے گی۔
پھر ایک بے حیا روشن خیال میں اور با حیا دین دار میں کیا فرق ہے جناب۔
ایک زن آزاد اپنے متعلق بات نہ کر سکے لیکن ایک متقی مومن مرد اپنے متعلق، دوسروں کی عورتوں کے متعلق اور پھر عورت اور مرد کے تعلقات جسمانی پہ بولنے اور لکھنے کے لئے آزاد بیٹھآ ہے۔
اب ان لوگوں سے ایک سوال اور کرنا ہے جناب یہ روشن خیالی کی ذرا مستند تعریف فرما دیں۔
اگر پاکستان کے دیہاتوں میں رائج مذہب پرستی، مون صفات رکھتی ہے اور پاکستان کے شہروں میں تعلیم یافتہ طبقوں کو سمجھ میں آنے والی دین داری روشن خیالی ہے۔
صحیح عقیدہ یہ ہو کہ روائیت پسند اپنی رائج دنیا کے خول میں بند ہر وقت عورت کی جاپ کرنے والے تو مومن ہیں اور وہ جو کہیں کہ بند کریں یہ بکواس تو وہ روشن خیال ہیں۔
اتنی نہ بڑھا پاکی ء داماں کی ہدایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ۔
خواتین کے حوالے سے جہالت کے نظرئیے پھیلانے والے اپنے اوپر دین داری کا غلاف کس مصلحت سے چڑھاتے ہیں یہ بتائیے گ
اگر ہم نے واقعی دین پہ تمیز کے ساتھ چلنے والے لوگوں کو نہ دیکھہوتا تو یہ سب سلسلہ ء منافقین کسی مسلمان کو مذہب سے بد ظن کرنے کے لئے کافی ہیں۔
مومن اپنی زبان پہ اپنے ہاتھ اور اپنی نظر پہ بھی نظر رکھتا ہے۔ علم کا ہونا اور عمل کا اس سے مطابقت نہ رکھنا منافقت ہے اور علم اور عمل دونوں کا نہ ہونا اور عمل کے لئے دوسروں کو طعنے دینا جہالت ہے۔
مجھے کسی سے ذاتی کوئ دلچسپی نہیں۔ یہاں دلچسپی کے سامان کم نہیں۔ لیکن مجھے ان لوگوں کی منافقت کو دیکھ کر اس سے لطف آنے لگا ہے۔
کواتین حجاب کریں، ورنہ انکے مردوں میں غیرت نہیں ہوتی، خواتین کسی ایسے ویسے موضوع پہ کوئ بے ڈھنگی بات تو دور کام کی بات بھی نہ لکھیں ورنہ زن آزاد۔
لیکن تمام مرد بیٹھ کر خواتین کی ہر جسمانی سے لیکر حیاتیاتی عمل کے اوپر سیر حاصل گفتگو فرمائیں، اس پہ مزاح فرمائیں۔ اس میں ہر عمر کے لوگ شامل ہوں اسکے باوجود یہ مرد آزاد نہیں، روشن خیال نہیں، بے راہ رو نہیں، بد اخلاق نہیں، بے حیا نہیں، زبان دراز نہیں۔
کیا یہ مذہب اسلام کا منشا ہے؟
گڈ گاڈ؟
کیا انہیں یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے کہ یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ اسکے بعد اس دن کا انتظار کروں جب ہمارے شہروں اور بازاروں میں مومن مرد نامی عفریت پھرے گی۔
اور آپ اس بات پہ کڑھیں کہ در اصل اعتراض اس بات پہ ہے کہ ایسے تبصرہ نگار بھی ہوتے ہیں جنکے باپوں کا نام نہیں پتہ ہوتا۔ باقی سب کے باپوں کا نام پتہ ہے۔ میں تو کسی کے بلاگ پہ اسکے باپ کا نام نہیں دیکھتی۔ یہ بھی نہیں جانتی کہ کتنوں کے نام اصلی ہیں۔ کیا یہ کہہدوں کہ جتنوں کے اصلی نام ہیں بس وہی ہیں جنہوں نے اپنی بہادر ماں کا دودھ پیا ہے۔ اور مجھ سے اگر ان بلاگرز میں سے کوئ پوچھے تو اپنے باپ کا نام نہ بتاءوں۔
باپ کے نام معلوم ہونے کے جملے سے قطع نظر ہم سب اتنے بڑے ہیں کہ پنجابی فلموں کے ان ڈائیلاگز کا مذاق اڑآ سکتے ہیں ان پہ عمل کریں گے تو آپ جانتے ہی ہیں کہ کیا کہلائیں گے۔

عمران اقبال کہا...

