جمعہ، 14 فروری، 2014

جاپانی لوک کہانی ، بیمبو گامی

جاپان کی لوک کہانیوں میں “ بینبو گامی”  یعنی غریبی کا دیوتا کا ذکر ملتا ہے ۔
غریبی کا دیوتا جس گھر میں آ جائے وہاں پھر مفلسی ہی مفلسی ہوتی ہے ، اس دیوتا کا ایمج کچھ اس طرح کا ہے کہ جس طرح چوہے لکڑی کے گھروں کی چھتوں کے درمیان رہتے ہیں اسی طرح یہ غریبی کا دیوتا  بھی چھتوں  میں یا کونے کھدوں میں بس جاتے ہیں ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ
کہیں کسی گاؤں میں ، میاں بیوی رہتے تھے ، ان کے گھر میں بھی غریبی کے دیوتا کا بسیرا تھا، کھیتوں میں محنت کر کر کے بھی غریب ہی تھے کہ  ان کی اگائی ہوئی سبزیاں کمزور سی ہوتی تھیں  ، کوئی ان کا مول ہی نہیں دیتا تھا ۔ مونجی کے کھیتوں میں چاول اتنے ہی اگتے تھے کہ پیٹ کا جہنم بھرنا مشکل تھا ۔
سال ہا سال اسی طرح گزر گئے ،
ایک دن  بڑہیا نے باباجی کو کہا کہ شہر جا کر کچھ کمانے کی کوشش ہی کر لو!۔
دونوں میاں بیوی نے بڑی محنت سے بنائی ہوئی پرالی کی جوتیاں  ، بابا جی باندھ لیں کہ ان کو بیچ کر کچھ کما کر لاتے ہیں ،۔
شہر میں سارا دن جوتیاں بیچنے کی کوشش میں ہانکیں لگاتا لگاتا بابا تھک گیا لیکن کسی نےکوئی جوتی نہیں خریدی۔
رات  کو کسی دوکان کے ٹھڑے کے نیچے سونے کے لئے گھسا تو ، وہاں ایک اور بندہ لیٹا تھا ،
جو کہ کسی گاؤں سے کوئلے بیچنے کے لئے آیا ہوا تھا۔
گرمی کے موسم میں اس کے کوئیلوں کا بھی کوئی خریدار نہیں تھا،۔
دونوں مایوس لوگ رات بھر ایک جگہ گزارنے کے بعد اس فیصلے پر پہنچے کہ اپس میں ایک دوسرے کے مال کا تبادلہ کر لیتے ہیں ۔
بابا جی کوئلے لے کر گھر پہنچے ، کوئلے کسی کونے میں رکھے اور غربی کے دیوتا کے زیر سایہ مفلسی کی زندگی کے شب و روز گزارتے رہے !!۔
اسی طرح سردیاں آ گئیں ، سال کے اخری دن کی رات کو نئے سال کی  آمد کا استقبال ! لیکن کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا ۔
کہ بابے کو یاد آیا کہ کوئیلے پڑے ہیں ، اور کچھ نہیں تو آج آگ ہی تاپ لیتے ہیں ۔
بابے نے کوئلے کی آگ دھکا دی ، بڑہیا نے لوہے کے برتن میں پانی ڈال کر اس پر رکھ دیا کہ گرم پانی میں پتے ڈال کر چاء بنا لیں ۔
کوئلے کی آگ اور لوہے کی گرمی سے ، اس گھر میں بسیرا کیے ہوئے غریبی کے دیوتا کو بڑی گرمی لگی
اس گرمی سے گھبرا کر دیوتا نے وہاں سے کوچ کیا اور کہیں اور چلا گیا ۔
نئے سال کی آمد پر نئے دیوتا ادھر ادھر نکلے!، تو ان میان بیوی کے گھر میں بھی ایک “سکھ” کا دیوتا آن بسا۔
جی کہانی بیان کرنے کا مقصد ہے کہ
جاپانی معاشرت میں غریبی کے دیوتا( بیمبو گامی) کو بھگانے کا طریقیہ یہی بتایا گیا ہے کہ کوئلے کی آگ دھکے گی اور اس آگ پر لوہا گرم ہو گا تو؟
غریبی بھاگ جائے گی۔
غریبی کے دیوتا کی عبادت کیا ہے ؟
کہ
غریبی کے دیوتا کو ٹھنڈی آہیں  بہت سکون پہنچاتی ہیں ۔
جس گھر میں بھی غریبی کا دیوتا بستا ہے اس کے مقینوں کو ٹھنڈی آہیں بھرنے سے ہی فرست نہں ملتی اور غیریبی کا دیوتا بھی ان کی اس عبادت کو قبول کر کے خوش ہوتا ہے ۔
حاصل مطالعہ
کہ جس گھر میں یا ملک میں کوئلے پر لوہا گرم ہو گا
اور اس گھر کےیا ملک کے لوگ
ٹھنڈی آہیں بھرنا چھوڑ کر لوہا کوٹنے لگیں گے وہاں سے غریبی کا دیوتا کوچ کر جائے گا ۔

