اتوار، 4 اپریل، 2010

سوچ کا فرق

باتیں شائد کچھ لمبی هو جائیں امید هے که اپ برداشت کریں گے ، میں کوشش کروں گا که باتوں کا ٹیمپو تیز رهےکه دلچسپی برقرار رهے ـ
خلافت کے متعلق لکھا کئی تبصرے ائے ان سے کچھ تحریک ملی که خوابوں کی دنیا ميں رهنے والے کچھ لوگوں کھینچا جائے
هر بندھ اسلام اسلام کرتا هے حتی که اب تو لوگ بچوں کے نام بھی اسلام رکھتے هیں اور وھاں ایک شہر بھی هے جس کے نام سے ظاھر هوتا ہے که یہاں اسلام کی رھائش هے ، اسلام اباد لیکن مقامی لوگ اس کو سلاما باد کہتے هیں ، ایک بندھ جس کو همارے پاک اسلام کے متعلق وضع کی گئی ڈیفینشنز کا معلوم ناں هو اور اسلام اباد میں جاکر اصل اسلام کو جو اسلام اباد میں اباد ہے اس کا مطالعه کرکے اس کی ڈیفینیشن مقرر کرئےتو وھ ڈیشنیشنز کیا هوں گی ؟؟؟
ایک ذھنی طور پرنابالغ کا جواب ، اس میں اسلام کا کیا قصور هے اسلام میں تو ایسا نہیں کہا گیا هے جو همارے سلاما بادی لوگ کرتے هیں ـ
ایک بالغ نظر کا جواب : هاں اج هم خامیوں کا مجموعه بن کر رھ گئے هیں که اس میں سب سے بڑا قصور هماری ذھنی بیماری ، نرگسیت کا هے ـ
ایک صاحب نے جنہوں نے نام چھپا کر تبصرھ کیا هے ان کا کہناہے که یه بلاک بالقان کا بلاگ هے
میرا سوال نما جواب هے که کیا پاکستان ميں یا اسلامی دنیا میں هر طرف باغ باغیچے کھلے هوئے هیں هر طرف امن هی امن هے کہیں گندگی نهیں هے لوگ ، همارے معاشرے سارے عیبوں سے پاک هو چکے هیں که اگر کوئی همارے عیوب پر لکھے یا هم لوگوں کو خرابیوں کی نشاندھی کرکے اس کو سدھارنے کی بات کرئے تو وھ جھوٹا ہے اس کو اسلام کا علم هی نهیں هے
اسلام کا علم هے مجھے که همارے گاؤں میں اک لڑکا سلام مستری هوا کرتا تھا بڑا بھلا مانس تھا جی , بس جی اس کے علاوھ اسلام کا هم نے مسیتوں میں سنا ہے هے که ایک مکمل ترین ضابطه حیات ہے
اور اس ضابطه میں ابھی تک ستھن (شلوار ) کا سائیز مقرر نهیں هوا ہے مشکل معاملات که نانو کی ٹیکنالوجی حرام یا حلال کا معامله یا اس تکنیک پر بنی هوئی چیزوں کو دوائی کہیں کے که روبوٹ اس معامله کب حل هو گا ؟؟
شلوار کا سائیز چودھ سو سال میں مقرر ناں کرسکنے والے شہروں میں ٹوائلٹ بنوانے کی بجائے دیوار پر
'"گدھے کا بچہ پیشاب کررها ہے ""
لکھ کر دیتے هیں
بس اور اس لکھنے والے سے کوئی پوچھے که تم نے اس پیشاب کرنے والے کی کیا چیز دیکھ کر اس کو گدھے کا بچه کہا ہے
تو بے چارھ شرما جائے که ابھی بالغ نهیں هوا هے
ایک مولوی صاحب سے میں نے پچھلے دنوں بات کی که جی ایک نظریه هے
میرا نظریه
که
ختم نبوت کا میرے نزدیک یه مطلب ہے که اب کوئی شخصیت نهیں آئے گی (حتی که مہدی کے انے کا بھی قران سے کوئی اشارھ نهیں ملتا هے )
بلکه دین جس کے انگریزی میں معنی هیں سسٹم چلاکریں گے
جو اچھا دین )سسٹم)هو گا وھ فلاح (سہولتیں ) پائے گا ور جو برا دین (سسٹم) هو گا عذاب( بد امنی اور بے روزگاری لوڈ شیڈنگ ) پائے گا ـ
ایک روایت هم بچپن سے سنتے آئے هیں که اللّه کے نزدیک دین صرف دین اسلام هی هے
تو جی دین اسلام کو اگر اسان اردو میں ترجمعه کریں تو اس کا مطلب بنتا ہے ضوابط میں بندھا هو سسٹم !!ـ
تو میرے نزدیک نظم ضبط رکھنے والا سسٹم هوا هو دین اسلام
تو اب جاپان کا سسٹم بڑا هی نظم ضبط والا هے تو کیا هم اس کو دین اسلام کہـ سکتے هیں ؟؟
کیونکه جاپان کا سسٹم بڑا نظم ضبط والا ہے اور اس دین (سسٹم ) کو ماننے والے لگتا ہے که انعام یافته لوگ هیں ، جیسا که اپ بھی دیکھ سکتے هیں ـ
تو جی مولوی صاحب کا جواب تھا که اپ کی بات دین اسلام کے لغوی معنوں تک ٹھیک ہے لیکن جسا که حج کے لغوی معنے سفر گے هیں لیکن عام سفر کو هم حج نهیں کہـ سکتے اسی طرح دین اسلام کے بامحارھ معنی وھی هوں کے جوکه هم استعمال کرتے هیں ، یعنی کلمه پڑھنے والے لوگ !ـ
میں چپ هو گیا که مولوی صاحب کو قائیل کرنا ایسا هی هے جیسے ان کے پیٹ پر لات مارنے والی بات هو گی
مولوی صاحب اپنے هی گمان پر چلیں گے اور جس کو انهوں نے اپنا لیا هے اس کے علاوھ کسی بات کو سمجھنے کی کوشش نهیں کریں گے ـ
لیکن میرا خیال ہے که اگر کلمه نامی منتر هی کافی هوتا تو نبی اکرم صعلم کو مکه والوںکے ستم سہنے کی کیا ضرورت تھی بس ان کو بتا دیتے که جی کلمه پڑھ لیا کرو باقی دین وغیرھ کی بات یورپی لوگوں پر چھوڑ دو وھی هم کو سسٹم بنا دیں گے