خاور صاحب۔۔۔ مخصوص زہنیت کی سب سے بڑی مثال آپ عنیقہ کے تبصرے کے طور پر دیکھ رکھے ہیں۔۔۔ تف ہے ان کی عقل پر۔۔۔

عنیقہ ناز کہا...

ہاں ایک دلچسپ معلومات تو رہ گئ۔ زنخے تین طرح کے ہوتے ہیں۔
ایک قسم وہ ہوتی ہے جنہیں قدرت ان ظاہری نشانیوں کے بغیر پیدا کرتی ہے جسکی بناء پہ ان کی عورت اور مرد کے طور پہ تخصیص ہو سکے۔
دوسرے وہ ہوتے ہیں جو بظاہر مرد لگتے ہیں لیکن انہیں خواتین سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے۔ ہروقت انکے خیالوں میں ڈوبے رہتے ہیں۔ انکی ذاتی چیزوں کو پسند کرتے ہیں اور اس کیفیت میں اتنے برھ جاتے ہیں کہ انکو اپنے اوپر استعمال کرنے لگتے ہیں۔
تیسری قسم زنخوں کی وہ ہوتی ہے جس میں وپ نہ صرف بظاہر مرد نظر آتے ہیں بلکہ غیرت کے نام پہ زبان، تحریر، ڈنڈے سے لیکر خود کار اسلحہ اور دین تک استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اسے وہ مردانگی سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ انکی مردانگی ساری کی ساری صرف اپنی عورتوں کو ہنکانے میں استعمال ہوتی ہے۔
زنخوں کی ان تین قسموں میں سے آپکے خیال میں سب سے بد ترین قسم کون سی ہوتی ہے؟

یاسرخوامخواہ جاپانی کہا...

خاور اوپر کسی نے میرے نام سے میری پوسٹ پیسٹ دی ہے۔
چلیں معاف کیا دو دفعہ اور پیسٹ دے بھائی۔
ویسے اتنے لمبے لیکچر دینے والے جاہل علما سے پوچھنا ہے کہ بہتان بازی کائے کی؟
کس بیغیرت مردنے چسکے لیکر کسی عورت کے لئے فحش تبصرے کئے؟
خود ہی اگر چسکوں کے لئے بات کو بڑھا چڑھا کر لکھا جارہا ہے ۔تو اس میں ہم بیچارے معصوم لوگوں کا کیا قصور؟
الٹی کھوپڑی کی ذہنیت پر لعنت ہی بھیجی جاسکتی ہے۔
دیکھونا جی۔۔۔میں تے معشوم آں

عنیقہ ناز کہا...

عمران اقبال صاحب آب وہ حرکتیں نہ کریں جس کی بناء پہ آپ لوگ دوسروں کو دلچسپ ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ آپ تو دین پہ چلنے والے ہیں کچھ تو اسکی پاسداری کریں۔ کیا آپ واقعی اس دین پہ یقین رکھتے ہیں جس کا پرچار کرتے ہیں یا محض اپنے نفس کی پیروی پہ دین کا جزدان چڑھایا ہوا ہے۔
آپ سب لوگوں کو مردانگی اور عورت جیسے پسندیدہ موضوع سے باہر نکل کر دنیا دیکھنی چاہئیے۔ اس طرح کام نہیں چلنے والا۔
جن چیزوں پہ تف بھیجنا چاہئیے ان میں تو آپ بڑی دلجمعی کے ساتھ شرکت فرماتے ہیں۔ یہاں کس بات پہ آپکو لفظ تف یاد آ گیا۔
اس سے آگے میں آپکی باتوں کے جواب دینے کی روادار نہیں

عمران اقبال کہا...

