ہفتہ، 25 جنوری، 2020

چینی کلینڈر کہانی


چینی کلینڈر کی کہانی

سوشل میڈیا پر آج کل چین کے قمری نئے سال کا بہت چرچا ہے
چینی کلنڈر کا یہ سال چوہے کا سال ہو گا ،۔
جاوروں سے منسوب سالوں کے اس کلینڈر کے لئے مشرق بعد میں ایک دلچسپ کہانی روایت کی جاتی ہے ۔ْ
اردو کے قارئین کے لئے  اس کہانی کا ترجمعہ 
پیش خدمت  ہے ،۔

ایک دن ، مہاتما بودھا نے تمام جانوروں کو ایک اجلاس کے لئے بلایا۔
 اس نےاعلان کروایا کہ اس نے 13 انتہائی قابل اعتماد جانوروں کو چننے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، اور اس اجلاس میں ہر کسی کے نام کا ایک سال نام کیا جائے گا،۔

یہ  یہ اعلان سنتے ہی جانوروں نے آپس میں بحث مباحثہ کرنا شروع کردیا کہ پہلے سال ، دوسرے ، تیسرے ، اور اس جیسے اعزاز کس کو ملنا چاہئے۔
جانوروں کے اس سوشل میڈیائی  مباحثوں کی وجہ سے 
مہاتما بدھ نے جانوروں میں دریا کو تیر کر پار کرنے کا مقابلہ کروا کر  اس جھگڑے کو حل کرنے کا فیصلہ کیا۔

 اس نے 13 جانوروں کو ندی نالے کے کنارے جمع ہونے کا کہا اور بتایا کہ انہیں لازمی طور پر دوسری طرف سے تیر کر پانی کو پار کرنا ہو گا۔

 سب سے پہلے پہنچنے والے کو پہلے سال کا اعزاز حاصل ہو گا ، اور دوسرے آنے والے کو دوسرے سال کا اعزاز حاصل ہو گا ، اور اس طرح ، تمام سالوں کی ترتیب کا فیصلہ کر کے رائج کیا جائے گا۔

مقابلہ سے ایک رات قبل ، چوہا اپنی بہترین دوست بلی سے ریس پر گفتگو کرنے گیا۔ وہ دونوں اس بات پر متفق تھے کہ مقابلہ ان کے ساتھ غیر منصفانہ تھا ، کیونکہ دونوں کو پانی سے نفرت تھی ، اور نہ ہی تیرنا جانتے ہیں ۔

تو یہ جوڑا بیل سے ملنے  کے لئے گیا جو بہت بڑا اور ایک مضبوط تیراک تھا۔

 ان دونوں نے بیل سے مدد کی اپیل کی  ، اور بیل چوہے اور بلی کو اپنی پیٹھ پر سوار کر کےلے جانے پر راضی ہوگیا۔

اگلی صبح ،مقابلے میں شامل  جانور دریا کے کنارے اکٹھے ہو گئے ،۔
بیل نے دیکھا کہ بلی اور چوہا نظر نہیں آ رہے ، جن سے اس نے اپنی پیٹھ پر سوار کر کے پانی پار کروانے کا وعدہ کیا تھا ،۔
لیکن چالاک جانور بلی اور چوہا وہاں سرکنڈوں میں چھپے ہوئے تھے ، جیسے ہی بیل نے پانی میں چھلانگ لگائی  ہر دو جانور بلی اور چوہا ان کی پیٹھ پر سوار ہو گئے  ،۔
بیل جو کہ ایک مضبوط جسیم اور اچھا تیراک تھا جیسے ہی کنارے کے قریب پہنچتا ہے تو چوہا دیکھتا ہے کہ بلی اپنی دم کھڑی کئے ، بیل سے پہلے چھلانگ لگا کر کنارے پر اترنے کو تیار ہے  ، تو ؟
چوہا اس کی ٹانگوں کے نیچے سے نکل کر بیل کے سینگوں کے درمیان پہنچ جاتا ہے ، بلی بدک کر اپنا توازن کھو بیٹتی ہے اور دریا میں گر جاتی ہے ،۔