هم بڑے منافق لوگ هیں دین جاپان میں داخل هونے (ویزھ لینے) کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلتے هیں اور اس دین میں پورے داخل نهیں هوتے
دین امریک میں داخل هو کر (گرین کارڈ لے کر ) اسی دین کی تباھی کی دعائیں کرتے هیں ـ
عربی دین ميں جب پاکستانیوں کو کفالت کے نام پر غلام بنایا جاتا هے تو اس وقت انگریزی دین اور یورپی دین کی پناھ ڈھونڈتے هیں
محمد اسد صاحب نے لکھا ہے که اسلام ميں حکمرانی کے اصول پڑھنا ضروری هے
خلفاء راشدین کے بعد ایک عمر بن عبدلعزیر هوئے هیں باقی اپ مجھے بتائیں که کسی خلیفے نے حرم نهیں بنایا هے؟؟
قران کا چار بیویوں والا اصول یه ہے که طاقت ور سبھی زنانیوں کو حرم میں ناں ڈال لے!ـ چار پر صبر کرئے اور دو بہنوں کو ایک ساتھ ناں رکھ لے
اور جو اللّه کے واضع احکام کی خلاف ورزی کرے وھ خلیفه اور امت کا اباجی بن جائے
نانا کی امت کی فکر ميں ویاگرھ سے دل بہلائے
اور باقی کے شوقین لوگ جن کو شادی کرنی نصیب ناں هو که ساری زنانیاں بنی قریش نے سنبھال لی هیں
ھاتھ سے کام چلائیں !!ـ
یہاں دین جاپان ميں ایسا ماحول هے که میں صراط مستقیم پر چل سکتا هوں اور مجھے اس میں اسانی محسوس هوتی هے بلکه صراط مستقم پر چلنا مجھے اسان لگتا ہے
مجھے اس دین والے ملک میں جھوٹ بولنے کی ضرورت نهیں هے ، ملاوٹ کرنے کی ضروت نهیں هے
اپنے مال کے نقائیص خریددار کو بتانے ميں فائدھ ہے
مجھے کسی کو دھوکه دینے کی ضرورت نهیں هے بلکه کسی کو دھوکه دے کر میں بے اعتباری کے عذاب کا شکار هو جاؤں گا
دین جاپان میں هر بندھ اپنے اپنے فرائض کی دائیگی خلوص نیت سے کرتا هےاور اور میرے حقوق خود بخود پورے هو جاتے هیں
دین جاپان پر چلنے والوں نے دنیا کو جنت بنا کردیا هے
دین جاپان پر چلنے والوں پر اللّه کے انعامات هورهے هیں
ان کے کھیتوں میں فصلیں بھر کر اٹھتی هیں ، یهاں لوڈ شیڈنگ نهیں هوتی هے
ضروریات زندگی اسانی سے پوری هو جاتی هیں ـ
شراٹے دار بارشیں هوتی هیں
اور جو لوگ دین پر نہیں چلتے هیں
ان کے ممالک میں سڑکیں ٹوٹی هوئی هوتی هیں ، ان کے دریا ان کے لیے عذاب هوتے هیں ، ان کے حکمران ان کے لیے قهر هوتے هیں ـ
یهاں بیماریاں عام هوتی هیں ـ مہنگائی بہت هوتی هے ـ
غرض یه که دین جاپان اور بے دین لوگوں کی زندگی ميں زمین اسمان کا جنت اور دوزخ جیسا فرق هے
دین دار (سسٹم والے)اور بے دین (آزاد ) معاشروں میں واضع فرق ہے
ان کے کھانے میں لباس ميں عادتوں ميں !ـ
ایک طرف انعام هی انعام هیں اور دوسری طرف کوفتیں هی کوفتیں ، اور جس کا داء لگتا ہے وھ ان کوفتوں سے جاں چھڑا کر انعام یافته یعنی دین دار ممالک کی طرف بھاگتا ہے
اور جب کوفتیں ختم هو جاتی هیں تو ان کے پاس کچھ لوگ اسلام لے کر پہنچ جاتے هیں که جی اپ یوکے ميں بھی مجھے مرشد مان لیں اور نذر نیاز کے نام پر بھیک دیں میں اپ کی زندگی میں زہر گھولوں گا
اپ کی بیوی کو تعویز کرکے دوں گا
اپ کی بیٹی پر ڈورے ڈالوں گا
لیکن کچھ اچھے پیر مرشد بھی هوتے هیں جو صرف کرنسی اور تحائف پر گزارھ کر لیتے هیں
عورتوں پر ڈورے نهیں ڈالتےهیں
ان اچھے لوگوں کی اکثریت کی عمر زیادھ هو چکی هوتی ہے !!ـ
یهاں جاپان ميں پنجاب کی ایک بڑی خانقاھ کے مجاور کی اولاد کے صاحبزادھ صاحب سے ملاقات هوئی
انہوں نے جب فخر سے اپنے دادا حضور کا بتایا تو میں نے ان سے کہا که جی ابن بطوطه کی کی کتاب میں اپ کے دادا حضور کا لکھا ہے که عورتوں کے معاملے میں گاما گمیار ٹائیپ تھے
تو ان صاحبزادھ صاحب کا جواب تھا که
وھ ان کا ظاھری روپ تھا
باطنی طور پر وھ کچھ اور تھے
میری تحاریر بر اپ کہـ سکتے هیں که جی جس طرح لوگاں کو اسلام نامی مضمون هی یاد هے خاور کو سیکس اور زنانی کا مضمون هی یاد ہے که ان کا هی ذکر کرتا رھتا هے
یه بات تو ٹھیک هے لیکن جزروی طور پر
کیا خهال ہے که هم لوگ دین اسلام کے بامحاورھ معنوں کی بجائے لغوی معنوں کو اپنا کر دیکھ لیں ؟؟
اپ کے خیال ميں کوئی فرق پڑے گا؟؟
باقی فیر سہی

33 تبصرے:

عنیقہ ناز کہا...