جمعہ، 7 فروری، 2014

معاشرتی باتیں


ابھی زمانہ اتنا ایڈوانس نامی جنگل نہیں بنا تھا ،ترقی کے نام پر بد نظمی ابھی معاشرے میں عود کر کے نہیں آئی تھی ۔
ریسکائکلنگ کا ایک نظام تھا جو صدیوں سے چلتا آ رہا تھا۔
کچے گھروں کے صحنوں کی صفائی نمی والی خاک پھلا کر جھاڑو دی جاتی تھی ، یہ خاک باہر “ روڑی” پر چلی جاتی تھی ، روڑی کی خاک کھیتوں میں کھاد کے طور پر چلی جاتی تھی ۔
مکئی ، جوار، اور کماد کی جڑوں کو کھیتوں میں سے نکالنے کے لئے سارے گاؤں کے لوگ لگے ہوے تھے کہ
ان جڑوں کو جلا کر ایندھن کا کام لیا جاتا تھا ۔
چاول کے پودے کی پرالی اور گندم کے پودے کی توڑی اگر جانوروں کے کھانے کے کام  آتی تھی تو لیپا پوتی میں یہ چیزیں وہی کام کرتی تھی جو اج فائبر گلاس کی بنی چیزوں میں روغن میں مل کر فائبر کے ریشے کرتے ہیں ۔
درختوں کی کانٹ جھانٹ  ہر سال سردی کے موسم کا ایندھن بنتا تھا،
بھینسوں کا گوبر جہاں ایندھن کے لئے کام آتا تھا ، وہیں  چکنی مٹی میں ملا کر  پانی سے پتلا کر لیا جاتا تھا ، اس مکسچر کا لیپ کچے گھروں کے صحنوں میں ایک وقتی سی “لئیر” سی بن جاتا تھا جو کہ دھول اڑنے  سے بچاتا تھا ۔
اسی طرح ایک لمبی بات ہے کہ ہم نے وہ زمانہ دیکھا کہ
ہمارے معاشرے میں بغیر کسی حکومت کے ایک معاشرتی نظم پایا جاتا تھا۔
کہتے ہیں کہ یہ نظم راجہ بکرم اجیت کے زمانے سے ہند میں چلا آتا تھا ۔
راجہ بکرم اجیت جس کا زمانہ عیسی علیہ سلام کی پیدائش سے بھی کوئی آدھی صدی پہلے کا زمانہ تھا ۔

آج پاکستان میں ٹوائلٹ کے حالت پر ایک لطیفہ یاد آیا
کہ
کہیں شہر میں دیوار کے ساتھ گاغ ہونے کے لئے ایک بندہ بیٹھا تھا کہ
پولیس والوں کی نظر پڑی کہ چلو کچھ خرچا پانی بناتے ہیں
اس لئے فاغ ہونئ کی کوشش میں مبتلا بندے کو عین موقع واردات سے پکڑ لیا
جب اس بندے کو لے کر چلنے لگے تو
اس نے آواز لگائی
اوئے قانوں کے رکھوالو! جرم کا ثبوت تو اٹھا کر ساتھ لے لو!!،

