جنوبی کوریا ،سئیول کی سیر
یہ فوٹو لگتا ہے کہ دودہ کے بڑے بڑے ڈرم بڑے ہیں ، دودہ کے ڈرموں کی شکل کے یہ مینار کہ لیں یا کہ پڑولے ۔ اصل میں یہ انڈر گراؤنڈ چلنے والی ریل کی ہوا کے ایگزاسٹ ہیں
جس کو خوبصورتی کے لئے اس شکل میں بنا کر دیا گیا
ایک دفعہ میں وہاں وائی ایم سی اے کے پاس کھڑا تھا کہ
فٹپاتھ پر جہاں انڈر گراؤنڈ کے ایغزاسٹ کی جالی لگی تھی اس جالی پر ایک بچی کھڑی تھی ہو گی کوئی پندرہ سولہ سال کی
بچی سکول کی وردی میں تھی، وردی اسکرٹ اور قمیض
کہ نیچے سے ٹرین گزرنے سے ہوا کا زور ہو کہ اس کی اسکرٹ اڑ کر اٹھ گئی
لڑکی کی چیخ نکل گئی اور اس نے شرمندگی سے اردگرد دیکھنا شروع کیا کہ کسی نے دیکھا تو نہیں
میں نے بھی اس بات کو ایسے ظاہر کیا میں نے تو دیکھا ہی نہیں بلکہ میں دوسری طرف دیکھ رہا تھا
جس پر اس بچی کے چہرے کا اطمینان دیکھنے والا تھا
شائید اسی طرح کے معاملات کے سد باب کے لئے اب کوریا نے انڈر گراؤنڈ کے ایگزاسٹ چمنیوں کی شکل کے بنانے شروع کردئے ہیں
اور ان کے بھی ایک طرح دے کر خوبصورت بھی بنا دیا ہے
یہ فوٹو ایک کے ایف سی کی ہے
مجھے یاد ہے کہ ستانوے میں میں یہاں اپنے ماموں زاد جمشید مختار کے ساتھ کے ایف سی کی دوسری منزل پر بیٹھا تھا
سیول میں طالب علموں کے جلوس نکل رہے تھے
یہاں جہاں بس نظر ارہی ہے یہاں فوجی رنگروٹوں کے ٹولے ڈھالیں اور گیس اور دیگر ہتھیار لے کر کھڑے تھے
اور کار والی جگہ پر طالب علم پوزیشنیں سنبھال کر کھڑے تھے
کے ایف سی کے بورڈ کے نیچے جہاں ایک اور نیلی سی کار کھڑی ہے یہ ایک فٹ پاتھ ہے
یہاں عام لوگ ازادی سے چل رہے تھے
طالب علموں کا فوجی رنگوٹوں پر حملہ اور ان رنگروٹوں کا ڈھالوں کے ساتھ طالب علموں کو پیچھے دھکیلنا اور رنگروٹوں کے پیچھے سے ان کی ٹانگوں کے درمیان سے گیس کی نالی نکال کر ایک رنگروٹ کا طالب علموں پر گیس پھینکنا اج بھی یاد
یہ جگہ جب میں کوریا جایا کرتا تھا اس وقت یہاں کوڑے کا ڈھیر لگا ہوتا تھا
جس کو کمیٹی والے اٹھا کر لے جاتے تھے
سبز بورڈ اور نیلے رنگ والی دیوار سے اوپر بنک کی بلڈنگ ہے
اور دائیں طرف نظر انے والی بلڈنگ موسیقی کے سازوں کی ایشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ
ہے ۔
اس مارکیٹ میں اپ جدید ترین الیکٹرون کی بورڈ سے لے کر پیانو ڈھولک ،بانسری گٹار یا کسی بھی قسم کا مراثیوں والا اوزار خرید سکتے ہیں
اس بلڈنگ کے نیچے روزمرہ کی کھانے کی چیزوں کی مارکیٹ ہے
جہان سے میں سبزیاں مچھلیان یا گوشت خریدا کرتا تھا
یہیں مجھے علم ہوا کہ
کوریا میں
ٹماٹر کو سبزی نہیں فروٹ سمجھا جاتا ہے
اور ٹماٹر فروٹ کی دوکانوں پر بکتا ہے ۔
جہاں سے میں نے تصویر لی ہے یہاں سے دائیں طرف سڑک کے پار پگوڈا پارک ہے
یہ بائیں طرف اپ کو سیون الیون نظر ا رہا ہے
ایک دن میں صبح سویرے یہاں کھڑا تھا صبح چھ بجے سے پہلے کا وقت تھا
مین نے دیکھا کہ اوپر بہت اوپر اسمان پر کاغذ اڑ رہے ہیں
ہوا بھی تیز نہیں تھی اور اگر ہوتی بھی تو ہوا سے اڑ کر کاغذوں کا اتنی بلندی تک جانا بعید از قیاس تھا
وہ کاغذ زمین پر گرنے لگے جو کہ ہزاروں کی تعداد میں تھے
