عشق محبت
مرزا صاحباں کی کہانی میں مرزا جب صاحباں کو نکال کرلے جاتا ہے اپنی فراری پر ، فراری میں نے اس لیے لکھا ہے که اس گھوڑی کو دمھدر داس شاعر کچھ اس طرح طرح لکھتا ہے که اس کی سپیڈ سے فراری بھی کیا مقابله کرئے گی
تو پرانےزمانے میں ابھی ابادی کم هی تھی جنگل میں ایک جگه بیری کے جھنڈ کو دیکھ کر جو خیمے کی طرح سے بن گیا هوا تھا صاحباں کو کہنے لگا اؤ شجر ممنوعه چکھیں ، صاحبان نے بہت کها که ادم هوا کی طرح برہنگی کی شرمندگی سے پہلے میرے بھائی آگئے ناں تو مارے جاؤ گے
لیکن جی بقول شخصے مرزے کو پانی سر تک چڑھا هواتھا اس لیے اس نے اپنی هی کی اور وھ کام کیا که جس کے بعد تھکاوٹ سی هو جاتی ہے ، بس جی پھر وھ پہنچ گئے ، بہت ھاڑے لکھے هیں جی مرزے کے باپ کے اور بہت لکھا ہے جی شاعروں نے که کیسے منع کیا تھا صاحباں نے مرزے ٹھنڈا کرکے کھانے کے لیے
لیکن جی عشق دی هو گئی اخیر
لیکن جی مرزا صرف بڑبولاتھا که شاعروں نے اسکی ڈالی هوئی واردات کو عشق کی اخیر بناڈالا باقی کے عاشق بڑے میسنے تھے جی
رانجھا بیلے میں چوری کھاتا تھا اور بہت سی سہلیوں والی ہیر چوری لے کر اکیلی هی جاتی تھی ، کسی اور سہیلی کی چوری کھا لیتا تو مسئله بن جانا تھا جی ، پیسے هوتے تو کسی مولوی سے چندھ دے کر فتوھ لے بھی لیتا تو ہیر نے چوری کھان نئیں سی دینی جی کسے هور دی چوری، بس جی کیدو کو معلوم هو گيا اور اس نے بڑی سیانف کاکام کیا که لڑکی کھیڑوں کے سر منڈھ دی که ابھی اس کی چوری کسی نے جھوٹی نهیں کی ہے
وارث شاھ نے شاعری کی انتہا کردی
اور جہاں وھ لکھتا ہے
آدھی رات جیوں لوگ آرام کردے
اسی عشق دی شمع جلاونے آں
اس چیپٹر کو لوگ تصوف اور سلوک کی باتاں کہتے هیں
ایک وھ سوھنی تھی وھ تو سنا ہے که ڈیلیوری دینے دریا کے پار جایا کرتی تھی
اپنی برادی کے منڈے گونگلو سے لگتے هوں گے ناں
چھڈو جی اے ساڈی بے عزتی دی گل اے
جیسے هی برادی کو معلوم هوا که لڑکی داغی هو گئی هے ماردی گئی اورمنڈے کے قتل کے الزام سے بچنے کے لیے اس کا دریا برد هوجانا بتایا جاتا ہے یعنی تیرنا بھی نهیں اتا تھا یاکه ابھی اپنے جرنل عیوب نےصاحب سندھ طاس معاھدھ نهیں کیا تھا اس لیے دریا میں طغیانی بھی هو سکتی هے
چناب کا پانی تو بهت بعد ميں بیچاتھا ناں جی اپنی پاک فوج نے!!-
سسی نے بھی یهی منڈا لینا ہے کی کوشش ميں ننگی پیری هی تھلوں میں نکل گئی
اور وھ عربوں والی لیلی بڑی چنگی تھی جی سنا ہے کسی ملازمه کےھاتوں بھی چوری بھیج دیا کرتی تھی جو که عموماً مولوی کے ہتھے چڑھ جاتی تھی اسی لیے لیلی نے خون مانگ لیا تھا جی ملازمه کے ذریعے تو اس دن ملازمه کو پته چلا که چوری کھانے والا مجنوں کوئی اور تھا
لیکن اس کے بعد ملازمه کے تاثرات کسی شاعر نے نہیں لکھے هیں !!-
13 تبصرے:
سڑک چھاپ بلاگ ،،
سڑک چھاپ بلاگ ،،