بیل کے سینگوں کے درمیان بیٹھا ہوا چوہا  چھلانگ لگا کر بیل سے پہلے خشکی پر اترتا ہے 
اس لئے پہلا سال چوہے کے نام  کا ہو جاتا ہے ،۔
ٹھیک اس کے بعد بیل اترتا ہے اور دوسرا سال بیل کے نام کا ہوتا ہے  ،۔

 ٹائیگر ایک بڑی بلی کی طرح ، اور پانی کو ناپسند بھی نہیں کرتا ہے ، اس کے پاس طاقتور مسل اور بڑا جسم ہوتا ہے  اس لئے ٹائگر  تیسرے نمبر پر آنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔
تیسرا سال ٹائگر کا سال قرار پاتا ہے ،۔

 ان کے پیچھے خرگوش جو کہ تیرنا نہیں جانتا تھا وہ ڈریگون پر سوار دریا پار کرتا ہے لیکن ڈریگون کو اپنے منہ سے نکلنے والی آگ  کا خیال ہوتا ہے ، اور ڈریگون آگ لگا کر مہاتما بدہ کی نظر میں گرنا نہیں چاہتا تھا اس لئے اپنا منہ پانی میں ڈال کر ٹھنڈا کرتا ہے
اسی اثنا میں  چوتھا نمبر خرگوش کو حاصل کرتا ہے اور چوتھا سال خرگوش کا سال کہلواتا ہے ،۔
اس کے بعد پانچواں ڈریگون کا سال قرار پاتا ہے ،۔

گھوڑا چھٹے نمبر پر آنے والا تھا ، لیکن اس سامنے سانپ آ گیا رحم دل گھوڑے نے سانپ کو بچانے کے لئے پنترا بدلا ،  اس پینترا بدلنے میں گھوڑا سانپ سے پیچھے رہ گیا 
اور چھٹا سال سانپ کا اور ساتواں سال گھوڑے کا قرار پایا ،۔

اس کے بعد بھیڑ ، بندر اور مرغ لکڑی کی بڑی لٹھ پر سوار آتے ہیں  جن کے نام آٹھواں نواں دسواں سال قرار پاتے ہیں ۔

کافی دیر بعد ، کتا کنارے پر پہنچتا ہے اور اپنی جسم کو جھٹک کر پانی جھاڑتا ہے ، بڑی مشکل سے ابھی خود کو خشک کئے بیٹھے سارے جانوروں کو بھگو دیتا ہے ، گیارواں سال کتے کا قرار پاتا ہے ۔

آخر کار ، بہت دیر بعد  ، سور پہنچتا ہے جو کہ کہیں سو گیا تھا اور آنکھ کھلنے پر پانی میں تیرتا ہوا جب پہنچتا ہے تو چینی کلینڈر میں بارہواں سال سور کا قرار پاتا ہے  ۔

اور بلی کا کیا بن گیا؟ 
بھنور میں پھنسی ہوئی بلی جب نکلتی ہے تو واپس دریا کے اسی کنارے پر پہنچ جاتی ہے 
جہان سے ریس شروع ہوئی تھی ،۔
اس لئے بلی کے نام  کا کوئی سال نہیں ہے ،۔
ناں کوئی تیرہواں کوئی جانور ہوتا ہے اس لئے چینی کلینڈر میں بارہ سال  قرار پاتے ہیں ،۔