یہ جو آپ نے کچھ ایسا لکھا ہے کہ خاور کو زنانیوں کی فکر رہتی ہے۔ تو یہ آپکا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمارے بیشتر دینی علماء کا بھی یہی مسءلہ ہے۔ میں خود لوگوں سے پوچھتی ہوں کہ ایک طرف تو خواتین پہ پابندیوں کی اتنی بات کی جاتی ہے۔ پردہ، دوپٹہ، لباس کی قسمیں، پیٹ نظر آنا نہیں آنا اتنی تتفصیل سے بیان ہوتا رہتا ہے۔ خواتین کی تعلیم کو اتنا برا بھلا کہا جاتا ہے۔ حتی کہ دینی تعلیم بس اتنی ہی روا سمجھی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن کی تفسیر اور ترجمہ پڑھ لیں۔ اس حالت کو نہ پہنچ جائیں کہ فتوی دینے کے قابل ہو جائیں۔
تو ان تمام حالتوں میں بھی خواتین کے مخصوص مساءل پہ تفصیل سے بولنا اور بیان کرنا بھی صرف مرد علماء کے لئے ہی موزوں رہ جاتا ہے۔ یہ کسی فحاشی میں نہیں آتا۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو میں تو اسے زبان کا چسکہ ہی قرار دونگی۔ اگر کوئ مرد گائناکولوجسٹ ہو تو اسکے پاس جانے سے اعتراض ہوگا۔ لیکن مولوی صاحب بیٹھے اس پہ گفگتو فرماتے رہیں اس پہ اعتراض نہیں ہوگا۔
کیوں یہ کوشش نہیں کیجاتی کہ خواتین دنیاوی علوم حاصل نہ کریں کہ یہ انہیں منہ پھٹ، بے حیا اور بےباک بنادیتی ہے مگر دین ان سے کیا کہہ رہا ہے اور وہ اسے کسطرح سمجھتی ہیںاسکا حق تو انہیں دینا چاہئیے۔ اسکی تو حوصلہ افزائ کرنی چاہئیے۔ نہ جی یہ بھی ممکن نہیں اور نہ ہونے دیں گے۔
کیا فرائڈ نے صحیح نہیں کہا تھآ کہ دنیا میں دو چیزیں ہیں جنکے پیچھے ہر چیز گھوم رہی ہے ایک پیٹ کی بھوک اور دوسری جنس کی بھوک۔ اس کمبخت کے جنس کے تذکرے پہ میں پہلے بہت بدک جاتی تھی۔ عالم اسکے علاوہ بھی ہیں یہ موصوف اسی کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن دنیا کو دیکھتی ہوں تو عالم کچھ یہی نظر آتا ہے۔
دنیا میں دو ہوسیں ہیں ایک پیٹ کی اور دوسری جنس کی۔
اب اپ کہیں گے کہ پھر حقوق نسواں والی بات کی۔
میں تو صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ چلیں میں ان مولوی اور ملاءووں کی ہر بات سے متفق ہو جاتی ہوں۔ بس یہ آئندہ چند سالوں میں اپنے اداروں سے ایسی خواتین کو پیدا کرنا شروع کر دیں جو انہی کیطرح فتوی دینے کے قابل ہوں تو خیر ہے
باقی یہ کہ بات صرف اس دنیا کی نہیں ہے بلکہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ اعمال کے ترازو پہ کلمہ کی قیمت تمام اعمال سے زیادہ ہے۔ اس لئے کافر جتنے اچھے اعمال انجام دے لیں اور جتنی ستھری زندگ گذاریں پلہ ہمارا بھاری رہے گا۔ تو اس گارنٹی کے بعد دنیا کو کون دیکھتا ہے۔ تھوڑآ سا عذاب اور پھٹکار سہنے کے بعد ہم بھی جنت میں ہونگے۔
اب یہاں ایک سوال ذہن میں آتا ہے ہکہ بنی اسرائیل اور ہمارے درمیان کیا فرق ہے۔ یہ میں شریعت کا نہیں پوچھ رہی ہوں۔ نظریاتی فرق کیا ہے۔ وہ بھی اپنے اپکو افضل ترین امت سمجھتے ہیں اور ہم بھی۔لیکن دنیا کی حد تکا وہ راج کر رہے ہیں اور ہم ان پہ نفرین بھیج رہے ہیں۔ ہمارے اور انکے درمیان کیا فرق ہے۔

گمنام کہا...

bahai app muzeed is muzu par likho.
urdu nahain likh skata .app ko phon karkey urdu likhna sikhun ga!!

محمداسد کہا...

آپ نے خود ہی سوال کیا اور خود ہی جواب بھی اخذ کرلیا۔ ایسے میں سوچ کا فرق پتا ہی نہیں چلا۔ سردست صرف دو چیزوں کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اول تو یہ کہ میرا "کوٹ" کیا جانا والا تبصرہ آپ کی خلفاء راشدین سے متعلق پوسٹ پر تھا۔ لیکن اس کا بنیادی مقصد یہ بتلانا تھا کہ کسی چیز پر تبصرہ کرنے یا رائے کے اظہار سے قبل اگر اس کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرلی جائیں تو ممکن ہے شکایت کی نوبت ہی نہ آئے۔ لہٰذا مطالعہ کی ضرورت صرف خلفاء کے ذکر کے لیے خاص نہیں بلکہ ہر موضوع پر رقم کرنے سے قبل ضروری ہے۔ (کم از کم میری دانست میں)۔ اس کے علاوہ آپ نے جس جملہ "اللّه کے نزدیک دین صرف دین اسلام هی هے" کو کہاوت لکھا، وہ دراصل قرآن کریم کی آیت مبارکہ ہے۔ اس لیے اس کی توقیر ہب سب پر لازم ہے۔ اور اسلام کے مقابل کسی "دین جاپانی" کو لانے کے بارے میں آپ کود فیصلہ کرلیں۔

گمنام کہا...

"ختم نبوت کا میرے نزدیک یه مطلب ہے که اب کوئی شخصیت نهیں آئے گی (حتی که مہدی کے انے کا بھی قران سے کوئی اشارھ نهیں ملتا هے )
"

بالکل ٹھيک- اب ان علما کو غير مسلم کہہ ديں جلدی سے جو کہتے ہيں آسکتا ہے-


Mujaddid Alfe Saani, Hazrat Shaikh Ahmad Farooqi Sarhindi:
Quote:
Following the advent of the Khatmur-Rosul, Hazrat Muhammad Mustafa (peace and blessings of Allah be on him), the attainment of prophethood by one of his followers, as a subordinate and in service of the Holy Prophet, will in no way offend or be in conflict with his status as Khaatamur-Rosul. No doubts need be entertained in this regard.
(Makoobat vol. 1 Maktoob 301 pg. 432)


Hazrat Shah Waliullah Dehlavi, Mujaddid (reformer) of the 12th Century:
Quote:
The end of prophethood with the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be on him) only means that there can now be no prophet for the people who will bring or introduce a new Shariah.
(Tafhimate- ilahiyyah vol. 2 pg. 72-73)


Maulana Rumi:
Quote:
Exert yourself in the service of faith to such an extent that you be granted prophethood within the Muslim Ummah.”
(Masnawi Maulana Rum vol. 5, pg. 42)


Brelvi scholar Maulavi Abu Al Hasnat Abdul Haye of Farangimahal, Lucknow:
Quote:
The advent of a mere prophet after the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be on him) or in his lifetime is not an impossibility. To introduce a new law is indeed not permissible.
(Dafiul-Waswas 2nd edition page 16)

and

Quote:
Ulema Ahle-Sunnat also subscribe to the view that following the advent of the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be on him) no law-bearing prophet can come. The prophethood of the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be on him) is wide in scope. Any prophet who would now come would be from the Ummah and follow his Shariah.
(Majmuah Fatwa Maulvi Abdul Haye vol. 1 pg. 17)


Al-Tirmizi (died 308 A-H.):
Quote:
The notion that the term ‘Khatamun-Nabbiyeen’ signifies that the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be on him) was the last prophet is erroneous. What glory and majesty is there in being the last? What wisdom underlies this interpretation? It is an interpretation put forth by the imbeciles and the illiterates.”
(Khatam- Alauliya pg. 341)


Maulana Qasim Nanutwi (founder of Darulaloom Deoband):
http://www.youtube.com/watch?v=0sw6Qyqjh04 [Urdu]


Views of early scholars like Ibn-Arabi:
http://www.youtube.com/watch?v=2V1x-6EREeA [Urdu]

پھپھے کٹنی کہا...

ميں کب سے بيٹھی امام مہدی کا انتظار کر رہی ہوں آپ نے نيا شوشہ چھوڑ ديا ہے اب حضرت عيسی کا بھی بتا ديں ان کا انتظار کروں يا پھر اٹھ کر اپنے کام سرانجام دوں

محمد ریاض شاہد کہا...

