پیر، 25 فروری، 2013

جنوبی کوریا ،سئیول کی سیر

اج یہ فوٹواں نظر سے گزریں جو کہ میں نے اپنے کیمرے سے خود ہی بنائی ہوئی ہیں

یہ فوٹو لگتا ہے کہ دودہ کے بڑے بڑے ڈرم بڑے ہیں ، دودہ کے ڈرموں کی شکل کے یہ مینار کہ لیں یا کہ پڑولے ۔ اصل میں یہ انڈر گراؤنڈ چلنے والی ریل کی ہوا کے ایگزاسٹ ہیں
جس کو خوبصورتی کے لئے اس شکل میں بنا کر دیا گیا
ایک دفعہ میں وہاں وائی ایم سی اے کے پاس کھڑا تھا کہ
فٹپاتھ پر جہاں انڈر گراؤنڈ کے ایغزاسٹ کی جالی لگی تھی اس جالی پر ایک بچی کھڑی تھی ہو گی کوئی پندرہ سولہ سال کی
بچی سکول کی وردی میں تھی، وردی اسکرٹ اور قمیض
کہ نیچے سے ٹرین گزرنے سے ہوا کا زور ہو کہ اس کی اسکرٹ اڑ کر اٹھ گئی
لڑکی کی چیخ نکل گئی اور اس نے شرمندگی سے اردگرد دیکھنا شروع کیا کہ کسی نے دیکھا تو نہیں
میں نے بھی اس بات کو ایسے ظاہر کیا میں نے تو دیکھا ہی نہیں بلکہ میں دوسری طرف دیکھ رہا تھا
جس پر اس بچی کے چہرے کا اطمینان دیکھنے والا تھا
شائید اسی طرح کے معاملات کے سد باب کے لئے اب کوریا نے انڈر گراؤنڈ کے ایگزاسٹ چمنیوں کی شکل کے بنانے شروع کردئے ہیں
اور ان کے بھی ایک طرح دے کر خوبصورت بھی بنا دیا ہے



یہ فوٹو ایک کے ایف سی کی ہے
مجھے یاد ہے کہ ستانوے میں میں یہاں اپنے ماموں زاد جمشید مختار کے ساتھ کے ایف سی کی دوسری منزل پر بیٹھا تھا
سیول میں طالب علموں کے جلوس نکل رہے تھے
یہاں جہاں بس نظر ارہی ہے یہاں فوجی رنگروٹوں کے ٹولے ڈھالیں اور گیس اور دیگر ہتھیار لے کر کھڑے تھے
اور کار والی جگہ پر طالب علم پوزیشنیں سنبھال کر کھڑے تھے
کے ایف سی کے بورڈ کے نیچے جہاں ایک اور نیلی سی کار کھڑی ہے یہ ایک فٹ پاتھ ہے
یہاں عام لوگ ازادی سے چل رہے تھے
طالب علموں کا فوجی رنگوٹوں پر حملہ اور ان رنگروٹوں کا ڈھالوں کے ساتھ طالب علموں کو پیچھے دھکیلنا اور رنگروٹوں کے پیچھے سے ان کی ٹانگوں کے درمیان سے گیس کی نالی نکال کر ایک رنگروٹ کا طالب علموں پر گیس پھینکنا اج بھی یاد



یہ جگہ جب میں کوریا جایا کرتا تھا اس وقت یہاں کوڑے کا ڈھیر لگا ہوتا تھا
جس کو کمیٹی والے اٹھا کر لے جاتے تھے
سبز بورڈ اور نیلے رنگ والی دیوار سے اوپر بنک کی بلڈنگ ہے
اور دائیں طرف نظر انے والی بلڈنگ موسیقی کے سازوں کی ایشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ
ہے ۔
اس مارکیٹ میں اپ جدید ترین الیکٹرون کی بورڈ سے لے کر پیانو ڈھولک ،بانسری گٹار یا کسی بھی قسم کا مراثیوں والا اوزار خرید سکتے ہیں
اس بلڈنگ کے نیچے روزمرہ کی کھانے کی چیزوں کی مارکیٹ ہے
جہان سے میں سبزیاں مچھلیان یا گوشت خریدا کرتا تھا
یہیں مجھے علم ہوا کہ
کوریا میں
ٹماٹر کو سبزی نہیں فروٹ سمجھا جاتا ہے
اور ٹماٹر فروٹ کی دوکانوں پر بکتا ہے ۔
جہاں سے میں نے تصویر لی ہے یہاں سے دائیں طرف سڑک کے پار پگوڈا پارک ہے