میں نے اس میں سے ایک کاغذ اٹھا کر جیب میں ڈال لیا
جو کہ بعد میں ایک دوست کو جو کہ کورین پڑھ لکھ سکتا تھا اس کو دیکھایا تو اس نے بتایا کہ یہ کاغذ شمالی کوریا کے پروپگینڈا کاغذ ہیں
اور شمالی کوریا کی نرگیست کی انتہا کہ اس کاغذ میں لکھا تھا کہ
جنوبی کوریا کی کٹھن زندگی سے جان جھڑا کر اگر شمالی کوریا میں آ سکتے ہو تو آ جاؤ ۔
لیکن
شمالی کوریا میں زندگی کا کیا حال ہے اس کی کٹھن زندگی کی مثال بنا کر پیش کیا جاسکتا ہے
لیکن وہاں کی حکومت اپنے شہریوں کو یہ باور کراتی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین قوم ہیں اور ہم دنیا کی بہترین زندگی گزار رہے ہیں
امریکہ اور جاپان ہماری خوشحالی سے حسد کرتے ہیں
بہرحال فورا ہی وہاں سینکڑوں کی تعدادف میں رنگروٹ نکل ائے اور انہون نے وہ کاغذ جمع کرنے شروع کئے اور دس منٹ بعد وہاں کوئی کاغذ نہیں تھا
یہ ایک الماری کی فوٹو ہے جو کہ سیول کے انڈرگراؤنڈ کے ایک پلیٹ فارم پر لگی ہوئی ہے اس میں کیا ہے؟
اس میں ماسک ہیں اور فرست ایڈ کا سمان ہے
ساکہ شمالی کوریا کے حملے کی صورت میں یا کہ کسی قدرتی افت کی صورت میں بچاؤ کی تدابیر کی جاسکیں
شمالی کوریا ۔ ہر چند ماہ بعد میزائیل کا تجربہ کرکے اپنی رعایا کو یہ باور کرائے رہتا ہے کہ
ہم بڑے طاقتور ہیں ، ہمارا دفاع بڑا مضبوط ہے ، ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج ہے
اور
ہم ایٹمی پاور ہیں
اور دشمن کا حال ہے کہ پیسے کی فراوانی ہے مال اور غذا کی فراوانی ہے ، ملک میں امن امان ہے۔ غریب ممالک کے باشندے جنوبی کوریا میں پناھ کی تلاش میں اتے ہیں ۔ پاکستران کے دشمن ملک سے بھی زیادہ مضبوط معیشت والے اس ملک نے کبھی بڑکیں نہیں ماریں
لیکن
جیسا کہ غیر ترقی باختہ قومیں کرتی ہیں
کہ اپنے لوگوں کو ’’ دشمن’’ سے ڈرائے رکھتی ہین ، میزائیل بنا بنا کر دیکھاتی ہیں
لیکن
ملک کی سڑکوں ، ہسپتالون ، سکولوں کالجون تھانوں کا وہی حال ہوتا ہے جیسا کہ پاکستان میں ہے۔
یہ لوہے کی بنی ہوئی کرسی ہے
جو اندر سے کھوکھلی بنائی گئی ہے تاکہ اس مین گرم پانی کو گردش دے کر کرسی کو گرم رکھا جا سکے اور کرسی نشین کی تشریگ کو گرم رکھے
کرسی کے نیچے لگے نیلے رنگ کے پرزے اور اس کے ساتھ پڑی ہوئی پانی کی سفید گیلن کا کام ہے سارا جی ۔
یاد رہے کہ سیئول میں بہت سردی پڑتی ہے ۔
درجہ حرارت منفی بیس تک جانے کا ریکارڈ ہے ۔
ایک اور چیز جس کی میں تصویر نہیں لے سکا
ان ممالک میں دیکھی ہے ، وہ ہے ایک قسم کی انگیٹھی ،اس میں ایک حاص ترکیب سے بنائے ہوئے کوئیلے اور مٹی کے سوراخ دار گٹو جلتے ہیں ۔
ایک گٹو تقریبا ایک کلو کا ہوتا ہیے اور ایک دفعہ ہی جلایا جا سکتا ہے
لیکن یہ ایک دفعہ کا دورانیہ سات اٹھ گھنٹے ہوتا ہے
اور شعلے کا سائز ہوتا ہے عام سے گیس کے چولہے جتنا۔۔
میرے خیال میں توانائی کے بحران میں پاکستان جیسے ملک میں یہ چیز اگر متعارف کروائی جائے تو بڑی کمائی کی جاسکتی ہے ۔
کبھی موقع ملا تو اس گٹو کی تکینیک پر بھی سیر حاصل پوسٹ لکھوں گا
پو سکتا ہے کہ کسی کا بھلا ہو جائے ۔ْ