خاور اگر تم اس وقت پاکستان ہوتے تو اب تک مرتبہ شہادت سے سرفراز ہو چکے ہوتے اور تمہارا مزار پیر خاور علی شاہ المعروف پھوسیاں والی سرکار کے نام سے معنون اور مرجع خلائق ہوتا اور میں اس کا سجادہ نشیں بن کر لوگوں سے نذرانے وصول کر رہا ہوتا

گمنام صاحب
تو یہ امام مہدی کدھر ہیں اور کافروں کے خلاف جہاد کیوں نہیں کر رہے جیسا کہ کتابوں میں درج ہے

گمنام کہا...

"گمنام صاحب
تو یہ امام مہدی کدھر ہیں اور کافروں کے خلاف جہاد کیوں نہیں کر رہے جیسا کہ کتابوں میں درج ہے"

جناب عالی يہ ان علماء سے پوچھيئے جو کہتے ہيں کہ آسکتا ہے وگرنا ان علماء کے کفرانہ عقائيد پہ انکو کافر تو قرار دے سکتے ہيں نا-

عنیقہ ناز کہا...

جب قرآن کی تفسیروں کو عیسائیوں اور یہودیوں کے ماخذ سے نکالا جائیگا تو ایسے پیچیدہ سوال تو اٹھیں گے۔ گمنام صاحب، اوروں کا مجھے نہیں معلوم چونکہ قرآن میں اب کسی بھی نبی کی آمد یا امام کے آنے کی کوئ خبر نہیں تو اب اس چیز پہ بحث کرنا وقت کا زیاں ہیں۔ میں یہ بات پہلے بھی کہیں لکھ چکی ہوں کہ مسلمانوں کو کتاب کا علم دینا اس چیز کی علامت ہے کہ اب آپ اپنے لئے اپنی عقل اور علم کے مطابق فیصلہ کریں۔ وہ تمام لوگ جن کہ آپ نے حوالے دئے وہ اپنے وقت میں اس وقت کے مروجہ علوم اور استعداد کے مطابق کام کر گئے۔ لیکن وہ اس پہ حرف آخر نہیں ہیں۔ اور نہ ہم انہیں اس بات کے لئے کافر قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ کوئ بھی عقل اور شعور رکھنے والا انسان ایسی باتوں پہ کسی کو کافر نہیں قرار دے سکتا۔
انسان مختلف ذہنی سطح کے ہوتے ہیں۔ آج سے ہزار سال پہلے تصوف میں جن چیزوں کو راز کی باتیں کہہ کر چھپایا جاتا تھا۔ انسان کے عقل اور علم میں اضافہ ہونے کی وجہ سے وہ اب راز کی باتیں نہیں رہی ہیں۔ آج ایک پرائمری اسکول کا بچہ بھی اس بات کو بیان کر سکتا ہے کہ انسان فظا میں کیسے اڑ سکتا ہے یہ اور دوسری لا تعداد مثالیں ہیں۔
تو اب قابال کے اس شعر کے مطابق
اپنی دنیا آپ پیدا کر، اگر زندوں میں ہے آپ بھی اس بحث سے نکل کر اپنے اوپر بھروسہ کریں۔ دنیا صرف خاص لوگوں کے لئے نہیں بنائ گئ۔ یہی اسلام کا بنیادی پیغام ہے۔

گمنام کہا...

عنيقہ آپ کا جواب دليل سے ذيادہ نيک خواہشات کے تابع معلوم ہوتا ہے-

"چونکہ قرآن میں اب کسی بھی نبی کی آمد یا امام کے آنے کی کوئ خبر نہیں تو اب اس چیز پہ بحث کرنا وقت کا زیاں ہیں۔ "
اگر شريعت ميں نبی آنے کی گنجائش ہے جيسا کے يہ صاحبان فرما رہے ہيں تو نبوت کے دعوی کو خلاف شريعت قرار نہيں ديا جاسکتا- يہ بہت اہم نقطہ ہے، مجھے حيرت ہے آپ اسے کيسے گول کر گئيں-

"وہ تمام لوگ جن کہ آپ نے حوالے دئے وہ اپنے وقت میں اس وقت کے مروجہ علوم اور استعداد کے مطابق کام کر گئے۔ لیکن وہ اس پہ حرف آخر نہیں ہیں۔ اور نہ ہم انہیں اس بات کے لئے کافر قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ کوئ بھی عقل اور شعور رکھنے والا انسان ایسی باتوں پہ کسی کو کافر نہیں قرار دے سکتا۔"
اگر ختم نبوت کا منکر کافر ہے تو لامحالہ ان اصحاب کو کافر قرار دينا پڑھے گا کيونکہ اگر دين ميں دوہرا معيار رکھا جائے تو وہ دين نہيں کھلواڑ ہے- آخر دين ميں کسی بات کو ماننا بھی پڑھتا ہے- ہر بات کو ويري ايبل قرار نہيں ديا جاسکتا ورنہ دين کی ہر بات قابل تبديلی ہے- پھر علماء اور مجددين سے اعلی ميعارکی توقعہ ہے ورنہ وہ مجديت کے قابل نہيں-

گمنام کہا...

"تو اب قابال کے اس شعر کے مطابق
"

ويسے اقبال سے ذيادہ قومی شاعر کہلانے کا اور کون مستحق ہے جنکی شاعری ميں سے قوم کا ہر فرد اپنی مرضی کا مطلب نکال سکتا ہے-

تانیہ رحمان کہا...

میں نے بھی بچپن سے سنا تھا کہ امام مہدی آہیں گے ۔ جب زرا بڑے ہوئے تو پتا چلا کہ شعیہ کے ہاں اور قادیانی کے ہاں امام مہدی آچکے ہیں ۔۔ امام مہدی کی نشانی یہ بتائی گئی کہ وہ کسی کنواری لڑکی کے ہاں پیدا ہوں گے جو پیدا ہوتے ہی بول پڑیں گے ۔میں بھی ابھی تک انتظار میں تھی ویسے قرآن میں تو نہیں لیکن حدیث میں تو آیا ہے ۔ باقی اللہ پاک مجھے معاف فرمائے

عنیقہ ناز کہا...