اگر آپ یہ نہ سمجھیں کہ میری ہر بات کو یہ بندہ اون کرلیتا ہے
تو عرض کرتا ہوں کہ
یہی باتیں میں بھی سوچتا ہوں اور کرتا رہتا ہوں جی دوستوں میں
اور وہ مجھے ایسے ناموں سے پکارتے ہیں کہ لکھے نہیں جاسکتے۔۔۔
مرد اور عورت کے عشق اور محبت کی بس یہی حقیقت ہے۔۔۔
کوئی مانے چاہے نہ مانے۔۔۔
اگرچہ کہ میں اب یہ سوچ رہی ہوں کہ مختلف بلاگ پہ تبصرہ کرنے کے بجائے اپنے ہی بلاگ پہ لکھا کروں۔ تاکہ جمہوری شاناں برقرار رہیں۔ لیکن پھر بھی آپ نے ایک بات ایسی لکھ دی کہ اسکی تصحیح بہت ضروری ہے۔ اور وہ سندھ کی لوک کہانی سسی پنہوں۔ آخر سندھ کی ریت سے جنم لیا، تو اسکا حق بنتا ہے۔
سسی پنہوں کی بیوی تھی۔ وہ دونوں اس حیثیت سے کافی عرصے سسی کے گاءووں میں ساتھ رہے۔ لیکن ایکدن پنہوں کے بھائ اسے لینے آگئے۔ کہانی کہتی ہے کہ انہوں نے کھانے میں کچھ ملا دیا تھا اور اس وجہ سے سسی پنہوں بے ہوش ہوگئے۔ سسی سوتی رہ گئ اور پنہوں کو اسکے بھائ اٹھا کر لے گئے۔ وہ چچ مکران کا رہنے والا تھا۔ سسی کو جب صبح پتہ چلا کہ پنہوں کو اس سے جدا کر دیا گیا ہے تو سندھ کے صحراءءوں سے اکیلے سفر کرتے مکران یعنی بلوچستان کی طرف جا نکلی۔ جہاں راستے میں ملنے والے ایک گدڑئیے کی نیت خراب ہونے پہ اس نے خدا سے دعا کی کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔ خدا نے اسکی دعا قبول کی۔ یہ کہانی میں نے دس گیارہ سال کی عمر میں پڑھی تھی۔ اس نے اس وقت جس طرح اپنے سحر میں لیا تھا آج بھی وہ سحر باقی ہے۔
سندھ کی دوسری لوک رومانی کہانی عمر ماروی کی ہے۔ فی الحال میں اس پہ نہیں لکھ رہی ہے۔ سندھ کی لوک کہانیاں اپنے مزاج کے لحاظ سے خاصی مختلف ہیں۔ حالانکہ آج سندھی عورت اتنی ہی بے بس نظر آتی ہے جتنی کہ وہ اپنی لوک کہانیوں میں عزم استقامت اور وفاداری کا مظہر دکھائ دیتی ہے۔ شاید اسکی وجہ سندھ کا بے انہتا صوفی مزاج ہے۔
عنیقه صاحبه کی بات درست ہے میں نے بھی یه کہانی ایسے هی پڑھی تھی
لیکن یه پوسٹ اس نیت سے لکھی هے که لوگ بھالے نابالغ هی هوئے جاتے هیں اور ریاکار بھی کچھ پرانا هونا چاہیے که لوگ بالغ نظر هوں اور تھوڑے سے دنیادار بھی
یه اسلام اسلام کرکے ناں دنیا کے رهے هیں اور اپنے هی
سسی نے پھٹی زمیں میں دھنس کر وہ بھی اپنی مرضی سے ھم مردوں کی عزت کی حفاطت کی ھے۔ھم بھی ھوئے اس کے ع والے عاشق۔ کہ مرد کا معاشرہ اب تک چل رھا ھے اور آیئندہ بھی چلتا رھے گا۔اور عنیقہ صاحبہ جیسی خواتین ایسی گھڑی ھوئی کھانیوں پر یقین کرکےھماری عزت کی حفاظت کریں گئی اور ھم پاکستان سے باھر عیش کریں گئے۔عورت کا عشق اور مرد کا اور۔۔۔دوغلہ معیار
انیقہ سسی کی صحیح کہانی کی بتانے کے لیئے شکریہ!
ہم بھی آج تک اس کے سحر میں جکڑے ہوئے ہیں،اور یہ واحد لو اسٹوری ہے جو مجھے بے انتہاء پسند بھی ہے!