ابھی اگلے دن کی بات لگتی ہے
جب ہم لوگ ٹوائلٹ کے لئے کھیتوں میں جایا کرتے تھے۔
ہم اس کو جاڑہے بیٹھنے جانا کہتے تھے ۔
شام کے ہلکے اندہیرے میں  گانؤں (گاؤں) کی عورتوں  گروہ در گروہ “باہر بیٹھنے” جایا کرتی تھیں ۔
شہروں میں بسنے والے ہو سکتا ہے کہ یہ سمجھیں کہ
پینڈو جاڑہے بیٹھا ہو اور  آوارہ کتا آ جائے تو پینڈو “لکدی  چک” کر بھاگتا ہو گا
لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا
کیونکہ صفائی کے لئے “وٹوانی” کا ڈہیلا ، اگر کھینچ کر مارا جائے تو ، نسلی ترین کتے کی بھی ٹیاؤں ٹیاؤں نکل جاتی ہے ۔

قصبے کے اندورنی گھروں میں  میں ٹٹی خانوں کا رواج تھا
لیکن ان گھروں کی عورتیں اور مرد صبح  شام “باہر “ ہی بیٹھنے جاتے تھے ۔
گھر پر گند ، ناگزیر حالات میں ڈالا جاتا تھا۔
ٹٹی خانوں میں چولہے کی خاک بچھائی ہوئی ہوتی تھی ، تاکہ چھوٹے پیشاب کو “ کنڑرول “ کر کے رکھ سکے ۔

پھر ہم نے ترقی کرنی شروع کر دی ، فلیش سسٹم جو کہ یورپ میں کوئی تین صدیاں پہلے ایجاد ہوا تھا
ہمارے گھروں میں چلا آیا
اور پھر یہ ٹوائلٹ گھروں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا
کہ
ہمیں معاشرتی زندگی کا شعور ہی اتنا ہے کہ
ہم ابھی تک صرٖف گھریلو ہی ہوئے ، شہری نہیں !، اسی لئے ہمارے حکمران بھی ہمیں عام تو کہتے ہیں ، پاکستان کے شہری نہیں  کہتے۔
اج ہمارے شہروں کا یہ حال ہے کہ اگر کسی کو پیشاب آ جائے تو ؟
کھائے خصماں دا سر ! ۔
تے سانوں  کی؟؟
بازاروں میں سونے کا بازار ہو کہ کپڑے کا منیاری کا بازار ہو کہ  متھائی کا ، کروڑوں کا کاربار ہو رہا ہے ، رنگ برنگے پیرہن پہنے لوگ چل پھر رے ہیں
لیکن کہیں بھی ، کسی منظم ٹوائلٹ کا انتظام نہیں ہے ۔
اصلی میں ایسی گندی چیزوں کا ذکر تک کرنا ، ان کو تحریر میں لانا ، اس قسم کی باتیں کرنا پاکستان جیسے پاک معاشرے میں “ناپاک” سی چیز لگتی ہے ۔
اب میں بھی جو یہ بلاگ پوسٹ لکھ بیٹھا ہوں تو کئی لوگوں کی “نفیس” طبیعت پر بڑی کثیف سی گزرے گی
لیکن میں کیا کروں کہ میں ایک انسان ہوں  جس کو “پوٹی” بھی اتی ہے اور سو سو بھی !۔
لیکن میرے شہروں کا یہ حال ہے کہ سارے کے سارے شہر ٹوائلٹ بنے ہوئے ہیں ،۔
جس کو “ڈاڈہی “ آ جائے وہ کیا کرے؟
کا کیا ہے کہیں بھی کر لے۔ سارا پاکستان ہی ٹوائلٹ ہے ۔
لیکن
اس گند میں ،ایک کاروبار کا آئیڈیا ہے
کہ
اگر کوئی بندہ ، گوجرانوالہ میں بازاروں کی عقبی گلیوں میں ، مارکیٹوں کے پچھواڑے میں اگر مکان خرید کر ان میں ٹوائلٹ بنا کر ، ان پر کچھ چوہڑے اور پلمبر رکھ کر ایک نظام بنا لے تو۔

بڑا پیسہ ہے جی اس کام میں ، کہ میرے جیسے انسانوں کو جب ڈاڈہی  آتی ہے تورقم خرچ کر ہی لیتے ہیں ۔