بی بی تو نا دیں نا جواب۔۔۔ آپ پر کون زور ڈال رہا ہے کہ ہم سے بات کریں۔۔۔ آپ کس قابل کہ منہ لگا جائے۔۔۔

بکھلاہٹ میں تو آپ کچھ صحیح لکھ بھی نہیں پا رہیں۔۔۔ جائیں۔۔۔ میاں جی کے ہاتھ کا ٹھنڈا جوس پیجیے اور پھر کچھ سوچ کر آئیں کہ جواب کیا دینا ہے۔۔۔

تف کس پر ہے۔۔۔ وہ تو آپ کو خود پر ہی سمجھ لینا چاہیے۔۔۔

آہو۔۔۔!!!!

وقاراعظم کہا...

وہ جی بات دراصل یہ ہے کہ کچھ جاہل لوگ جو خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ پڑھے لکھے طبقے سے تعلق ہے۔ حضور اگر ہم تھوڑی سی محنت اور کرلیں تو پی ایچ ڈی کی ڈگری دور نہیں۔ اور ویسے بھی علم تو جی ڈگری کا مرہون منت نہیں ;)

آپ نے بات کی دوسروں کے ناموں سے اور اپنی شناخت چھپاکر تبصرے کرنے والوں کی تو ان سے زیادہ ____ کوئی بھی نہیں ہے۔ آپائیں اور آنٹیاں انہیں اپنے بلاگ کی زینت اس لیے بناتی ہیں کہ چلو اس سے تبصروں میں تو اضافہ ہوگا اور مخالفین کی ایسی کی تیسی الگ۔ اب جی وہ کیا کہتے ہیں کہ باپ کا نام ہوگا تو بتائو گے نا؟

اپنے آپ کو پاکستانی عورت کی آواز سمجھنے والے خوش فہم اس وقت کہاں سو رہے تھے جب ان کے حقیقی باپ بی بی سی نے یہ خبر اپنی ویب سائیٹ پر جاری کی تھی؟ کیا کسی بلاگر کے بلاگ پر بی بی سی سے زیادہ ٹریفک آتا ہے؟ اپنے بلاگ پر دنیا جہاں کی خرافات کو لکھنا، عورتوں کی جملہ امراض اور نہ جانے کیا کیا کو موضوع بحث بنانے والے، عورت کی عضائے مخصوصہ، اس کے لباس کی باریکیاں بیان کرنے والے اور دوسروں کے بلاگ پر اسے پسند کرنے والے۔ دوسروں پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ شرم انکو مگر نہیں آتی۔۔۔۔

اور اگر یہ خبر پاکستانی عورتوں تک پہنچ گئی کہ یہ ہیں پاکستانی عورتوں کی آواز تو شاید اکثریت کے گھروں میں صف ماتم بچھ جائے کہ ہائے پاکستانی عورت کا افلاس۔

اب نہیں مذہب اسلام کا منشاء یاد آنے لگا ہے۔ بات عورت کو موضوع بحث بنانے کی ہے یا فاحشہ عورتوں پر حرف آنے سے لوگوں کو لوگوں کو اس میں آئینہ نظر آنے لگا ہے؟ میرا خیال ہے کہ وینا ملک تو ایسوں سے بہتر ہے۔۔۔
تف ہے ان پر۔۔۔۔۔

یاسرخوامخواہ جاپانی کہا...

اوہو۔۔۔۔۔۔۔
سارے زنخے بیچارے ہوتے ہیں۔
بس بیچاروں کی کوئی قدرتی ذہنی یا نفسیاتی کمی رہ جاتی ہے۔
ان پر ترس کھانا چاھئے۔
آخر وہ بھی مخلوق ہے۔
جس نے دوسروں کو بنایا اسی نے ان بیچاروں کو بھی بنایا۔
زنخا وہ براہوتا ہے۔
جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت کی۔۔۔۔۔۔۔
نسوانیت قائم نہ رکھ سکے۔

یاسرخوامخواہ جاپانی کہا...

یہ جو بندہ بھی میرے نام سے تبصرے کر رہا ہے۔
بھائی آپ کی قابلیت کا میں قائل ہو گیا۔
مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ سب میں ہی لکھ رہا ہوں۔
بس بھائی ایک گذارش ہے۔یہاں پر میرے نام سے فحش بات لکھئے گا۔
باقی میری نقل اتار کر لکھی جائیں؟
ڈن؟
میں اصلی خوامخواہ ہوں۔ او میں کیڑے پاسے جاواں۔۔۔

عبداللہ آدم کہا...

