خاصاں دیاں باتاں
میاں محمد بخش صاحب جنہوں نے منظوم سیف الملوک پنجابی لکھی ہے ان کا ایک شعر هے
خاصاں دی گل عاماں اگے تے نہیں مناسب کرنی
دودھ دی کھیر بنا محمد کتاں اگے دھری
معنی هیں اس کے که اہل فکر یا اهل دانش کی باتیں عام لوگوں کے سامنے کرنا ایسے هی هے جیسے که دودھ کی بنی کھیر کتے کے سامنے کھانے کو رکھ دی جائے
که کتے کو تو پیٹ بھرنے هے مطلب ہے ناں کی کھانے کی کوالٹی سے ـ
یہاں میاں عاصم رضا صاحب هیں جاپان میں یه صاحب کسی حد تک خاصاں میں شامل هیں
کسی حد تک اس لیے که پورے خاصاں نہیں هیں
انہوں نے جب یه شعر میرے منه سے سنا تو کہنے لگے که اب کو شعر میں غلطی لگ رهی هے
میاں صاحب نے دودھ کی کھیر نهیں میٹھی کھیر کها تھا
کیونکه کھیر تو دودھ کے سوا بن هی نهیں سکتی
تو میں نے ان کو بتایا که کھیر گنے کے رس کی بھی هوتی هے جس کو پنجابی میں رو دی کھیر کهتے هیں
کھیر بنولے کی بھی هوتی هے جو بھینسوں کو کھلائی جاتی ہے
اس کو پنجابی میں وڑیویاں دی کھیر کہتے هیں اور کھیر باجرے کی بھی هوتی هے !!ـ
یه سن کر میاں عاصم رضا نے خاموشی اختیار کرلی تھی ،
اج موضوع هے جی که خاصاں دی گل
عاماں اگے
وه استاد دامن نے بھی کہا تھا
جے چاھنا ایں ناں دامن تینوں ٹھیس لگے
تے جاھلاں وچ دانائی تقسیم ناں کر
قبر پرست ، شخصیت پرست ، بت پرست وغیرھ سے اگر اپ ناں نظر انے والے اللّه کی بات کرکے توحید سے معاشرے کو کیا فوائد حاصل هوتے هیں اور یه کتنے دائیمی هوتے هیں
ان فوائد کی وضاحت یا تصیل بتانے لگیں تو
یه عامان جو حال آپ کا کریں گے وھ
آپ خود کو عاماں تو کیا ذلیل سے محسوس کریں گے
چمچے بن کر یا بنا کر رکھنے والے معاشرے کے بظاهر بااثر لوگوں کو برابری کی بنیاد پر ملنے اور دوستیان بنانے کے معاشرتی فوائد بتا کر دیکھیں
هو سکتا هے که علاقے کا تھانے دار آپ کی تشریف کو لال سرخ کردے
آپ کے گاؤں کا کوئی لڑکا فرانس مزدوری کے لیے پہنچ جاتا ہے آپ اس کو کرسچن ڈیور ، یا ایو سینلورن کی یا کسی بڑے برانڈ کی شرٹ لے دیتے هیں
اور وھ اس شرٹ کو پہن کر رنگ کے کام میں کام والے كپڑوں کے طور پر استعمال کرنے لگتا هے تو
خاصاں دی گل عاماں اگے والی بات هو جاتی هے
کھانے کے شوقین عام لوگ جن کے نزدیک کھانے کی کوالٹی نهیں کوانٹٹی هوتی هے ان کو آپ سوشی کھانے کے لیے لے کر جاتے هیں تو ان کا منه دیکھ کر آپ کو شرمندگی هو گي
که
خاصاں دی گل عاماں اگے کرکے دیکھیں
وھاں فرانس میں ایک لڑکا تھا ہمارے گاؤں کے پاس کے گاؤں گا ، ایک دن کہنے لگا میں بھی دنیا بھر کے کھانے کھا کر دیکھے هیں ، کوئی زیادھ فرق نهیں هوتا ہے
میں نے اس سے پوچھا که آووکیٹ نامی کالا سا بدھا سبزی کی دوکانوں پر دیکھا ہے اس کا مزھ کیسا هوتاهے ؟
اس کا جواب تھا
واھ واھ هوندا اے
یعنی اچھا مزے دار هوتا ہے
میں نے دوبارھ پوچھا
میٹھا هوتا ہے نمکین هوتا هے
یا پھر ؟
تو جی اس کا جواب تھا
که تم بتاؤ که کہاں هوتا ہے پنجاب میں
چیز نان؟؟
یہان فرانس ميں هر ریسٹورینٹ میں ملتا هے
اب اس کے نزدیک هو ریسٹورینٹ کا مطلب تھا
جی دیسی ریسٹورینٹ
بات هو رهی تھی
خاصاں دی گل عاماں اگے
تو جی اپ دن میں پانچ دفعه مسواک کےکرنے سے کھانے کی اشتہا کم هونے کا بتا کر دیکھیں
کسی موٹے سے پاکستانی کو
جس کا پیٹ توند بنا هو جس کا گند کا ایگزیٹ مٹکے بنا هو
تو