:)
عنیقه صاحبه کی بات درست ہے میں نے بھی یه کہانی ایسے هی پڑھی تھی ۔
واھ خاور صاحب ، پھر بھی آپ نے اس کو مختلف کہانیوں کے ساتھ خلط ملط کردیا ؟
لیکن یه پوسٹ اس نیت سے لکھی هے که لوگ بھالے نابالغ هی هوئے جاتے هیں اور ریاکار بھی کچھ پرانا هونا چاہیے که لوگ بالغ نظر هوں اور تھوڑے سے دنیادار بھی
یه اسلام اسلام کرکے ناں دنیا کے رهے هیں اور اپنے هی
معذرت خاور صاحب ، آپ کی یہ بات بالکل سمجھ نہیں ّئی کہ ّپ نے کس نیت سے یہ پوسٹ لکھی تھی ۔ پتھ نہیں یہ ٹائپ کی غلطیاں ہیں یا یہ جواب لکھتے وقت آپ کا ذھن ہی واضح نہیں تھا ۔
اپ نے درست کہا ریاکاری ہمارے زندگی کے ہر حصے میں دن بہ دن پھیلتی جا رہی ہے۔ پہلے یہ جاہ وحشمت کے ساتھ منسلک تھی اور جو لوگ مذہب کی روح سے واقف تھے وہ اسے حقیر جانتے تھے۔ آج یہ دنیاوی جاہ حشمت کے ساتھ مقابلے پہ کھڑی ہے۔
جہان ایک طرف یہ عالم ہے کہ پاکستان ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں فحش سائیٹس زیادہ دیکھی جاتی ہیں۔ وہاں ملک کے بعض حصوں میں یہ عالم ہے کہ عورت اور مرد کے ایکدوسرے کے لئے بنیادی جذبات کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں ملک کے کچھ حصے مردوں کی ہم جنس پرستی کے لئے بدنام ہیں وہاں ملک میں ایک کثیر تعداد ان عورتوں کی ہے جو غیر انسانی پابندیوں کی وجہ سے ہم جنس پرستی کا شکار ہے لیکن ان معاشرتی رویوں کے بارے میں کوئ بات کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ لوگوں کو یہ تو نظر آتا ہے کہ شہرون میں نظر آنیوالے لڑکے اور لڑکیاں ڈیٹنگ کر رہے ہیں اور اسکے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائ جاتی ہے کہ ہمارے بچوں کا اخلاق خراب ہو رہا ہے۔ مگر کوئ بھی ہمارے اندر پیدا ہونے والے اس ایبنارمل روئیے کی طرف توجہ نہیں کر رہا۔
یاسر، اس سارے واقعے کا مرد کی عظمت سے تعلق نہیں۔ جس طرح عوتوں کو کچھ خیالات کی افیون دیکر پالا جاتا ہے اسی طرح مردوں کو بھی کچھ نشوں کا عادی رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدکار مرد کو عوتیں خاموشی سے برداشت کرتی ہیں مگر بدکار عورت کو غیرت کے نام پہ قتل کر دیا جاتا ہے۔
میں صرف مزاج کی بات کر رہی ہوں۔ پنجاب کی لوک کہانیوں میں عورت کے اندر بغاوت کا ایسا جذبہ ہے کہ وہ معاشرتی اقدار اور روایات کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ لیکن سندھ کی عورت میں اصول پرستی ہے۔ اب اگر عمر ماروی کے قصے کو دیکھیں تو عمر نے ماروی کو جو یاک گاءووں کی لڑکی تھی اغواء کر کے ایک سال تک اپنے محل میں رکھا کہ وہاس سے شادی کر لے لیکن وہ راضی نہ ہوئ۔ اسکا اصرار یہی رہا کہ وہ اپنے منگیتر سے شادی کرے گی۔ عمر اسے ایک سال بعد چھوڑنے پہ مجبور ہوا۔ کہانی عام طور پہ یہاں ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ جب ماروی واپس اپنے قبیلے میں پہنچی تو سندھ کی روایات کے تحت اپنی عصمت کے محفوظ رہنے کا امتحان دینا پڑا۔ کیونکہ کسی کو اس بات پہ یقین نہ تھا کہ وہ ایک سال بعد اسی طرح واپس آگئ ہے۔ عام طور پہ یہ امتحان بڑے سخت ہوتے ہیں جیسے آگ پہ چلنا۔