یہاں تو سب ہی "شمشیر بے نیام" ہیں جی....

یہ بلاگستان میں سارا سال ہی گرمیاں کیوں رہتی ہیں؟؟؟

افتخار اجمل بھوپال کہا...

آج اتنی ساری محصوص اشياء پڑھنے کو ملی ہيں کہ ميری اُردو ہی مخصوص ہوتی نظر آتی ہے
آپ نے 10 سالہ بچے کی بات کی ہے ۔ جب ميں 10 سال کا تھا تو ايسا کوئی اشتہار نظر نہيں آتا تھا پھر نمعلوم کيسے اچانک امراض مخصوصہ کے اشتہار شروع ہوئے ۔ راولپنڈی سے گوجرانوالہ يا سيالکوٹ يا لاہور جاتے ہوئے راستے ميں پہاڑ کے پتھروں اور گھروں کی ديواروں پر لکھے ہوتے تھے ۔ امراض مخصوصہ مردانہ ۔ امراض مخصوصہ زنانہ ۔ مگر ميں نے کسی سے اس کا مطلب پوچھنے کی کوشش نہيں کی ۔
او جی جس پِنڈ نئيں جانا اورا راہ کيوں پُچھنا ؟

ڈاکٹر جواد خان کہا...

یہ گرمی گفتار ، گفتگو کی تیزابیت اور رد عمل کی کرامات صاف صاف بتاتی ہیں کہ معاشرہ کس قدر پولرایز ہو چکا ہے ...اور مستقبل میں پاکستانی معاشرے میں کس طرح کی جنگ لڑے جانے والی ہے.

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

یار خاور بھائی!۔

کچھ لوگوں کو ایک علمی سے موضوع پہ محض چند افراد کے درمیان دینی اور علمی پہلو دونوں سے بات پہ اسقدر غصہ پتہ نہیں کیوں ہے۔ انہوں نے ایک عام سی بات چیت کو "چسکے بازی" بنا دیا

علم کے کی ایک ننھی منھی سی ڈگر اٹھائے لوگوں سے گزارش ہے۔ دنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی لوگ ہیں ۔ جو ڈاکٹر(طبیب ڈاکٹر ۔ اور کی بات نہیں ہورہی) بھی ہیں کسی ایک آدھ موضوع پہ نہیں بیک وقت کئی ایک موضوعات پہ۔ اور دنیا کی اچھی یونی ورسٹیز سے فارغ التحصیل ہیں۔ جہاں جان کھپانی پڑتی ہے اور تحقیق اپنی تسلی کے لئیے کی جاتی ہے ۔ اور آپکی ان ننھی منی باتوں پپ وہ زیر لب مسکرا دیتے ہیں۔

بادی النظر میں تو ہم اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ کہ ایک علمی اور معاشرتی موضوع پہ چند افراد کے مابین عام سی علمی اور دینی گفتگو کو کچھ "مخصوص لوگ" اپنے "مخصوص نظریات" کے لئیے انٹرنیت پہ اردو بلاگستان کو اپنی "مخصوص چراگاہ" سمجھتے ہیں ۔ جس میں ایسے لوگ پاکستان کے عام میڈیا میں تو اپنے نظریات کو پھیلا نہیں سکے اور اردو بلاگز پہ بھی زبر دست مزاحمت کے بعد اپنی "مخصوص ذہنیت" اور "مخصوص سائیکی" یعنی افتاد طبع کے ہاتھوں مجبور ہو کر انٹ شنت اور بے ہودہ الزام تراشی پہ اتر آئے ہیں۔


بادی النظر میں تو ہم اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ کہ ایک علمی اور معاشرتی موضوع پہ چند افراد کے مابین عام سی علمی اور معاشرتی گفتگو کو یہ لوگ "چسکے بازی" کا نام دے کر اس پہ محض اس لئیے سیخ پا ہیں کہ موضوع خواتین سے متعلق تھا۔ اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسی پوسٹ " مردوں کے "مخصوص " معاملات سے ہو۔ جس سے "چسکے بازی" سے برابر لطف اٹھایا جا سکے؟۔
ورنہ اتنا ڈھنڈورہ۔ اتنی بے ہودہ الزام تراشی کے اور معانی سمجھ نہیں آتے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کہا...