بلی کے سال کے کلینڈر میں نہ ہونے کے متعلق جاپان میں دوسری بات روایت کی جاتی ہے ،۔
جاپان میں روایت کیا جاتا ہے کہ  چوہا اور بلی جو کہ دوست ہوتے ہیں  ہیں لیکن ہر دو اپنے دل میں چالاکی بھی رکھتے ہیں ، اس لئے چوہے نے جھوٹ بول کر بلی بتایا تھا کہ مقابلہ پرسوں ہو گا ، اور خود بیل کے سینگوں پر سوار پھدک کر بیل سے بھی آگے پہلا نمبر لے جاتا ہے ،۔
اگلے دن جب بلی دریا کنارے پہنچتے ہے تو اس کو بتایا جاتا ہے کہ مقابل گزرے کل ہو چکا ہے اور تم کہجن بھی شامل نہیں ہو 
اس لئے بلی کے نام کا کوئی سال نہیں ہے 
اور بلی چوہے کی نفرت کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے ،۔
خاور کھوکھر




جمعرات، 16 جنوری، 2020

ناگویا کوچین ،۔


ناگویا  کوچین !،۔
ناگویا کوچین  مرغ کی ایک مخصوص نسل ہے جس کا گوشت کھایا جاتا ہے ،۔
ککڑ کڑاہیاں  ، اور مرغے کے پکوان  کی لگژری ؟
جو ہماری زبان میں بولی جاتی تھی وہ ساری لگژری فارمی مرغ کے آنے سے ہوا ہو چکی ہے ،۔
جہان جہاں فارمی مرغی کا گوشت بہتات میں ہے ، لیکن یہاں بھی خوش ذوق لوگ دیسی  مرغ کا گوشت پسند کرتے ہیں ،۔
دیسی مرغی یعنی وہ پرندہ جو کم از کم سو دن میں کھانے کے قابل ہوتا ہے ،۔
فارمی مرغی  اپنئ پیدائش سے بیس دن کے اندر  ذبح ہو کر اپ کی ہانڈی میں  پہنچ چکی ہوتی ہے ،،۔
کہاں کسی مہمان کے انے پر مہینوں میں تیار ہوا مرغا جو ہز روز انکھون کے سامنے  جوان ہوا ہو  ذبح کر کے کسی  ہانڈی بنانا اور کہاں 
چند سو روپے سے فارمی مرغی کا گوشے لے آنا ،۔