ہندءووں کی ایک دیو مالائ کہانی میں بھی سیات کو راون اٹھا کر لیجاتے ہیں اسے رام واپس لیکر آتا ہے اور پھر سیتا کو اگنی پریکشا سے گذرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ رام بھی اتنے عرصے اپنی بیوی سیتا کے بغیر رہے ہوتے ہیں مگر انہیں ایسا کوئ امتحان نہیں دینا پڑا۔ یہ انسانی سمجیات کا ایک اہم حصہ ہے۔ جس پہ ہمارے بیشتر لوگ یہ کہہ کر کہ اسلام میں عورت کو بڑا مرتبہ دیا گیا ہے ختم کر دیتے ہیں۔ کوئ بھی بات اس طرح نہیں بڑھائ جا سکتی کہ اسلام نے اس پہ یہ کہا ہے۔ اس طرح سے تو دراصل ہم اس بحث کو ایک غیر منطقی انجام کے ساتھ ختم کر دیتے ہیں۔ کیونکہ اب وہی بات کرے جو احادیث اور قرآن جانتا ہو۔ جبکہ بات یہ ہے کہ ان مذہبی احکامات پہ زندگی کے کسی حصے میں کوئ عمل نہیں ہورہا۔
جیسے ہم جنس پرستی کو یہ کہہ کر ختم نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن میں اسکی ممانعت ہے۔ اسکے پیچھے پوری ایک نفسیات کام کر رہی ہے جب تک اسے نہ پکڑا جائے اسکا حل نہیں ہو سکتا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مذہب کا نام زیادہ لیتے ہیں وہ اس میں زیادہ شامل ہیں۔
جنس ایک اہم موضوع ہے، انسانی وجود کے ساتھ وابستہ ہے مگر معذرت کے ساتھ اسے اتنی ہی غیر ذمہ داری سے بیان کیا جاتا ہے اور عام طور پہ زبان کا ایسا چسکہ ہوتا ہے کہ موضوع کی گھمبیریت کے بجائے تفریح پیدا ہو جاتی ہے۔
یاسر، لوک کہانیوں کی اہمیت یہ ہے کہ یہ اورل ہسٹری ہوتی ہیں۔ یہ منہ زبانی تارِخ جب اتنے عرصے تک لوگوں کی زبان سے گذرتی ہے تو اس میں حد سے زیادی افسانہ آمیزی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہ حقیقت سے بے حد دور ہوجاتی ہیں۔ مگر پھر بھی ان میں ایک چیز موجود ہوتی اور وہ اس علاقے میں موجود لوگوں کی خوہشات کی عکاسی۔
چاہے وہ یونانی اسطیری کہانیاں ہوں، ہندءءوں کی دیومالائ کہانیاں یا عام سی لوک کہانیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اس وقت اس علاقے کے لوگ کیا خواہشات رکھتے تھے اور کن اخلاقی اقدار کو چاہتے تھے۔
ہم تو انہیں اس وقت مرد اور عورت کے حساب سے دیکھ رہے ہیں مگر یہ دراصل اپنے سماجی نظآم کی عکاسی کرتی ہیں۔
عنیقہ میری سوچ الفاظ دینے کا شکریہ۔
چاچا جی نے جن مرد و خواتين کی عشق معشوقيوں کا ذکر کيا ہے ان کی آپس ميں شادی ہو جاتی تو دو دن ميں ٹھنڈے ہو جانا تھا
یارجی یہ سب کچھ نہیں ہے، اس طراں کی اشٹوریاں ادھر اپنے پنڈوں میں عام ہوتی رہتی ہیں اور وڈے ہوگئے، ویاہ ہوگیا، فیر بچے ماموں اور پھوپھو کو سلام کرتے پھرتے ہیں، مگر یہ والی اشٹوریاں شاعروں اور پھر کہانی نویسوں کے ہتھے چڑھ گئیں اورانکا بیڑا پار ہوا، پھر فلم والے بھی آگئے، انہوں نے بھی اس بہتی گنگا سے خوب ہاتھ دھوئے اور ھیر رانجہا، سوہنی مہنیوال وغیرہ بنائی، ادھر یورپ میں بھی اگر جولیٹ رومیو کی کہانی شیکسپئر کے ہاتھوں نہ چڑھتی تو کچھ بھی نہ ہوتی، بلکہ اسی جیسی کوئی اور کہانی ادھر چڑھ جاتی۔ ہیں جی، سب لذت دھن و دل کی چولیں ہیں، جو شاعر و کہانی گو و نویس حسب توفیق مارتے ہیں اور ہم لوگ حسب خواہش و حسب جنس اپنے آپ کو رانجھے، مجنون، پنوں، مرزے وغیرہ یا پھر ہیر، لیلٰی، سسی، صاحباں و جولیٹ کی جگہ رکھ کر حظ لیتے ہیں، کہانی کیا جی بس چربہ زبانی اور نفسانی خواہشات کی تکیمل کی سازش، ہیں جی
ایک تبصرہ شائع کریں