-"ورنہ وینا ملک کے انداز میں مجھے پوچھنا
پڑے گا کہ یہ کیا بات ہوئ مولوی صاحب میں بولوں تو بے حیائ اور آپ اس کے ہر جز کو تفصیل سے بتائیں تو دینداری"-

وینا ملک اپنی "مخصوص کنجر پن" کی وجہ سے "سواد" اور چسکا" لگانے کے لئیے اور "سواد" اور چسکے" پہ آمادہ کرنے لئیے بے غیرتی کا درس دیتی ہے۔ جبکہ مولوی صاحب کے نزدیک "مخصوص کنجر پن" "سواد" اور "چسکا" نہیں ہوتا۔ جبکہ مولوی صاحب روز مرہ معاملات کو دینی نکتہ نظر سے ضرورت پڑنے پہ بیان کرتے ہیں۔

اور یہ وہ فرق ہے جو "مخصوص ذہنیت" رکھنے والی وینا ملک جیسی آوارہ عورتیں ایک تو اسلام اور اخلاقیات سے گری حرکات کریں گی اور اس طرف تماشہ مولوی صاحبان پہ بے ہودہ الزامات تھوپ کر انکا سر عام ٹھٹھا ارائیں گی۔ ایسی "مخصوص ذہنیت" کی عورتوں اور مردوں پہ اللہ اور اللہ کے نبی کریم صلٰی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔

کیا وینا ملک جس پہ آپ کو اسقدر فخر ہے۔ وہ آب حیات پی چکی ہے کہ کہ امر ہوگئی ہے؟ یا وہ جس جسم اور حسن جو اللہ تعالٰی کی دین ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ اسقدر لچر اور واہیات ہورہی ہے۔ وہ ھسن ۔ جسم جوانی اور زاندگی سدا رہے گی؟ کیا اسے آپ کو ہم سب کو واپس لوٹ کر نہیں جانا؟ کیا زندگی سو سوا سو سال سے زیادہ طویل ہوتی ہے؟ جسم حسن جوانی ادھر ہی ناکارہ ہوجائیگی۔ اور گناہوں کی پنڈ ساتھ جائے گی

وینا ملک جس کی آپ نے بڑے فخر سے مثال دی ہے یہ ہے وہ فرق جو آپ کے ذہن میں دوسروں کے لئیے ہے۔ وینا ملک کے حوالے سے آپ نے بی مولوی صاحب اور ایک اسلامی شناخت کو رگڑا دیا ہے۔ آپ
کو وینا ملک کے الفاظ میں دی گئی گالی کیسی بھائی کہ آپ نے پہلی فرصت میں المشتہر کردی۔ جب ایک دن موت کی بات آتی ہے تو یہ ان لوگوں کے لئیے ہے جو خوف خدا رکھتے ہیں اور جن کا ایمان ہے کہ یوم قیامت آئے گا اور جزا و سزا ہوگی۔ الا یہ کہ کوئی اپنی ذاتی عقل کی کسوٹی کی بناء یوم قیامت اور زندگی بعد موت سے انکاری ہو۔

Abdullah کہا...

میں اپنا جوابی تبصرہ بعد میں لکھوں گا ،
فی الحال اس کالم کو پڑھیں،اور خاور کو مشورہ ہے کہ اس بندے کی جنس بھی انویسٹی گیٹ کر لے!!!!!!!

Abdullah کہا...

قانون ضرور جیتا پر انصاف تو ہار گیا
انور سِن رائے

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


مختاراں مائی عورتوں کے حقوق کا ایک نشان بن چکی ہیں پر خود ان کے حقوق کا کیا ہوا۔۔۔
دو دن گزر چکے ہیں سارے کام معمول کے مطابق ہو رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔

