بدھ، 10 ستمبر، 2008

اپنے من میں ڈوب

بھگت کبیر کا ایک شعر ہے
تن مٹکی ، من دھی ، سرت بلوھن ھار
کبیرا ماکھن کھا گیو چھاچھ پئے سنسار

جسم کو آگر ایک مٹکا سمجھیں تو دل کو دھی اس جسم کے مٹکے میں دل کے دھی کو ڈال کے عقل کی مدانی سے بلوھنے والے اس واردات کو کرکے مکھن خود کھا گئے اور لسی بیچارے لوگوں کے لیے رھ گئی ـ

میں ذولفقار بھٹو کو پسند کرتا هوں که اس کے دور میں غریب کو اپنی طاقت کا احساس هوا بھٹو بڑا بندھ تھا جی که تن کی مٹکی میں من کا دوھ بھی تھا اور بلوھنے والی عقل بھی اور یارو بھٹو خود تو سولی پر چڑھ کر لوگوں کے دلوں میں زندھ رھ جانے کا ماکھن خود کھا گیا ور اب
باقی بچی لسی اس کو بیٹی نے بھی پی اور اس کا جنوائی بھی پی رها هے
اگر بھٹو کی بلوهی هوئی لسی ناں هوتی تو کیا بے نظیر بے نظیر بن پاتی یا پھر زرداری صاحب کے زر کے طرح داریاں هوتیں ؟؟
اس کے بعد میں پسند کرتا هوں نواز شریف کو که اس کے پہلے دور میں پیلی ٹیکسی اور غریب کو قرضے دینے کے عمل نے لوگوں كو ایک طرح کی اسائیش دیکھائی تھی ـ
بعد میں تو جی بھاری مینڈک نے پھدک پھدک کر وه حال کیا که بقول منو بھائی کے پندرھویں ترمیم کی کوشش میں تھے که امیر المومنین هی بن جائیں ـ
پاکستان میں سیاست چالاکی اور عیاری کا نام بن کر رھ گئی هے
جمہوریت کے معنی هی بدل دیے گئے هیں
الکشن کو تو برداشت هی نہیں کیا جاتا
بس سلیکشن کی بات هوتی هے
اور مزے کی بات ہے که سب سے بڑا بھی اپنی سلیکشن کے لیے امریکه بادشاھ کے سامنے زانو تلمند هوتا ہے ـ
پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اپنے اندر عہدوں کی تنظیم کے لیے الیکشن کرواتی هی نہیں هیں ـ
بس جی گدی نشین صاحب (چئیر مین) جس کو سلیکٹ کر دیں وهی وه هوتا ہے جو اس کو بتادیا جاتا ہے ـ

اس دفعه کے ایلکشن کے بعد نواز شریف کی سیاست تو بڑی سیاست تھی که ججوں کی بحالی پر زور دے رہے تھے اور ایک اسی ایشو پر اتحاد بھی بنالیا تھا
جسٹس افتخار چوھدری صاحب کو ریپوٹیشن کچھ انصاف کرنے والے جج کی هے اور هیں بھی !!!ـ
اس لیے نواز شریف کی سیاست تھی که اگر افتخار چوھدری بحال هو جائے تو یه جج خود هی سوموٹو ایکشن لے کر مشرف کا وه ارڈنینس ختم کر دو گا جس کی رو سے زرداری صاحب '' پاک صاف هو گئے هیں ـ
اور اگر ججوں کی بحالی میں زرداری صاحب ٹال مٹول کرتے هیں تو بھی نقصان زرداری صاحب کا که مقبولیت میں فرق پڑے گا ـ
لیکن جی زرداری صاحب چھا گئے هیں
که ان کو معلوم تھا که پاکستان میں مج(بھینس) اس کی هوتی هے جس کے ھاتھ میں ڈانگ(لاٹھی) هوتی ہے
اس لیے انہوں نے اپنے لیے صدر پاکستان کا عہدھ مانگ لیا جی سلیکشن کرنے والوں سے !ـ
صدر جس کے پاس آٹھ ونجوں کی ٹوپی (آٹھونجا ٹو بی) بھی هے ـ
اب جی ساری مجوں(بھینسوں ) پر تو جی ڈانگ والے صدر صاحب کا قبضه هو گيا
باقی سارے اب کہیں کے که میری مج (بھینس) بوری (سفید) تھی ـ
اپنی اپنی مج بوری(مجبوری) کا رونا هو گا
اور کہتے پھریں گے که جی یه هماری مج بوری تھی اور وه اس کی مج بوری تھی پر یارو اب مج کالی هو یا مج بوری ان پر اٹھ ونجوں کی ٹوپی کا اور صدارت کی طاقت کا معامله ہے

کسی بندے نے اپنی ایک فیکٹری پر اپنے سالے کو مینجر رکھا هوا تھا
جو که منافع میں ڈنڈی مارا کرتا تھا
اخر کار جب مالک کو معلوم هوا تو اس نے اپنے سالے کو نوکری سے نکل جانے کا حکم دیا
اور کبھی منه ناں دیکھانے کا وغیرھ وغیرھ
سالا کہنے لگا که جی میں رات کو گھر پر آؤں گا اور باجی کے سامنے اپ سے بات کروں اپنی صفائی میں
رات کو سالا صاحب گھر گئے اور اپنی صفائی میں یه کچھ اس طرح بات کی
که جناب بھائی جان آپ بتائیں که جیسا اپ جانتے هیں میرے پاس اپنی کوٹھی ہے کار ہے ایک بڑا بینک بیلنس ہے
بازار میں کچھ پراپرٹی خرید کر دوکانیں بھی کرایے پر دی هوئی هیں ـ
که هر طرح سے میں ایک خوش حال زندگی گزار رها هوں
اور میں نے یه سارا اپ کی فیکٹری کی کمائی سے هی بنایا هے
اب اکز اپ مجحے نكال دیتے هیں اور ایك نیا مینجر رکھتے هیں تو جناب اس مینجر کو یه سب نئے سرے سے بنانا پڑے گا
اور وه نئے سرے سے ڈنڈی مارے گا
تو جناب اپ مجھے هی مینجر رہنے دیں
که میں اتنی ڈنڈی نہیں ماروں گا جتنی که ایک نیا والا مینجر ـ

تو جی اس حکایت کی روشنی میں دیکھیں تو جی زرداری صاحب کے پاس پاکستان کا دیا سب کچھ ہے اس لیے هو سکتا ہے که اب یه صاحب ڈنڈی ناں ماریں که پہلے هی '' رجے '' هوئیے هیں ـ
سب سے بڑی بات یه هے که فوجی تو نہیں هیں ناں جی ؟؟
لیکن
یارو
امریت سے جان چھوٹی ہے اور استعمار کے پنجے میں پھنس گئے هیں ـ
میری قوم کی بد قسمتی هے که ان کو جمہوریت کی تعریف بھی معلوم نہیں هے ـ
استعمار کو جمہور کے نمائندے سمجھ کر مج بوری کی لسی پئے اونگھ رہے هیں ـ
بس جی میری وی مجبوری اے !!ـ

1 تبصرہ:

گمنام کہا...

بہت اعلی جناب
لیکن پاکستان کو لوٹ کہ آج تک رجا کون ہے؟
زرداری اور رجنا؟ دل کو نہیں لگتی یہ بات
زرادری اور مزید لوٹنا ٹھیک ہے

Popular Posts