یہ بائیں طرف اپ کو سیون الیون نظر ا رہا ہے
ایک دن میں صبح سویرے یہاں کھڑا تھا صبح چھ بجے سے پہلے کا وقت تھا
مین نے دیکھا کہ اوپر بہت اوپر اسمان پر کاغذ اڑ رہے ہیں
ہوا بھی تیز نہیں تھی اور اگر ہوتی بھی تو ہوا سے اڑ کر کاغذوں کا اتنی بلندی تک جانا بعید از قیاس تھا
وہ کاغذ زمین پر گرنے لگے جو کہ ہزاروں کی تعداد میں تھے
میں نے اس میں سے ایک کاغذ اٹھا کر جیب میں ڈال لیا
جو کہ بعد میں ایک دوست کو جو کہ کورین پڑھ لکھ سکتا تھا اس کو دیکھایا تو اس نے بتایا کہ یہ کاغذ شمالی کوریا کے پروپگینڈا کاغذ ہیں
اور شمالی کوریا کی نرگیست کی انتہا کہ اس کاغذ میں لکھا تھا کہ
جنوبی کوریا کی کٹھن زندگی سے جان جھڑا کر اگر شمالی کوریا میں آ سکتے ہو تو آ جاؤ ۔
لیکن
شمالی کوریا میں زندگی کا کیا حال ہے اس کی کٹھن زندگی کی مثال بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے
لیکن وہاں کی حکومت اپنے شہریوں کو یہ باور کراتی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین قوم ہیں اور ہم دنیا کی بہترین زندگی گزار رہے ہیں
امریکہ اور جاپان ہماری خوشحالی سے حسد کرتے ہیں

بہرحال فورا ہی وہاں سینکڑوں کی تعدادف میں رنگروٹ نکل ائے اور انہون نے وہ کاغذ جمع کرنے شروع کئے اور دس منٹ بعد وہاں کوئی کاغذ نہیں تھا

یہ ایک الماری کی فوٹو ہے جو کہ سیول کے انڈرگراؤنڈ کے ایک پلیٹ فارم پر لگی ہوئی ہے اس میں کیا ہے؟
اس میں ماسک ہیں اور فرست ایڈ کا سمان ہے
ساکہ شمالی کوریا کے حملے کی صورت میں یا کہ کسی قدرتی افت کی صورت میں بچاؤ کی تدابیر کی جاسکیں
شمالی کوریا ۔ ہر چند ماہ بعد میزائیل کا تجربہ کرکے اپنی رعایا کو یہ باور کرائے رہتا ہے کہ
ہم بڑے طاقتور ہیں ، ہمارا دفاع بڑا مضبوط ہے ، ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج ہے
اور
ہم ایٹمی پاور ہیں
اور دشمن کا حال ہے کہ پیسے کی فراوانی ہے مال اور غذا کی فراوانی ہے ، ملک میں امن امان ہے۔ غریب ممالک کے باشندے جنوبی کوریا میں پناھ کی تلاش میں اتے ہیں ۔ پاکستران کے دشمن ملک سے بھی زیادہ مضبوط معیشت والے اس ملک نے کبھی بڑکیں نہیں ماریں
لیکن
جیسا کہ غیر ترقی باختہ قومیں کرتی ہیں
کہ اپنے لوگوں کو ’’ دشمن’’ سے ڈرائے رکھتی ہین ، میزائیل بنا بنا کر دیکھاتی ہیں
لیکن
ملک کی سڑکوں ، ہسپتالون ، سکولوں کالجون تھانوں کا وہی حال ہوتا ہے جیسا کہ پاکستان میں ہے۔

یہ لوہے کی بنی ہوئی کرسی ہے
جو اندر سے کھوکھلی بنائی گئی ہے تاکہ اس مین گرم پانی کو گردش دے کر کرسی کو گرم رکھا جا سکے اور کرسی نشین کی تشریگ کو گرم رکھے