کم و بیش دس سال پہلے کی بات ہے، پاکستان کے ایک گاؤں میں ایک پنچایت لگی ہوئی ہے۔ پنچایت مستوئی نامی ایک خاندان کے کہنے پر ہو رہی ہے اور ظاہر ہے جب پنچایت ہوتی ہے تو صرف شکایت کرنے والے اور جس کے خلاف شکایت ہو وہی نہیں حاضر ہوتے گاؤں کے کم و بیش تمام ہی لوگ جمع ہوتے ہیں اور جب معاملہ جنسی قسم کا ہو تو سارے مرد تو جمع ہوتے ہی ہیں۔

مستوئیوں کو شکایت ہے کہ گاؤں کے ایک پسماندہ خاندان کے ایک لڑکے شکور کے ان کے خاندان کی ایک لڑکی کے ساتھ تعلقات ہیں۔ ان کا تقاضا ہے کہ پنچایت انھیں انصاف دے۔ پہلی تجویز آتی ہے کہ شکور کی مستوئی لڑکی سے شادی کرا دی جائے۔

مستوئی خاندان کو یہ تجویز پسند نہیں آتی۔ ان کا کہنا ہے کہ بدلہ دیا جائے اور اس کا بدلہ یہ ہو گا کہ مستوئیوں کو شکور کی بہن دی جائے۔ یہ بات بعد میں سامنے آئی کے مستوئی خاندان کے لوگ شکور کو پنچایت میں بلانے سے پہلے ہی جنسی تشدد کا نشانہ بنا چکے تھے لیکن اس سے ان کی تسلی نہیں ہوئی تھی اور اس بات کو کسی نے اہمیت بھی نہیں دی۔

مختاراں مائی کے معاملے میں کسی عدالت نے یہ ضرورت محسوس کی کہ وہ جائے وقوع پر جاتی، پنچایت میں شریک ہونے والے لوگوں کو اکٹھا کرتی، انھیں مکمل تحفظ کا یقین دلاتی اور انھیں اصل حقائق بیان کرنے پر اکساتی۔ کیوں کہ اوّل تو ایسے معاملے اٹھتے نہیں۔ اٹھ جائیں تو سو نزاکتیں سامنے آ جاتی ہیں۔

پنچایت شکور کی بہن مختاراں کو بلواتی ہے اور مستوئیوں کو بدلے کی اجازت دے دیتی ہے۔ مستوئیوں کے کئی مرد مختاراں کو گھسیٹتے ہوئے قریبی جگہ لے جاتے ہیں اور پھر خاصی دیر بعد مختاراں برہنہ حالت میں باہر دھکیل دی جاتی ہے۔ تبھی اس کے والد آتے ہیں اور اسے گھر لے جاتے ہیں۔

یہ سب کچھ صرف پنچایت ہی کے لوگوں کے موجودگی میں نہیں ہوتا وہ سب بھی دیکھتے ہیں جو پنچایت میں تھے لیکن کوئی کچھ نہیں بولتا۔ بولتا بھی کیسے؟ ایک تو پاکستان، پھر دیہی فیوڈل پنجاب جہاں طاقت رضائے الٰہی کا درجہ رکھتی ہے۔ تو بولتا کون؟

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عدالتیں صرف ان حقائق کو دیکھتی ہیں جو ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، پھر سفارش، رسائی اور پیسہ بھی چلتا ہے۔ اور پاکستان میں تو ایک عرصے تک یہ لطیفہ چلتا رہا ہے: بڑا وکیل کرنے کی کیا ضرورت ہے، جج کر لو۔

لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہوتا ہے؟ کیا اب بھی یہی ہو رہا ہے؟ کیا واقعی عدالتیں اس پر غور نہیں کرتیں کہ ان کے سامنے جو حقائق پیش کیے جا رہے ہیں انھیں پیش کرنے والا کون ہے اور کیا حالات ہیں جن میں وہ یہ حقائق پیش کر رہا ہے؟

مختاراں مائی کے معاملے میں کسی عدالت نے یہ ضرورت محسوس کی کہ وہ جائے وقوع پر جاتی، پنچایت میں شریک ہونے والے لوگوں کو اکٹھا کرتی، انھیں مکمل تحفظ کا یقین دلاتی اور انھیں اصل حقائق بیان کرنے پر اکساتی۔ کیوں کہ اوّل تو ایسے معاملے اٹھتے نہیں۔ اٹھ جائیں تو سو نزاکتیں سامنے آ جاتی ہیں۔ اس معاملے میں جنرل مشرف کے بیانات اور حکومتی مداخلت کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔

