جاپانی لوک کہانی ، بیمبو گامی
جاپان کی لوک کہانیوں میں “ بینبو گامی” یعنی غریبی کا دیوتا کا ذکر ملتا ہے ۔
غریبی کا دیوتا جس گھر میں آ جائے وہاں پھر مفلسی ہی مفلسی ہوتی ہے ، اس دیوتا کا ایمج کچھ اس طرح کا ہے کہ جس طرح چوہے لکڑی کے گھروں کی چھتوں کے درمیان رہتے ہیں اسی طرح یہ غریبی کا دیوتا بھی چھتوں میں یا کونے کھدوں میں بس جاتے ہیں ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ
کہیں کسی گاؤں میں ، میاں بیوی رہتے تھے ، ان کے گھر میں بھی غریبی کے دیوتا کا بسیرا تھا، کھیتوں میں محنت کر کر کے بھی غریب ہی تھے کہ ان کی اگائی ہوئی سبزیاں کمزور سی ہوتی تھیں ، کوئی ان کا مول ہی نہیں دیتا تھا ۔ مونجی کے کھیتوں میں چاول اتنے ہی اگتے تھے کہ پیٹ کا جہنم بھرنا مشکل تھا ۔
سال ہا سال اسی طرح گزر گئے ،
ایک دن بڑہیا نے باباجی کو کہا کہ شہر جا کر کچھ کمانے کی کوشش ہی کر لو!۔
دونوں میاں بیوی نے بڑی محنت سے بنائی ہوئی پرالی کی جوتیاں ، بابا جی باندھ لیں کہ ان کو بیچ کر کچھ کما کر لاتے ہیں ،۔
شہر میں سارا دن جوتیاں بیچنے کی کوشش میں ہانکیں لگاتا لگاتا بابا تھک گیا لیکن کسی نےکوئی جوتی نہیں خریدی۔
رات کو کسی دوکان کے ٹھڑے کے نیچے سونے کے لئے گھسا تو ، وہاں ایک اور بندہ لیٹا تھا ،
جو کہ کسی گاؤں سے کوئلے بیچنے کے لئے آیا ہوا تھا۔
گرمی کے موسم میں اس کے کوئیلوں کا بھی کوئی خریدار نہیں تھا،۔
دونوں مایوس لوگ رات بھر ایک جگہ گزارنے کے بعد اس فیصلے پر پہنچے کہ اپس میں ایک دوسرے کے مال کا تبادلہ کر لیتے ہیں ۔
بابا جی کوئلے لے کر گھر پہنچے ، کوئلے کسی کونے میں رکھے اور غربی کے دیوتا کے زیر سایہ مفلسی کی زندگی کے شب و روز گزارتے رہے !!۔
اسی طرح سردیاں آ گئیں ، سال کے اخری دن کی رات کو نئے سال کی آمد کا استقبال ! لیکن کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا ۔
کہ بابے کو یاد آیا کہ کوئیلے پڑے ہیں ، اور کچھ نہیں تو آج آگ ہی تاپ لیتے ہیں ۔
بابے نے کوئلے کی آگ دھکا دی ، بڑہیا نے لوہے کے برتن میں پانی ڈال کر اس پر رکھ دیا کہ گرم پانی میں پتے ڈال کر چاء بنا لیں ۔
کوئلے کی آگ اور لوہے کی گرمی سے ، اس گھر میں بسیرا کیے ہوئے غریبی کے دیوتا کو بڑی گرمی لگی
اس گرمی سے گھبرا کر دیوتا نے وہاں سے کوچ کیا اور کہیں اور چلا گیا ۔
نئے سال کی آمد پر نئے دیوتا ادھر ادھر نکلے!، تو ان میان بیوی کے گھر میں بھی ایک “سکھ” کا دیوتا آن بسا۔
جی کہانی بیان کرنے کا مقصد ہے کہ
جاپانی معاشرت میں غریبی کے دیوتا( بیمبو گامی) کو بھگانے کا طریقیہ یہی بتایا گیا ہے کہ کوئلے کی آگ دھکے گی اور اس آگ پر لوہا گرم ہو گا تو؟
غریبی بھاگ جائے گی۔
غریبی کے دیوتا کی عبادت کیا ہے ؟
کہ
غریبی کے دیوتا کو ٹھنڈی آہیں بہت سکون پہنچاتی ہیں ۔
جس گھر میں بھی غریبی کا دیوتا بستا ہے اس کے مقینوں کو ٹھنڈی آہیں بھرنے سے ہی فرست نہں ملتی اور غیریبی کا دیوتا بھی ان کی اس عبادت کو قبول کر کے خوش ہوتا ہے ۔
حاصل مطالعہ
کہ جس گھر میں یا ملک میں کوئلے پر لوہا گرم ہو گا
اور اس گھر کےیا ملک کے لوگ