احادیث کی حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ کے انتقال کے تقریباً دو ڈھائ سو سال بعد جمع کی گئیں۔ اور اس پہ جتنے دعوی کئیے جائیں کہ انکی صحت کا یہ اور یہ خیال رکھا گیا ہے۔ جب کوئ شخص صحیح بخاری اٹھا کر پڑھتا ہے تو ایسی ایسی احدیچ سامنے آتی ہیں جنکو پڑح کر انسان کا مسلامن رہنا مشکل ہو جائے۔ اگرچہ کہ انکی صحت کے لحاظ سے انہیں درجے دئیے گئے ہیں لیکن جب کبھی عام لوگ انکا حوالہ دیتے ہیں تو اسکا پس منظر یا تو وہ جاتے نہیں یا وہ بتاتے نہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ اپنے بچپن سے میں یہ سنتی آئ کہ قیامت کے دن انسانوں کو انکے باپ نہیں بلکہ ماں کے نام سے بلایا جائیگا۔ لیکن جب شوعر آنے پہ مختلف طرح کی کتابیں پڑھنے کو ملیں تو اسکا حوالہ ایک جگہ یہ ملا کہ یہ ایک ضعیف حدیث ہے۔
جی ہاں بہت سارے مدثین اور مجددین گذرے ہیں، انکی تصنیفات موجود ہیں لیکن وہ سب انسانی کام ہے۔ ہماری ترجیح تو خدا کا کلام ہونا چاہئیے جسے قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا گیا یہے۔ میری اپنی عقل تو کہتی ہے کہ جس چیز کا قرآن میں تذکرہ نہیں اس پہ کسی کا بھی بحث کرنا بیکار ہے۔ اب چونکہ میں اس چیز پہ یقین رکھتی ہوں کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ انسانی عقل اس پختگی پہ پہنچ چکی ہے جہاں اسے نبوت کی ضرورت نہیں۔ البتہ علم، عقل اور تفکر انسان کو وجدان کی صلاحیت دیتے ہیں۔ اسے آپ نبوت سے تعبیر کر لیں تو الگ بات ہے۔ آپ نے مولانا رومی کے ایک قول کا تذکرہ کیا میں سمجھتی ہوں یہ اسی کے ذیل میں آتا ہے۔ جیسے رویائے صادقہ یعنی خوابوں کو نبوت کا چایلسواں حصہ کہا جاتا ہے۔
اب اگر ہم رویائے صادقہ کو ذرا تفصیل سے دیکھیں تو یہ بھی انسان کے بھرپور علم اور تفکر کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں اور حقیقت حال کو نیند کی حالت میں منکشف کر دیتے ہیں۔ انسانی دماغ بے پناہ طاقت رکھتا ہے مگر ابھی ہم اسکے استعمال سے پوری طرح واقف نہیں۔
ہم میں سے بعض لوگ اپنی کوشش اور محنت سے اسکو بہت حد تک استعمال کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں اور لوگوں کی اکثریت انہیں ماوارائ طاقتون کا حامل شخص سمجھ لیتی ہے۔ ماورا صرف خدا کی ذات ہے۔ اسکے علاوہ کوئ نہیں۔ باقی سب انسانی خوہشات ہو سکتی ہیں۔
اسی نکتے پہ آکر عام انسان اور خاص انسانوں کی تقسیم کرنی پڑ جاتی ہے۔ خاص انسان ماورائ طاقت نہیں رجحان رکھتے ہیں۔
،

عنیقہ ناز کہا...

ایک بات میں گمنام سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ وہ کسی نبوت کے دعویدار شخس کے لئے دلیل مہیا کرنا چاہتے ہیں یا خود مدعی نبوت بننا چاہتے ہیں۔ اگر کسی اور کے لئے کر رہے ہیں تو فائدے کی بات یہ ہے کہ انہیں خود ہی یہ بوجھ اٹھانے دیں۔ آپ اپنے لئے سوچیں اگر خود اس میدان میں آنے کا ارادہ ہے تو میرا مشورہ یہ ہے کہ اسکے بجائے ولائیت وغیرہ کا دعوی کر دیں۔ آستانہ بنائیں، ذرا باتوں میں جان پیدا کر لیں اور لوگوں کو پڑھنا سیکھ لیں تو مریدون کی ایک بڑی تعداد ہوگی۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا۔
اور اسماء آپ اپنا کام کر کے آجائیں بلکہ دنیا میں اپنے حصے کا کام کر کے چلی جائیں۔ یہ دنیا یونہی رہے گی۔
ویسے میں ایک بات جاننا چاہ رہی تھی کہ کبھی کسی خاتون نے نبی ہونے کا دعوی کیا ہے۔

پھپھے کٹنی کہا...

آدمی جب نبوت کا دعوی کرتا ہے يا چاند تاروں ميں اسکا چہرہ نظر آتا ہے تو بيوی کو بوجہ خوف ڈنڈا اسکی تائيد کرنی پڑتی ہے عورت اگر ايسا دعوی کرے تو مرد کا اتنا جگرا کہاں برداشت کا پی ايچ ڈی تو برداشت نيں ہوتی ان سے نبوت کيا برداشت کريں گے

پھپھے کٹنی کہا...

آدمی جب نبوت کا دعوی کرتا ہے يا چاند تاروں ميں اسکا چہرہ نظر آتا ہے تو بيوی کو بوجہ خوف ڈنڈا اسکی تائيد کرنی پڑتی ہے عورت اگر ايسا دعوی کرے تو مرد کا اتنا جگرا کہاں برداشت کا پی ايچ ڈی تو برداشت نيں ہوتی ان سے نبوت کيا برداشت کريں گے

عنیقہ ناز کہا...

ہاں مگر ایک خاتون کا یاد آگیا۔ وہ مسیلمہ کذاب کی بیوی تھی اور اسکی نبوت میں شراکت دار۔ بس اسکے علاوہ کسی اور خاتون کا نہیں پتہ چلا۔

Abdullah کہا...

انیقہ لگتا ہے آپنے گمنام کی صحیح رگ پکڑلی ہے :o)
رہی خواتین کے نبوت کا دعوی نہ کرنے کی بات تو سجاح بنت الحرث کے سوااور کسی عورت کے بارے میں سنا نہیں، شائد خواتین میں خود پسندی کی بیماری کم ہوتی ہے،

Abdullah کہا...

امام مہدی کا انتظار کرنے والے بھائی لوگوں سے گزارش ہے کہ یہ لاحاصل انتظار چھوڑدیں،
مہدی کا مطلب ہے ہدایت یافتہ تو بجائے امام مہدی کا انتظار کرنے کے خود ہدایت یافتہ بننے کی کوشش کریں یہ ہر لحاظ سے زیادہ فائدہ مند ہے کیا سمجھے!

مولانا چیگوریا کہا...

اگر جاپان ایک دین ھے تو جی کوریا بھی ایک دین ھے سے پوری هو جاتی هیں لوڈ شیڈنگ نهیں هوتی هے بے روزگاری نہی ھیجاپان ایک دین ھے تو جی کوریا بھی ایک دین ھے ؟ ،اس ملک میں جھوٹ بولنے کی ضرورت نهیں هے ، ملاوٹ کرنے کی ضروت نهیں هے ی ،، پاکستان اور کوریا میں جنت اور دوزخ جیسا فرق هے ؟ ،اس ملک میں

مولانا چیگوریا کہا...

جاپان ایک دین ھے تو جی کوریا بھی ایک دین ھ ،اس ملک میں جھوٹ بولنے کی ضرورت نهیں هے ، ملاوٹ کرنے کی ضروت نهیں هے ،، کسی کو دھوکه دینے کی ضرورت نهیں هےضروریات زندگی اسانی سے پوری هو جاتی هیں لوڈ شیڈنگ نهیں هوتی هے بے روزگاری نہی ملاوٹ کرنے کی ضروت نهیں هے ،، پاکستان اور کوریا میں جنت اور دوزخ جیسا فرق

عنیقہ ناز کہا...

