پیر، 9 نومبر، 2009

پیسے کتھوں آؤن گے

پچھلی پوسٹ میں میں نے حساس ادارے کے ایات لکھنے اور ان کے آگے ڈالر کا نشان بنانے کی طرف اشارھ کیا تھا
که ان کو ڈالر کے هی خواب آتے هیں
آپ پاکستان کے کسی بھی اربار اختیار سے پوچھ لیں که ترقی کے کام کیوں نهیں کرتے
تو ان کا سوال نما ترت جواب هوتا هے
پیسے کتھوں آؤن دے ؟؟
میں تو جی چپ هی هو جاتا هوں که هم دونوں میں سے ایک ضرور جاہل ہے
میں اس لیے جاہل هوں که مجھے کار حکمرانی کے رموز معلوم نهیں هیں
یا پھر سامنے والا صاحب اختیار که اس کو ایک ایک گاؤں چلانے کا بھی معلوم نهیں هے اور ملک چلانے کے کام پر لگا دیا گیا هے
مثال کے طور پر ایک گاؤں ہے جس کا نام رکھ لیتے هیں جاٹوں کا پنڈ
اس میں جاٹوں نے فیصله گیا که هم اپنے اپنے لڑکوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کریں گے اور بیبیاں گھر سے کھانا وغیرھ بنا کر لائیں گی اور کھیتوں میں بھی اگر هو سکے تو ہاتھ بٹائیں گی
اور گاؤں کے ہنر مند لوگوں کو هماری مدد کرنی هو گی اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق
لوہار لوہے کے سارے کام کرے گا
تیلی سرسوں اور دوسرے بیجوں سے تیل نکالے گا
کمہار باربرداری کا کام کرے گا
اسی طرح سے سب لوگ کام کریں گے
که جو جس کا کام هے وہی کرے گا
جس کے لیے جاٹ اس کو اپنے اناج سے اتنا حصه دیں گے که اس کو کھانے کی پریشانی ناں هو
کھیتوں سے اٹھنے والی کپاس سے حصه که کٹروں ميں خود کفیل هو
گنے میں سے حصه که میٹھے ميں خود کفیل هو
سبزیوں میں حصه که ہانڈی چلتی رهے
لیکن اس کی عوض میں سب کو اپنے اپنے کام ناں صرف جاٹوں کے لیے بلکه دوسرے ہنرمندوں کے لیے بھی کرنے هوں گے
اس گاؤں کو سوائے نمک اور لوہے کے باہر سے کوئی چیز نهیں خریدنی هو گی
که گھر کے چاول ، گندم ، جو ، باجرھ ، مکئی ، سرسوں ، آلو ، هو گی
انڈوں اور کوشت کے لیے مرغیاں پالی جائیں گی جو که ہر گھر کی آپنی اپنی بھی هو سکتی هیں یا پھر ایک گھر کی ڈیوٹی اس پر لگا دی جائے گی که سب کی مرغیاں پالے اور اس کو بھی سب کی طرح سے بانٹ کر سب چیزیں ملیں گی جو اس کےروٹی کپڑے اور مکان کے لیے کافی هوں گی
کچھ اس طرح سے که بغیر پیسوں کے باٹر سسٹم په ایک گاؤں چل جائے گا
اور یه کوئی بڑی عقل کی بات نهیں هے
ہمارے سارے هی گاؤں آج سے کچھ دەایاں پہلے اسی طرح چلا کرتے تھے
بس جی پھر یه هو گا که ابادی کے بڑھنے سے کاموں کو کنٹرول رکھنےکے لیے دفتری نظام بنانا پڑے گا جس کے لیے اپنے هی پڑھے لکھے لڑکے کام کر لیں گے
جو آہسته آہسته اپنی تعلیم کی وجه سے نفیس کپڑے نفیس کھانے اور نفیس کاموں کی وجه سے "بڑے " لوگ بن جائیں گے
اور کھیتوں میں کام کرنے والے ورکشاپوں میں کام کرنے والے گندے کپڑے پہنے لوگ " عوام " بن جائیں گے
اب عوام سے تعلق سے کتراتے هوئے یه لوگ اپنا ایک علیحدھ سٹیٹس بنا لیں گے جن میں اپس کی رشته داری اور میل ملاپ سے نفاست کا گند(غریبوں کے ٹیسٹیکل آرتھ کرکے) پھلاتے پھریں گے اور کام دھندے پر کنٹرول کم هو کر پیداوار میں کمی هو گی
جس کے لیے امریکه سے مدد مانگ لی جائے گی اور پھر
ان بڑے لوگےں کو یه بھی بھول جائے گا که ان کو کسی کام کے لیے کن لوگوں نے رکھا تھا
اور نظریں امریکه پر هی لگی رہیں گی که کب مدد آئے اور نفیس لوگوں کے نفیس کام چلیں
اس لیے جب عوام میں سے کوئی خاور اگر پوچھ هی بیٹھے گا که ترقیاتی کام کیوں نهیں کرتے تو
ان کا جواب نما سوال هو گا
پیسے کتھوں آؤن گے

4 تبصرے:

Bdtmz کہا...

Yeh Namak or loha khareednay k liye paisay kitho ayon gay? :d

جعفر کہا...

بہت اعلی

گمنام کہا...

Jahil .... Badtameez (Bdtmz),
aisey sawalat naheen poochtey!
samajh gaye.....

DuFFeR - ڈفر کہا...

پیسے بھی آ جائیں گے
بقول زردارہ چڑیلین ڈائنیں
اور بقول فردوس عاشق اعوان صاھبہ
ہیرا منڈی کا مال
کس لئے سٹور کیا ہوا ہے؟؟

Popular Posts