ہمارے گھر میں  ماں کو گوشت کھانے کا شوق تھا ، لیکن ہم غریب لوگ تھے اس لئے  اس زمانے میں یعنی ستر اور اسی کی دہائی میں  سری پائے ، کلیجی ،اور پھیپھڑے سستے مل جاتے تھے ،۔
اج جب یہ چیزیں لگژری بن چکی ہیں ، ہم اپنے پچپن میں یہ کھایا کرتے تھے ،۔
پکھی واس (خانہ بدوشوں کی ایک شاخ ) لوگ   پرندون کا شکار کر کے لایا کرتے تھے ،  ان بے چاروں کا شکار گاؤں میں گھوم گھوم کر آوازیں لگانے سے بھی بہت کم بکا کرتا تھا ،۔
میری ماں ان سے شکار کئے پرندے خرید لیا کرتی تھی ،۔
گندم کے پودوں  پر آنے والی بڑی چڑی ، شارق ، تلئیر ، بٹیرے ، تیتر ،فاختہ 
اور بہت ہی کم  بلکہ شائد ایک کہ دو دفعہ ہی کھایا ہے ،۔
ایک پرندہ ہوتا تھا  جس کو ہریل کہا کرتے تھے ، طوطے کے رنگ کی فاختہ کہہ لیں  ، فاختہ سے تھوڑے جسامت میں بڑے اس پرندے کا گوشت بہت ہی لذیذ ہوا کرتا تھا ،۔
گوشت کھانے والے جانتے ہیں کہ گوشت میں ایک ریشہ ہوتا ہے جو دانتوں میں پھنس جاتا ہے ،۔
فاختہ کے سینے کے گوشت میں یہ ریشہ بہت کم ہوتا ہے ،۔
اور ہریل کے گوشت میں تو بلکل بھی نہیں ہوا کرتا تھا ، 
اب شاید پاکستان میں نئی نسل نے ہریل  کا نام بھی نہ سنا ہوا ۔
گھر کی مرغی دال برابر ؟
 یہ محاورہ تو سنا ہی ہوگا 
کہ گھر کی پلی ہوئی مرغیاں یا مرغے  دال سے بھی سستے ہوتے تھے ،۔
یا پھر گوشت کے لئے ہمارے گھر میں بطخیں پالی جاتی تھیں ،۔
بطخ کا انڈہ بھی بڑا ہوتا ہے اور مرغی کی نسبت گوشت بھی زیادہ ہوتا ہے ،۔
یہ علحیدہ بات ہے کہ 
میرا چھوٹا بھائی  بطخ کا گوشت نہیں کھاتا تھا 
اس کے کہیں بطخ کو بول براز کھاتے دیکھ لیا تھا ،۔
اس لئے ہم نے بطخیں پالنی بھی چھوڑ دی تھیں ،۔
شائد سن  اکیاسی کی بات ہے ،۔
ماں نے کہیں سے فارمی مرغی کا سنا تھا ؟
مجھے پیسے دے کر شہر بھیجا کہ فارمی مرغی کا گوشت لے کر آؤں ،۔
ان دنوں  پونڈاں والے اڈے(گوجرانوالہ) پر تانبے کی دیگیں اور دیچکیاں کوٹ کوٹ کر بنانے والے  سڑک کے جنوبی طرف ہوتے تھے اور شمالی طرف دیس مرغوں کو پنجرے میں لئے مرغی کا گوشت بیچنے والوں کی دو تین دوکانیں تھیں ،۔
میں ان سے فارمی مرغی کا پوچھا تو انہوں نے مجھے ایک ریڑہی والے کی طرف اشارہ کیا تھا ، جہاں سے میں کوئی ادھ کلو گوشت لے کر آیا تھا ،۔
اس چکن کو ماں نے  روسٹ کر دیا تھا ،۔
مجھے تو ذائقہ یاد نہیں لیکن ، مان کے الفاظ یاد ہیں ،۔
نہ مزھ نہ سواد ! ایہہ کی اے ؟
ان الفاظ کی معونیت صرف وہی جانتا ہے جس نے دیسی مرغ کھایا ہو،۔

تو جی بات ہو رہی تھی جاپان میں ملنے والے  مرغی کے گوشت  ناگویا کوچین کی !،۔
جاپان کا  ناگویا کوچین ، بلکل اپنے یہاں کے دیسی مرغ کی طرح کا پرندہ ہوتا ہے ، جس کی کلغی لال ہوتی ہے اور نر بڑا رنگین پرندہ ہوتا ہے ،۔
یہاں ایتا کورا میں ایک دوست ہے جس کا تعلق لاؤس سے ہے اور اس نے جاپان میں شادی کی ہوئی ہے اس کی بیوی کے میکے مرغیان پالا کرتے تھے اس لئے اس سسر کے مرغون کی پرورش اور انڈوں کی رسد کا کام چھوڑ دینے کے بعد بھی ، کچھ مرغیاں پالی ہوئی ہیں ،۔
لاوؤ کا یہ دوست خود بھی خوش ذوق بندہ ہے اور میرے ذوق سے بھی واقف ہے تو اس نے کل تین پرندے ، دو مرغ اور ایک مرغی لا کر دی ہے ۔
میں  آج ان پرندوں کو حلال کر کے گوشت بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں ،۔
جاپان میں ناگویا کوچین ایک برانڈ کا نام ہے ، ۔
دیسی مرغ کا گوشت یہان جاپان میں میں دفعتاً فوقتاً کھاتا رہتا ہون ،۔
لیکن ناگویا  کوچین  کھانے کا اتفاق پہلی بار ہو گا ،۔

Popular Posts