خاور آپ نے میرا ایک تبصرہ کہاں غائب کر دیا۔ مجھے آپ سے یہ بالکل امید نہ تھی اور اس تبصرے میں تو ایسی کوئ بات بھی نہ تھی یا تھی۔

خاور کھوکھر کہا...

عنیقه صاحبه کوئی تکنیکی غلطی هو گی
یه نهین هو سکتا ہو میں کوئی تبصرھ ڈلیٹ کروں ، میں تو گالیوں والے تبصرے بھی ڈلیٹ نهیں کیا کرتا جو گالیاں مجھے دی گئی هوں
اس لیے اگر اب کے پاس وھ تحریر هے تو دوبارھ مہربانی فرمائیں ءکیونکه میں سمجھتا هوں که کوئی بھی پوسٹ اس پر تبصروں سے هی مکمل هوتی هے
اور اس پوسٹ پر تو بڑے مدلل تبصرو پڑھنے کو ملے هیں
اپ کے تبصروں سے میں پےچھنا چاھتا تھا که تحقیقی ذھن رکھنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو بخاری وغیرھ کی کتابیں جو احادیث کے نام پر لکھی گئی هیں ان میں نقص نظر کیوں اتے هیں اور تقلیدی ذھن والے ان کتابوں کی حمایت میں لڑائی پر کیوں کمر بسته هو جاتے هیں ؟؟

عنیقہ ناز کہا...

خاور صآحب میرے پاس تو کوئ تبصرہ محفوظ نہیں رہتا۔ وہ تبصرہ یہاں ظاہر ہوا تھا جبھی تو عبداللہ نے لکھا کہ میں نے انکی دکھتی رگ پکڑ لی ہے۔ لیکن پھر وہ غآئب ہو گیا۔ کوئ تیکنیکی غلطی ہوگی۔
آپ نے تحقیقی اور تقلیدی ذہن رکھنے والے روئیے کی بات کی ہے۔ اس کی مثال تو بالکل آسان سی ہے۔ اگر میں اپنے بچوں سے اندھا دھند محبت کرتی ہوں اور انکی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی اور نہ اپنے ارد گرد کے حالات کو نہ میں انکی شخصی خصوصیات کی کوئ تمیز رکھتی ہوں۔ تو وہ میری غیر موجودگی میں چاہے جیسی شرارت کر لیں ، جب بحی کوئ میرے پاس انکی شکایت لائے گا میں اس سے لڑنا اور اسے برا بھلا کہنا شروع کر دونگی۔
جبکہ دوسری طرف اگر میں ان پہ تجزیات نظر رکھتی ہوں تو میں پہلے سے ایک اندازہ لگانے کے قابل ہونگی اور اگر کوئ شکایت کرتا ہے تو مجھے معلوم ہوگا کہ یہ کس حد تک درست ہوگی۔
تقلید ایک بے تحاشہ محبت ہی ہے جسے وہ عقیدت کا بھی نام دے لیں۔ اس صورت میں وہ یہ کرتے ہیں کہ اپنی کمزور چیزوں کو چھپا لیتے ہیں اور نہیں بتاتے۔ لیکن اب دنای اتنی کھل چکی ہے کہ کسی چیز کو چھپانا ممکن نہیں رہا۔ آپ اگر مجھے الف بتا کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ اور باقی چیزوں کو سربستہ راز کہہ دیتے ہیں تو محض چند بٹن دبانے پہ یہ سربستہ راز میرے سامنے زانو موڑے بیٹھے ہوتے ہیں اب اگر میں تھوڑی سی محنت کروں تو یہ سب چیزیں سامنے آجاتی ہیں جنہیں ایک زمانے کے بزرگوں نے اپنی ساری زندگی خرچ کر کے حاص کیا تھآ۔
بہر حال ان متنازع حدیثوں کے موضوع پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ یہ احادیث صحیح بخاری میں اسی طرح موجود ہیں۔
اگر کوئ شخص دین اسلام کی روح کو نہ سمجھتا ہو تو اسکے لئے بڑی مشکل ہو کہ وہ کیا کہے۔
اور جب ہم رسول اللہ کی ذات پہ حملہ کرنےوالوں کی تحریروں کو پرھتے ہیں تو وہ دراصل اسی قسم کی احادیچ سے مستفید ہو کر لکھی گئ ہوتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ نے اپنی حیات میں حدیث کے تحریر کرنے پہ پابندی لگائ تھی اور حضرت عمر فاروق کو ایسی کوئ تحریر ملتی تو وہ اسے پھاڑ دیتے تھے۔ مگر اب دوسری طرف اسکی حمایت میں شبلی نعمانی کی سیرت النبی دیکھیں تو لکھا ہے کہ ایک وقت میں انہوں نے پابندی لگائ تھی مگر دوسرے وقت میں اسکی اجازت بھی دیدی تھی۔ میں تو اس نتیجے پہ پہنچی ہوں کہ قرآن پاک کو سختی سے تھامنا چاہئیے اور جس چیز کی قرآن پاک میں دلیل نہیں ملتی اسے تسلیم نہیں کرنا چاہئیے۔ زندگی بہت سادہ بنیادی اصولوں کے ساتھ آسانی سے گذاری جا سکتی ہے۔

Abdullah کہا...

Monday, 5 April 2010 14:58:00 GMT+09:00
عنیقہ ناز said...
ایک بات میں گمنام سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ وہ کسی نبوت کے دعویدار شخس کے لئے دلیل مہیا کرنا چاہتے ہیں یا خود مدعی نبوت بننا چاہتے ہیں۔ اگر کسی اور کے لئے کر رہے ہیں تو فائدے کی بات یہ ہے کہ انہیں خود ہی یہ بوجھ اٹھانے دیں۔ آپ اپنے لئے سوچیں اگر خود اس میدان میں آنے کا ارادہ ہے تو میرا مشورہ یہ ہے کہ اسکے بجائے ولائیت وغیرہ کا دعوی کر دیں۔ آستانہ بنائیں، ذرا باتوں میں جان پیدا کر لیں اور لوگوں کو پڑھنا سیکھ لیں تو مریدون کی ایک بڑی تعداد ہوگی۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا۔
اور اسماء آپ اپنا کام کر کے آجائیں بلکہ دنیا میں اپنے حصے کا کام کر کے چلی جائیں۔ یہ دنیا یونہی رہے گی۔
ویسے میں ایک بات جاننا چاہ رہی تھی کہ کبھی
کسی خاتون نے نبی ہونے کا دعوی کیا ہے۔

انیقہ آپکا یہ تبصرہ پوسٹ پر اب بھی موجود ہے اور مینے اس پر ہی اپنا جملہ لکھاتھا !

عنیقہ ناز کہا...

شکریہ عبداللہ۔

Unknown کہا...