ٹھنڈی آہیں بھرنا چھوڑ کر لوہا کوٹنے لگیں گے وہاں سے غریبی کا دیوتا کوچ کر جائے گا ۔
غریبی کا دیوتا جس گھر میں آ جائے وہاں پھر مفلسی ہی مفلسی ہوتی ہے ، اس دیوتا کا ایمج کچھ اس طرح کا ہے کہ جس طرح چوہے لکڑی کے گھروں کی چھتوں کے درمیان رہتے ہیں اسی طرح یہ غریبی کا دیوتا بھی چھتوں میں یا کونے کھدوں میں بس جاتے ہیں ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ
کہیں کسی گاؤں میں ، میاں بیوی رہتے تھے ، ان کے گھر میں بھی غریبی کے دیوتا کا بسیرا تھا، کھیتوں میں محنت کر کر کے بھی غریب ہی تھے کہ ان کی اگائی ہوئی سبزیاں کمزور سی ہوتی تھیں ، کوئی ان کا مول ہی نہیں دیتا تھا ۔ مونجی کے کھیتوں میں چاول اتنے ہی اگتے تھے کہ پیٹ کا جہنم بھرنا مشکل تھا ۔
سال ہا سال اسی طرح گزر گئے ،
ایک دن بڑہیا نے باباجی کو کہا کہ شہر جا کر کچھ کمانے کی کوشش ہی کر لو!۔
دونوں میاں بیوی نے بڑی محنت سے بنائی ہوئی پرالی کی جوتیاں ، بابا جی باندھ لیں کہ ان کو بیچ کر کچھ کما کر لاتے ہیں ،۔
شہر میں سارا دن جوتیاں بیچنے کی کوشش میں ہانکیں لگاتا لگاتا بابا تھک گیا لیکن کسی نےکوئی جوتی نہیں خریدی۔
رات کو کسی دوکان کے ٹھڑے کے نیچے سونے کے لئے گھسا تو ، وہاں ایک اور بندہ لیٹا تھا ،
جو کہ کسی گاؤں سے کوئلے بیچنے کے لئے آیا ہوا تھا۔
گرمی کے موسم میں اس کے کوئیلوں کا بھی کوئی خریدار نہیں تھا،۔
دونوں مایوس لوگ رات بھر ایک جگہ گزارنے کے بعد اس فیصلے پر پہنچے کہ اپس میں ایک دوسرے کے مال کا تبادلہ کر لیتے ہیں ۔
بابا جی کوئلے لے کر گھر پہنچے ، کوئلے کسی کونے میں رکھے اور غربی کے دیوتا کے زیر سایہ مفلسی کی زندگی کے شب و روز گزارتے رہے !!۔
اسی طرح سردیاں آ گئیں ، سال کے اخری دن کی رات کو نئے سال کی آمد کا استقبال ! لیکن کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا ۔
کہ بابے کو یاد آیا کہ کوئیلے پڑے ہیں ، اور کچھ نہیں تو آج آگ ہی تاپ لیتے ہیں ۔
بابے نے کوئلے کی آگ دھکا دی ، بڑہیا نے لوہے کے برتن میں پانی ڈال کر اس پر رکھ دیا کہ گرم پانی میں پتے ڈال کر چاء بنا لیں ۔
کوئلے کی آگ اور لوہے کی گرمی سے ، اس گھر میں بسیرا کیے ہوئے غریبی کے دیوتا کو بڑی گرمی لگی
اس گرمی سے گھبرا کر دیوتا نے وہاں سے کوچ کیا اور کہیں اور چلا گیا ۔
نئے سال کی آمد پر نئے دیوتا ادھر ادھر نکلے!، تو ان میان بیوی کے گھر میں بھی ایک “سکھ” کا دیوتا آن بسا۔
جی کہانی بیان کرنے کا مقصد ہے کہ
جاپانی معاشرت میں غریبی کے دیوتا( بیمبو گامی) کو بھگانے کا طریقیہ یہی بتایا گیا ہے کہ کوئلے کی آگ دھکے گی اور اس آگ پر لوہا گرم ہو گا تو؟
غریبی بھاگ جائے گی۔
غریبی کے دیوتا کی عبادت کیا ہے ؟
کہ
غریبی کے دیوتا کو ٹھنڈی آہیں بہت سکون پہنچاتی ہیں ۔
جس گھر میں بھی غریبی کا دیوتا بستا ہے اس کے مقینوں کو ٹھنڈی آہیں بھرنے سے ہی فرست نہں ملتی اور غیریبی کا دیوتا بھی ان کی اس عبادت کو قبول کر کے خوش ہوتا ہے ۔
حاصل مطالعہ
کہ جس گھر میں یا ملک میں کوئلے پر لوہا گرم ہو گا
اور اس گھر کےیا ملک کے لوگ
ٹھنڈی آہیں بھرنا چھوڑ کر لوہا کوٹنے لگیں گے وہاں سے غریبی کا دیوتا کوچ کر جائے گا ۔