ضرور سب کچھ قانون کے مطابق ہوا ہو گا۔ لیکن انصاف ہوا ہے یہ بات دل نہیں مانتا۔ دل کہتا ہے کہ انصاف قانون سے ہار گیا ہے۔ میں کسی بھی قیمت پر سزائے موت کے حق میں نہیں لیکن مستوئی سوچ کی بیخ کنی انتہائی ضروری ہے اور پنچایتوں میں بیٹھ کر انصاف کرنے والوں کو بھی یہ پیغام ملنا چاہیے کہ وہ بھی جرم کے یکساں شریک اور یکساں تعزیر کے لائق ہیں۔

اگر جرم نہیں ہوا تو ایک کو بھی سزا کیوں؟ اور اس پر چپ رہنے والوں کو تو اپنی غلطی کا احساس تب ہو گا جب انھیں خود اسی سے گذرنا پڑے گا اور گذرنا تو پڑے گا۔

دو دن ہو چکے ہیں اور میں اب تک اس کیفیت میں ہوں کہ مختاراں ہونے سے باہر نہیں آ پا رہا۔ میں خود کو بے بس، تھکا ہوا، ہارا ہوا، تذلیل کا روندا ہوا اور شرم کا مارا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔

مختاراں نے تو کہہ دیا ہے کہ ’سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے تو اب کون سی عدالت رہتی ہے۔ اب صرف اللہ کی عدالت ہے‘۔

میں بھی ڈرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہاں صرف خدا ہی رہ گیا ہے جو انصاف سے انصاف کرتا ہے، جو منصفوں کا منصف اور طاقتوروں کا طاقتور ہے۔

NYC کہا...
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
Unknown کہا...

مخصوص مخصوص کی گردان کرتے کرتے جناب بارہ سنگھے سے عضو مخصوص ہی نکال باہر کیا جی
بڑی بے ادبی کی جی
سنا ہے یہ فحاشی میں آتا ہے جی
خیر اتنے سینگ ہیں انہی سے کام چلا لیتا ہو گا کجی۔

Abdullah کہا...

مخصوص ذہنیت کو گالی سمجھنے کا اتنا افسوس ،اور اپنے گندی گندی گالیاں دینے پر نہ کوئی شرم نہ حیا
اور اس ذہنیت کو کیا نام دیا جائے گا کہ جس سے دشمنی ہوئی اس کی بے گناہ ماں بہن کو گند میں لتھیڑ دیا ،
اپنے غلیظ ماضی کے قصے مزے لے لے کر سنانا، ان پر فخر کرنا،عورتوں کو محض استعمال کی چیز سمجھنا،
یہ کہہ دینے سے کہ عورتیں اپنی مرضی سے آتی تھیں گناہ ثواب نہیں بن جاتا!
اور ان سب کے ساتھ مومن ہونے کا دعوہ کرنا،
اپنی برائیوں کو جواز فراہم کرنا،کہ میں نا ہوتا تو یہ ہوجاتا اور وہ ہوجاتا،
یہ کسی ابلیس پرست کا کام تو ہو سکتا ہے ایک وحدانیت پرست کا ہر گز نہیں
اور اس ذہنیت کو کیا نام دیا جائے،کہ اپنی کمائی کو اپنا حق اور ماں باپ پرخرچ کو اپنا احسان سمجھنا،
اور ساتھ ساتھ شرک کے خلاف باتین بھی کرنا،یہ جانے بغیر کہ یہ بھی شرک ہے ،کیونکہ جو کمایا وہ اللہ کے کرم سے اور وہ جو اپنوں پر خرچ کیا وہ بھی اللہ کے کرم سے کہ وہاں اس کی نجات کا زریعہ بنے گا!
اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ اور شیطان نے ان کے برے کام ان کی نظروں میں اچھے کر کے دکھا دیئے۔۔۔۔۔۔۔۔!

Abdullah کہا...