Mr.Khawer ap ki taswerein dekhein bahut pasand ain aur us bi ziyada Ganey bahut pasand aye.god effort best of luck

Amjad Azeem

amjadraja66@hotmail.com

گمنام کہا...

اتنابھی پاکیزہ نھیں ھےجی اپناجاپان۔ صراط مصتقیم والامعملہ توزرہ مشکل لگتاھے۔یاسرخوامخواہ جاپانی

Memon کہا...

خاور صاحب ، آپکی تحریروں سے یہ تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کچھ غوروفکر کرتے ہیں ۔ لیکن دین کے معاملے میں آپ کافی کنفیوژ بھی لگتے ہیں ۔ عقل کی اہمیت اپنی جگہ ، لیکن انسان کی عقل اور اس کا علم بہرحال محدود ہے ، چنانچہ بہت سی صورتوں میں تقلید بھی ضروری ہے ۔ یقیناً پیروں یا مولویوں کی نہیں ، لیکن علماء کی ۔ باقی آپ کس شخص کو عالم مانتے ہیں ، اس کا انحصار آپ کے اپنے علم اور عقل پر ہے ۔ گویا تقلید کے لئے بھی ایک حد تک علم اور غور و فکر ضروری ہے ۔ لیکن تقلید کو مجرد برا کہنا بھی کوئی صحت مندانہ سوچ نہیں کہی جا سکتی ۔ بحث میں بھی متوازن رویہ ضروری ہے ۔
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے ۔ یہ بات کسی مولوی نے نہیں کہی بلکہ خالق کائنات نے قران کریم میں کہی ہے ۔ اب اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ کو اسے ماننا پڑے گا ۔ اور پھر قران کو سمجھنے کے لئے شارح قران کا عمل یعنی سنت اور ان کے اقوال یعنی حدیث کو بھی اہمیت دینی ہوگی ۔ یقیناً احادیث کا جائزہ قران کی روشنی میں لیا جائے گا ۔ لیکن اگر آپ قران کے علاوہ سب کچھ مسترد کرتے ہیں ، تو آپ اللہ کے احکامات پر عمل بھی نہیں کر سکتے ۔ قران میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ، مگر اس کا طریقہ نہیں بتایا گیا ۔ اس کے لئے آپ کو حدیث یا سنت سے سیکھنا پرے گا ۔
جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے نظاموں کی خوبیاں اپنی جگہ ، لیکن میرے خیال میں اسے دین کہنا ٹھیک نہیں ۔ نہ ان کی ترقی کی وجہ لادینیت ہے ، اور ہماری زبوں حالی کی وجہ اسلام ۔ ہمارے مسائل میں دوغلا پن ، بے عملی ، لالچ وغیرہ جیسے معاملات ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے یقینی بھی ایک مسئلہ ہے ۔ ہم مسلمان ہونے کا انکار نہیں کرتے ، کیونکہ آخرت پر یقین ہے اور دوزخ سے ڈرتے ہیں ۔ لیکن ہم حقیقی طور پر مسلمان بھی نہیں ہوتے ، کہ اسلام ہمیں موجودہ دور سے میچ کرتا ہوا نہیں لگتا ۔ ہم تذبذب کا شکار ہیں ، اس لئے اچھا ملک ، اچھا دین لگنے لگتا ہے ۔ حالانکہ اللہ نے خود پر اعتقاد نہ رکھنے والوں کو آخرت میں جہنم کی وعید سنائی ہے ، لیکن دنیا میں ان کے لئے رزق کے دروازے بند نہیں کئے ۔ دنیا کے لئے ایک نظام ہے ، جس میں کم تولنے والوں کو رزق میں کمی کا سامنا ہوگا ، چاہے وہ اعتقاد رکھتے ہوں ، اور پورا تولنے والوں کو رزق کی فروانی ملے گی ، چاہے وہ مالک کائنات کا انکار کرتے ہوں ۔
بہرحال ، خاور صاحب ، مولوی سے نفرت کرتے کرتے ، آپ علماء سے بھی ، اور کبھی کبھی لگتا ہے کہ اسلام سے بھی متنفر ہو گئے ہیں ۔ اپنے رویے میں اعتدال پیدا کیجئے ۔

عنیقہ ناز کہا...

انور صاحب، احادیث سے کوئ بھی شخص اس وقت تک فائدہ نہیں اٹھا سکتا جب وہ اس تاریخ سے واقف نہ ہو جن حالات میں اسلام آیا، جب تک وہ رسولا اللہ کے بنیادی طرز فکر کے بارے میں جاننے سے دلچسپی نہیں رکھتا۔ صرف ان احادیث سے مدد لیجا سکتی ہے جو بالکل واضح ہوں اور دین کی شرح میں استعمال کے لئے بے حد ضروری ہوں۔ ورنہ عالم یہ ہے کہ ایک حدیث ایک عالم ایک مءوقف کے صحیح ہونے کی لاتا ہے اور دوسری حدیث دوسرے کے صحیح ہونے کی اور آپ ہر دو میں سے کسی کا انکار نہیں کر سکتے۔ حتی کہ اوپر موجود کئ مثاولں سے آپ کود بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ ہر دو فریق میں سے کسی کو کچھ نہیں کہہ سکتے اور پھر لامحالہ مذہب کی بساط علماء کے حوالے کرنی پڑتی ہے اور ان میں آپس میں گروہ بندیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ حالانکہ دین تو یہ نہیں چاہتا کہ دین کو وجہ ء نزاع بنا لیا جائے۔ دین تو انسان کی زندگی میں آسانی اور مبت چاہتا ہے مگر اب یہی دین نفرت پیداکرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور مختلف سطحوں پہ اس بات کی کوشش کی جاتی رہتی ہے کہ بس ہمارے علاوہ کوئ اور مسلمان نہ رہنے پائے۔
آپ نے کہا کہ لوگ یوم آخرت سے اور دوزخ سے ڈرتے ہیں اس لئے مسلمان ہپیں۔ جبکہ عملی طور پہ اسکا الٹ نظر آتا ہے لوگ اس لئے مسلمان ہیں کہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں اور کئ نسلوں سے یہ انکی روایت ہے۔ اگر فی الواقع لوگ یوم آخرت اور دوزخ کے وجود پہ یقین رکھتے تو اپنے اعمال اور اقوال کے سلسلے مین انکی نیندیں حرام ہو چکی ہوتیں۔
اب آپ بتائے آپنے کتنے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو اس بات پہ پریشان ہو کہ ہم نے دین کے خلاف یہ کام کیا ہے اور ہم پریشان ہیں کہ یوم آخرت میں ہمارے ساتھ کیا ہوگا۔
اگر ایسی سوچ ہوتی تو جو کرپشن کی سطح ہمارے یہاں یا کسی بھی مسلم ملک میں موجود ہے وہ نہ ہوتی۔
خدا کے وجود کا لوگ صرف زبانی اقرار کرتے ہیں۔ اگر انہیں اس پہ اتنا یقین ہوتا تو پاکستان، تو پھر واقعی پاک لوگوں کی جگہ ہوتی۔
اگر ایسا ہوتا تو وہ اپنی بات کہنے سے پہلے سوچتے خدا دیکھ رہا ہے مجھے کیا کہنا چاہئیے، مجھے کیا کرنا چاہئیے۔ اگر انہیں اسکا اتنا ہی یقین ہوتا تو وہ اپنے فرائض تندہی سے انجام دیتے، جو وعدے کرتے پورے کرتے ہر وقت انہیں یہ فکر دامنگیر رہتی کہ ہمارےے قول اور فعل سے کسی مخلوق خدا کو نْصآن نہ پہنچ جائے۔
لیکن آپ مجھے بتائے کہ کیا آپ ایسا ہی دیکھتے ہیں۔ یا مبادا میں زیادہ حساس ہوں اور چیزوں کو زیادہ مالغہ آرائ میں دیکھتی ہوں۔ میں
تو یہ دیکھتی ہوں کہ دین کی ایسی باتیں کھوج کھوج کر نکالی جاتی ہیں جن سے عام انسان کو نہ کوئ سروکار ہوتا ہے اور نہ فائدہ۔ اور پھر لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ دین سے متنفر ہیں۔ آخر انہیں دین سے کون متنفر بنا رہا ہے۔
یہ اسلام کے سادہ اور آسان سے قوانین ہیں یا------۔