کرسی کے نیچے لگے نیلے رنگ کے پرزے اور اس کے ساتھ پڑی ہوئی پانی کی سفید گیلن کا کام ہے سارا جی ۔
یاد رہے کہ سیئول میں بہت سردی پڑتی ہے ۔
درجہ حرارت منفی بیس تک جانے کا ریکارڈ ہے ۔
ایک اور چیز جس کی میں تصویر نہیں لے سکا
ان ممالک میں دیکھی ہے ، وہ ہے ایک قسم کی انگیٹھی ،اس میں ایک حاص ترکیب سے بنائے ہوئے کوئیلے اور مٹی کے سوراخ دار گٹو جلتے ہیں ۔
ایک گٹو تقریبا ایک کلو کا ہوتا ہیے اور ایک دفعہ ہی جلایا جا سکتا ہے
لیکن یہ ایک دفعہ کا دورانیہ سات اٹھ گھنٹے ہوتا ہے
اور شعلے کا سائز ہوتا ہے عام سے گیس کے چولہے جتنا۔۔
میرے خیال میں توانائی کے بحران میں پاکستان جیسے ملک میں یہ چیز اگر متعارف کروائی جائے تو بڑی کمائی کی جاسکتی ہے ۔
کبھی موقع ملا تو اس گٹو کی تکینیک پر بھی سیر حاصل پوسٹ لکھوں گا
پو سکتا ہے کہ کسی کا بھلا ہو جائے ۔ْ

جمعہ، 22 فروری، 2013

ماں بولی کے دن پر ، ماں بولی پنجابی کے نام

ماں ! دنیا میں سب سے سچا رشتہ ہے. ہمارا وجود ماں کی مامتا کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔
ماں کے منہ سے سنے ہوئے الفاظ اور بولی کو مادری زبان کہتے ہیں
کوئی مذاق میں کہے کہ پھر گونگی معذور ماں کے بچے کس زبان کو ماں بولی کہیں گے؟
تو میں کہوں گا۔
ماں ،دھرتی کی طرح زمین کی طرح
یا کہ
دھرتی، ماں ہی کی طرح ہوتی ہے ۔
جس کی گود میں  قلعوں جیسا تحفظ ! جس کے زیر سایہ گھنے درختوں کی طرح کی چھاؤں ہوتی  ہے۔

  اور جس کی محبت کے جذبوں کے دریا سدا بہتے  ہی رہتے ہیں۔
اسی لئے دھرتی کو بھی ماں کہتے ہیں اور دھرتی کی بولی کو مادری زبان کہتے ہیں۔
زبان اور زمین (دھرتی) کے رشتے کو سمجھنے والے ،ہمیشہ مادری زبان کا ہی پرچار کرتے ہیں ۔
کیونکہ ماں بولی صرف ماں کی بولی نہیں دھرتی ماں کی بولی بھی ہوتی ہے ۔
اور ہر علاقے کی زمیں اپنی اپنی خصوصیات رکھتی ہے
جن خاصیتوں کی جھلک اس دھرتی کے باسیوں کی عادات اور خصائیل میں ملتی ہے۔
میدانوں ، پہاڑوں ، صحراؤں کے باسیوں کے مزاج ان کی زمین کی موسموں کے مزاج سے جڑے ہوتے ہیں ۔
جو کہ اس دھرتی کے سپوتوں کی کوالٹی میں کھل کر نظراتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دانشور ،سیانے  اور عالم لوگ اپنی اپنی ماں بولی میں تعلیم اور پرچار کو ترجیع دیتے ہیں ۔
اور اگر یہ تعلیم اپنی ماں بولی میں میسّر نہ ہو تو ، اس سانحے کا نوحہ بھی روتے ہیں ۔
کہ 
کوئی بھی زبان گھٹیا یا بڑھیا یا اعلی یا ادنٰی یا کمتر اور بر تر نہیں ہوتی ۔
،
بلکہ ہر ماں بولی اپنی ثقافتی اقدار اور لوک ورثہ کی حامل ہوتی ہیں
اس لئے اگر کسی علاقے کے لوگوں سے ان کی زبان چھین لی جائے تو ایسا ہی ہے کہ ان سے ہزاروں سال کا ورثہ چھین کر ضائع کردیا گیا ہو ۔