اس پوسٹ کے لکھنے پر نفیس طبع لوگوں سے بہت ہی معذرت ، ۔


منگل، 4 فروری، 2014

طالبان کی دو قسمیں


طالبان کا موضوع بڑا ہی سنجیدہ اور ذمہ داری سے بات کرنے کا طالب ہے ،۔
اج کے حالات میں ایک ام آدمی کیسے محسوس کر رہا ہے یا کہ اس کو کیسا محسوس کروایا جا رہے ہے ، اس کے متعلق تو لوگ لکھ ہی رہے ہیں ۔
اور انے والے زمانوں کا تاریخ دان  ان کی تحاریر سے جو نتائج اخذ کرئے گا ، وہ پڑے الجھے ہوئے ہوں گے، اگر کسی کو ہماری تاریخ  مرتب کرنے کی دلچسپی محسوس ہوئی تو !!!ْ۔
جہاں تک میں نے محسوس کیا ہے ، اپنے محدود سے مطالعے اور مشاہدے سے ، کہ طالبان  ! جن کو ہم ان دنوں  دوہزار چودا میں طالبان کہتے ہیں ۔، ان کو دو کیٹاگری میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے ،
ایک افغان طالبان ،
اور دوسرے پاکستانی طالبان ۔
افغان طالبان کی پدائش ہمارے سامنے ہوئی ہے ، نوے کی دہائی کے دوسرے “ہاف” میں ،  افغانستان سے غیر متوقع طور پر سویت یونین کی فوجوں کے انحلا سے  پیدا ہونے والے طاقت کے خلا سے جو انارکی پیدا ہوئی تھی ،اس کے نتیجے میں کو طاقت پیدا ہوئی یا کہ پیدا کی گئی وہ تھی طالبان، ۔
ان دنں کے حالات پر نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ افغانستان ایک قسم کا اکھاڑا بنا ہواتھا ، جہاں مختلف قبائل اپنی اپنی طاقت کے مطابق زمین اور وسائل پر قبضے کے لئے قتل و غارت گری میں مشغول تھے ،۔
ان حالات میں پاک فوج کی کوشش سے ایک حکومت کے قیام کے لئے طالبان کو تیار کیا گیا ۔
جو طالبان بعد میں سامہ بن لادن کی وجہ سے امریکہ کے معتوب  ٹہرئے!!۔
تو  پاک فوج  امریکہ کی حمایت میں طالبان کے بھی خلاف کمر بند ہوئی ۔
لیکن افغان طالبان نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف نہ تو کوئی بیان دیا اور نہ ہی کوئی حرکت کی ۔
پاکستانی طالبان!!۔
وہ لوگ ہیں  جو کہ افغانی طالبان کو پاکستان میں پناھ دینے کی پاداش  میں ڈرون حملوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں ۔
افغانی طالبان کو پاکستان میں پناھ دینے والے لوگ ان کو طالبان سمجھ کر نہیں بلکہ کئی رشتون اور ناتوں کی وجہ سے پناھ دیتے ہیں ۔
لیکن جب ڈورون حملہ کرتا ہے تو
بقول شخصے ۔ چنوں کے ساتھ گھن بھی  پس جایا کرتا ہے ۔
تو جی پاکستانی طالبان وہ ہیں جو “جبر “ کی پیدا وار ہیں ، اور یہ لوگ جبر کے خلاف جدوجہد میں “ مبتلا” ہیں ۔
یہ لوگ پاکستان کے حکومتی اداروں پر فوج پر اور پولیس اور دیگر پر حملے کرتے ہیں ۔
تیسری طاقت!!۔
ان دو طالبان کے علاوہ ایک تیسری طاقت بھی ہے ، اس کو اپ کوئی بھی نام دے لیں ، میں ان کو فرشتے کہتا ہوں ۔
یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستانی طالبان کو بدنام کرنے کے لئے “عوامی” مقامات پر حملے کرتے ہیں ۔
پاکستان میں پاکستانی طالبان ، افغانی طالبان اور تیسری طاقت کو اس طرح خلط ملط کر کے دیکھایا جا رہا ہے کہ پوری قوم ایک کنفیوژن کا شکار بنی ہوئی ہے ۔
میں نے سبھی دہشت گرد “چیزوں “ کا لکھ دیا ہے
اب
اپ خود فیصلہ کریں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے

Popular Posts