Memon کہا...

عفیفہ ناز صاحبہ ،
جواب کا بے حد شکریہ ۔

جہاں تک احادیث میں اختلاف کا تعلق ہے ، تو بہرحال وہ چند احادیث میں ہے ۔ زیادھ تر بالکل واضح ہیں ۔ باقی جہاں تک مذہب کی بساط علماء کے حوالے کرنے کا تعلق ہے ، تو اس میں برائی کیا ہے ؟ ہر شعبے میں اسپیشلسٹ ہا ماھرین کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے ۔ علماء احادیث یا فقہ کے ماہر ہوتے ہیں ، جو تاریخ یا کسی حدیث کے پس منظر کو سمجھتے ہوئے بات کرتے ہیں ۔ ویسے پس منظر تو قران کی آیات کو سمجھنے کے لئے بھی ضروری ہے ۔
ہم سب لوگ بخار یا نزلہ زکام کی صورت میں استعمال کی جانے والی دواؤں سے واقف ہوتے ہیں ، اور اکثر ڈاکٹر سے رجوع بھی نہیں کرتے ۔ لیکن کینسر وغیرہ کا معاملہ ہو تو لامحالہ ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح دین کے مشکل مسائل کے لئے علماء سے رجوع کرنے میں کیا حرج ہے ؟ اور رہا اختلاف ، تو کیا ڈاکٹروں یا انجینئروں میں اختلاف نہیں ہوتا ؟ کچھ جاہل عطائیوں کی وجہ سے ہم پورے طبی شعبے کو برا نہیں کہتے ، لیکن چند جاہل مولویں کی وجہ سے پوری علماء برادری کی تضحیک کرتے ہیں ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟
آپ کی یہ بات درست ہے کہ اگر فی الواقع لوگ یوم آخرت پر ایمان رکھتے تو برے کام نہ کرتے ۔ بالکل ٹھیک کہا آپ نے ۔ لیکن میرا مدعا کچھ اور تھا ۔ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ لوگ دین پر مکمل اعتقاد نہ رکھنے اور اسے ہر زمانے کے لئے قابل نہ سمجھنے کے باوجود اسلام کو ترک اس لئے نہیں کرتے کہ کسی نہ کسی حد تک انہیں آخرت پر یقین ہوتا ہے ، اور وہ ہمیشھ کے لئے جہنم کا رسک نہیں لینا چاہتے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ، کچھ عرصہ کی سزا کے بعد وہ جنت کے حقدار ہونگے ۔ اس لحاظ سے وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، لیکن ان کا اسلام دل کی گہرائیوں سے نہیں ہوتا اس لئے اس پر عمل نہیں کیا جاتا ۔

Abdullah کہا...

، اور وہ ہمیشھ کے لئے جہنم کا رسک نہیں لینا چاہتے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے ، کچھ عرصہ کی سزا کے بعد وہ جنت کے حقدار ہونگے ۔ اس لحاظ سے وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، لیکن ان کا اسلام دل کی گہرائیوں سے نہیں ہوتا اس لئے اس پر عمل نہیں کیا جاتا

معاف کیجیئے گا انور صاحب مگر میں اسے یہودی سوچ سمجھتا ہوں!

خاور کھوکھر کہا...

انور صاحب ، آپ کے دلائل بہرحال مجھے ملنے والے بہت سے علماء سے بہتر هیں . لیکن یه کچھ اس طرح کے هیں جیسے که اج سے کچھ دھایاں پہلے پاکستان میں کہتے تھے که پولیس میں کچھ کالی بھیڑیں هیں اور اج ؟ یه محکمه هی کالی بھیڑوں کا ریوڑ لگتا هے
مجھے عنیقه ناز صاحبه کی بات سے اس لیے اتفاق ہے که عنیقه صاحبه کچھ اس سوچ سے بات کررهی هیں که جہاں بھی کسی فتنه پرست کو ضرورت پڑتی هے وھ کوئی ناں کوئی بات حدیث نامی کتابوں سے نکال لاتا ہے
تو اسلام سے فتنوں کو ختم کرنے کے لیے اگر ان کتابوں کو ایمان سے نیچے کا کوئی درجه قائم کرلیں تو کیا ہے ؟؟
همارا مقصد ایک الله کی ربوبیت میں اچھا معاشرھ بنانا هونا چاھیے ناں که اسلام کے نام پر اپنی سوچوں اور خواہشات کے مطابق .
بنی اسرائیل ، عسیائی ،اور مسلمان سبھی کہتے هیں که جنت ان کے لیے هے ، بلکه اسلام میں تو ایک خاندان ایسا بھی هے جو جنت دلوانے کا ٹھیکیدار بھی مانا جاتا يے
تو یهان سوال پیدا هوتا ہے که همارا اخرت پر ایمان کیا یه ہے که کلمه نامی منتر سے جنت تو ملنی هو هے اس لیے جو جی چاھے کرو جی
اور جہنم کسی لیے بنائی گئی ہے ؟
بے چارے جاپنایوں اور چینیوں کے لیے؟؟
اور انور صاحب اپ تو جاپان میں رھتے هیں ، کیا جاپانی اگر جہم میں چلے گئے تو جس طرح کی ان کی عادتیں هیں کیا جہنم کو بھی ائیر کنڈیشن ناں کرلیں کے ؟
اور ہم لوگ اگر جنت میں بھی چلے گئے تو جنت کیا حال هو گا ؟؟
بس جی الله سائیں خود کنٹرول کریںں گے اس لیے هی جنت جنت رهے گی ورنه ؟؟؟

Memon کہا...

خاور صاحب ، اپنی اپنی ‘سوچ کا فرق‘ ہے ، اس لئے اس بحث کو آگے بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ البتہ ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا ۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ علماء سے کم ملے ہیں ، مولویوں سے زیادھ ۔

Popular Posts