کیونکہ ہر زبان لفظوں محاورں اور حکمتوں کا ایک خزانہ ہوتی ہے
جو کہ اسی دھرتی کی تاثیر سے پر اثر ہوتے ہیں ۔
ماں بولی میں سوچنے  اور لکھنے والوں کو ، ذہن کے ٹکسال میں  لفظوں کو  سکوّں کی طرح گھڑنا نہیں پڑتا
بلکہ اظہار ایک چشمے کی طرح دل میں ابلتا ہے اور ابشار کی طرح بہتا ہوا نشیبی ذہنوں کی ابیاری کرتا ہوا !۔
ان میں علم کی سیرابی لاتا ہے اور ان ذہنوں میں موجود علم کے بیجوں کی ابیاری کرکے ان کو کونپلوں بودوں اور درختوں میں بدلتا ہوا چلتا جاتا ہے ۔
اس فصل سے جو اناج اتا ہے ، وہ ہی قوموں کی معراج ہوتا ہے ۔
روایات و اقدار کی بندیں بنتی ہیں ۔
ماں بولی کے الفاظ شہد کا اثر لئیے ہوتے ہیں ، اور ماں بولی کے محاوروں میں وہ اپنایت ہوتی ہے کہ سننے والے کی روح کی گہرایوں میں اتر کر روح کی کثافتوں کو نکال باہر کرتی ہے ۔
میں جو اس بات کو اردو میں لکھ رہا ہوں تو مھے احساس ہے کہ مجھے یہ باتیں پنجابی میں لکھنی چاہئے تھیں ۔
کہ پنجابی میری ماں بولی ہے۔ 
لیکن میری بولی میں لکھت پڑھت مجھ سے چھین لی گئی ہے۔
 
کہ مجھے قدرت کے چشمے سے نکلتے الفاظ کو ذہن کے ٹکسال میں حروف میں ڈھالنے کی مشقت کرنی پڑتی ہے ۔
اس کاریگری میں الفاظ کا اثر کچھ  کم ہو جاتا ہے اور کچھ
اس کو پڑھنے والے کو بھی کاریگری کرنی ہوتی ہے کہ اس کو اردو میں پڑھ کر ، اپنی ماں بولی میں ڈھالنا ہوتا ہے ۔


جمعرات، 21 فروری، 2013

جغرافیائی پوزیشن

عزیز خان کہ رہا تھا
کہ
چوبیس سال بعد کے جاپان اور ترقی یافتہ ممالک میں کھانے پینے کی چیزیں بھی انٹرنیٹ پر خریدی جائیں گی

اور یہ چیزیں ہوا پر اڑتی ہوئی خریدار کے گھر پہنچ جایا کریں گی
یعنی کہ ڈلیوری اون ائیر!!۔
اور ہم پاکستان میں اتنی ہی ترقی کر سکیں گے کہ
یہ اشیاء جب ہمارے دیہاتوں کے اوپر سے اڑتی ہوئی گزریں گی
تو
ہم
بندوق سے ان کو مار گرایا کریں گے