کل وقت کم ہونے کے سبب بات ادھوری رہ گئی تھی ،
تم نے مجھ پر ایک الزام یہ بھی لگایا تھا کہ جہاں حقوق نسواں کی بات ہوتی ہے ،وہاں ہی میرے تبصرے نظرآتے ہیں،
اب یا تو تم عقل کےاندھے کو دیگر موضوعات پر میرے لکھے تبصرے دکھائی نہین دیتے یا تم خود اپنی پرانی خصلت کے مطا بق صرف ان ہی پوسٹس کو پڑھتے ہو جہاں عورتوں کا ذکر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
باقی صرف میں ہی نہیں اور بھی بہت سے لوگ حقوق نسواں کے فیور میں لکھتے رہتے ہیں مگر ان سب کے اعضائے صنفی تم نے شائد خود جاکر چیک کیئے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ویسے جو پیدا ہی اس نا انصافانہ ماحول مین ہوئے ہوں جہاں عورت کو پیر کی جوتی اور محض اپنے استعمال کی شئے سمجھا جاتا ہو،اور خود بھی زندگی بھر عورت ذات کا استحصال ہی کیا ہو،انہیں تو کسی مرد کے منہ سے عورت کے فیور مین بات سننا ناممکنات ہی لگے گا ،
اگر تمھارا واسطہ انصاف پسند مردوں سے نہیں پڑا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہین کہ وہ اپنا وجود نہین رکھتے ،یہی لوگ ہیں کہ جن کی وجہ سے تم جیسون کی اکثریت کے باوجود یہ دنیا مکمل طورپر جہنم نہیں بنی ،اور انسانیت پر اعتماد ابھی باقی ہے!
میں کوشش کرتا رہا کہ حد سے نہ گزروں مگر تم جیسون کی خصلت ہے کہ جب تک شرافت دکھاؤ تم لوگوں کو یہ غلط فہمی رہتی ہے تم نے اپنے کمینے پن سے دوسرے کو چپ کرادیا ہے!
یہ ایک صاحب ہیں ان سے بھی تصدیق کروالو کہ مرد ہیں یا عورت،
http://makki.urducoder.com/?p=2392

عنیقہ ناز کہا...

چلیں بہت دنوں بعد دوبارہ اسکے تبصروں کو چیک کیا۔ طبیعت ستھری ہو گئ۔ ہمارے بلاگستان کے مفتی اعظم اور انکے پیروکاروں کی زبان اور بیان کی خوب صرتی دیکھ کر مجھے تو اپنے اوپر یہ شبہ ہونے لگا ہے کہ جیسے ان لوگوں کو ایکس رے کی طرح اندر تک پڑھ لینے کی صلاحیت پیدا ہو گئ ہے۔
اگر یہ پاکستان کی اکثریت کی آواز ہیں تو پاکستانی عدالت کو مختاراں مائ کے سب ہی ملزمان کو رہا کرنا چاہئیے تھا ایک کو بھی ناحق سزا ملی۔
گوندل صاحب آپکے ذہن کی کیچڑ کب ختم ہوگی کوئ امید ہے یا آپ اسے مستقل بنیادوں پہ پیدا کرنے کی اقبل کنٹرول صلاحیت رکھتے ہیں۔
جب آپکو اندازہ ہے کہ مجھے مردوں کی مخصوص چیزوں کے بارے میں جان کر خوشی ہوگی تو واللہ اس پہ بھی کچھ فرمائیں۔ صرف خواتین کے بارے میں جان کر تسلی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ ضرور مطلع کر دیجئیے گا کہ آپکے اعلی ارشادات دنیا کی کس اعلی یوننورسٹی سے لئے گئے جہاں کے قابل لوگ آپکو دوست رکھتے ہیں اور آپ کے علوم کے معترف ہیں۔ آخر انسان اپنے دوستوں سے ہی پہچانا جاتا ہے۔
آپ سب لوگ اپنے آپکو زیادہ متقی بنا کر پیش کرنے کے چکر میں زیادہ غلیظ نہیں بنا رہے ہیں۔ لیکن میں غلط کہتی ہوں۔ مفتی صاحب کا یہی تو اصل ہے۔
سوچنا تو یہ ہے کہ جو خواتین آپکو بھآئ وغیرہ کہتی ہیں, اپ سے عقیدت وغیرہ رکھتی، وہ خود کس دنیا میں رہتی ہیں۔ آپ سے زیادہ تو اب مجھے ان کے بارے میں تشویش ہے۔

Popular Posts