جی
خاصاں دی گل عاماں اگے
ایک دن یہاں میں ایک ٹرانسپوٹر کے دفتر ميں بیٹھا تھا
ٹرک خریدنے کے لیے گیا تھا
اس سے کوئی بھٹی نامی پاکستانی پہلے ٹرک خریدتا تھا
اس جاپانی ٹرانسپوڑر کی بیوی نے پوچھا که وھ اتنا بے ہنگم موٹا کیوں هے ؟؟
تو میں اس کو بتایا که بچپن سے کھانے کو ترسے هوئے لوگوں کو جب کھانا میسر اتا ہے تو بس کھائے هی چلے جاتے هیں
اور اس کو وھ لوگ کھاندے پیندے گھر کا کہتے هیں
اصلی والے کھاندے پیندے گھر میں آپ برطانیه کے شاہی خاندان دیکھ لیں یا جاپانی شاھی خاندان
بل گیٹس کو دیکھ لیں یا کسی اور خاصاں کے امیر کو
لیکن جی بات پھر وھیں آتی هے
خاصاں دی گل عاماں اگے
جمہوریت کی ڈیفینیشنز، دین (سسٹم ) کی بات
سیاسی پارٹیوں کی خاصیت اور ساخت ، صفائی ، طہارت ، تکینک ، کسی بھی معاملے میں اپ خاصاں دی گل عاماں اگےکر کے تو دیکھیں
ساری باتیں ایک طرف اور ایک حقیقت که میں خود بھی ایک عاماں میں سے هوں
اور تکنیکی طور پر اور علمی طور پر بھی مجھے سے کہیں زیادھ علم اور سمجھ رکھنےوالے لوگ انٹر نیٹ پر بھی اس وقت یه پوسٹ پڑھ رهے هیں
هو سکتا ہےکه ان میں سے کچھ زیر لب مسکرا کر سوچ رهے هوں
خاصاں دی گل عاماں اگے!!!ـ
8 تبصرے:
بہت اچھا لکھا ہے ماشاء اللہ۔ ویسے میرے خیال میں بھی میاں محمد بخش صاحب نے "مٹھی کھیر" کہا تھا لیکن بہرحال میں بھی عامی ہی ہوں سو غلطی کا احتمال تو ہے ہی۔ :)
ہم نے بھی مٹھی کھیر ہی سن رکھا ہے مگر اس سے ثابت ہوا کہ ہم بھی عام آدمی ہیں۔ لیکن اس سے قبل آپ باقاعدہ تحقیق سے ثابت کر چکے ہیں کہ دودھ دی کھیر ہے اسلیے ہم کون ہوتے ہیں آپ کی بات کو جھٹلانے والے۔
ویسے یہ حقیقت ہے کہ آدمی عام ہی رہے تو سیکھتا ہے جب خاص ہو جاتا ہے تو پھر وہ وہیں پر رک جاتا ہے۔
آپ نے روہ کی کھیر اور بوہلی یاد دل دی کیا ظلم کیا ۔
'روہ نوں کہو ہن روہ محمد ہن جے رویں تے مناں'
محمد بخش صاحب کا کلام پڑھ کر آدمی سُدھ ہو جاتا ہے ۔ مجھے پہلے ہی ايک حکم ان کا کلام لکھنے کا آ چکا ہے ۔ اور آپ نے بھی مجھے للکار ديا ہے ۔ لکھنا ہی پڑے گا ۔ محمد بخش صاحب رياست جموں کشمير کے صوبہ جموں کے اس علاقہ میں پيدا ہوئے جو اب آزاد جموں کشمير کہلاتا ہے جب کہ میں صوبہ جموں کے اُس علاقہ میں پيدا ہوا تھا جو بھارت کے جابرابہ قبضہ میں ہے
سب بکواس ہے پینڈوں کے
" Anonymous said...
سب بکواس ہے پینڈوں کے "
آپ کے لئے تو پوسٹ کا ٹائیٹل ہی کافی ہے
:D
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کو بگاڑنے میں اس طرح کی شاعری کا بھی خاصا ہاتھ ہے ۔ اس سے اکثر عامی خود کو خواص سمجھنے لگتے ہیں ۔
خاور صاحب نے بھی آخر میں خود کو عامی ضرور کہا ہے لیکن پوری تحریر میں یہ غرور جھلکتا ہے کہ میں خاصوں میں سے ہوں ، جو عامیوں کو یہ بات سمجھا رہا ہے ۔
بنیادی طور پر سب انسان برابر ہیں ۔ خاور جیسے لوگوں کی محنت اپنی جگھ ، لیکن انہیں بھی تو ان سے زیادہ علم والوں نے عزت دی اور سکھایا ۔ اگر وہ ان کو عامی کہہ کر ان کو لفٹ نہ کراتے ، تو وہ بھی گنوار کمی کمین ہی رہتے ۔
میرے خیال میں خاص وہ ہیں جو علم اورر عقل کی بات سننے اور سمجھنے کو تیار ہیں ۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب جانتا ہے اور اسے سب سمجھ ہے وہ کم از کم خواص تو نہیں ہو سکتا
ایک تبصرہ شائع کریں