اتوار، 3 فروری، 2013

کھوتی کھوھ ویچ

کھوتی کا کنوئیں میں گرنا تو سن ہی رکھا ہو گا اپ نے ؟ یا نہیں سنا تو یہ ایک محاورہ ہے جو پنجابی میں پرانوں سے بولا جاتا ہے
بڑی معونیت ہوتی ہے جی ان محاوروں میں
کھوتی (گدھے کی مؤنث) گاؤں دیہات میں ایک کم کار آمد سی چیز ہوتی ہے
کہ گدھی جب بچہ ہیدا کر لے تو بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہ جاتی
بس یہی ہے کہ لوگ بھالے اس پر کوئی چارہ وغیرہ جانوروں کے لئے لادھ لاتے ہیں
اور اگر یہی کھوتہ کنویں میں گر جائے تو ؟
بڑی سنسنی خیز سی خبر ہوتی ہے جی دیہاتیوں کے لئے
اور ایسی خبر منٹوں میں سارے گاؤں میں پھیل جاتی ہے
سب لوگ اس بات کا شغل دیکھنے کے لئے کنوئیں کے نزدیک بھی اکٹھے ہوجاتے ہیں
کوئی رسوں کے انتظام کا کہتا ہے تو کوئی کسی کو کنوئیں میں اترنے کا مشورہ دے رہا ہوتا ہے
لیکن
یہ بات طے ہوتی ہے کہ کسی کو بھی کھوتی کے کنوئیں سے نکلنے میں دلچسپی نہیں ہوتی ہے
بس جب تک کھوتی کھوھ میں ہے خبر گرم ہے ، شغل لگا ہوا ہے ، اینکر پرسن بحثیں کر رہے ہیں ۔ علماء کران پانی کے مکروہ یا پاک ہونے کے اندیشوں کا اظہار کر رہے ہیں
لیکن کسی کو بھی اس بات سے دلچسپی نہیں ہے کہ کھوتی کھوھ سے بھی نکالنی ہے
ہر کسی کی نظر اس بات پر لگی ہے کہ کون برھ کر اس کھوتی کو کھوھ سے نکالتا ہے
اور اگر کوئی کوشش بھی کرئے تو؟
اس کی کوشش کی ناکامی کی پشینگوئیں کرنے والے لال بجکھڑ بڑھ بڑھ کے بول ہے ہوتے ہیں
بس
یہ سمجھ لو کہ پاکستان کی کھوتی کھوھ میں گری ہوئی ہے
اور میڈیا میں ۔ اینکر پرسنوں میں ، محفلوں میں چوپالوں میں عبادت گاہوں میں ہر جگہ خبر گرم ہے اور باتیں ہیں باتیں ہیں کہ لوگ کئے ہی چلے جارہے ہیں
لیکن کھوتی وہیں کھوھ میں ہے
پاکستان کا میڈیا پاکستان کی خبریں جو بھی دے وہ ہوتی ہی اس طرح کی ہیں کہ کھوتی کھوھ میں گری ہوئی ہے
شغل کے شوقین لوگوں کا دل بہلایا جارہا ہے
اور
اس میڈیا میں خبر کیا ہوتی ہے؟
جو کوئی خبر بنانے والا خبر بنا کر دے دے
اب خبر بنانے کی کوالٹی بھی پاکستان میں نہیں ہے
اس لئے خبر بھی ایمپورٹڈ پوتی ہے
جی ہاں باہر کے ملکوں کی بات خبر ہوتی ہے
برطانیہ کے دیہاتی علاقے میں دو کمسن لڑکیان اغوا ہو گئیں
نیویارک میں ایک ادمی لوٹا گیا
اج لاس اینجلیس میں بارش کا امکان ہے
لیکن انسانی خصلت ہے کہ اس کو اپنے نزدیک کے حادثات کی جستجو دور کے طوفانوں سے زیادہ ہوتی ہے
لیکن پاک میڈیا ہم کو کیا دے رہا ہے؟
سیاست کی کھوتی کھوھ میں گری ہوئی ہے!!۔
مذہب کی کھوتی کھوھ میں گری ہوئی ہے!!!۔
دہشت گردی کی کھوتی کھوھ میں گری ہوئی ہے!۔
لاشوں پے لاشیں گر رہی ہیں
لوگوں کے پیارے مر رہے ہیں
معاشرتی مسائل ہیں کہ خدا کی پناہ
یہاں اب کام ہے بلاگروں کا
کہ
وہ اپنے ارد گرد کی باتیں لکھیں ۔
اس طرح کی باتیں کہ جو عام سے لوگوں کی باتیں ہوں
عام سی باتیں کسی کا جانور مر جائے تو اس کو اس بات کا دکھ کسی ملک کے صدر یا بادشاہ کے مرنے کی خبر سے زیادہ ہوتا ہے
ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی فوٹو لگائیں
دھول اڑتی ابادیاں کی بات کریں ، سرکاری فرعونون کی باتیں لکھیں ۔
بہی نالیوں کی باتیں ان نالیوں میں ڈوبی ہوئی ابادیوں کی باتیں لکھیں
نشوں میں ڈوبے ہوئے ان لڑکوں کی باتیں لکھیں جو اپ کے ساتھ پل کر جوان ہوئے اور معاشرے میں صحت مند ایکٹویٹی نان ہونے کی وجہ سے نشے میں ڈوب کر اج معاشرے کا گند بن کے رہ گئے ہیں
مجھے پتہ ہے کہ پاکستان کی کھوتی کھوھ میں گری ہے
اور ساری قوم اس کے شغل میں لگی ہے
ان کو اپ کی باتوں کی طرف دھیان دینے کی فرصت نہیں ہے
لیکن کسی ناں کسی کو توبتانا ہے ناں کہ
گاؤں والیوں
اپ لوگ کھوتی کے شغل میں لگے ہو اور گاؤں کے ایک کونے میں اگ لگی ہے اور دوسرے کونے پر چور داخل ہو کر گھروں کو لوٹ رہے ہیں

Popular Posts